حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَقَالَ: هَلْ تَعْرِفُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، فَإِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَسَأَلَ عُمَرُ، النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا "، قَالَ: قُلْتُ فَيُعْتَدُّ بِتِلْكَ التَّطْلِيقَةِ، قَالَ: فَمَهْ أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ.
الشيخ غلام مصطفےٰ ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري5251
´حالت حیض میں طلاق کا حکم`
امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ انہوں نے اپنی بیوی (آمنہ بنت غفار) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (حالت حیض میں) طلاق دے دی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہو کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لیں اور پھر اپنے نکاح میں باقی رکھیں۔ جب ماہواری (حیض) بند ہو جائے، پھر ماہواری آئے اور پھر بند ہو، تب اگر چاہیں تو اپنی بیوی کو اپنی نکاح میں باقی رکھیں اور اگر چاہیں تو طلاق دے دیں (لیکن طلاق اس طہر میں) ان کے ساتھ ہمبستری سے پہلے ہونا چاہئے۔ یہی (طہر کی) وہ مدت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ/ ح: 5251]
فوائد و مسائل
حائضہ کو دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے، جیسا کہ:
❀ نافع رحمہ الله بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مره فليرا جعها، ثم ليطلقها أو حاملا .»
”انہیں حکم دیں کہ وہ رجوع کر لیں، پھر طہر یا حمل کی حالت میں طلاق دیں۔“ [صحيح بخاري: 5251، صحيح مسلم: 1471، واللفظ له]
↰ «فليرا جعها» کے الفاظ واضح طور پر وقوع طلاق کا پتا دے رہے ہیں، اگر طلاق واقع نہیں تھی تو رجوع کیسا؟
● امام بخاری رحمہ اللہ نے ان الفاظ پر یوں تبویب فرمائی:
”اس بات کا بیان کہ حائضہ کو طلاق دی جاے تو وہ شمار ہو گی۔“
↰ ہمارے موقف کی مزید تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ:
❀ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا اس طلاق کو شمار کیا جائے گا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ [سنن الدارقطني: 5/4، سنن الكبري للبيهقي: 326/7، وسنده حسن]
❀ نیز سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ واقعہ بیان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک طلاق شمار کیا۔ [مسند الطيالسي: 68، مسند عمر بن خطاب لابن النجاد: 1، وسنده صحيح]
↰ صاحب واقعہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما خود فرماتے ہیں:
”یہ میری ایک طلاق شمار کی گئی۔“ [صحيح بخاري: 5253]
↰ راوی حدیث عبیداللہ بن عمر العمری کہتے ہیں:
”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اپنی بیوی کو حیض میں دی گی طلاق ایک شمار ہو گئی تھی، اگرچہ ان کی یہ طلاق سنی نہ تھی۔“ [سنن الدارقطني: 6/3، مسند عمر بن الخطاب، تحت حديث: 3وسنده حسن]
● امام عطابن ابی رباح [مصنف ابن ابي شيبة: 5/5، وسنده صحيح]،
● امام زہری [ايضا، وسنده صحيح]،
● امام ابن سیرین [ايضا، وسنده صحيح]،
● امام جابر زید [ايضا، وسنده صحيح]
● اور تمام محدیثن وائمہ دین رحمہ الله حیض میں طلاق کو موثر سمجھتے تھے۔
اگرچہ حالت حیض میں طلاق سنی نہیں ہے، لیکن خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نافذ بھی کیا لہٰذا اس کے وقوع میں کوئی شبہ نہیں رہا۔
❀ سنن ابی داؤد [2185] میں یہ الفاظ ہیں کہ:
«فردها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولم يرها شيا . . .»
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کولوٹا دیا اور آپ نے اسے (طلاق سنی) نہیں سمجھا۔“
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت حیض میں طلاق شمار تو کیا ہے، لیکن مستحسن خیال نہیں کیا۔
❀ سنن النسائی [3427] وسندہ صحیح کے الفاظ:
”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس (بیوی) کو واپس کر دیا (رجوع کا حکم دیا) حتی کہ انہوں نے اسے حالت طہر میں طلاق دی۔“
↰ مطلب یہ ہے کہ پہلی طلاق کے واقع ہو جانے کے بعد رجوع کیا، اس کے بعد حالت طہر میں دوسری طلاق دی، اس طرح تمام روایات میں تطبیق ہو جائے گی، کیونکہ صحیح حدیث اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اپنے بیان سے ثابت ہے کہ حالت حیض والی طلاق موثر ہے۔
محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 0
الشيخ غلام مصطفےٰ ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري5252
´حالت حیض میں طلاق کا حکم`
”انس بن سیرین نے، کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ چاہیے کہ رجوع کر لیں۔ (انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ) میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کیا یہ طلاق، طلاق سمجھی جائے گی؟ انہوں نے کہا کہ چپ رہ۔ پھر کیا سمجھی جائے گی؟...“ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ/ ح: 5252]
فوائد و مسائل
حائضہ کو دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے، جیسا کہ:
❀ نافع رحمہ الله بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مره فليرا جعها، ثم ليطلقها أو حاملا .»
”انہیں حکم دیں کہ وہ رجوع کر لیں، پھر طہر یا حمل کی حالت میں طلاق دیں۔“ [صحيح بخاري: 5251، صحيح مسلم: 1471، واللفظ له]
↰ «فليرا جعها» کے الفاظ واضح طور پر وقوع طلاق کا پتا دے رہے ہیں، اگر طلاق واقع نہیں تھی تو رجوع کیسا؟
● امام بخاری رحمہ اللہ نے ان الفاظ پر یوں تبویب فرمائی:
”اس بات کا بیان کہ حائضہ کو طلاق دی جاے تو وہ شمار ہو گی۔“
↰ ہمارے موقف کی مزید تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ:
❀ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا اس طلاق کو شمار کیا جائے گا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ [سنن الدارقطني: 5/4، سنن الكبري للبيهقي: 326/7، وسنده حسن]
❀ نیز سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ واقعہ بیان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک طلاق شمار کیا۔ [مسند الطيالسي: 68، مسند عمر بن خطاب لابن النجاد: 1، وسنده صحيح]
↰ صاحب واقعہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما خود فرماتے ہیں:
”یہ میری ایک طلاق شمار کی گئی۔“ [صحيح بخاري: 5253]
↰ راوی حدیث عبیداللہ بن عمر العمری کہتے ہیں:
”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اپنی بیوی کو حیض میں دی گی طلاق ایک شمار ہو گئی تھی، اگرچہ ان کی یہ طلاق سنی نہ تھی۔“ [سنن الدارقطني: 6/3، مسند عمر بن الخطاب، تحت حديث: 3وسنده حسن]
● امام عطابن ابی رباح [مصنف ابن ابي شيبة: 5/5، وسنده صحيح]،
● امام زہری [ايضا، وسنده صحيح]،
● امام ابن سیرین [ايضا، وسنده صحيح]،
● امام جابر زید [ايضا، وسنده صحيح]
● اور تمام محدیثن وائمہ دین رحمہ الله حیض میں طلاق کو موثر سمجھتے تھے۔
اگرچہ حالت حیض میں طلاق سنی نہیں ہے، لیکن خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نافذ بھی کیا لہٰذا اس کے وقوع میں کوئی شبہ نہیں رہا۔
❀ سنن ابی داؤد [2185] میں یہ الفاظ ہیں کہ:
«فردها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولم يرها شيا . . .»
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کولوٹا دیا اور آپ نے اسے (طلاق سنی) نہیں سمجھا۔“
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت حیض میں طلاق شمار تو کیا ہے، لیکن مستحسن خیال نہیں کیا۔
❀ سنن النسائی [3427] وسندہ صحیح کے الفاظ:
”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس (بیوی) کو واپس کر دیا (رجوع کا حکم دیا) حتی کہ انہوں نے اسے حالت طہر میں طلاق دی۔“
↰ مطلب یہ ہے کہ پہلی طلاق کے واقع ہو جانے کے بعد رجوع کیا، اس کے بعد حالت طہر میں دوسری طلاق دی، اس طرح تمام روایات میں تطبیق ہو جائے گی، کیونکہ صحیح حدیث اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اپنے بیان سے ثابت ہے کہ حالت حیض والی طلاق موثر ہے۔
محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 0
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3418
´عورتوں کو اللہ کے حکم کے مطابق طلاق دی جانے والی عدت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہہ کر کہ عبداللہ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہے مسئلہ پوچھا (کہ کیا اس کی طلاق صحیح ہوئی ہے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عبداللہ سے کہو (طلاق ختم کر کے) اسے لوٹا لے (یعنی اپنی بیوی بنا لے) پھر اسے اپنے اس حیض سے پاک ہو لینے دے، پھر جب وہ دوبارہ حائضہ ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3418]
اردو حاشہ:
(1) حیض کی حالت بدبو اور گندگی کی حالت ہوتی ہے۔ اس میں جماع منع ہے‘ لہٰذا اس حالت میں مرد کو بیوی سے رغبت نہیں ہوتی۔ ممکن ہے ایسی حالت میں کوئی شخص طلاق دینے میں جلد بازی کرے‘ اس لیے شریعت نے ایسی حالت میں طلاق دینے سے منع فرمایا ہے۔ اگر کوئی شخص اس غلطی کا ارتکاب کرتے تو اسے رجوع کرنا ہوگا‘ البتہ وہ طلاق شمار ہوگی‘ رجوع کرے یا نہ کرے۔ لیکن اگر وہ تیسری طلاق نہیں تو اس سے نکاح ختم نہیں ہوگا۔ اگر تیسری ہے تو رجوع کی اجازت نہیں ہوگی‘ نکاح ختم۔
(2) معلوم ہوا طلاق دینے کا صحیح وقت طہر کی حالت ہے جس میں جماع نہ کیا گیا ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3418
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3420
´عورتوں کو اللہ کے حکم کے مطابق طلاق دی جانے والی عدت کا بیان۔`
زبیدی کہتے ہیں: امام زہری سے پوچھا گیا: عدت والی طلاق کس طرح ہوتی ہے؟ (اشارہ ہے قرآن کریم کی آیت: «فطلقوهن لعدتهن» (الطلاق: 1) کی طرف) تو انہوں نے کہا: سالم بن عبداللہ بن عمر نے انہیں بتایا ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تھی، اس بات کا ذکر عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3420]
اردو حاشہ:
جمہور اہل علم کا یہی مسلک ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق اگرچہ گناہ اور ممنوع ہے اور اس سے رجوع ضروری ہے مگر ایسی طلاق کو ایک طلاق شمار کیا جائے گا۔ مزید دوطلاقیں رہ جاتی ہیں۔ البتہ بعض محققین نے ایسی طلاق کو کالعدم قراردیا ہے کیونکہ اس سے رجوع ضروری ہے‘ نیز رسول اللہﷺ ابن عمر رضی اللہ عنہ کو ایک کی بجائے دو طلاقوں کا مشورہ نہ دے سکتے تھے۔ عقلاً اگرچہ یہ بات قوی معلوم ہوتی ہے مگر متعلقہ احادیث کے الفاظ اور صحابہ وتابعین کے اقوال‘ نیز محدثین وفقہاء کے مذاہب اس کے خلاف ہیں۔ شاذ لوگ ہی اس طرف گئے ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس عقلی مسلک کے قائل ہیں۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3420
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3421
´عورتوں کو اللہ کے حکم کے مطابق طلاق دی جانے والی عدت کا بیان۔`
ابو الزبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے عبدالرحمٰن بن ایمن کو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کرتے سنا: آپ کی کیا رائے ہے ایسے شخص کے بارے میں جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی؟ انہوں نے جواب دیا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس وقت طلاق دی جب وہ حیض سے تھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتاتے ہوئے مسئلہ پوچھا کہ عبداللہ بن عمر کی بیوی حالت ح۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3421]
اردو حاشہ:
(1) [فِي قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ] یہ جملہ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن عباس کی قراء ت کے مطابق سورۂ طلاق کی پہلی آیت کا حصہ ہے‘ یعنی وہ اسے لِعِدَّتِھِنَّ کی جگہ قراء ت کرتے تھے۔ لیکن یہ قرء ت شاذ ہے‘ تاہم یہ جملہ نبیﷺ سے مرفوعاً صحیح ثابت ہے اور حجت ہے جس سے آیت کا مفہوم متعین ہو جاتا ہے‘ یعنی تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو انہیں عدت کے آغاز‘ یعنی طہر میں طلاق دو۔
(2) چونکہ عدت حیض سے شمار ہوتی ہے‘ لہٰـذا حیض کی حالت میں طلاق سے عدت صحیح نہیں شروع ہوسکے گی۔ اگر وہ حیض شمار کریں گے تو عدت کم ہو جائے گی اور اگر اسے شمار نہیں کریں گے تو عدت لمبی ہوجائے گی‘ لہٰذا طلاق طہر میں ہونی چاہیے تاکہ حیض سے عدت شروع ہوسکے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3421
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3425
´حالت حیض میں مرد عورت کو طلاق دیدے تو کیا کرے۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور وہ حیض سے تھی۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ کو اس بات کی خبر دی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ عبداللہ کو حکم دو کہ اسے لوٹا لے۔ پھر جب (حیض سے فارغ ہو کر) وہ غسل کر لے تو اسے چھوڑے رکھے پھر جب حیض آئے اور اس دوسرے حیض سے فارغ ہو کر غسل کر لے تو اسے نہ چھوئے یعنی (صحبت نہ کرے) یہاں تک کہ اسے طلاق دیدے پھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3425]
اردو حاشہ:
(1) متعلقہ مسئلہ تو پیچھے واضح ہوچکا ہے کہ حیض کی طلاق سے رجوع ضروری ہے‘ پھر دوسرا حیض آئے اور عورت پاک ہو کر غسل کرے تو بغیر جماع کیے اسے طلاق دے سکتا ہے۔
(2) ”اس کی حالت پر رہنے دے“ یعنی اسے طلاق نہ دے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3425
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3426
´حالت حیض میں مرد عورت کو طلاق دیدے تو کیا کرے۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، اس بات کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے کہو کہ اس سے رجوع کر لے، پھر جب وہ (حیض سے) پاک ہو جائے یا حاملہ ہو جائے تب اس کو طلاق دے“ (اگر دینا چاہے)۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3426]
اردو حاشہ:
معلوم ہوا حمل کی حالت میں طلاق دینا بھی جائز ہے‘ اگرچہ عموماً ایسی حالت میں طلاق نہیں دی جاتی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3426
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3427
´عدت کا لحاظ کیے بغیر طلاق دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور وہ حیض سے تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس طلاق کو باطل قرار دے کر) اس عورت کو انہیں لوٹا دیا۔ پھر جب وہ حیض سے پاک و صاف ہو گئی تو انہوں نے اسے طلاق دی (اور وہ طلاق نافذ ہوئی)۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3427]
اردو حاشہ:
”لوٹا دیا“ یعنی اس طلاق کو شرعاً درست نہ سمجھا اور رجوع کا حکم دیا۔ یہ مطلب نہیں کہ اس طلاق کو معتبر نہ سمجھا یا اسے شمار نہ فرمایا جیسا کہ بعض لوگو ں نے استدلال کیا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3427
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3429
´عدت کا لحاظ کیے بغیر طلاق دے دینے پر کیا اس طلاق کا شمار ہو گا؟`
یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: ایک آدمی نے اپنی بیوی کو جب کہ وہ حیض سے تھی طلاق دے دی (تو اس کا مسئلہ کیا ہے؟) تو انہوں نے کہا: کیا تم عبداللہ بن عمر کو جانتے ہو، انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور وہ اس وقت حالت حیض میں تھی۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس کے متعلق سوال کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو لوٹا ل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3429]
اردو حاشہ:
جمہور اہل علم کا یہی مسلک ہے کہ حیض کی طلاق باوجود جائز نہ ہونے کے شمار ہوگی۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی دلیل حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا اپنا فرمان ہے کہ میری طلاق کو ایک شمار کیا گیا۔ ”حُسِبَتْ عَلَیِّ بتطليقةٍ“ اسی طرح نبیﷺ کا انہیں رجوع کے لیے فرمانا اور درمیان میں ایک طہر انتظار کرنا بھی اس مسلک کی تائید کرتا ہے۔ اگر طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تھی تو رجوع اور طہر کا انتظار کیا معنیٰ رکھتا ہے۔ مندرجہ بالا روایات میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے شاگردوں کو فتویٰ بھی یہی دیا ہے‘ لہٰذا یہی مسلک صحیح ہے۔ امام ابن حزم اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول اس مسئلے میں شاذ ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3429
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3585
´(طلاق سے) رجعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میری بیوی حالت حیض میں تھی اسی دوران میں نے اسے طلاق دے دی، عمر رضی اللہ عنہ نے جا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے حکم دو کہ وہ رجوع کر لے، پھر جب وہ حالت طہر میں آ جائے تو اسے اختیار ہے، چاہے تو اسے طلاق دیدے۔“ یونس کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا آپ نے (پہلی طلاق) کو شمار و حساب میں رکھا ہے تو انہوں نے کہا: نہ رکھنے کی کوئی و [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3585]
اردو حاشہ:
”جب وہ پاک ہوجائے“ دیگر روایات میں صراحت ہے کہ وہ پاک ہو‘ پھر دوبارہ حیض آئے‘ پھر پاک ہو تو اب اگر وہ چاہے تو طلاق دے دے‘ چاہے تو رکھ لے۔ اور یہ درمیان والا طہر عملی رجوع کے لیے ہے۔ حیض کے دوران میں تو صرف زبانی رجوع ہی ہوسکتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھے‘ حدیث:3418)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3585
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3587
´(طلاق سے) رجعت کا بیان۔`
نافع کہتے ہیں کہ جب ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی ایسے شخص کے متعلق پوچھا جاتا جس نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہو تو وہ کہتے: اگر اس نے ایک طلاق دی ہے یا دو طلاقیں دی ہیں (تو ایسی صورت میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجوع کر لینے کا حکم دیا ہے پھر اسے دوسرے حیض آنے تک روکے رکھے پھر جب وہ (دوسرے حیض سے) پاک ہو جائے تو اسے جماع کرنے سے پہلے ہی طلاق دیدے اور اگر اس نے تین طلاقیں (ایک بار حالت حیض ہی میں) دے دی ہیں تو اس نے اپنی بیوی کو طلاق دی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3587]
اردو حاشہ:
”نافرمانی کی ہے“ یعنی حیض کی حالت میں طلاق دے کر لیکن وہ طلاق واقع ہوجائے گی۔ چونکہ یہ تیسری طلاق ہے‘ لہٰذا ان میں ابدی جدائی ہوجائے گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3587
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2184
´سنت کے مطابق طلاق کا بیان۔`
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ مجھے یونس بن جبیر نے بتایا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مسئلہ دریافت کیا، میں نے کہا کہ جس آدمی نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہے (تو اس کا کیا حکم ہے؟) کہنے لگے کہ تم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں، تو انہوں نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مسئلہ دریافت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے حکم دو کہ وہ رجوع کر لے اور عدت کے آغاز میں اسے طلاق دے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2184]
فوائد ومسائل:
حیض کے ایام میں طلاق خلاف سنت ہے مگر شمار کی جائے گی۔
لغو اور باطل نہیں ہے(تفصیل کیلئے دیکھئے: ارواءالغلیل حدیث:2059)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2184
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2185
´سنت کے مطابق طلاق کا بیان۔`
ابن جریج کہتے ہیں کہ ہمیں ابوالزبیر نے خبر دی ہے کہ انہوں نے عروہ کے غلام عبدالرحمٰن بن ایمن کو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھتے سنا اور وہ سن رہے تھے کہ آپ اس شخص کے متعلق کیا کہتے ہیں جس نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دیدی ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اور کہا کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہے، عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2185]
فوائد ومسائل:
1۔
ایام حیض کی طلاق سنت کے صریح خلاف ہے لیکن اگر کوئی دے دے تو اس کے واقع ہونے یا نہ ہونےمیں متقدمین ومتاخرین میں دو رائیں رہی ہیں اور دونوں ہی طرف اجلہ علماء فقہاء اور محدثین کی جماعتیں ہیں۔
رضي الله عنهم و أرضاهم۔
متاخرین میں بالخصوص امام ابن تیمیہ اور ان کے تلمیذ رشید امام ابن قیم ؒ نہایت شدت سے اس طلاق کے باطل ہونے کے قائل ہیں جبکہ جمہور اس کے وقوع کے قائل ہیں۔
امام بخاریؒ نے الجامع الصحیح میں باب قائم کیا ہے (اذا طلقتم الحائض تعتد بذلك الطلاق) جب حائضہ کو طلاق دے دی جائے تو اس کی وہ طلاق شمار ہوگی اس موضوع میں لمبی بحثیں ہیں اور ان کا محور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طلاق کا واقعہ ہے۔
وہ کہتے ہیں حسبت علي بتطليقةٍ (صحيح بخاري، الطلاق، حديث:٥٢٥٣) یہ مجھ پر ایک طلاق شمار کی گئی تھی۔
اور ایک دوسرا جملہ جو ہماری اس روایت میں ہے: (ولم يرها شيئا) اور اسے کچھ نہ سمجھا یا کچھ شمار نہ کیا۔
لیکن یہ جملہ عدم شمار کے لئے صریح نص نہیں ہے۔
جیسے کہ امام شافعی یا دیگر محدثین وفقہا نے اس کو محتمل قرار دیا ہے یعنی اس کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺنے اس عمل کو درست اور صحیح نہ سمجھا۔
یا رجوع سے مانع نہ سمجھا وغیرہ۔
محدث عصر علامہ البانی ؒ نے اس موضوع کی مختلف احادیث کے اسانید ومتون میں تقابل میں کرتے ہوئے نتیجہ یہ نکالا ہےکہ ایام حیض کی طلاق واقع ہو جاتی ہے گو اس کے خلاف سنت ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے۔
2۔
جس حیض میں طلاق دی اور پھر رجوع کر لیا اب اس سے متصل مطہر میں طلاق دے یا اس کے بعد والے طہر میں؟ امام ابوداود ؒ نے اس حدیث کے کئی متابعات وشواہد پیش کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ متصل طہر میں طلاق دی جا سکتی ہے یعنی قبل از مباشرت۔
مگر امام نافع اور زہری کی روایت میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دوسرے طہر میں طلاق یا امساک کا حکم دیا گیا تھا۔
اور یہ زیادت ثقہ ہے جو کہ پہلی صورت کے منافی نہیں اس لیے قابل قبول ہے۔
اور اس کی تطویل کی کئی حکمتیں تھیں: (الف) معلوم ہوجائے کہ یہ رجوع محض دوسری طلاق کی خاطر نہ تھا۔
(ب)عورت کے لیے واضح ہوجائے کہ اس کو کس کیفیت میں طلاق ہوئی ہے۔
طہر میں یا حمل میں۔
(ج) اگر حمل نمایاں ہوجائےتو شاید شوہر طلاق دینے میں متامل رہے۔
4۔
اور اس تطویل مسے یہ بہی ممکن ہے کہ ذہنوں میں پیدا ہونے والی نا ہمواری ہم آہنگی میں بدل جائےاور شوہر اسے باقاعدہ بیوی بنالے۔
3۔
(والاحاديث كلها علی خلاف ماقابل أبوالزبير) اور تمام روایات ابوالزبیر کے بیان کے خلاف ہیں صاحب عون ؒ نے اس سے مراد (ولم يرها شيئا) کا جملہ ہے یعنی یہ جملہ روایت کرنے میں ابوالزبیر منفرد ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2185
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2019
´سنت کے مطابق طلاق دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں حکم دو کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لیں یہاں تک کہ وہ عورت حیض سے پاک ہو جائے پھر اسے حیض آئے، اور اس سے بھی پاک ہو جائے، پھر ابن عمر اگر چاہیں تو جماع سے پہلے اسے طلاق دے دیں، اور اگر چاہیں تو روکے رکھیں یہی عورتوں کی عدت ہے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2019]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اللہ تعالی نے نکاح کا تعلق دائمی بنایا ہے، یعنی نکاح اس لیے کیا جاتا ہے کہ پوری زندگی اکٹھے گزارنی ہے۔
اس تعلق کا پائیدار بنانے کے لیے اللہ تعالی نے بہت سے احکام و آداب نازل کیے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
(ا)
نکاح کرتے وقت نیک دین دار بیوی تلاش کرنے کا حکم دیا گیا۔ (دیکھئے حدیث: 1858)
(ب)
نکاح کا تعلق انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی بنادیا گیا ہے، یعنی ایک مرد کا ایک عورت سے تعلق نہیں بلکہ ایک خاندان کا دوسرے خاندان سے تعلق قائم کیا گیا ہے۔
اس مقصد کے لیے عورت کے سرپرستوں کی اجازت، گواہوں کی موجودگی اور دعوت ولیمہ جیسے احکام جاری کیے ہیں۔
(ج)
عورت کو مرد کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور مرد کو عورت کی غلطیاں اور کوتاہیاں برداشت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (دیکھئے حدیث: 1851، 1853، 1855وغیرہ)
(د)
عورت کی اصلاح کے لیے فوراً سختی کرنے کی بجائے اصلاح کا تدریجی طریق کار تجویز کیا گیا ہے، یعنی زبانی وعظ و نصیحت، اظہار ناراضی اور بستر میں علیحدگی اور آخر میں معمولی جسمانی سزا۔ (النساء، 4: 34)
(و)
اگر معاملات میں بگاڑ اس حد تک پہنچ جائے کہ دوسروں کی مداخلت ضروری ہوجائے تو ثالثی، یعنی پنچایت کے طریق پر مرد اور عورت دونوں کی شکایتیں سن کرجس کی غلطی ہو، اسے سمجھایا جائے اور صلح کرا دی جائے۔ (النساء، 4: 35)
(ر)
طلاق دینا ضروری ہوجائے تو ایک ہی بار تعلق ختم کردینے کے بجائے ایک رجعی طلاق دینے کاحکم دیا گیا ہے۔
جس کے بعد دوبارہ تعلق بحال کرنے کی گنجائش باقی رہتی ہے۔
(ز)
ایام حیض میں اور جس طہر میں مقاربت کی گئی ہو، اس طہر میں طلاق دینے سے منع کیا گیا ہے۔
اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ اگر وقتی غصہ ہو تو ختم ہوجائے اور اگر جدائی کا فیصلہ ہو تو غور و فکر کرنے کی مہلت مل جائے اور اس طرح تعلقات بحال رکھنے کے امکانات بڑھ جائیں۔
(ح)
دوسری طلاق کے بعد بھی رجوع کی اجازت دی گئی ہے۔
(ط)
تیسری طلاق کے بعد رجوع کا حق نہیں رکھا گیا تاکہ مرداچھی طرح سوچ سمجھ کر یہ طلاق دے اور اسے معلوم ہو کہ اس کے بعد تعلقات بحال کرنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔
(2)
اگر ایام حیض میں یا اس طہر میں جس میں مقاربت کی گئی ہو، طلاق دی جائے تو یہ طلاق کا غلط طریقہ ہے جسے علماء کی اصطلاح میں ”بدعی طلاق“ یا”طلاق بدعت“ کہتے ہیں۔
ایسی طلاق کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ واقع ہوجائے گی یا نہیں، بہت سے علماء اس کے واقع ہوجانے کے قائل ہیں لیکن اس طرح طلاق دینے والے کو گناہ گار قراردیتے ہیں۔
دوسرے علماء کہتے ہیں کہ یہ طلاق واقع ہی نہیں ہوگی کیونکہ سنت کے مطابق نہیں دی گئی۔
امام ابن حزم اور امام ابن تیمیہ رحمہما اللہ وغیرہ اسی کے قائل ہیں۔ (حاشہ سنن ابن ماجہ، ازنواب وحیدالزمان خان)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2019
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2022
´سنت کے مطابق طلاق دینے کا بیان۔`
ابو غلاب یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو انہوں نے کہا: کیا تم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو پہچانتے ہو؟ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی تو عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تھا کہ ابن عمر رجوع کر لیں، میں نے پوچھا: کیا اس طلاق کا شمار ہو گا؟ انہوں نے کہا: تم کیا سمجھتے ہو، اگر وہ عاجز ہو جائے یا دیوانہ ہو جائے (تو کیا وہ شمار نہ ہو گی یعنی ضرور ہو گی)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2022]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نبیﷺ نے رجوع کرنے کا حکم دیا۔
اس لفظ سے دلیل لی گئی ہے کہ وہ طلاق واقع ہوگئی تھی کیونکہ رجوع طلاق کے بعد ہی ہوتا ہے۔
جو حضرات اس طلاق کے واقع ہونے کے قائل نہیں وہ اس کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ اس سے ازدواجی تعلقات قائم کرلیے جائیں جیسے پہلے قائم تھے۔
(2)
”اگر وہ عاجز ہو“ کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسے صحیح طریقے سے طلاق دینا نہیں آیا، اور اسے نے احمقانہ حرکت کی ہے تو اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟ اس کا یہ مطلب بھی لیا گیا ہے کہ طلاق تو طلاق ہی ہے وہ تو ہوہی گئی، یا یہ مطلب ہے کہ جب وہ صحیح طریقے سے طلاق نہیں دے سکا تو وہ دینا نہ دینا برابر ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نےیہ مطلب بیان کیا ہے کہ طلاق واقع ہوگئی۔ (صحیح البخاري، الطلاق، باب إذ طلقت الحائض تعتد بذلك الطلاق، حدیث: 5252)
یہی مطلب زیادہ صحیح ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2022
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2023
´حاملہ عورت کو طلاق کیسے دی جائے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں حکم دو کہ رجوع کر لیں، پھر طہر کی یا حمل کی حالت میں طلاق دیں“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2023]
اردو حاشہ:
فائدہ:
جب حمل واضح ہوجائے تو طلاق دی جا سکتی ہے۔
وضع حمل تک انتظار کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس صورت میں نسب میں شک واقع نہیں ہوتا۔
اس صورت میں عورت کی عدت وضع حمل تک ہے جس کے دوران میں مرد رجوع کرسکتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2023
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3652
حضرت ابن عمر رضی تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے بیوی کو حیض کی حالت میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں طلاق دے دی، تو حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کر لے (عورت کی طرف مراجعت کرے) پھر اسے چھوڑ دے حتی کہ وہ پاک ہو جائے (حیض بند ہو جائے) پھر اسے حیض آئے، پھر پاک ہو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3652]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
اَلطَّلاَق:
اگر یہ باب (ن۔
ک)
سے ہو تو معنی ہوگا عورت کا الگ ہو جانا یا جدا ہو جانا۔
اور اگر باب تفعیل سے ہو تو معنی ہو گا خاوند کا بیوی کو بندھن سے کھول دینا۔
فوائد ومسائل:
یہودیوں کے ہاں طلاق صرف تحریری دی جا سکتی ہے اور طلاق کے بعد عورت کسی سے بھی شادی کر سکتی ہے اور آئندہ کبھی بھی کسی صورت میں پہلے خاوند کی بیوی نہیں بن سکتی۔
خاوند کو طلاق دینے کی مکمل آزادی ہے لیکن اب بعض پابندیاں لگ چکی ہیں۔
عیسائیوں کے اصل دین کے مطابق مرد کسی صورت میں عورت کو طلاق نہیں دے سکتا۔
لیکن اب طلاق کا مسئلہ عیسائیوں اور ان کے ہاں بازیچہ اطفال بن چکا ہے،
مرد اورعورت میں ہرایک،
ایک دوسرے کو معمولی بات پر طلاق دے سکتے ہیں۔
اور ہندوستان کے جنوبی علاقے کے اکثر لوگ طلاق کے قائل ہو چکے ہیں اور شمالی علاقہ میں بھی آغاز ہو چکا ہے۔
اور دین اسلام کی رو سے ناگزیر حالات میں خاوند،
اس طہر میں جس میں بیوی کے قریب نہ گیا ہو ایک طلاق دے سکتا ہے،
لیکن بیوی کو طلاق دینے کا اختیار نہیں ہے۔
اگرخاوند طلاق دینا چاہتا ہے تو طہر کی حالت میں صرف ایک طلاق دے پھر رجوع نہ کرے تو عورت عدت (تین حیض یا وضع حمل یا اگر حیض نہ آ رہا ہو تو تین ماہ)
کے بعد اس سے جدا ہو جائے گی۔
بعض لوگ رجوع کیے بغیر ہرطہر میں ایک طلاق دے کر تین طلاقیں پوری کرتے ہیں یہ قرآن مجید کے حکم:
﴿ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ کے خلاف ہے۔
بیک وقت تین طلاقیں دینا جائز نہیں ہے۔
اس طرح حیض میں طلاق دینا جائز نہیں ہے۔
اگرحیض کی حالت میں طلاق دے گا تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
احناف اور داود ظاہری کے نزدیک رجوع کرنا لازم ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول یہی ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک رجوع مستحب ہے اور حنابلہ کا مختار قول یہی ہے۔
اسی طرح اگر خاوند ہر طہر میں طلاق دیتا ہے تو جمہور کے نزدیک یہ طلاق ہو جائے گی کیونکہ وہ ابھی تک خاوند کی قید سے مکمل آزاد نہیں ہوئی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3652
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3653
امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے بیان کرتے ہیں۔ الفاظ یحییٰ کے ہیں، حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں ایک طلاق دی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس سے رجوع کرے پھر اسے طہر تک روکے رکھے۔ پھر اسے اس کے ہاں دوسرا حیض شروع ہو جائے تو اس کے قریب جانے سے پہلے اسے طلاق دے، یہ وہ عدت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ ابن رمح کی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3653]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
امام لیث کے سوا عام راویوں نے طلاق کی مقدار کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کتنی طلاقیں دی تھیں کو نظر انداز کردیا ہے اور بعض نے غلطی سے اس کو تین قرار دیا ہے۔
لیکن امام لیث نے نظر انداز بھی نہیں کیا اور غلطی بھی نہیں کی بلکہ صحیح طور پر مقدار کو یاد رکھا اور اس کا تذکرہ کیا،
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیض کے بعد والے طہر میں طلاق دینے کی اجازت نہیں دی تاکہ یہ نہ سمجھا جائے کہ رجوع طلاق دینے کے لیے کیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک عرصہ تک پاس رہنے کی وجہ سے شاید باہمی پیارومحبت پیدا ہو جائے اور حالات سازگار ہونے سے طلاق کی نوبت نہ آئے۔
اور یہ بھی ممکن ہے یہ حیض میں طلاق دینے کے جرم وگناہ کی سزا کے طور پر ہو اس لیے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس حیض سے متصل طہر میں طلاق دینا جائز نہیں ہے۔
لیکن مالکیہ اور حنابلہ کے ہاں یہ بہتر ہے لازم نہیں ہے۔
اور امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کا قول بھی یہی ہے اور جمہور کے نزدیک اس طہر میں طلاق دینا جس میں قربت کی ہے جائز نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3653
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3656
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ رجوع کرے، پھر اسے ایک اور حیض کے آنے تک مہلت دے، پھر اسے حیض سے پاک ہونے کی مہلت دے، پھر اسے صحبت کرنے سے پہلے طلاق دے، یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے، اور جب ابن عمر رضی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3656]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگرطلاق پہلی یا دوسری حیض کی حالت میں دی گئی ہو تو چونکہ ان کے بعد رجوع ہو سکتا ہے اس لیے خاوند کو رجوع کرنا ہو گا۔
لیکن اگرتیسری طلاق حیض میں دی ہے تو تیسری کے بعد رجوع کا امکان نہیں ہے اس لیے یہ جرم اورگناہ تو ہے لیکن رجوع نہیں کر سکے گا اور اس کی بیوی عدت گزرنے کے بعد آ گے شادی کرے گی۔
اس سے دوبارہ شادی نہیں کر سکے گی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3656
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3659
امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اس سے رجوع کرنے کا حکم دو، پھر وہ اسے طہر یا حمل کی حالت میں طلاق دے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3659]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حمل کی صورت میں تعلقات کے بعد بھی طلاق دینا جائز ہے الہمام حنفی،
ابو اسحاق شیرازی اور ابن قدامہ حنبلی نے اس کو اختیار کیا ہے لیکن بعض مالکیہ کے ہاں حمل کی حالت میں طلاق دینا جائز نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3659
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3670
ابو زبیر کہتے ہیں، میں نے عزۃ کے آزاد کردہ غلام، عبدالرحمٰن بن ایمن کو سنا، وہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے دریافت کر رہے تھے، اور میں بھی سن رہا تھا، آپ کا اس آدمی کے بارے میں کیا خیال ہے، جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی؟ تو انہوں نے جواب دیا، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں دی، تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3670]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ﴿لِعِدَّتِهِنَّ﴾ کی تفسیر و توضیح کے لیے (شاگردوں کو) (قُبُلِ عِدَّتِهنَّ)
بتاتے اس لیے یہ کلمہ تفسیر کے لیے ہے یہ قرآن کا حصہ یا جز نہیں ہے۔
اس لیے ابن مسعود تفسیر کے لیے اس کو (قُبُلِ) (طہر کے شروع میں)
پڑھتے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3670
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4908
4908. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو حضرت عمر ؓ نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ سخت ناراض ہوئے، پھر آپ نے فرمایا: ”اسے چاہئے کہ اپنی بیوی سے رجوع کرے، پھر اسے اپنے پاس روکے حتی کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے، پھر اسے حیض آئے اور پھر اس سے پاک ہو جائے، پھر اگر طلاق دینا چاہے تو اس سے جماع کیے بغیر اسے طلاق دے دے۔ یہی وہ وقت ہے جس میں اللہ تعالٰی نے طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4908]
حدیث حاشیہ:
فقہی اصطلاح میں طلاق شرعی وہ ہے کہ تین طہر تک یعنی حالت طہر میں جبکہ عورت حیض سے نہ ہو طلاق دی جائے اس طرح اگر متواتر تین ماہ تک تین طلاقیں کوئی بھی اپنی عورت کو دے دے تو پھر وہ عورت اس کے نکاح سے بالکل باہر ہو جاتی ہے اور (حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ)
آیت کے تحت وہ عورت اس کے نکاح میں دوبارہ نہیں آسکتی یہ تین طلاق جو مروجہ طریقے کے مطابق مرد تین دفعہ ایک ہی مجلس میں اپنی عورت کو طلاق دے دے پھر فتویٰ طلب کرے ائمہ اہلحدیث کے نزدیک ایک ہی طلاق کے حکم میں ہیں اور وہ عدت میں دوبارہ اس خاوند کے نکاح میں آسکتی ہے مگر اکثر فقہاء احناف ان کو تین طلاق قرار دے کر اس عورت کو مرد سے جدا کرا دیتے ہیں اور اس کو حلالہ کا حکم دیتے ہیں حالانکہ ایسا حلالہ کرانے والوں پر شریعت میں لعنت آئی ہے۔
فقہاء احناف کا یہ فتویٰ ائمہ اہلحدیث کے نزدیک بالکل غلط ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے دور میں سیاسی مصلحت کے تحت ایسا آرڈر جاری کر دیا تھا جو محض وقتی تھا جو علماء آج کل بیشتر اس طرح مطلقہ عورتوں کو جدا کرا دیتے ہیں ان کو غور کرنا چاہئے کہ وہ اس طرح کتنی عورتوں پر ظلم کر رہے ہیں اللہ ان کو نیک سمجھ عطا کرے (آمین)
آج آخری ذی قعدہ 1393ھ میں یہ نوٹ بہ سلسلہ بقیام سورت شہر حوالہ قلم کیا گیا، الحمدللہ دسمبر1973 پرچہ نورالایمان میں کچھ علماء احناف و اہلحدیث کا متفقہ فتویٰ شائع کیا گیا ہے جو احمد آباد کے سیمینار منعقدہ میں لکھا گیا تھا جس میں اس کا متفقہ حل نکالا گیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4908
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5253
5253. سیدنا سعید بن جبیر سے روایت ہے انہوں نے ابن عمر ؓ سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا: یہ طلاق مجھ پر شمار کی گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5253]
حدیث حاشیہ:
یعنی اس کے بعد دو ہی طلاقوں کا اور اختیار رہا۔
ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء نے اسی سے دلیل لی ہے اور یہ کہا ہے کہ جب ابن عمر رضی اللہ عنہما خود کہتے ہیں کہ یہ طلاق شمار ہوگی تو اب اس کے وقوع میں کیا شک رہا۔
ہم کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا صرف قول حجت نہیں ہو سکتا کیونکہ انہوں نے یہ بیان نہیں کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شمار کئے جانے کا حکم دیا۔
میں (وحیدالزماں)
کہتا ہوں کہ سعید بن جبیر نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ روایت کی اور ابو الزبیر نے اس کے خلاف روایت کی۔
اس کو ابوداؤد وغیرہ نے نکالا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس طلاق کو کوئی چیز نہیں سمجھا اور شعبی نے کہا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے نزدیک یہ طلاق شمار نہ ہو گی۔
اس کو عبدالبر نے نکالا اور ابن حزم نے باسناد صحیح نافع سے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایسا ہی نکالا کہ اس طلاق کا شمار نہ ہوگا اور سعید بن منصور نے عبداللہ بن مبارک سے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایسا ہی نکالا کہ انہوں نے اپنی عورت کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ طلاق کوئی چیز نہیں ہے۔
حافظ نے کہا یہ سب روایتیں ابو الزبیر کی روایت کی تائید کرتی ہیں اور ابوالزبیر کی روایت صحیح ہے۔
اس کی سند امام مسلم کی شرط پر ہے۔
اب خطابی اور قسطلانی وغیرہ کا یہ کہنا کہ ابو الزبیر کی روایت منکر ہے قابل قبول نہ ہوگی اور امام شافعی کا یہ کہنا کہ نافع ابو الزبیر سے زیادہ ثقہ ہے اور نافع کی روایت یہ ہے کہ اس طلاق کا شمار ہوگا صحیح نہیں کیونکہ ابن حزم نے خود نافع ہی کے طریق سے ابوالزبیر کے موافق نکالا ہے۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5253
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7160
7160. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کا بیان ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی۔ اس بات کا ذکر سیدنا عمر ؓ نے نبی ﷺ سے کیا تو رسول اللہ ﷺ بہت خفا ہوئے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”اسے چاہیئے کہ وہ رجوع کرے اور اسے اپنے پاس رکھے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے۔پھر جب وہ حائضہ ہو اور پاک ہوجائے تو اگر چاہے تو اسے طلاق دے دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7160]
حدیث حاشیہ:
آپ نے بحالت خفگی فتویٰ دیا۔
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت میں سے ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7160
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5252
5252. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی۔ سیدنا عمر ؓ نے اس کا ذکر نبی ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے چاہیے کہ رجوع کرے۔“ (راوی کہتا ہے) میں نے ابن عمر ؓ سے پوچھا: اس طلاق کو شمار کیا جائے گا؟ انہوں نے جواب دیا اور کیا ہوگا؟ قتادہ نے یونس بن جبیر کے ذریعے سے سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے حکم دو کہ رجوع کرے۔“ میں نے پوچھا: کیا طلاق شمار کی جائے گی؟ سیدنا ابن عمر ؓ نے جواب دیا تو کیا سمجھتا ہے اگر عبداللہ عاجز ہو جائے اور حماقت کا مرتکب ہو تو کیا طلاق واقع نہ ہوگی؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5252]
حدیث حاشیہ:
تو وہ فرض اس کے ذمہ سے ساقط ہو جائے گا؟ ہر گز نہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5252
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4908
4908. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو حضرت عمر ؓ نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ سخت ناراض ہوئے، پھر آپ نے فرمایا: ”اسے چاہئے کہ اپنی بیوی سے رجوع کرے، پھر اسے اپنے پاس روکے حتی کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے، پھر اسے حیض آئے اور پھر اس سے پاک ہو جائے، پھر اگر طلاق دینا چاہے تو اس سے جماع کیے بغیر اسے طلاق دے دے۔ یہی وہ وقت ہے جس میں اللہ تعالٰی نے طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4908]
حدیث حاشیہ: 1۔
ایک روایت میں ہے کہ وہ حالت طہر یا حالت حمل میں طلاق دے۔
(صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3659(1471)
دوران حیض میں اگر بیوی کو طلاق دی جائے تو وہ شمار ہوگی یا نہیں، اس کے متعلق اہل علم میں اختلاف ہے۔
ہمارا رجحان یہ ہے کہ اس طرح کی طلاق شمار کی جائےگی۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:
(باب إذا طُلِّقَتِ الحائضُ تُعْتَدُّ بذلك الطلاق)
جب حائضہ عورت کو طلاق دی جائے تو وہ اس طلاق کی وجہ سے عدت گزارے گی۔
“ (صحیح البخاري، الطلاق، باب: 2)
اس قسم کی طلاق کو شمار کرنے کے متعلق کچھ آثار و قرائن حسب ذیل ہیں:
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رجوع کا حکم دیا اور رجوع ہمیشہ طلاق کے بعد ہوتا ہے۔
۔
اس حدیث کے بعض طرق میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” تم نے جو طلاق دی ہے وہ ایک ہے۔
“ (سنن الدارقطني: 9/4)
۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”وہ طلاق جو اس نے دی ہے شمار کی جائے گی۔
“ (السنن الکبریٰ للبیهقي: 236/7)
۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود کہتے ہیں کہ یہ طلاق مجھ پر شمار کی گئی۔
(صحیح البخاري، الطلاق، حدیث: 5253)
ابن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا:
جو آپ نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دی تھی وہ شمار کی گئی؟ انھوں نے جواب دیا میں اسے شمار کیوں نہ کرتا اگرچہ میں نے عجز اور حماقت کا ثبوت دیا تھا۔
(صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3666(1471)
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے مختلف طرق ذکرکرنے کے بعد اس بات کو ثابت کیا ہے کہ دوران حیض میں دی گئی طلاق کوشمار کیا جائے گا۔
(إرواء الغلیل: 133/7)
اس موضوع پر ہمارے فتاویٰ ”فتاویٰ اصحاب الحدیث“ کا مطالعہ کریں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4908
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5251
5251. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اپنی بیوی کو بحالت حیض طلاق دے دی۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”عبداللہ سے کہو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کر لے۔ پھر اسے اپنے نکاح میں باقی رکھے حتیٰ کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے۔ پھر اس کے بعد اگر چاہے تو اسے روک رکھے اور اگر چاہے تو ملاپ کیے بغیر اسے طلاق دے دے۔ یہ وہ عدت ہے جس کا اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے کہ اس کا لحاظ رکھتے ہوئے عورتوں کو طلاق دی جائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5251]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان اور مذکورہ حدیث سے طلاق کا مسنون طریقہ بتایا ہے کہ خاوند جس طہر میں طلاق دینا چاہے اس میں اپنی بیوی سے ملاپ نہ کرے، پھر ایک ہی بار کی طلاق کو کافی سمجھے اور پوری عدت گزر جانے دے۔
اس طرح عورت پر طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔
اس کے علاوہ غیر مسنون طلاق کی صورتیں درج ذیل ہیں:
٭حالت حیض میں طلاق دی جائے۔
٭ایسے طہر میں طلاق دی جائے جس میں ملاپ کر چکا ہے۔
٭بیک وقت تین طلاقیں دے۔
٭ایک طہر میں ہی الگ الگ موقع پر تین طلاقیں دے۔
ان میں فقہاء کا اتفاق ہے کہ یہ طریقۂ طلاق حرام ہے۔
خاوند اس سے گناہ گار ہوگا، تاہم طلاق واقع ہو جائے گی اگرچہ خاوند نے معصیت اور حرام کا ارتکاب کیا ہے۔
(2)
واضح رہے کہ طلاق اور رجوع میں گواہ بنانے کا بھی حکم اگرچہ رجوع اور طلاق کے لیے گواہی اس طرح شرط نہیں ہے کہ اس کے بغیر رجوع اور طلاق غیر مؤثر ہوتے ہیں بلکہ گواہ بنانے کا حکم برسبیل احتیاط ہے تاکہ بعد میں کوئی فریق کسی واقعے کا انکار نہ کرے اور جھگڑا اور اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں بآسانی فیصلہ ہو سکے، نیز شکوک و شبہات کا دروازہ بھی بند ہو جائے۔
والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5251
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5253
5253. سیدنا سعید بن جبیر سے روایت ہے انہوں نے ابن عمر ؓ سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا: یہ طلاق مجھ پر شمار کی گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5253]
حدیث حاشیہ:
دوران حیض میں دی گئی طلاق کے متعلق اختلاف ہے کہ نافذ ہو گی یا نہیں؟ جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ اس انداز سے طلاق دینا اگرچہ خلاف سنت ہے، تاہم طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
اس کے برعکس کچھ حضرات کا خیال ہے کہ دوران حیض میں دی ہوئی طلاق نافذ نہیں ہوگی کیونکہ یہ طلاق خلاف سنت ہے اور خلاف سنت کام مردود ہوتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف جمہور اہل علم کے مطابق ہے کہ دوران حیض میں دی گئی طلاق نافذ ہو جاتی ہے۔
اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
٭حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما خود کہتے ہیں کہ طلاق مجھ پر شمار کر لی گئی تھی جیسا کہ درج بالا قول میں صراحت ہے۔
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو رجوع کا حکم دیا اور رجوع ہمیشہ طلاق کے بعد ہوتا ہے اور اس رجوع کو لغوی قرار دینا سخن سازی اور سینہ زوری ہے۔
٭اس حدیث کے بعض طرق میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم نے جو طلاق دی ہے وہ ایک ہے۔
“ (سنن الدارقطني: 4/9)
٭ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”وہ طلاق جو اس نے دی ہے اسے شمار کیا جائے گا۔
“ (السنن الکبریٰ للبیهقي: 236/7)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ بھی خیال نہ کیا۔
(سنن أبي داود، الطلاق، حدیث: 2185)
ائمۂ حدیث نے اس حدیث میں اس اضافے کو "منکر" قرار دیا ہے۔
(فتح الباري: 439/9)
صحیح ہونے کی صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقۂ کار کو درست خیال نہ فرمایا۔
والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5253
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5258
5258. ابو غلاب یونس بن جبیر سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا ابن عمر ؓ سے عرض کی: ایک شخص نے اپنی بیوی کو اس وقت طلاق دی جب وہ بحالت حیض تھی؟ انہوں نے کہا: تم ابن عمر کو جانتے ہو؟ ابن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تھی۔ پھر سیدنا عمر ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کے متعلق آپ سے دریافت کیا تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ بیوی سے رجوع کرے۔ پھر جب وہ حیض سے پاک ہو جائے تو اس وقت اگر وہ چاہے تو طلاق دے دے۔ سائل نے پوچھا: کیا آپ ﷺ نے اسے طلاق شمار کیا تھا؟ سیدنا ابن عمر ؓ نے کہا: اگر کوئی عاجز رہے اور حماقت کا ثبوت دے تو اس کا کیا علاج ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5258]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میری ایک بیوی سے مجھے بہت محبت تھی لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے اچھا نہیں سمجھتے تھے۔
انھوں نے مجھے طلاق دینے کا حکم دیا لیکن میں نے آپ کا کہا نہ مانا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میرے متعلق آپ سے عرض کیا۔
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے مجھے فرمایا:
”اپنے باپ کا کہا مانو۔
“ چنانچہ میں نے اسے طلاق دے دی۔
(مسند أحمد: 20/2)
ممکن ہے کہ یہ وہی عورت ہو جسے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بحالت حیض طلاق دی تھی کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے متعلق مسئلہ دریافت کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے۔
(فتح الباري: 448/9) (2)
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ نکاح کے بعد طلاق دی جا سکتی ہے اور طلاق کے لیے بیوی کو مخاطب کرنا ضروری نہیں۔
والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5258
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5332
5332. سیدنا نافع سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر ؓ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی جبکہ وہ حیض سے تھیں رسول اللہ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ اس سے رجوع کرے، پھر اسے اپنے پاس رکھے حتیٰ کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے۔ پھر اسے دوبارہ حیض آئے تو اسے مہلت دے حتیٰ کہ حیض سے پاک ہو جائے، اگر اس وقت اسے طلاق دینے کا ارادہ ہو تو جس وقت وہ پاک ہو جائے نیز جماع کرنے سے پہلے اسے طلاق دے۔ یہی وہ وقت ہے جس میں عورتوں کو طلاق دینے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ پھر جب عبداللہ بن عمر ؓ سے اس کے متعلق پوچھا جاتا تو سوال کرنے والے سے کہتے: اگر تم نے تین طلاقیں دے دی ہیں تو پھر بیوی تم پر حرام ہے یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے شوہر سے شادی کرے ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ ابن عمر ؓ نے کہا: اگر تم نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دی ہیں تو تم اسے دوبارہ اپنے پاس لا سکتے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5332]
حدیث حاشیہ:
رجوع کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم یہ ہے کہ دوران عدت میں رجوع کیا جائے۔
اس میں تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں رجوع کرنے کا حکم دیا لیکن اس میں نئے سرے سے نکاح کرنے کا حکم نہیں دیا۔
دوسری قسم یہ ہے کہ عدت کے بعد رجوع کرنا۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ از سر نو نکاح کا اہتمام کیا جائے اور نکاح کی شروط اور لوازمات کا خیال رکھا جائے جیسا کہ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
اور اس پر اجماع ہے کہ جب کوئی آزاد مرد اپنی آزاد بیوی کو پہلی یا دوسری طلاق دے دے تو وہ اس سے رجوع کرنے کا زیادہ حق دار ہے اگرچہ عورت اسے ناپسند ہی کرتی ہو۔
اور رجوع کے متعلق یہ بات واضح ہے کہ قول اور فعل ہر طرح سے ہو سکتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5332
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5333
5333. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نےاس کے متعلق نبی ﷺ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے کہو کہ اس سے رجوع کرے، پھر جب عدت کا وقت آئے اسے طلاق دے۔“ (راوی نے کہا:) میں نے ابن عمر ؓ سے پوچھا: کیا س طلاق کو شمار کیا جائے گا؟ تو انہوں نے جواب دیا: اگر عبداللہ عاجز آ گیا ہو اور حماقت کی وجہ سے طلاق دے دی تو کیا اسے شمار نہیں کیا جائے گا؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5333]
حدیث حاشیہ:
(1)
حائضہ عورت کو طلاق دینا اگرچہ خلاف سنت ہے، تاہم اس قسم کی طلاق شمار کی جائے گی، اور اس کا رجوع کرنا صحیح ہوگا جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو رجوع کرنے کا حکم دیا۔
اگر طلاق صحیح نہ ہوتی تو رجوع کرنے کا کیا مطلب؟ (2)
بعض حضرات اس مقام پر رجوع کے لغوی معنی مراد لیتے ہیں، لیکن یہ سخن سازی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5333
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7160
7160. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کا بیان ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی۔ اس بات کا ذکر سیدنا عمر ؓ نے نبی ﷺ سے کیا تو رسول اللہ ﷺ بہت خفا ہوئے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”اسے چاہیئے کہ وہ رجوع کرے اور اسے اپنے پاس رکھے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے۔پھر جب وہ حائضہ ہو اور پاک ہوجائے تو اگر چاہے تو اسے طلاق دے دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7160]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے ایک حدیث سے ثابت کیا تھا کہ قاضی کو بحالت غصہ کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے اب ان دو حدیثوں سے ثابت ہوتا ہےکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کی حالت میں فیصلہ کیا اور فتوی دیا ان احادیث کے درمیان تطبیق کی یہ صورت ہے کہ اگر غصہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہو تو ایسی حالت میں فیصلہ بھی کیا جا سکتا ہے اور فتوی بھی دیا جا سکتا ہے۔
دوسری صورت یہ ہے اگر غصہ آنے سے پہلے پہلے حق واضح ہو گیا پھر بعد میں غصہ آیا تو ایسی حالت بھی فیصلہ اور فتوی میں رکاوٹ کا باعث نہیں ہے لیکن ہمارےرجحان کے مطابق تطبیق کی یہ صورت بہتر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس اصول اور ضابطے سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جتنے بھی غضبناک ہوتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوش و حواس قائم رہتے ہیں اور غصے اور ناراضی کی حالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ کرنا یا فتوی دینا حق و صداقت پر مبنی تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم معصوم ہونے کی وجہ سے غلطی وغیرہ سے پاک ہیں۔
(فتح الباری: 13/171) w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7160