Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
42. باب مَا جَاءَ فِي التَّسْوِيَةِ بَيْنَ الضَّرَائِرِ
باب: سوکنوں کے درمیان باری کی تقسیم میں برابری کا بیان۔
حدیث نمبر: 1141
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا كَانَ عِنْدَ الرَّجُلِ امْرَأَتَانِ، فَلَمْ يَعْدِلْ بَيْنَهُمَا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَشِقُّهُ سَاقِطٌ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا أَسْنَدَ هَذَا الْحَدِيثَ هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ قَتَادَةَ، وَرَوَاهُ هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: كَانَ يُقَالُ، وَلَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ مَرْفُوعًا، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ هَمَّامٍ وهمام ثقة حافظ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسی شخص کے پاس دو بیویاں ہوں اور ان کے درمیان انصاف سے کام نہ لے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کو ہمام بن یحییٰ نے قتادہ سے مسنداً ۱؎ روایت کیا ہے،
۲- اور اسے ہشام دستوائی نے بھی قتادہ سے روایت کیا ہے لیکن اس روایت میں ہے کہ ایسا کہا جاتا تھا …
۳- ہم اس حدیث کو صرف ہمام ہی کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں اور ہمام ثقہ حافظ ہیں ۲؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ النکاح 39 (2133)، سنن النسائی/عشرة النساء 2 (3952)، سنن ابن ماجہ/النکاح 47 (1969) (تحفة الأشراف: 12213)، مسند احمد (2/347، 371)، سنن الدارمی/النکاح 24 (2252) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے قول سے، نہ کہ عام مقولہ کے طور پر، جیسے کہا جاتا تھا جیسا کہ ہشام دستوائی کی روایت میں ہے۔
۲؎: اس لیے ان کی روایت مقبول ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1969)

قال الشيخ زبير على زئي: (1141) إسناده ضعيف / د 2133، ن3394، جه 1969

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1141 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1141  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی رسول اللہ ﷺ کے اپنے قول سے،
نہ کہ عام مقولہ کے طور پر،
جیسے کہاجاتاتھا جیسا کہ ہشام دستوائی کی روایت میں ہے۔

2؎:
اس لیے ان کی روایت مقبول ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1141   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 906  
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور خاوند کا میلان ایک کی طرف رہا تو قیامت کے دن وہ ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہو گا۔ اسے احمد اور چاروں نے روایت کی ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 906»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، النكاح، باب في القسم بين النساء، حديث:2133، والترمذي،النكاح، حديث:1141، والنسائي، عشرة النساء، حديث:3394، وابن ماجه، النكاح، حديث:1969، وأحمد:2 /347، 471، قتادة ملدس وعنعن.»
تشریح:
مذکورہ روایت کو ہمارے محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے اور اس پر تفصیلی بحث کی ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۱۳ /۳۲۰‘ ۳۲۱‘ وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتور بشار عواد‘ حدیث:۱۹۶۹)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 906   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3394  
´شوہر کا میلان کسی ایک بیوی کی طرف زیادہ ہونے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کے مقابلے دوسری طرف زیادہ میلان رکھے تو قیامت کے دن وہ اس طرح آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب عشرة النساء/حدیث: 3394]
اردو حاشہ:
(1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف کہا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح کہا ہے۔ اور دلائل کی رو سے انہی کی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (الموسوعة الحدیثیة، مسند الإمام أحمد: 13،/ 320،321، وإرواء الغلیل: 7/80‘ وسنن ابن ماجه بتحقیق الدکتور بشارعواد، حدیث: 1969‘ وذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 28/ 178)
(2) اعمال کی جزا اعمال کے مشابہ ہی ہوتی ہے کیونکہ اس شخص نے دنیا میں جانبداری کا رویہ قائم رکھا‘ لہٰذا قیامت کے دن ا س کی ایک جانب مفلوج ہوگی۔ اس جھکاؤ سے مراد دلی جھکاؤ نہیں بلکہ ظاہری سلوک (مثلاً باری‘ نفقہ وغیرہ) میں جھکاؤ ہے کیونکہ دل کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ بہت سے دلی معاملات میں انسان بے بس ہوتا ہے‘ لہٰذا اس پر گرفت نہیں ہوگی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3394   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1969  
´عورتوں کے درمیان باری مقرر کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس دو بیویاں ہوں اور ایک کو چھوڑ کر دوسری کی طرف مائل رہے، تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک دھڑ گرا ہوا ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1969]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نےاسےصحیح قرار دیا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 13/ 320، 321، وسنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشار عواد، حدیث: 1969)
بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔

(2)
اگر کسی کی دو یا زیادہ بیویاں ہوں تو ممکن ہے قلبی میلان ایک کی طرف زیادہ ہو، لیکن یہ ناانصافی کا باعث نہیں بننی چاہیے۔

(3)
مباشرت کرنےمیں میلان اور خواہش کے مطابق کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن یہ جائز نہیں کہ ایک کی صنفی ضرورت سےچشم پوشی کر لی جائے۔
اللہ کا ارشاد ہے، ﴿فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُ‌وهَا كَالْمُعَلَّقَةِ﴾ (النساء: 129)
ایک کی طرف پوری طرح نہ جھک جاؤکہ دوسری کو (درمیان)
میں لٹکتی ہوئی کی طرح چھوڑ دو (4)
دنیا کے اعمال کا نتیجہ قیامت میں بھی ظاہر ہوگا اور انہی اعمال کے مطابق جنت اور جہنم کے درجات میں بھی فرق ہوگا۔
انہی کےمطابق جنت کی نعمتیں اور جہنم کی سزائیں ہونگی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1969