سنن ترمذي
كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
42. باب مَا جَاءَ فِي التَّسْوِيَةِ بَيْنَ الضَّرَائِرِ
باب: سوکنوں کے درمیان باری کی تقسیم میں برابری کا بیان۔
حدیث نمبر: 1140
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْسِمُ بَيْنَ نِسَائِهِ فَيَعْدِلُ، وَيَقُولُ:" اللَّهُمَّ هَذِهِ قِسْمَتِي فِيمَا أَمْلِكُ فَلَا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلَا أَمْلِكُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ هَكَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ يَقْسِمُ". وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ مُرْسَلًا، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ يَقْسِمُ"، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: لَا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ، وَلَا أَمْلِكُ إِنَّمَا يَعْنِي بِهِ الْحُبَّ، وَالْمَوَدَّةَ كَذَا فَسَّرَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے درمیان باری تقسیم کرتے ہوئے فرماتے:
”اے اللہ! یہ میری تقسیم ہے جس پر میں قدرت رکھتا ہوں، لیکن جس کی قدرت تو رکھتا ہے، میں نہیں رکھتا، اس کے بارے میں مجھے ملامت نہ کرنا
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث کو اسی طرح کئی لوگوں نے بسند
«حماد بن سلمة عن أيوب عن أبي قلابة عن عبد الله بن يزيد عن عائشة» روایت کیا ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم باری تقسیم کرتے تھے جب کہ اسے حماد بن زید اور دوسرے کئی ثقات نے بسند
«أيوب عن أبي قلابة» روایت کیا ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم باری تقسیم کرتے تھے اور یہ حماد بن سلمہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اور
”جس کی قدرت تو رکھتا ہے میں نہیں رکھتا
“ سے مراد محبت و مؤدّۃ ہے، اسی طرح بعض اہل علم نے اس کی تفسیر کی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ النکاح 39 (2134)، سنن النسائی/عشرة النساء 2 (3953)، سنن ابن ماجہ/النکاح 47 (1971)، (تحفة الأشراف: 1629)، سنن الدارمی/النکاح 25 (2253) (ضعیف) (حماد بن زید اور دیگر زیادہ ثقہ رواة نے اس کو ایوب سے ”عن أبي قلابة عن النبي ﷺ“ مرسلاً بیان کیا ہے، لیکن حدیث کا پہلا جزء اللهم هذا قسمي فيما أملك حسن ہے، تراجع الالبانی 346)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1971)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1140 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1140
اردو حاشہ:
نوٹ:
(حماد بن زید اوردیگر زیادہ ثقہ رواۃ نے اس کو ایوب سے «عن أبي قلابة عن النبي ﷺ» مرسلاً بیان کیا ہے،
لیکن حدیث کا پہلا جزء «اللهم هذا قسمي فيما أملك» حسن ہے،
تراجع الالبانی 346)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1140
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 905
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے درمیان باری تقسیم کرتے تھے اور عدل و انصاف کو ملحوظ رکھتے تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرتے تھے ”الٰہی! جو میرے بس میں ہے اس کے مطابق میں نے یہ تقسیم کی ہے اور جو میرے بس میں نہیں، تیرے اختیار میں ہے، اس میں مجھے ملامت نہ کرنا۔“ اسے چاروں نے روایت کی ہے اور ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے، لیکن ترمذی نے اس روایت کے مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 905»
تخریج: «أخرجه أبوداود، النكاح، باب في القسم بين النساء، حديث:2134، والترمذي، النكاح، حديث:1140، والنسائي، عشرة النساء، حديث:3395، وابن ماجه، النكاح، حديث:1971، وابن حبان(الموارد)، حديث:1305، والحاكم:2 /187 وصححه علي شرط مسلم، ووافقه الذهبي.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنی بیویوں کے درمیان عدل و انصاف قائم رکھنا چاہیے‘ البتہ دلی میلان اگر کسی کی طرف زیادہ ہو تو اس میں کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا‘ کیونکہ عورتیں سیرت و کردار‘ اخلاق‘ حسن و جمال اور عادات و خصائل کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔
جس عورت میں حسن و جمال ‘ اخلاق و اوصاف اور شوہر کی فرمانبرداری کی خصوصیت زیادہ ہوگی‘ شوہر کا میلان قدرتی طور پر اس کی جانب زیادہ ہوگا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 905
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3395
´شوہر کا میلان کسی ایک بیوی کی طرف زیادہ ہونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے درمیان کچھ تقسیم کرتے تو برابر برابر کرتے، پھر فرماتے: اللہ! میرا یہ کام تو میرے دائرہ اختیار میں ہے، لہٰذا تو مجھے ملامت نہ کر ایسے کام کے سلسلے میں جو تیرے اختیار کا ہے اور مجھے اس میں کوئی اختیار نہیں۔ حماد بن زید نے یہ حدیث مرسل روایت کی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب عشرة النساء/حدیث: 3395]
اردو حاشہ:
”میں بے بس ہوں۔“ یعنی قلبی محبت کیونکہ اس کا تعلق متعلقہ شخص کی شخصیت‘ اوصاف اور طرز عمل سے ہوتا ہے۔ ان معاملات میں افراد برابر نہیں ہوتے‘ لہٰذا محبت بھی سب سے ایک جیسی نہیں ہوسکتی۔ البتہ ظاہری طرز عمل بیویوں سے ایک جیسا ہونا ضروری ہے کیونکہ بیوی ہونے میں سب برابر ہیں اور ان کے حقوق بھی مساوی ہیں۔ رسول اللہﷺ پر ان ظاہری امور میں بھی مساوات فرض نہیں تھی مگر آپ نے اپنے طور پر مساوات کو قائم رکھا اور انصاف فرمایا…ﷺ…
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3395
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2134
´عورتوں کے درمیان باری مقرر کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی بیویوں کی) باری مقرر فرماتے تھے اور اس میں انصاف سے کام لیتے تھے، پھر یہ دعا فرماتے تھے: ”اے اللہ! یہ میری تقسیم ان چیزوں میں ہے جو میرے بس میں ہے، رہی وہ بات جو میرے بس سے باہر ہے اور تیرے بس میں ہے (یعنی دل کا میلان) تو تو مجھے اس کی وجہ سے ملامت نہ فرمانا۔“ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2134]
فوائد ومسائل:
مطلب یہ ہے کہ معاشرتی برتاؤ میں میں کوتاہی نہیں کرتا، لیکن دل کا معاملہ میرے اختیار میں نہیں۔
اس لیے قلبی محبت میں کمی بیشی پر مجھے ملامت نہ کرنا۔
اس سے معلوم ہوا کہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنےوالا اگر ظاہری برتاؤ میں عدل وانصاف کا اہتمام کرتا رہے گا تو قلبی میلان کی کمی پیشی پر اس کی گرفت نہیں ہو گی۔
واللہ اعلم
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2134