سنن ترمذي
كتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
29. باب مَا جَاءَ فِي تَحْرِيمِ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ
باب: نکاحِ متعہ کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1122
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُقْبَةَ أَخُو قَبِيصَةَ بْنِ عُقْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " إِنَّمَا كَانَتْ الْمُتْعَةُ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ كَانَ الرَّجُلُ يَقْدَمُ الْبَلْدَةَ لَيْسَ لَهُ بِهَا مَعْرِفَةٌ فَيَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ بِقَدْرِ مَا يَرَى أَنَّهُ يُقِيمُ، فَتَحْفَظُ لَهُ مَتَاعَهُ وَتُصْلِحُ لَهُ شَيْئَهُ حَتَّى إِذَا نَزَلَتِ الْآيَةُ إِلا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ سورة المؤمنون آية 6 ". قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " فَكُلُّ فَرْجٍ سِوَى هَذَيْنِ فَهُوَ حَرَامٌ ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ متعہ ابتدائے اسلام میں تھا۔ آدمی جب کسی ایسے شہر میں جاتا جہاں اس کی جان پہچان نہ ہوتی تو وہ اپنے قیام کی مدت تک کے لیے کسی عورت سے شادی کر لیتا۔ وہ اس کے سامان کی حفاظت کرتی۔ اس کی چیزیں درست کر کے رکھتی۔ یہاں تک کہ جب آیت کریمہ «إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم» ”لوگ اپنی شرمگاہوں کو صرف دو ہی جگہ کھول سکتے ہیں، ایک اپنی بیویوں پر، دوسرے اپنی ماتحت لونڈیوں پر“، نازل ہوئی تو ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: ان دو کے علاوہ باقی تمام شرمگاہیں حرام ہو گئیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6449) (ضعیف) (اس کے راوی ”موسیٰ بن عبیدہ“ ضعیف ہیں، نیز یہ شاذ بھی ہے، حافظ ابن حجر فتح الباری میں کہتے ہںی: اس کی سند ضعیف ہے، اور یہ شاذ بھی ہے کیونکہ یہ متعہ کی اباحت کی علت کے خلاف ہے، فتح الباری 9/148، حافظ ابن حجر بخاری کی اس روایت کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں جس میں ابو جمرہ کہتے ہیں: ”میں نے ابن عباس کو عورتوں سے متعہ کرنے کے سوال پر یہ سنا کہ آپ نے اس کی رخصت سنن الدارمی/ تو آپ کے غلام نے عرض کیا کہ یہ تو صرف سخت حالات اور عورتوں کی قلت کی بنا پر تھا یا اس طرح کی بات کہی تو ابن عباس نے کہا: ہاں، ایسا ہی ہے“ بخاری کی اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن عباس متعہ کی اباحت کے فتوے سے مطلقا رجوع ہو گئے تھے، اور اس کو مطلقا ناجائز کہتے تھے)۔»
قال الشيخ الألباني: منكر، الإرواء (1903) ، المشكاة (3158 / التحقيق الثاني)
قال الشيخ زبير على زئي: (1122) إسناده ضعيف
موسي بن عبيده: ضعيف ولا سيما في عبد الله بن دينار وكان عابدًا (تق:6989)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1122 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1122
اردو حاشہ:
نوٹ:
(اس کے راوی ”موسیٰ بن عبیدہ“ ضعیف ہیں،
نیز یہ شاذ بھی ہے،
حافظ ابن حجر فتح الباری میں کہتے ہیں:
اس کی سند ضعیف ہے،
اور یہ شاذ بھی ہے کیونکہ یہ متعہ کی اباحت کی علت کے خلاف ہے،
فتح الباری 9/148،
حافظ ابن حجر بخاری کی اس روایت کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں جس میں ابوجمرہ کہتے ہیں:
”میں نے ابن عباس کو عورتوں سے متعہ کرنے کے سوال پر یہ سنا کہ آپ نے اس کی رخصت دی تو آپ کے غلام نے عرض کیا کہ یہ تو صرف سخت حالات اور عورتوں کی قلت کی بناپر تھا یا اس طرح کی بات کہی تو ابن عباس نے کہا:
ہاں،
ایسا ہی ہے“ بخاری کی اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن عباس متعہ کی اباحت کے فتوے سے مطلقا رجوع ہوگئے تھے،
اور اس کو مطلقا ناجائز کہتے تھے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1122