Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْوَصَايَا
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
27. بَابُ إِذَا أَوْقَفَ جَمَاعَةٌ أَرْضًا مُشَاعًا فَهْوَ جَائِزٌ:
باب: اگر کئی آدمیوں نے اپنی مشترک زمین جو «مشاع» تھی (تقسیم نہیں ہوتی تھی) وقف کر دی تو جائز ہے۔
حدیث نمبر: 2771
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبِنَاءِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي بِحَائِطِكُمْ هَذَا، قَالُوا: لَا، وَاللَّهِ لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَى اللَّهِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا ‘ ان سے ابوالتیاح یزید بن حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے ‘ انہوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مدینہ میں) مسجد بنانے کا حکم دیا اور بنی نجار سے فرمایا تم اپنے اس باغ کا مجھ سے مول کر لو۔ انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں اللہ کی قسم ہم تو اللہ ہی سے اس کا مول لیں گے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2771 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2771  
حدیث حاشیہ:
گویا نجار نے اپنی مشترکہ زمین مسجد کیلئے وقف کردی تو باب کا مطلب نکل آیا لیکن ابن سعد نے طبقات میں واقدی سے یوں روایت کی ہے کہ آپ نے یہ زمین دس دینار میں خریدی اور ابو بکر صدیق ؓ نے قیمت ادا کی۔
اس صورت میں بھی باب کا مقصد نکل آئے گا اس طرف سے کہ پہلے بنی نجار نے اس کو وقف کرنا چاہا اور آپ نے اس پر انکار نہ کیا۔
واقدی کی روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے قیمت اسلئے دی کہ دو یتیم بچوں کا بھی اس میں حصہ تھا (وحیدی)
یہ حدیث ابواب الجنائز میں بھی گزر چکی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2771   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2771  
حدیث حاشیہ:
مشاع اس مشترکہ جائیداد کو کہتے ہیں جس میں شرکاء کے حصے متعین نہ کیے گئے ہوں۔
بعض حضرات کا موقف ہے کہ مشترک مال وقف نہیں کیا جا سکتا، خواہ وقف کرنے والا فرد واحد ہو یا جماعت۔
امام بخاری ؒ نے اس موقف کو محل نظر قرار دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ مشترک مال کو جماعت وقف کر سکتی ہے جیسا کہ بنو نجار نے اپنا باغ اللہ کے لیے وقف کر دیا تھا جسے رسول اللہ ﷺ نے برقرار رکھا، اگرچہ بعض روایات میں ہے کہ اس باغ کی قیمت دس دینار حضرت ابوبکر ؓ نے ادا کر دی تھی، تاہم قیمت کی ادائیگی سے پہلے جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے گفتگو کی ہم وقف کرتے ہیں تو آپ نے اس کا انکار نہیں کیا۔
اگر وقف مشاع جائز نہ ہوتا تو آپ اسے قبول نہ فرماتے بلکہ مسترد کر دیتے۔
(فتح الباري: 488/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2771   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1173  
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کے بلند حصہ میں بنو عمرو بن عوف نامی قبیلہ میں فروکش ہوئے اور یہاں چودہ راتیں قیام فرمایا، پھر آپﷺ نے بنو نجار کے سرداروں کو بلوایا تو وہ لوگ تلواریں لٹکائے ہوئے آئے، گویا میں رسول اللہ ﷺ کو آپﷺ کی سواری پر دیکھ رہا ہوں۔ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپﷺ کے پیچھے سوار ہیں اور بنو نجار کے لوگ آپﷺ کے چاروں طرف ہیں، یہاں تک کہ آپﷺ ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1173]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
علو:
عین پرپیش اور زیر دونوں آ سکتے ہیں،
بلندی،
اونچائی،
بنو عمروبن عوف کے لوگ قبا میں رہتے تھے،
جو مدینہ کے بلند حصہ میں واقع ہے۔
ملاء:
سردارواشراف،
اس کا اطلاق جماعت پر بھی ہوتا ہے۔
بنو نجار:
یہ خاندان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا کا ننھیال تھا،
اس لیے آپﷺ ان کو اخوال (ماموں)
سمجھتے تھے۔
متقلدي سيوفهم:
اپنی تلواروں کو حمائل کیے ہوئے تاکہ یہود کو پتہ چل سکے کہ وہ آپﷺ کی حفاظت میں ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔
فناء:
گھر کے سامنے کا میدان یا کھلی جگہ۔
مرابض:
مربض کی جمع ہے،
باڑہ،
جہاں بکریاں بیٹھ کر رات گزارتی ہیں،
امر:
معروف اور مجہول دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے۔
(2)
ثامنو ني:
میرے ساتھ ثمن (قیمت)
طے کر لو،
آپﷺ نے یہ قطعہ دس دینار میں خریدا تھا،
کیونکہ یتیم بچوں کا تھا اور قیمت ابوبکر رضی اللہ عنہ نےادا کی تھی اور بقول بعض ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے۔
(3)
خَرِبٌ يا خِرَبٌ:
ویرانہ،
کھنڈرات۔
(4)
نُبِشَت:
ان کو اکھاڑ دیا گیا۔
(5)
عَضَادتيه:
عَضَادة دروازوں کے پٹ یا ایک جانب کو کہتے ہیں،
يَرْتَجِزُوْنَ:
وہ رجز پڑھتے تھے۔
رجز یہ شعر کی ایک قسم ہے جس کا ہر فقرہ الگ ہوتا ہے،
یہ کلام موزوں ہوتا ہے یا شعر کے وزن پر ہوتا ہے۔
لیکن کہنے والے کی نیت شعر کی نہیں ہوتی،
اور انسان کے منہ سے کبھی کبھار،
کلام موزوں صادر ہو جائے تو وہ شعر نہیں ہو گا اور نہ اس کو شاعر کہا جائے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1173   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2774  
2774. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو مسجد بنانے کا حکم دیا، چنانچہ آپ نے فرمایا: اے بنو نجار!تم اپنا یہ باغ میرے ہاتھ فروخت کردو۔ انھوں نے عرض کیا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم تو اس کی قیمت صرف اللہ سے لیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2774]
حدیث حاشیہ:
لجعل البخاري أراد الرد علی من خص جواز الوقف بالمسجد وکأنه قال قد نفذ وقف الأرض المذکورة قبل أن تکون مسجدا فدل علی أن صحة الوقف لا تختص بالمسجد ووجه أخذہ من حدیث الباب أن الذین قالوا لا نطلب ثمنها إلا إلی اللہ کأنھم تصدقو ا بالأرض المذکورة لحتم انعقاد الوقف قبل البناء فیؤخذ منه أن من وقف أرضا علیٰ أن یبنیھا مسجدا ینعقد الوقف قبل البناء (فتح)
خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ مسجد کے نام پر تعمیر سے پہلے ہی کسی زمین کا وقف کرنا درست ہے کچھ لوگ اس کو جائز نہیں کہتے، ان کی تردید کرنا امام بخاری ؒ کا مقصد ہے بنو نجار نے پہلے زمین کو وقف کردیا تھا بعد میں مسجد نبوی وہاں تعمیر کی گئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2774   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3932  
3932. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو عوالی مدینہ میں ایک قبیلے کے پاس اقامت فرمائی، جنہیں بنوعمرو بن عوف کہا جاتا تھا۔ آپ ان کے ہاں چودہ دن ٹھہرے۔ پھر آپ نے بنو نجار کے سرداروں کو پیغام بھیجا تو وہ مسلح ہو کر آئے۔ گویا میں اب بھی رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ اونٹنی پر سوار ہیں اور حضرت ابوبکر ؓ آپ کے پیچھے (دوسری اونٹنی پر) سوار ہیں۔ بنو نجار کے سردار آپ کے اردگرد ہیں، یہاں تک کہ آپ نے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے گھر کے صحن میں اپنا سامان رکھ دیا۔ پہلے معمول یہ تھا کہ جس جگہ آپ کو نماز کا موقع مل جاتا وہاں نماز پڑھ لیتے تھے، کوئی مسجد نہ تھی یہاں تک کہ بکریوں کے باڑے میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ پھر آپ نے مسجد بنانے کا حکم دیا، چنانچہ آپ نے بنونجار کے سرداروں کو بلایا۔ وہ حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے انہیں فرمایا: اے بنو نجار!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3932]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے ترجمہ میں حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم نے الفاظ ویُصلي في مرابضِ الغنمِ کا ترجمہ چھوڑ دیا ہے، غالباً مرحوم کا یہ سہو ہے۔
اس حدیث میں بھی ہجرت کا ذکر ہے یہی باب سے وجہ مناسبت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3932   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2774  
2774. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو مسجد بنانے کا حکم دیا، چنانچہ آپ نے فرمایا: اے بنو نجار!تم اپنا یہ باغ میرے ہاتھ فروخت کردو۔ انھوں نے عرض کیا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم تو اس کی قیمت صرف اللہ سے لیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2774]
حدیث حاشیہ:
(1)
مساجد کی دو قسمیں ہیں:
ایک یہ کہ گھر یا کھیت یا فیکٹری کے کسی حصے میں مسجد بنا لی جائے اور وہاں نماز پڑھنا شروع کر دی جائے۔
اس قسم کی مسجد کے لیے جملہ لوازمات، یعنی اذان، جماعت اور جمعہ کا ہونا ضروری نہیں اور نہ اس قسم کی مسجد کا وقف ہونا ہی ضروری ہے۔
دوسری قسم یہ ہے کہ مسجد کو اس کے آداب و لوازمات کے ساتھ تعمیر کیا جائے۔
اس میں نماز، جماعت اور جمعہ کا اہتمام ہو اور بوقت نماز ہر کلمہ گو مسلمان کو اس میں نماز ادا کرنے کی آزادی ہو۔
اس قسم کی مسجد کا وقف ہونا ضروری ہے تاکہ کوئی بھی نمازیوں کے لیے نماز کی ادائیگی میں رکاوٹ نہ ڈال سکے۔
اگر مسجد وقف نہیں ہو گی تو مالک اپنے تصرف و اختیار کے پیش نظر اس سے روک سکتا ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ مسجد تعمیر ہونے کے بعد ہی اس کا وقف کرنا ضروری نہیں بلکہ پہلے زمین بھی وقف ہو سکتی ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔
شارح بخاری ابن منیر کہتے ہیں:
اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصد ان حضرات کی تردید کرنا ہے جو وقف کو مسجد بننے کے ساتھ لازم کرتے ہیں۔
مسجد تعمیر ہونے سے پہلے اس کے لیے حاصل کردہ زمین کو بھی وقف کیا جا سکتا ہے۔
(فتح الباري: 494/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2774   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3932  
3932. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو عوالی مدینہ میں ایک قبیلے کے پاس اقامت فرمائی، جنہیں بنوعمرو بن عوف کہا جاتا تھا۔ آپ ان کے ہاں چودہ دن ٹھہرے۔ پھر آپ نے بنو نجار کے سرداروں کو پیغام بھیجا تو وہ مسلح ہو کر آئے۔ گویا میں اب بھی رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ اونٹنی پر سوار ہیں اور حضرت ابوبکر ؓ آپ کے پیچھے (دوسری اونٹنی پر) سوار ہیں۔ بنو نجار کے سردار آپ کے اردگرد ہیں، یہاں تک کہ آپ نے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے گھر کے صحن میں اپنا سامان رکھ دیا۔ پہلے معمول یہ تھا کہ جس جگہ آپ کو نماز کا موقع مل جاتا وہاں نماز پڑھ لیتے تھے، کوئی مسجد نہ تھی یہاں تک کہ بکریوں کے باڑے میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ پھر آپ نے مسجد بنانے کا حکم دیا، چنانچہ آپ نے بنونجار کے سرداروں کو بلایا۔ وہ حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے انہیں فرمایا: اے بنو نجار!۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3932]
حدیث حاشیہ:

مدینہ طیبہ سےنجد کی طرف جہت کو عالیہ اور تہامہ کی جہت کو سافلہ کہا جاتا تھا قباء عوالی مدینہ میں ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا علو مدینہ میں نزول فرمانا سر فرازی اور بلندی کے شگون کے لیے تھا۔

اس باغ کے متعلق پہلے ایک حدیث میں وضاحت تھی کہ وہ کھجوریں خشک کرنے کی جگہ تھی۔
ممکن ہے کہ پہلے باغ ہوں پھر ویران ہو کر کھجوروں کے لیے جگہ بن گئی ہو۔
وہ باغ عمرو کے بیٹوں سہل اور سہیل کے لیے تھا جو یتیم ہو چکے تھے اور وہ حضرت اسعد بن زرارہ ؓ کی کفالت میں تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر ؓ کو حکم دیا کہ وہ اس باغ کی قیمت ادا کریں چنانچہ انھوں نے دس دینار بطور قیمت ادا کیے۔

رسول اللہ ﷺ کے آنے سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ ؓ وہاں نماز پڑھا کرتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے پہلے تو کھجوروں کی چھڑیوں سے مسجد کا ڈھانچہ تیار کیا اور ہجرت کے چار سال بعد اینٹوں اور گارے سے تعمیر کیا۔
(فتح الباري: 308/7)

چونکہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی ہجرت اور مدینہ تشریف لانے کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو بیان فرمایا ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3932