سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
60. باب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي زِيَارَةِ الْقُبُورِ
باب: قبروں کی زیارت کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1055
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: تُوُفِّيَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ بالحبْشِيَّ، قَالَ: فَحُمِلَ إِلَى مَكَّةَ، فَدُفِنَ فِيهَا، فَلَمَّا قَدِمَتْ عَائِشَةُ، أَتَتْ قَبْرَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَتْ: وَكُنَّا كَنَدْمَانَيْ جَذِيمَةَ حِقْبَةً مِنَ الدَّهْرِ حَتَّى قِيلَ لَنْ يَتَصَدَّعَا فَلَمَّا تَفَرَّقْنَا كَأَنِّي وَمَالِكًا لِطُولِ اجْتِمَاعٍ لَمْ نَبِتْ لَيْلَةً مَعَا ثُمَّ قَالَتْ: " وَاللَّهِ لَوْ حَضَرْتُكَ مَا دُفِنْتَ إِلَّا حَيْثُ مُتَّ، وَلَوْ شَهِدْتُكَ مَا زُرْتُكَ ".
عبداللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر حبشہ میں وفات پا گئے تو انہیں مکہ لا کر دفن کیا گیا، جب ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا (مکہ) آئیں تو عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی الله عنہ کی قبر پر آ کر انہوں نے یہ اشعار پڑھے۔ «وكنا كندماني جذيمة حقبة من الدهر حتى قيل لن يتصدعا فلما تفرقنا كأني ومالكا لطول اجتماع لم نبت ليلة معا» ”ہم دونوں ایک عرصے تک ایک ساتھ ایسے رہے تھے جیسے بادشاہ جزیمہ کے دو ہم نشین، یہاں تک کہ یہ کہا جانے لگا کہ یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے۔ پھر جب ہم جدا ہوئے تو مدت دراز تک ایک ساتھ رہنے کے باوجود ایسا لگنے لگا گویا میں اور مالک ایک رات بھی کبھی ایک ساتھ نہ رہے ہوں“۔ پھر کہا: اللہ کی قسم! اگر میں تمہارے پاس موجود ہوتی تو تجھے وہیں دفن کیا جاتا جہاں تیرا انتقال ہوا اور اگر میں حاضر رہی ہوتی تو تیری زیارت کو نہ آتی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (ضعیف) (عبدالملک بن عبدالعزیز ابن جریج ثقہ راوی ہیں، لیکن تدلیس اور ارسال کرتے تھے اور یہاں پر روایت عنعنہ سے ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (1718)
قال الشيخ زبير على زئي: (1055) (بل صحيح) ابن جريج مدلس (تقدم:674) وعنعن فى ھذا اللفظ ورواه عبدالرزاق (517/3 ح 6535) عنه بتصريح السماع مختصراً وجاء فى مصنف ابن أبى شيبه (343/3،344) لون أخر . وله شاھد صحيح فى تاريخ دمشق (41/35) وسنده صحيح وبه صح الحديث
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1055 کے فوائد و مسائل
ابوعبدالله صارم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي 1055
فوائد و مسائل:
اس روایت کی سند ابن جریج رحمہ اللہ، کی ” تدلیس “ کی وجہ سے ” ضعیف “ ہے۔
مصنف عبدالرزاق (517/3) اور الاوسط لابن المنذر (464/5) میں اگرچہ سماع کی تصریح ہے، لیکن اس سند میں امام عبدالرزاق رحمہ اللہ کی ”تدلیس“ موجود ہے۔
ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 69، حدیث/صفحہ نمبر: 24
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1055
اردو حاشہ:
نوٹ:
(عبدالملک بن عبدالعزیز ابن جریج ثقہ راوی ہیں،
لیکن تدلیس اور ارسال کرتے تھے اور یہاں پر روایت عنعنہ سے ہے،
اس لیے یہ سند ضعیف ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1055