Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
53. باب مَا جَاءَ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّحْدُ لَنَا وَالشَّقُّ لِغَيْرِنَا
باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد ”بغلی ہمارے لیے ہے اور صندوقی اوروں کے لیے“ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1045
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَنَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ، ويوسف بن موسى القطان البغدادي، قَالُوا: حَدَّثَنَا حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّحْدُ لَنَا وَالشَّقُّ لِغَيْرِنَا ". وَفِي الْبَاب: عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بغلی قبر ہمارے لیے ہے اور صندوقی قبر اوروں کے لیے ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس کی حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں جریر بن عبداللہ، عائشہ، ابن عمر اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز65 (3208) سنن النسائی/الجنائز 85 (2011) سنن ابن ماجہ/الجنائز 39 (1554) (تحفة الأشراف: 5542) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی اہل کتاب کے لیے ہے، مقصود یہ ہے کہ بغلی قبر افضل ہے اور ایک قول یہ ہے کہ «اللحد لنا» کا مطلب ہے «اللحد لي» یعنی بغلی قبر میرے لیے ہے جمع کا صیغہ تعظیم کے لیے ہے یا «اللحد لنا» کا مطلب «اللحد اختيارنا» ہے یعنی بغلی قبر ہماری پسندیدہ قبر ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ صندوقی قبر مسلمانوں کے لیے نہیں ہے کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مدینہ میں قبر کھودنے والے دو شخص تھے ایک بغلی بنانے والا دوسرا شخص صندوقی بنانے والا اگر صندوقی ناجائز ہوتی تو انہیں اس سے روک دیا جاتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1554)

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / د 3208، ن:2011، جه:1554

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1045 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1045  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اہل کتاب کے لیے ہے،
مقصود یہ ہے کہ بغلی قبر افضل ہے اور ایک قول یہ ہے کہ «الَّلحْدُ لَنَا»  کا مطلب ہے «اللحد لِيْ» یعنی بغلی قبر میرے لیے ہے جمع کا صیغہ تعظیم کے لیے ہے یا  «الَّلحْدُ لَنَا»  کا مطلب  «الَّلحْدُ اِخْتِيَارُنَا»  ہے یعنی بغلی قبر ہماری پسندیدہ قبر ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ صندوقی قبر مسلمانوں کے لیے نہیں ہے کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں مدینہ میں قبر کھودنے والے دو شخص تھے ایک بغلی بنانے و الا دوسرا شخص صندوقی بنانے والا اگر صندوقی ناجائز ہوتی تو انہیں اس سے روک دیا جاتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1045   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2011  
´بغلی اور صندوقی قبر بنانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بغلی قبر ہم (مسلمانوں) کے لیے ہے، اور صندوقی قبر دوسروں کے لیے ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2011]
اردو حاشہ:
(1) یہ روایت اگرچہ اس سند سے ضعیف ہے لیکن دیگر شواہد کی وجہ سے بعض حضرات کے نزدیک صحیح ہے اور یہی بات درست ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے جامع ترمذی میں ان شواہد کی تصریح فرمائی ہے۔ دیکھیے: (جامع الترمذي، حدیث: 1045)
(2) دوسروں کے لیے مسند احمد میں جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے اور شق اہل کتاب کے لیے ہے۔ (مسسند أحمد: 363/4) لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ مسلمانوں کے لیے شق جائز نہیں کیونکہ بعض علاقوں میں لحد ممکن ہی نہیں، شق ہی بنانی پڑتی ہے۔ ممکن ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب بھی یہ ہو کہ بقیع الغرقد (جنت البقیع) کی زمین سخت ہے، لحد بن سکتی ہے، لہٰذا ہمارے لیے لحد بہتر ہے، ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے لیے بھی دونوں آدمیوں (لحد اور شق والے) کو پیغام بھیجا گیا تھا۔ اتفاقاً لحد بنانے والے صحابی پہلے آگئے، اس لیے باتفاق صحابہ لحد بنائی گئی۔ (سنن ابن ماجة، الجنائز، حدیث: 1557) ممکن ہے اہل کتاب کے ہاں شق کا رواج ہو۔ آپ نے امتیاز کے لیے مسلمانوں کو لحد بنانے کا مشورہ دیا ہو۔ (نیز دیکھیے، فوائد حدیث: 2009،2010)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2011   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3208  
´قبر میں لحد بنانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لحد (بغلی قبر) ہمارے لیے ہے، اور شق (صندوقی قبر) دوسروں کے لیے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3208]
فوائد ومسائل:

قبر کا بڑا گڑھا کھود کر اس کے قبلہ رخ پہلو میں اندر کی طرف ایک گڑھا بنانا لحد کہلاتا ہے۔
اور اگرسیدھا نیچے کی سطح میں بنایا جائے تو اسے شق کہتے ہیں۔

زمین سخت ہو تو لحد بنانا مستحب ہے ورنہ شق بھی جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3208   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1554  
´بغلی قبر (لحد) کے مستحب ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بغلی قبر (لحد) ہمارے لیے ہے، اور صندوقی اوروں کے لیے ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1554]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
جبکہ دیگر محققین اسے صحیح قرار دیتے ہیں۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت لکھتے ہیں۔
کہ لحد بنانا مستحب ہے۔
کیونکہ صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کے اتفاق سے رسول اللہ ﷺ کے لئے لحد ہی کھو دی گئی تھی۔
دیکھئے: (صحیح مسلم، بشرح النووی، کتاب الجنائز، باب فی اللحد ونصب اللبن علی المیت: 49/48/7، حدیث: 966)
 لہٰذا جہاں لحد (بغلی قبر بن سکتی ہو وہاں لحد بنانا مستحب اورافضل ہے۔
البتہ شق (صندوقی قبر)
بنانا بھی جائز ہے۔
جیسا کہ آئندہ آنے والی احادیث میں اس کی صراحت ہے۔
واللہ أعلم۔

(2)
لحد یعنی بغلی قبر سے مراد یہ ہے کہ پہلے گڑھا کھودا جائے پھر اس میں ایک طرف میت کے لئے جگہ بنا کر اس میں میت کو رکھا جائے۔
اور شق کا مطلب یہ ہے کہ بڑا گڑھا کھود کر اس کے درمیان میں میت کےلئے نسبتاً چھوٹا گڑھا کھوداجائے۔

(3)
دونوں طرح قبر بنانا جائز ہے۔
کیونکہ رسول اللہﷺ کے زمانوں میں دونوں طریقوں پر عمل ہوتا تھا۔
جیسے کہ آئندہ حدیث سے ظاہر ہے۔

(4)
شق (صندوقی قبر)
دوسروں کے لئے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہمارے لئے جائز نہیں غالباً اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر مسلموں میں زیادہ شق (صندوقی قبر)
کا رواج ہے۔
اور مسلمان زیادہ تر لحد (بغلی قبر)
بناتے ہیں۔
 واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1554