سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
43. باب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الصَّلاَةِ عَلَى الْجَنِينِ حَتَّى يَسْتَهِلَّ
باب: جنین (ماں کے پیٹ میں موجود بچہ) کی نماز نہ پڑھنے کا بیان جب تک کہ وہ ولادت کے وقت نہ روئے۔
حدیث نمبر: 1032
حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُسْلِمٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الطِّفْلُ لَا يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَلَا يَرِثُ وَلَا يُورَثُ حَتَّى يَسْتَهِلَّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ قَدِ اضْطَرَبَ النَّاسُ فِيهِ، فَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرْفُوعًا، وَرَوَى أَشْعَثُ بْنُ سَوَّارٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ مَوْقُوفًا، وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ جَابِرٍ مَوْقُوفًا، وَكَأَنَّ هَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الْمَرْفُوعِ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، قَالُوا: لَا يُصَلَّى عَلَى الطِّفْلِ حَتَّى يَسْتَهِلَّ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ.
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”بچے کی نماز
(جنازہ) نہیں پڑھی جائے گی۔ نہ وہ کسی کا وارث ہو گا اور نہ کوئی اس کا وارث ہو گا جب تک کہ وہ پیدائش کے وقت روئے نہیں
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث میں لوگ اضطراب کے شکار ہوئے ہیں۔ بعض نے اِسے ابو الزبیر سے اور ابو الزبیر نے جابر سے اور جابر نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کیا ہے، اور اشعث بن سوار اور دیگر کئی لوگوں نے ابو الزبیر سے اور ابو الزبیر نے جابر سے موقوفاً روایت کی ہے، اور محمد بن اسحاق نے عطاء بن ابی رباح سے اور عطاء نے جابر سے موقوفاً روایت کی ہے گویا موقوف روایت مرفوع روایت سے زیادہ صحیح ہے،
۲- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بچے کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ جب تک کہ وہ پیدائش کے وقت نہ روئے یہی سفیان ثوری اور شافعی کا قول ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 2660) (صحیح) وأخرجہ: سنن ابن ماجہ/الجنائز 26 (1508)، والفرائض 17 (2750)، من غیر ہذا الوجہ۔»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1508)
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / جه:2750،1508، ك348/4۔349
أبوالزبير عنعن (تقدم:927) وللحديث شاھد ضعيف عند ابن عدي فى الكامل (1329/4)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1032 کے فوائد و مسائل
حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي 1032
فقہ الحدیث
↰ اس روایت کو امام ترمذی [1032] نے روایت کیا ہے، لیکن اس کی سند میں ابوالزبیر مشہور مدلس ہیں اور سماع کی صراحت بھی نہیں، لہٰذا یہ ابوالزبیر کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔
اس روایت کے دیگر شواہد بھی ملاحظہ کیجئیے:
➊ «اذا استهل الصبي صلى عليه و ورت» ”جب بچہ چیخ مارے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور وہ وارث بھی بنے گا۔“ [ابن ماجہ 1508]
↰ یہ روایت ربیع بن بدر متروک [التقریب: 1883] اور ابوالزبیر عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔
➋ انہیں الفاظ کے ساتھ یہ روایت ابن حبان [6032] میں بھی موجود ہے اور اس میں سفیان ثوری اور ابوالزبیر دونوں کا عنعنہ ہے، لہذا یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ یہ روایت المستدرک للحاکم [348/4] میں بھی اسی علت کے ساتھ موجود ہے۔
واضح رہے کہ اس روایت کے تمام طرق اور شواہد ضعف سے خالی نہیں، پس ان سے استدلال جائز نہیں ہے۔
تنبیہ: بعض اہل علم ایسی روایات کو بطور شاہد نقل کرتے ہیں جن میں سرے سے «لا يصلي عليه» ہے ہی نہیں، مثلاً صحیح ابن حبان کی مذکورہ روایت کی تحقیق کرتے ہوئے جناب شعیب ارناوط صاحب سنن ابن ماجہ [2751] کی ایک صحیح حدیث: «لا يرث الصبي حتي يستهل صارخا» ” (ولادت کے بعد) بچہ اگر آواز سے نہ روئے تو وہ وارث نہیں ہوتا۔“ کو بطور شاہد نقل کر رہے ہیں۔ دیکھئے ابن حبان [394/13]
↰ حالانکہ اس میں سرے سے نماز جنازہ نہ پڑھنے کا ذکر ہی نہیں، لہٰذا «لا يصلي عليه» کا یہ حدیث قطعاً شاہد نہیں بن سکتی۔
قارئین کرام! مذکورہ بحث سے معلوم ہوا جو علمائے کرام بچے کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے رونے یا چیخ مارنے کی قید لگاتے ہیں ان کا استدلال ضعیف روایات سے ہے، اس کے برعکس صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ مردہ حالت میں پیدا ہونے والے بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔
چنانچہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی کریم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: سوار آدمی جنازے کے پیچھے چلے اور پیدل جانے والے اس ک آگے پیچھے اور دائیں بائیں اس کے قریب قریب چلیں، اور ناتمام پیدا ہونے والے بچے کی بھی نماز جنازہ پڑھی جائے اور اس کے ماں باپ کے لیے دعائے مغفرت و رحمت کی جائے۔ [سنن ابي داود 3180 وسنده صحيح]
↰ یہ حدیث دلیل ہے کہ پیدائش کے وقت بچہ روئے یا نہ روئے، یعنی مردہ حالت میں پیدا ہو تب بھی اس کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی۔
◈ نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ناتمام چھوٹے بچے کی نماز جنازہ ادا کی، میں نہیں جانتا کہ وہ رویا تھا یا نہیں، آپ نے اس کے گھر میں جنازہ پڑھا، پھر اسے تدفین کے لیے بھیج دیا۔ [مصنف عبدالرزاق 530/3 واللفظ له، مصنف ابن ابي شيبته 9/3 ح 11584 وسنده صحيح]
◈ امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: «يصلي على الصغير كما يصلي على الكبير»
جس طرح بڑے کی نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے اسی طرح چھوٹے بچے کی بھی ادا کی جائے گی۔ [مصنف ابن أبي شيبة 10/3 ح 11591 وسنده صحيح]
◈ابن سیرین رحمہ اللہ کی دوسری روایت میں «السقط» کے الفاظ بھی ہیں۔ دیکھئے [ابن ابي شيبه 10/3، ح 11588 وسندہ حسن]
◈امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ایسے بچے کی نماز جنازہ سے متعلق پوچھا گیا: «يصلي عليه وان لم يستهل، قال: نعم» بچے کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی، اگرچہ وہ نہ روئے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں۔ [مسائل الامام احمد رواية ابنه عبدالله: 529]
راجح موقف: صحیح حدیث اور اثر صحابی کی رُو سے راجح یہی ہے کہ پیدائش کے وقت بچہ روئے یا نہ روئے، چیخ مارے یا نہ مارے بہرصورت اس کی نماز جنازہ ادا کرنا جائز ہے، اس کے برعکس موقف اس لیے قابل التفات نہیں کہ اس کی بنیاد ضعیف روایات پر ہے۔ «هذا ما عندي والله ا علم بالصواب»
ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 133، حدیث/صفحہ نمبر: 9