حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كُفِّنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ يَمَانِيَةٍ، لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ وَلَا عِمَامَةٌ ". قَالَ: فَذَكَرُوا لِعَائِشَةَ قَوْلَهُمْ: فِي ثَوْبَيْنِ وَبُرْدِ حِبَرَةٍ، فَقَالَتْ: قَدْ أُتِيَ بِالْبُرْدِ وَلَكِنَّهُمْ رَدُّوهُ وَلَمْ يُكَفِّنُوهُ فِيهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سفید
۱؎ یمنی کپڑوں میں کفنایا گیا
۲؎ نہ ان میں قمیص
۳؎ تھی اور نہ عمامہ۔ لوگوں نے عائشہ رضی الله عنہا سے کہا: لوگ کہتے ہیں کہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کپڑوں اور ایک دھاری دار چادر میں کفنایا گیا تھا؟ تو ام المؤمنین عائشہ نے کہا: چادر لائی گئی تھی لیکن لوگوں نے اسے واپس کر دیا تھا، آپ کو اس میں نہیں کفنایا گیا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 996
اردو حاشہ:
1؎:
تین سفید کپڑوں سے مراد تین بڑی چادریں ہیں اور بعض کے نزدیک کفنی،
تہ بند اور بڑی چادر ہے۔
2؎:
اس سے معلوم ہوا کہ کفن تین کپڑوں سے زیادہ مکروہ ہے بالخصوص عمامہ (پگڑی) جسے متاخرین حنفیہ اور مالکیہ نے رواج دیا ہے سراسر بدعت ہے رہی ابن عباس کی روایت جس میں ہے ((كُفِّنَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي ثَلاثَةِ أَثْوَابٍ بحرانية:
الحلة،
ثوبان،
وقميصه الذي مات فيه)) تو یہ منکر ہے اس کے راوی یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں،
اسی طرح عبادہ بن صامت کی حدیث ((خَيْرُ الْكَفَنِ الْحُلَّةُ)) بھی ضعیف ہے اس کے راوی نسي مجہول ہیں۔
3؎:
اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ کفن میں قمیص مستحب نہیں جمہور کا یہی قول ہے،
لیکن مالکیہ اور حنفیہ استحباب کے قائل ہیں،
وہ اس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس میں احتمال یہ ہے کہ دونوں ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ شمار کی گئی چیز کی نفی ہو یعنی قمیص اور عمامہ ان تینوں میں شامل نہیں تھے بلکہ یہ دونوں زائد تھے،
اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ پہلا احتمال ہی صحیح ہے اور اس کا مطلب یہی ہے کفن میں قمیص اور عمامہ نہیں تھا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 996
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 431
´میت کو غسل دینے سے پہلے دھاری دار چادر سے ڈھانپ دینا`
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دھاری دار چادر سے ڈھانپ دیا گیا۔ . . .“ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 431]
لغوی تشریح:
«سُجَّيَ» تسجیۃ (باب تفعيل) سے صیغہ مجہول ہے۔ ڈھانپنے کے معنی میں ہے۔
«بِبُرْدِ حِبَرَةِ» اس میں مضاف اور مضاف الیہ کی شکل بھی بنتی ہے اور موصوف صفت کی بھی۔ اور «بُرْد» کی ”با“پر ضمہ اور ”را“ساکن ہے۔ چادر یا دھاری دار کپڑا۔
اور «حِبَرَة» میں ”حا“ پر فتحہ ہے۔ بیل بوٹے والی چادر۔ اور یہ ڈھانپنے کا عمل غسل سے پہلے تھا۔
فوائد و مسائل:
➊ میت کو غسل دینے سے پہلے دھاری دار چادر سے ڈھانپ دینا بھی جائز ہے۔
➋ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی وارد ہوئی ہے۔
➌ اس حدیث سے حیات النبی کا مسئلہ بڑی آسانی سے حل ہو گیا کہ اگر آپ نے وفات نہیں پائی تو آپ کے ساتھ وہ عمل کیوں کیا گیا جو فوت ہونے والوں کے ساتھ کیا جاتا ہے، یعنی غسل اور تدفین و تجہیز وغیرہ۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 431
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 437
´میت کو خواہ مرد ہو یا عورت تین کپڑوں میں کفن دینا`
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سحولیہ کے بنے ہوئے سوتی سفید رنگ کے تین کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا، جس میں قمیص اور پگڑی نہیں تھی . . .“ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 437]
لغوی تشریح:
«كُفٌنَ» تکفین سے ماخوذ ہے۔
«ثَلَاثَةَ اَثَّوَابٟ» تین کپڑوں یعنی ازار، چادر اور لفافے میں کفن دیا گیا۔
«بِيض» با کے نیچے کسرہ ہے اور یہ «اُبْيَض» کی جمع ہے۔
«سُحُو لِيَّةِ» ”سین“ اور ”حا“ دونوں پر ضمہ ہے۔ اور ”سین“ پر فتحہ اور ”حا“ پر ضمہ بھی منقول ہے۔ سحول کی طرف منسوب ہے جو یمن کا ایک قصبہ یا بستی ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ فتحہ کی صورت میں یہ قصار (دھوبی) کی طرف منسوب ہو گا کیونکہ «سحل» سے مراد صاف کرنا ہے اور دھوبی کپڑے کو دھو کر صاف کرتا ہے۔ اس اعتبار سے «سحوليه» کے معنی «نقيه» (صفائی و طہارت اور پاکیزگی و نظافت) کے ہوں گے۔
«كُرْسُف» ”کاف“ اور ”سین“ دونوں پر ضمہ اور ان کے درمیان میں ”را“ ساکن ہے۔ اس سے مراد روئی ہے۔
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ میت کو خواہ مرد ہو یا عورت تین کپڑوں میں کفن دینا چاہیے۔ عورتوں کو تین کپڑوں سے زائد کفن دینا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ واللہ اعلم ان کپڑوں میں نہ تو قیمص ہو اور نہ پگڑی۔ اور کفن میں سوتی کپڑا بہتر ہے۔
➋ تین کپڑوں سے مراد جمہور کے نزدیک تین بڑی چادریں ہیں اور بعض کے ہاں اس سے مراد کفنی، تہبند اور بڑی چادر ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 437
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1900
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے کفن کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سفید یمنی سوتی کپڑوں میں کفنایا گیا جس میں نہ تو قمیص تھی، اور نہ عمامہ (پگڑی)، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے دو کپڑوں اور ایک یمنی چادر کے متعلق لوگوں کی گفتگو کا ذکر کیا گیا، تو انہوں نے کہا: چادر لائی گئی تھی لیکن لوگوں نے اسے لوٹا دیا، اور آپ کو اس میں نہیں کفنایا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1900]
1900۔ اردو حاشیہ:
➊ کفن کے لیے تین کپڑے مسنون ہیں، دو میں بھی گزارا ہو سکتا ہے، نہ ملیں تو مجبوری میں ایک بھی کافی ہے، جیسے جنگ احد کے بعض شہداء کے لیے صرف ایک چادر ہی ملی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ایک چادر ہی میں دفن کر دیے۔
➋ ”قمیص اور پگڑی“ کفن میں قمیص اور پگڑی نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ اس حدیث میں صراحت ہے، جمہور اہل علم اسی کے قائل ہیں۔ احناف قمیص اور اہم شخصیت کے لیے پگڑی جائز سمجھتے ہیں۔ اس حدیث کے معنی کرتے ہیں کہ قمیص اور پگڑی ان تین کپڑوں میں شامل نہ تھے، ان کے علاوہ تھے، مگر یہ معنی ظاہر کے خلاف ہیں، البتہ بعض ضعیف احادیث میں پگڑی کا ذکر ہے لیکن ترجیح صحیح احادیث ہی کو ہو گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1900
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1469
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سفید یمنی کپڑوں میں کفنایا گیا، جس میں کرتہ اور عمامہ نہ تھا، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھاری دار چادر میں کفنایا گیا تھا؟ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: لوگ دھاری دار چادر لائے تھے مگر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں نہیں کفنایا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1469]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
(1)
کفن کا سفید ہونا بہتر ہے۔
جیسے آگے حدیث (1473)
میں بھی آ رہا ہے۔
(2)
رنگدار یا دھاری دار کپڑے کا کفن بنانا بھی جائز ہے۔
اگر جائز نہ ہوتا تو صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نبی اکرمﷺ کے لئے ایسا کفن تیار نہ کرتے۔
(3)
رسول اللہﷺ کو تین کپڑوں میں کفن دیا گیا۔
اس سے معلوم ہواکہ مرد وعورت کفن کے کپڑوں میں برابر ہیں۔
عورت کےلئے کفن میں مرد سے زیادہ کپڑے استعمال کرنے کا جواز کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1469
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2179
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سحولی بستی کی بنی ہوئی تین سفید چادروں میں کفن دیا گیا، ان کپڑوں میں نہ قمیص (کرتا) تھی اور نہ عمامہ (پگڑی) اور رہا حُلہ (چادروں کا جوڑا) تو اس کے بارے میں لوگوں کو اشتباہ پیدا ہو گیا، آپﷺ کے کفن کے لیے اسے خریدا گیا تھا۔ پھر حلہ چھوڑ دیا گیا اور آپ کو تین سحولی کپڑوں میں کفن دیا گیا اور اس حلے کو عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2179]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
1۔
سحولیة:
۔
سین پر زبر اور پیش دونوں آئے ہیں اگر سین پر زبر پڑھیں تو سفید یا سوتی کپڑے مراد ہوں گے،
اور اس کو ایک بستی کی طرف منسوب کرنا ہی بہتر ہے یعنی سحولی کپڑے۔
2۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
احمد رحمۃ اللہ علیہ اور محدثین کے نزدیک مرد کے کفن میں،
تین چادریں ہیں،
ان میں قمیص اور عمامہ نہیں ہو گا۔
کیونکہ اگر ان کو داخل کیا جائے تو کپڑے پانچ بنیں گے۔
اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہی ہے۔
احناف کے نزدیک تین کپڑے ہیں ان میں ایک کپڑا قمیص ہے۔
یعنی قمیص۔
چادر اورلفافہ لیکن ان تین کپڑوں میں قمیص کو دخل کرنا صریح روایت کے خلاف ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2179
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1264
1264. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو تین سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا جو یمنی سحولی روئی سے بنے ہوئے تھے،ان میں نہ تو قمیص تھی اور نہ عمامہ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1264]
حدیث حاشیہ:
بلکہ ایک ازار تھی، ایک چادر، ایک لفافہ۔
پس سنت یہی تین کپڑے ہیں۔
عمامہ باندھنا بدعت ہے۔
حنابلہ اور ہمارے امام احمد بن حنبل نے اس کو مکروہ رکھا ہے اور شافعیہ نے قمیص اور عمامہ کا بڑھانا بھی جائز رکھا ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ سفید کپڑوں میں کفن دیا کرو۔
ترمذی نے کہا آنحضرت ﷺ کے کفن کے بارے میں جتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں ان سب میں حضرت عائشہ ؓ کی یہ حدیث زیادہ صحیح ہے۔
افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ کے لوگ زندگی بھر شادی غمی کے رسوم اور بدعات میں گرفتار رہتے ہیں اور مرتے وقت بھی بیچاری میت کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔
کہیں کفن خلاف سنت کرتے ہیں، کہیں لفافہ کے اوپر ایک چادر ڈالتے ہیں کہیں میت پر شامیانہ تانتے ہیں، کہیں تیجا دسواں چہلم کرتے ہیں۔
کہیں قبرمیں پیری مریدی کا شجر رکھتے ہیں۔
کہیں قبر کا چراغ جلاتے ہیں۔
کہیں صندل شیرینی چادر چڑھاتے ہیں۔
کہیں قبر پر میلہ اور مجمع کر تے ہیں اور اس کا نام عرس رکھتے ہیں۔
کہیں قبر کو پختہ کرتے ہیں، اس پر عمارت اور گنبد اٹھاتے ہیں۔
یہ سب امور بدعت اور ممنوع ہیں۔
اللہ تعالی مسلمانوں کی آنکھیں کھولے اور ان کو نیک توفیق دے۔
آمین یا رب العالمین۔
(وحیدي)
روایت میں کفن نبوی کے متعلق لفظ ''سحولیة'' آیا ہے۔
جس کی تشریح علامہ شوکانی کے لفظوں میں یہ ہے:
(سُحُولِيَّةٍ)
بِضَمِّ الْمُهْمَلَتَيْنِ، وَيُرْوَى بِفَتْحِ أَوَّلِهِ:
نِسْبَةً إلَى سُحُولَ قَرْيَةٍ بِالْيَمَنِ. قَالَ النَّوَوِيُّ:
وَالْفَتْحُ أَشْهُرُ وَهُوَ رِوَايَةُ الْأَكْثَرِينَ. قَالَ ابْنُ الْأَعْرَابِيِّ وَغَيْرُهُ:
هِيَ ثِيَابٌ بِيضٌ نَقِيَّةٌ لَا تَكُونُ إلَّا مِنْ الْقُطْنِ. وَقَالَ ابْنُ قُتَيْبَةَ:
ثِيَابٌ بِيضٌ وَلَمْ يَخُصَّهَا بِالْقُطْنِ. وَفِي رِوَايَةٍ لِلْبُخَارِيِّ " سُحُولُ " بِدُونِ نِسْبَةٍ، وَهُوَ جَمْعُ سَحُلٍ، وَالسَّحْلُ:
الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ النَّقِيُّ وَلَا يَكُونُ إلَّا مِنْ قُطْنٍ كَمَا تَقَدَّمَ. وَقَالَ الْأَزْهَرِيُّ:
بِالْفَتْحِ:
الْمَدِينَةُ، وَبِالضَّمِّ:
الثِّيَابُ. وَقِيلَ:
النِّسْبَةُ إلَى الْقَرْيَةِ بِالضَّمِّ، وَأَمَّا بِالْفَتْحِ فَنِسْبَةٌ إلَى الْقِصَارِ لِأَنَّهُ يَسْحَلُ الثِّيَابَ:
أَيْ يُنَقِّيهَا كَذَا فِي الْفَتْحِ۔
(نیل الأوطار، جلد: 3ص: 40)
خلاصہ یہ کہ لفظ ''سحولیة'' سین اورحاء کے ضمہ کے ساتھ ہے اور سین کا فتح بھی روایت کیا گیا ہے۔
جو ایک گاؤں کی طرف نسبت ہے جو یمن میں واقع تھا۔
ابن اعرابی وغیرہ نے کہا کہ وہ سفید صاف ستھرا کپڑا ہے جو سوتی ہوتا ہے۔
بخاری شریف کی ایک روایت میں لفظ“سحول”آیا ہے جو سحل کی جمع ہے اور وہ سفید دھلا ہو اکپڑا ہوتا ہے۔
ازہری کہتے ہیں کہ سحول سین کے فتح کے ساتھ شہر مراد ہوگا اور ضمہ کے ساتھ دھوبی مراد ہوگا جوکپڑے کو دھو کر صاف شفاف بنا دیتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1264
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1273
1273. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ کو تین کپڑوں میں کفن دیاگیا جن میں نہ تو قمیص تھی اور نہ عمامہ ہی تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1273]
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ چوتھا کپڑا نہ تھا۔
قسطلانی نے کہا امام شافعی ؒ نے قمیص پہنانا جائز رکھا ہے مگر اس کو سنت نہیں سمجھا اور ان کی دلیل حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا فعل ہے جسے بیہقی نے نکالا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا۔
تین لفافے اور ایک قمیص اور ایک عمامہ لیکن شرح مہذب میں ہے کہ قمیص اور عمامہ نہ ہو۔
اگرچہ قمیص اور عمامہ مکروہ نہیں مگر اولیٰ کے خلاف ہے (وحیدی)
بہتر یہی ہے کہ صرف تین چادروں میں کفن دیا جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1273
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1387
1387. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نےفرمایا:میں حضرت ابو بکر ؓ کے پاس حاضر ہوئی تو انھوں نے فرمایا:تم نے نبی کریم ﷺ کو کتنے کپڑوں میں کفن دیا تھا؟میں نے جواب دیا:تین سحولی چادروں میں، جن میں نہ قمیص تھی اور نہ عمامہ ہی تھا۔ پھر انھوں نے فرمایا:نبی کریم ﷺ نے کس روز وفات پائی تھی؟ حضرت عائشہ ؓ نے کہا:پیر کے دن۔ ابو بکر ؓ نے فرمایا:آج کون سا دن ہے؟انھوں نے جواب دیا:آج پیر کا دن ہے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا:میں امید کرتا ہوں کہ اس وقت سے لے کر رات تک وفات پاجاؤں گا۔ پھر انھوں نے اپنے کپڑے کی طرف دیکھا جس میں وہ بیمار ہوئے تھے اور اس میں ایک زعفران کا نشان تھا، آپ نےفرمایا کہ میرے اسی کپڑے کو دھو ڈالو، اسی پر دو چادروں کااضافہ کردو اور ان میں مجھے کفن دینا، میں نےکہا:یہ کپڑا تو پراناہے۔ انھوں نےفرمایا:زندہ آدمی نئے کپڑوں کامردے سے زیادہ حقدار ہے، کیونکہ آخر کار کفن تو پیپ کی نذر ہونے والا ہے۔ پھر منگل کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1387]
حدیث حاشیہ:
سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے پیر کے دن موت کی آرزو کی‘ اس سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔
حضرت صدیق ؓ نے اپنے کفن کے لیے اپنے روز مرہ کے کپڑوں کو ہی زیادہ پسند فرمایا جن میں آپ روزانہ عبادت الٰہی کیا کرتے تھے۔
آپ کی صاحبزادی حضرت عائشہ ؓ نے جب آپ کا یہ حال دیکھا تو وہ ہائے کرنے لگیں، مگر آپ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو بلکہ اس آیت کو پڑھو ﴿وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ﴾ یعنی آج سکرات موت کا وقت آگیا۔
حضرت صدیق ؓ کے فضائل ومناقب کے لیے دفتر بھی ناکافی ہے رضي اللہ عنه وأرضاہ علامہ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
وَرَوَى أَبُو دَاوُدَ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ مَرْفُوعًا لَا تُغَالُوا فِي الْكَفَنِ فَإِنَّهُ يُسْلَبُ سَرِيعًا وَلَا يُعَارِضُهُ حَدِيثُ جَابِرٍ فِي الْأَمْرِ بِتَحْسِينِ الْكَفَنِ أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ فَإِنَّهُ يُجْمَعُ بَيْنَهُمَا بِحَمْلِ التَّحْسِينِ عَلَى الصِّفَةِ وَحَمْلِ الْمُغَالَاةِ عَلَى الثَّمَنِ وَقِيلَ التَّحْسِينُ حَقُّ الْمَيِّتِ فَإِذَا أَوْصَى بِتَرْكِهِ اتُّبِعَ كَمَا فَعَلَ الصِّدِّيقُ وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ اخْتَارَ ذَلِكَ الثَّوْبَ بِعَيْنِهِ لِمَعْنًى فِيهِ مِنَ التَّبَرُّكِ بِهِ لِكَوْنِهِ صَارَ إِلَيْهِ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ لِكَوْنِهِ كَانَ جَاهَدَ فِيهِ أَوْ تَعَبَّدَ فِيهِ وَيُؤَيِّدهُ مَا رَوَاهُ بن سَعْدٍ مِنْ طَرِيقِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أبي بكر قَالَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ كَفِّنُونِي فِي ثَوْبَيَّ اللَّذَيْنِ كُنْتُ أُصَلِّي فِيهِمَا۔
(فتح الباري، ج: 6 ص: 5)
اور ابوداؤ نے حدیث علی سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ قیمتی کپڑا کفن میں نہ دو وہ تو جلد ہی ختم ہوجاتا ہے۔
حدیث جابر میں عمدہ کفن دینے کا بھی حکم آیا ہے۔
عمدہ سے مراد صاف ستھرا کپڑا اور قیمتی سے گراں قیمت کپڑا مراد ہے۔
ہردو حدیث میں یہی تطبیق ہے۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تحسین میت کے حق میں ہے اگر وہ چھوڑنے کی وصیت کرجائے تو اس کی اتباع کی جائے گی۔
جیسا کہ حضرت صدیق اکبر ؓ نے کیا۔
یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت صدیق اکبر نے اپنے ان کپڑوں کو بطور تبرک پسند فرمایا ہو، کیونکہ وہ آپ کو نبی کریم ﷺ سے حاصل ہوئے تھے یا یہ کہ ان میں آپ نے بڑے بڑے مجاہدے کئے تھے یا ان میں عبادت الٰہی کی تھی۔
اس کی تائید میں ایک روایت میں آپ کے یہ لفظ بھی منقول ہیں کہ مجھے میرے ان ہی دو کپڑوں میں کفن دینا جن میں میں نے نمازیں ادا کی ہیں۔
وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ اسْتِحْبَابُ التَّكْفِينِ فِي الثِّيَابِ الْبِيضِ وَتَثْلِيثِ الْكَفَنِ وَطَلَبِ الْمُوَافَقَةِ فِيمَا وَقَعَ للأكابر تبركا بذلك وَفِيهِ جَوَازُ التَّكْفِينِ فِي الثِّيَابِ الْمَغْسُولَةِ وَإِيثَارِ الْحَيِّ بِالْجَدِيدِ وَالدَّفْنِ بِاللَّيْلِ وَفَضْلُ أَبِي بَكْرٍ وَصِحَّةُ فِرَاسَتِهِ وَثَبَاتُهُ عِنْدَ وَفَاتِهِ وَفِيهِ أَخْذُ الْمَرْءِ الْعِلْمَ عَمَّنْ دُونَهُ وَقَالَ أَبُو عُمَرَ فِيهِ أَنَّ التَّكْفِينَ فِي الثَّوْبِ الْجَدِيدِ وَالْخَلَقِ سَوَاءٌ۔
یعنی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سفید کپڑوں کا کفن دینا اور تین کپڑے کفن میں استعمال کرنا مستحب ہے اور اکابر سے نبی اکرم ﷺ کی بطور تبرک موافقت طلب کرنا بھی مستحب ہے۔
جیسے صدیق اکبرؓ نے آنحضرت ﷺ کے یوم وفات پیر کے دن کی موافقت کی خواہش ظاہر فرمائی اور اس حدیث دھلے ہوئے کپڑوں کا کفن دینا بھی جائز ثابت ہوا اور یہ بھی کہ عمدہ نئے کپڑوں کے لیے زندوں پر ایثار کرنا مستحب ہے جیسا کہ صدیق اکبر ؓ نے فرمایا اور رات میں دفن کرنے کا جواز بھی ثابت ہوا اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی فضیلت وفراست بھی ثابت ہوئی اور یہ بھی ثابت ہوا کہ علم حاصل کرنے میں بڑوں کے لیے چھوٹوں سے بھی استفادہ جائز ہے۔
جیسا کہ صدیق اکبر ؓ نے اپنی صاحبزادی سے استفادہ فرمایا۔
ابو عمر نے کہا کہ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نئے اور پرانے کپڑوں کا کفن دینا برابر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1387
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5814
5814. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کی نعش مبارک پر ایک دھاری دار یمنی چادر ڈال دی گئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5814]
حدیث حاشیہ:
یہی سبز رنگ تھا جو عام اہل اسلام میں آج تک مقبول ہے جملہ احادیث باب میں کسی نہ کسی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مختلف اوقات میں مختلف رنگوں کی چادروں کے استعمال کا ذکر ہے۔
باب اور احادیث مذکور میں یہی مطابقت ہے آگے اور تفصیلی ذکر آ رہا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5814
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1264
1264. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو تین سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا جو یمنی سحولی روئی سے بنے ہوئے تھے،ان میں نہ تو قمیص تھی اور نہ عمامہ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1264]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ میت کو سفید کپڑوں میں کفن دیا جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول حضرت محمد ﷺ کے لیے سفید کپڑوں کو بطور کفن پسند فرمایا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رنگ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا اس سلسلے میں صریح حکم بھی ہے جو امام بخارى ؒ کی شرط کے مطابق نہ تھا، اس لیے اس حدیث کو انہوں نے بیان نہیں فرمایا۔
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”سفید لباس زیب تن کیا کرو۔
یہ تمہارے ملبوسات میں بہترین اور عمدہ لباس ہے۔
اور اپنے مرنے والوں کو بھی اس میں کفن دیا کرو۔
“ (مسند أحمد: 247/1)
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے کفن میں ایک دھاری دار چادر بھی تھی۔
(فتح الباري: 173/3)
لیکن اس دھاری دار چادر کو صرف بدن خشک کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا، اس کے بعد اسے اتار دیا گیا تھا، جیسا کہ مصنف عبدالرزاق میں اس کی صراحت ہے۔
(فتح الباري: 174/3)
تاہم دھاری دار چادر بھی بطور کفن استعمال کرنی جائز ہے، جیسا کہ سنن ابی داود میں ہے۔
(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3150)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1264
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1272
1272. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ ر سول اللہ ﷺ کو تین کپڑوں میں کفن دیا گیا۔ان میں نہ تو قمیص تھی اور نہ عمامہ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1272]
حدیث حاشیہ:
(1)
سحول، یمن کے ایک گاؤں کا نام ہے جس میں سوتی کپڑے تیار ہوتے تھے۔
اس کی طرف منسوب کپڑوں کو سحولیہ کہا جاتا تھا۔
صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ایک یمنی دھاری دار چادر میں لپیٹ دیا گیا تھا جو عبداللہ بن ابی بکر ؓ کی تھی، پھر بعد میں اسے اتار دیا گیا تھا۔
(صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2180 (941) (2)
مزید برآں اس روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن ابی بکر ؓ نے اس چادر کو اپنے کفن کے لیے رکھ لیا لیکن بعد میں خیال آیا کہ اگر اللہ تعالیٰ اس قسم کے کفن سے خوش ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کو ضرور اس میں کفن دیا جاتا۔
پھر انہوں نے اس چادر کو فروخت کر کے اس کی قیمت کو صدقہ کر دیا۔
(3)
رسول اللہ ﷺ کو اس چادر میں پہلے اس لیے لپیٹا گیا تھا تاکہ اس کے ذریعے سے آپ کا جسم مبارک خشک ہو جائے۔
اس کے بعد تین چادروں کو استعمال کیا گیا۔
والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1272
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1273
1273. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ کو تین کپڑوں میں کفن دیاگیا جن میں نہ تو قمیص تھی اور نہ عمامہ ہی تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1273]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام مالک ؓ کے نزدیک کفن میں عمامہ ہونا بھی مستحب ہے جبکہ مذکورہ حدیث میں اس کی نفی ہے۔
امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان مالکی حضرات کی تردید میں قائم کیا ہے۔
جامع ترمذی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے ہاں لوگوں کی اس بات کا ذکر ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو دو کپڑوں اور ایک دھاری دار چادر میں کفن دیا گیا تھا تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ کفن کے لیے چادر لائی گئی تھی، لیکن اس میں کفن دینے کے بجائے اسے واپس کر دیا گیا تھا۔
(جامع الترمذي، الجنائز، حدیث: 996)
لیکن رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جس کے ہاں مالی وسعت ہو اسے دھاری دار چادر میں کفن دیا جائے۔
(مسند أحمد: 335/3) (2)
دھاری دار چادر کا ہونا سفید کپڑوں کے منافی نہیں کیونکہ تین کپڑوں میں اگر ایک چادر دھاری دار ہو تو دونوں احادیث پر عمل ہو سکتا ہے۔
(أحکام الجنائز، ص: 83)
حافظ ابن حجر ؓ نے طبقات ابن سعد کے حوالے سے ان تین کپڑوں کی تفصیل دی ہے کہ ان میں ایک اوڑھنے کی چادر، دوسری پہننے کی چادر اور تیسری بڑی چادر لپیٹنے کے لیے تھی۔
(فتح الباري: 179/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1273
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1387
1387. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نےفرمایا:میں حضرت ابو بکر ؓ کے پاس حاضر ہوئی تو انھوں نے فرمایا:تم نے نبی کریم ﷺ کو کتنے کپڑوں میں کفن دیا تھا؟میں نے جواب دیا:تین سحولی چادروں میں، جن میں نہ قمیص تھی اور نہ عمامہ ہی تھا۔ پھر انھوں نے فرمایا:نبی کریم ﷺ نے کس روز وفات پائی تھی؟ حضرت عائشہ ؓ نے کہا:پیر کے دن۔ ابو بکر ؓ نے فرمایا:آج کون سا دن ہے؟انھوں نے جواب دیا:آج پیر کا دن ہے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا:میں امید کرتا ہوں کہ اس وقت سے لے کر رات تک وفات پاجاؤں گا۔ پھر انھوں نے اپنے کپڑے کی طرف دیکھا جس میں وہ بیمار ہوئے تھے اور اس میں ایک زعفران کا نشان تھا، آپ نےفرمایا کہ میرے اسی کپڑے کو دھو ڈالو، اسی پر دو چادروں کااضافہ کردو اور ان میں مجھے کفن دینا، میں نےکہا:یہ کپڑا تو پراناہے۔ انھوں نےفرمایا:زندہ آدمی نئے کپڑوں کامردے سے زیادہ حقدار ہے، کیونکہ آخر کار کفن تو پیپ کی نذر ہونے والا ہے۔ پھر منگل کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1387]
حدیث حاشیہ:
(1)
موت کا وقت مقرر ہے کسی کو اس میں اختیار نہیں، لیکن رسول اللہ ﷺ کی وفات کے دن مرنے کی خواہش کرنا جائز ہے۔
حضرت ابوبکر ؓ زندگی میں شدید اتباع کے ساتھ ساتھ یہ چاہتے تھے کہ موت میں بھی رسول الله ﷺ کی اتباع کروں اگرچہ ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی، کیونکہ ان کی وفات منگل کی رات ہوئی، تاہم اتصال اور وقت کا قرب ان سے فوت نہیں ہوا۔
حدیث میں ہے کہ جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات مرنا ایک مسلمان آدمی کے لیے فتنہ قبر سے حفاظت کا باعث ہے۔
لیکن امام ترمذی نے خود وضاحت کر دی ہے کہ اس کی سند صحیح نہیں، کیونکہ اس میں ایک راوی ربیعہ بن سیف ہیں جو حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے بیان کرتے ہیں، حالانکہ اس ربیعہ کا ان سے سماع ثابت نہیں، البتہ شیخ البانی ؓ اور دیگر کئی محققین نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔
دیکھیے:
(جامع الترمذي، الجنائز، حدیث: 1074، و صحیح سنن الترمذي للألباني: 454/1، رقم: 1074)
بہرحال حضرت ابوبکرؓ کا مقصد، حیات و ممات میں رسول اللہ ﷺ کی موافقت و اتباع کرنا تھا حتی کہ موت میں بھی آپ سے موافقت کا اظہار کیا جو ان کے اختیار میں نہ تھی۔
(2)
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے سات جمادی الاخری کو غسل کیا تو سردی لگنے سے بخار ہو گیا۔
پندرہ دن اس مرض میں مبتلا رہے۔
بالآخر 22 جمادی الاخری منگل کی رات 13 ہجری کو وفات پائی۔
إنا لله و إنا إليه راجعون۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1387
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5814
5814. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کی نعش مبارک پر ایک دھاری دار یمنی چادر ڈال دی گئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5814]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان تمام احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھاری دار سبز چادر بہت پسند تھی، چنانچہ آپ کی وفات کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایسی چادر کو منتخب کیا گیا۔
احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے کہ آپ نے مختلف اوقات میں مختلف رنگوں کی چادریں استعمال کی ہیں۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک بیان کی طرف اشارہ کیا ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ ارادہ کیا تھا کہ وہ یمنی جوڑوں کے استعمال پر پابندی لگا دیں کیونکہ انہیں پیشاب میں رنگا جاتا تھا لیکن انہیں حضرت اُبی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ ایسا نہ کریں کیونکہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیب تن فرمایا اور ہم نے بھی آپ کے عہد مبارک میں انہیں پہنا ہے، لیکن یہ روایت قابل حجت نہیں کیونکہ حسن بصری کا سماع حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔
(فتح الباري: 341/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5814