سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
2. باب مَا جَاءَ فِي عِيَادَةِ الْمَرِيضِ
باب: مریض کی عیادت کا بیان۔
حدیث نمبر: 969
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ ثُوَيْرٍ هُوَ: ابْنُ أَبِي فَاخِتَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَخَذَ عَلِيٌّ بِيَدِي، قَالَ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى الْحَسَنِ نَعُودُهُ، فَوَجَدْنَا عِنْدَهُ أَبَا مُوسَى، فَقَالَ عَلِيٌّ رضي الله عنه: أَعَائِدًا جِئْتَ يَا أَبَا مُوسَى أَمْ زَائِرًا، فَقَالَ: لَا بَلْ عَائِدًا. فَقَالَ عَلِيٌّ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَعُودُ مُسْلِمًا غُدْوَةً إِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِنْ عَادَهُ عَشِيَّةً إِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُصْبِحَ، وَكَانَ لَهُ خَرِيفٌ فِي الْجَنَّةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، مِنْهُمْ مَنْ وَقَفَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَأَبُو فَاخِتَةَ: اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ عِلَاقَةَ.
ابوفاختہ سعید بن علاقہ کہتے ہیں کہ علی رضی الله عنہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا: ہمارے ساتھ حسن کے پاس چلو ہم ان کی عیادت کریں گے تو ہم نے ان کے پاس ابوموسیٰ کو پایا۔ تو علی رضی الله عنہ نے پوچھا: ابوموسیٰ کیا آپ عیادت کے لیے آئے ہیں؟ یا زیارت
«شماتت» کے لیے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں، بلکہ عیادت کے لیے آیا ہوں۔ اس پر علی رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:
”جو مسلمان بھی کسی مسلمان کی صبح کے وقت عیادت کرتا ہے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ اور جو شام کو عیادت کرتا ہے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہو گا
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- علی رضی الله عنہ سے یہ حدیث کئی اور بھی طرق سے بھی مروی ہے، ان میں سے بعض نے موقوفاً اور بعض نے مرفوعاً روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10108) (صحیح اس میں ”زائرا“ لفظ صحیح نہیں ہے، اس کی جگہ ”شامتا“ صحیح ہے ملاحظہ ہو ”الصحیحة“ رقم: 1367)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1442)
قال الشيخ زبير على زئي: (969) إسناده ضعيف
ثوير ضعيف (تقدم:501) ولبعض الحديث شواھد عند أحمد (97/1 و 118) و ابن ماجه (1442) و غيرھما
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 969 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 969
اردو حاشہ:
نوٹ:
اس میں ”زائرا“ لفظ صحیح نہیں ہے،
اس کی جگہ ”شامتا“ صحیح ہے ملاحظہ ہو (”الصحیحة“ رقم: 1367)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 969
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1442
´مریض کی عیادت کا ثواب۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے آئے وہ جنت کے کھجور کے باغ میں چل رہا ہے یہاں تک کہ وہ بیٹھ جائے، جب بیٹھ جائے، تو رحمت اسے ڈھانپ لیتی ہے، اگر صبح کے وقت عیادت کے لیے گیا ہو تو ستر ہزار فرشتے شام تک اس کے لیے دعا کرتے ہیں، اور اگر شام کا وقت ہو تو ستر ہزار فرشتے صبح تک اس کے لیے دعا کرتے ہیں۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1442]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
(1)
مسلمان بھائی کی عیادت اتنا ثواب کا کام ہے۔
کہ اس مقصد کےلئے چلنا جنت کے باغ میں چلنے اور جنت کے پھل چننے کے برابر ہے۔
اتنے زیادہ ثواب کے عمل کی وجہ سے امید کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرما دے گا۔
(2)
عیادت کے لئے مریض کے پاس بیٹھنا اللہ کی رحمت کا باعث ہے۔
(3)
فرشتوں کا رحمت کی دعا کرنا بھی اس شخص کے بلند مقام کو ظاہر کرتا ہے۔
اور اس میں اللہ کی رحمت کی خوشخبری ہے کیونکہ فرشتے اللہ کے حکم ہی سے کسی کے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1442