سنن ترمذي
كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: حج کے احکام و مناسک
37. باب مَا جَاءَ فِي تَقْبِيلِ الْحَجَرِ
باب: حجر اسود کو بوسہ لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 860
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ، وَيَقُولُ: " إِنِّي أُقَبِّلُكَ وَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ لَمْ أُقَبِّلْكَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی الله عنہ کو حجر اسود کا بوسہ لیتے دیکھا، وہ کہہ رہے تھے: میں تیرا بوسہ لے رہا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ تو ایک پتھر ہے، اگر میں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ لیتا
۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عمر کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوبکر اور ابن عمر سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 50 (1597)، و57 (1605)، (1610)، صحیح مسلم/الحج 41 (1270)، سنن ابی داود/ المناسک 47 (1873)، سنن النسائی/الحج 147 (2940)، سنن ابن ماجہ/المناسک 27 (2943)، (تحفة الأشراف: 10473)، مسند احمد (1/26، 46) (صحیح) وأخرجہ کل من: موطا امام مالک/الحج 36 (115)، مسند احمد (1/21، 34، 35، 39، 51، 53، 54)، سنن الدارمی/المناسک 42 (1906) من غیر ہذا الطریق۔»
وضاحت: ۱؎: اپنے اس قول سے عمر رضی الله عنہ لوگوں کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ حجر اسود کا چومنا رسول اللہ کے فعل کی اتباع میں ہے نہ کہ اس وجہ سے کہ یہ خود نفع و نقصان پہنچا سکتا ہے جیسا کہ جاہلیت میں بتوں کے سلسلہ میں اس طرح کا لوگ عقیدہ رکھتے تھے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2943)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 860 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 860
اردو حاشہ:
1؎:
اپنے اس قول سے عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ حجر اسود کا چومنا رسول اللہ ﷺ کے فعل کی اتباع میں ہے نہ کہ اس وجہ سے کہ یہ خود نفع و نقصان پہنچا سکتا ہے جیسا کہ جاہلیت میں بتوں کے سلسلہ میں اس طرح کا لوگ عقیدہ رکھتے تھے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 860
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1873
´حجر اسود کو چومنا۔`
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حجر اسود کے پاس آئے اور اسے چوما، اور کہا: میں جانتا ہوں تو ایک پتھر ہے نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے نہ چومتا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1873]
1873. اردو حاشیہ:
➊ رسول اللہ ﷺکے طریق (یعنی سنت مطہرہ) کا اتباع ہر حال میں مشروع اور واجب ہے۔خواہ اس کے اسباب اور علل معلوم ہوں یا نہ ہوں۔اسے کسی علت یا سبب پر مبنی قرار نہیں دیا جاسکتا اگر کوئی حکمت سمجھ میں آجائے تو فبہا ورنہ اس پرعمل بہرحال لازم ہے۔
➋ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ توضیح ان نو مسلم لوگوں کےلئے تھی۔ جن کو یہ وہم ہوسکتا تھا کہ شاید یہ پتھر کوئی موثر پتھر ہے۔اس لئے اس کو چوما جارہا ہے۔
➌ یہ حدیث حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اتباع امام اعظم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر شدید حریص ہونے کی واضح دلیل ہے۔
➍ کوئی بھی پتھر شجر اور قبر وغیرہ کسی قسم کے نفع یا نقصان کاہرگز ہرگز کوئی اختیار نہیں رکھتے۔
➎ یہ حدیث دلیل ہے کہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین اپنے ایمان اور عقیدہ توحید اور جذبہ اتباع سنت میں از حد کامل تھے۔
➏ شرعی دلیل کے بغیر کسی چیز کو احتراماً چومنا چاٹنا مکروہ ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1873
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 616
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور فرمایا کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تو پتھر ہے کسی قسم کے نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 616]
616 فوائدومسائل:
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حجراسود کو بوسہ اسے نفع و نقصان دینے والا سمجھ کر نہیں دیا جاتا بلکہ یہ عمل تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی میں کیا جاتا ہے۔
➋ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے مشرکین کے اس باطل نظریے کی تردید مقصود تھی جو پتھروں کو بذات خود نفع و نقصان کا مختار و مالک سمجھتے تھے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 616
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2940
´حجر (اسود) کا بوسہ لینے کا بیان۔`
عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کے پاس آئے اور کہا: میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ لیتا، پھر وہ اس سے قریب ہوئے، اور اسے بوسہ لیا۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2940]
اردو حاشہ:
(1) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کلام کا مقصود یہ ہے کہ حجر اسود کی پوجا نہیں کرتے، نہ اسے نفع نقصان کا مالک سمجھتے ہیں۔ ہم تو رسول اللہﷺ کی پیروی میں اسے بوسہ دیتے ہیں۔ آپ نے یہ بات عوام الناس کا عقیدہ درست رکھنے کے لیے اور انھیں غلط فہمی سے بچانے کے لیے فرمائی۔ رسول اللہﷺ کا حجر اسود کو بوسہ دینا اس کے ”جنتی“ ہونے کی وجہ سے تھا اور اس وجہ سے تھا کہ وہ گناہوں کو ساقط کرنے کا سبب ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ سے ان بزرگوں کے موقف کو تائید حاصل ہوتی ہے جن کا خیال ہے کہ جن چیزوں کو رسول اللہﷺ نے بوسہ نہیں دیا، انھیں بوسہ دینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ویسے بھی حجر اسود کے علاوہ دوسری چیزیں جنت سے نہیں آئیں۔
(2) امور دین میں شارع علیہ السلام کی اتباع واجب ہے، چاہے ہمیں اس کام کی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔
(3) اگر عوام کا عقیدے کی خرابی میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو تو امام یا عالم کو اپنے ایسے عمل کی وضاحت کر دینی چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2940
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:9
عبداللہ بن سرجس بیان کرتے ہیں: میں نے ”آگے سے کم بالوں والے“ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ حجر اسود کے پاس آئے انہوں نے اس کا بوسہ لیا پھر وہ بولے: ”اللہ کی قسم! میں یہ بات جانتا ہوں کہ تم ایک پتھر ہو تم کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے اگر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہیں بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا، تو میں تمہیں بوسہ نہ دیتا۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:9]
فائدہ:
طواف کعبہ کے دوران حجر اسود کا بوسہ لینا مسنون ہے، ضروری نہیں ہے جیسا کہ بعض عامی لوگوں کا خیال ہے۔
اگر آسانی سے بوسہ دینا ممکن ہو تو بہتر ہے، ورنہ چھڑی یا ہاتھ حجر اسود کو لگا کر اسے بوسہ دیا جائے، اگر یہ صورت بھی ناممکن ہو، تب حجر اسود کی طرف اشارہ کر کے گزر جانا چاہیے۔ اس صورت میں اپنے ہاتھ کو بوسہ نہ دیا جائے۔
نیز اس حدیث میں سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے عقیدہ توحید کے ایک اہم مسئلہ کو بھی حل کر دیا کہ جو لوگ بتوں یا مزاروں، درختوں یا بزرگوں کی طرف منسوب چیزوں کو حصول برکت کے لیے چھوتے ہیں، یہ ان کی غلطی ہے۔ مسلمان حجر اسود کو چھوتے ہیں، یہ صرف اس مقصد کے لیے چھوتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو چھوا ہے، اس سے صرف اتباع سنت مقصود ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ حجر اسود کے سوا بیت اللہ کے کسی بھی حصے کو چومنا درست نہیں ہے، رکن یمانی کو صرف چھونا مسنون ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 9
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1597
1597. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ وہ حجراسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا: میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے۔ کسی کو نفع یا نقصان پہنچانا تیرے بس میں نہیں۔ اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتاتو میں بھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1597]
حدیث حاشیہ:
حجر اسود وہ کالا پتھر ہے جو کعبہ کے مشرقی کونے میں لگا ہوا ہے۔
صحیح حدیث میں ہے کہ حجر اسود جنت کا پتھر ہے۔
پہلے وہ دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا پھر لوگوں کے گناہوں نے اس کو کالا کردیا۔
حاکم کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر ؓ کی یہ بات سن کر علی ؓ نے فرمایا تھا اے امیرالمؤمنین! یہ پتھر بگاڑ اور فائدہ کرسکتا ہے، قیامت کے دن اس کی آنکھیں ہوں گی اور زبان اور ہونٹ اور وہ گواہی دے گا۔
حضرت عمر ؓ نے یہ سن کر فرمایا:
ابوالحسن! جہاں تم نہ ہو وہاں اللہ مجھ کو نہ رکھے۔
ذہبی نے کہا کہ حاکم کی روایت ساقط ہے۔
خود مرفوع حدیث میں آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے بھی حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت ایسا ہی فرمایا تھا۔
اور حضرت ابوبکر ؓ نے بھی ایسا ہی کہا۔
أخرجه ابن أبي شیبة اس کا مطلب یہ کہ تیرا چومنا محض آنحضرت ﷺ کی اتباع کی نیت سے ہے۔
اس روایت سے صاف یہ نکلا کہ قبروں کی چوکھٹ چومنایا قبروں کی زمین چومنا یا خود قبر کو چومنا یہ سب ناجائز کام ہیں۔
بلکہ بدعات سيئہ ہیں۔
کیونکہ حضرت عمر نے حجر اسود کو صرف اس لیے چوما کہ آنحضرت ﷺ نے اسے چوما تھا اور آنحضرت ﷺ یا صحابہ سے کہیں منقول نہیں ہے کہ انہوں نے قبر کا بوسہ لیا ہو۔
یہ سب کام جاہلوں نے نکالے ہیں اور شرک ہیں کیونکہ جن کی قبروں کو چومتے ہیں ان کو اپنے نفع نقصان کا مالک گردانتے ہیں اور ان کی دہائی دیتے اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں۔
لہٰذا شرک ہونے میں کیا کلام ہے۔
کوئی خالص محبت سے چومے تو یہ بھی غلط اور بدعت ہوگا اس لیے کہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ سے کہیں کسی قبر کو چومنے کا ثبوت نہیں ہے۔
علامہ حافظ ابن حجر ؓ فرماتے ہیں:
قال الطبري إنما قال ذلك عمر لأن الناس كانوا حديثي عهد بعبادة الأصنام فخشي عمر أن يظن الجهال أن استلام الحجر من باب تعظيم بعض الأحجار كما كانت العرب تفعل في الجاهلية فأراد عمر أن يعلم الناس أن استلامه اتباع لفعل رسول الله صلى الله عليه وسلم لا لأن الحجر ينفع ويضر بذاته كما كانت الجاهلية تعتقده في الأوثان۔
(فتح الباري)
یہ وہ تاریخی پتھر ہے جسے حضرت ابراہیم ؑ اور آپ کے بیٹے حضرت اسمعیل ؑ کے مبارک جسموں سے مس ہونے کا شرف حاصل ہے۔
جس وقت خانہ کعبہ کی عمارت بن چکی تو حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت اسمٰعیل ؑ سے کہا کہ ایک پتھر لاؤ تاکہ اس کو ایسے مقام پر لگادوں جہاں سے طواف شروع کیا جائے۔
تاریخ مکہ میں ہے:
فقال إبراهیم لإسمعیل علیهما السلام یا إسماعیل ایتني بحجر أضعه حتی یکون علما للناس یبتدون منه الطواف۔
یعنی حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کہا کہ ایک پتھر لاؤ تاکہ میں ایسی جگہ نصب کر دوں جہاں سے لوگ طواف شروع کریں۔
بعض روایات کی بناپر اس پتھر کی تاریخ حضرت آدم ؑ کے جنت سے ہبوط کے ساتھ ساتھ شروع ہوتی ہے۔
چنانچہ طوفان نوح کے وقت یہ پتھر بہہ کر کوہ ابوقبیس پر چلا گیا تھا۔
اس موقع پر کوہ ابو قبیس سے صدا بلند ہوئی کہ اے ابراہیم! یہ امانت ایک مدت سے میرے سپرد ہے۔
آپ نے وہاں سے اس پتھر کو حاصل کرکے کعبہ کے ایک کونہ میں نصب کردیا اور کعبہ شریف کا طواف کرنے کے لیے اس کو شروع کرنے اور ختم کرنے کا مقام ٹھہرایا۔
حاجیوں کے لیے حجر اسود کو بوسہ دینا یا ہاتھ لگانا یہ کام مسنون اور کار ثواب ہیں۔
قیامت کے دن یہ پتھر ان لوگوں کی گواہی دے گا جو اللہ کے گھر کی زیارت کے لیے آتے ہیں اور اس کو ہاتھ لگا کر حج یا عمرہ کی شہادت ثبت کراتے ہیں۔
بعض روایات کی بناپر عہد ابراہیمی میں پیمان لینے کا یہ عام دستور تھا ایک پتھر رکھ دیا جاتا جس پر لوگ آکر ہاتھ مارتے۔
اس کے معنے یہ ہوتے کہ جس عہد کے لیے وہ پتھر گاڑا گیا ہے اس کو انہوں نے تسلیم کرلیا۔
بلکہ اپنے دلوں میں اس پتھر کی طرح مضبوط گاڑلیا۔
اسی دستور کے موافق حضرت ابراہیم ؑ نے مقتدی قوموں کے لیے یہ پتھر نصب کیا تاکہ جو شخص بیت اللہ شریف میں داخل ہو اس پتھر پر ہاتھ رکھے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے توحید الٰہی کے بیان کو قبول کرلیا۔
اگر جان بھی دینی پڑے گی تو اس سے منحرف نہ ہوگا۔
گویا حجر اسود کا استلام اللہ تعالیٰ سے بیعت کرنا ہے۔
اس تمثیل کی تصریح ایک حدیث میں یوں آئی ہے:
عن ابن عباس مرفوعا الْحَجَرُ الْأَسْوَدُ یمینُ اللہِ فی أرضهِ یُصافحُ بهِ خَلقَهُ (طبراني)
حضرت ابن عباس ؓ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حجر اسود زمین میں گویا اللہ کا دایاں ہاتھ ہے۔
جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے مصافحہ فرماتا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ کی دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں «نَزَلَ الحَجَرُ الأَسْوَدُ مِنَ الجَنَّةِ، وَهُوَ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ فَسَوَّدَتْهُ خَطَايَا بَنِي آدَمَ» (رواہ أحمد والترمذي)
یعنی حجر اسود جنت سے نازل ہوا تو دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا مگر انسانوں کی خطا کاریوں نے اس کو سیاہ کردیا۔
اس سے حجر اسود کی شرافت وبزرگی مراد ہے۔
ایک روایت میں یوں آیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس تاریخی پتھر کو نطق اور بصارت سے سرفراز کرے گا۔
جن لوگوں نے حقانیت کے ساتھ توحید الٰہی کا عہد کرتے ہوئے اس کو چوما ہے، ان پر یہ گواہی دے گا۔
ان فضائل کے باوجود کسی مسلمان کا یہ عقیدہ نہیں کہ یہ پتھر معبود ہے اس کے اختیار میں نفع وضرر ہے۔
ایک دفعہ حضرت فاروق اعظم ؓ نے حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے صاف اعلان فرمایا کہ «إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ، لاَ تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ، وَلَوْلاَ أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ» (رواہ الستة وأحمد)
یعنی میں خوب جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے، تیرے قبضے میں نہ کسی کا نفع ہے نہ نقصان اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بھی بوسہ نہ دیتا۔
علامہ طبری مرحوم لکھتے ہیں:
قال الطبري إنما قال ذلك عمر لأن الناس كانوا حديثي عهد بعبادة الأصنام فخشي عمر أن يظن الجهال أن استلام الحجر من باب تعظيم بعض الأحجار كما كانت العرب تفعل في الجاهلية فأراد عمر أن يعلم الناس أن استلامه اتباع لفعل رسول الله صلى الله عليه وسلم لا لأن الحجر ينفع ويضر بذاته كما كانت الجاهلية تعتقده في الأوثان۔
یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اعلان اس لیے کیا کہ اکثر لوگ بت پرستی سے نکل کر قریبی زمانہ میں اسلام کے اندر داخل ہوئے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خطرے کو محسوس کرلیا کہ جاہل لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق پتھروں کی تعظیم ہے۔
اس لیے آپ نے لوگوں کو آگاہ کیا کہ حجر اسود کا استلام صرف اللہ کے رسول کی اتباع میں کیا جاتا ہے ورنہ حجر اسود اپنی ذات میں نفع یا نقصان پہنچانے کی کوئی طاقت نہیں رکھتا، جیساگ عہد جاہلیت کے لوگ بتوں کے بارے میں اعتقاد رکھتے تھے۔
ابن ابی شیبہ اور دار قطنی نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے بھی یہی الفاظ نقل کئے ہیں کہ آپ نے بھی حجر اسود کے استلام کے وقت یوں فرمایا ”میں جانتا ہوں کہ تیری حقیقت ایک پتھر سے زیادہ کچھ نہیں۔
نفع یا نقصان کی کوئی طاقت تیرے اندر نہیں ہے۔
اگر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی تجھ کو بوسہ نہ دیتا۔
“ بعض محدثین نے خود نبی کریم ﷺ کے بھی یہ الفاظ نقل فرمائے ہیں کہ آپ ﷺ نے حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا:
”میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے جس میں نفع ونقصان کی تاثیر نہیں ہے۔
اگر مجھے میرے رب کا حکم نہ ہوتاتو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔
“ اسلامی روایات کی روشنی میں حجر اسود کی حیثیت ایک تاریخی پتھر کی ہے جس کو اللہ کے خلیل ابراہیم ؑ نے خانہ خدا کی تعمیر کے وقت ایک ”بنیادی پتھر“ کی حیثیت سے نصب کیا۔
اس لحاظ سے دین حنیف کی ہزارہا سالہ تاریخ اس پتھر کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہے۔
اہل اسلام اس کی جو بھی تعظیم استلام وغیرہ کی شکل میں کرتے ہیں وہ سب کچھ صرف اسی بنا پر ہے۔
ملت ابراہیمی کا اللہ کے ہاں مقبول ہونا اور مذہب اسلام کی حقانیت پر بھی یہ پتھر ایک تاریخی شاہد عادل کی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
جس کو ہزارہا سال کے بے شمار انقلابات فنا نہ کرسکے۔
وہ جس طرح ہزاروں برس پہلے نصب کیا گیا تھا آج بھی اسی شکل میں اسی جگہ تمام دنیا کے حوادثات وانقلابات کا مقابلہ کرتے ہوئے موجود ہے۔
اس کو دیکھنے سے اس کو چومنے سے ایک سچے مسلمان موحد کی نظروں کے سامنے دین حنیف کے چار ہزار سالہ تاریخی اوراق یکے بعد دیگرے الٹنے لگ جاتے ہیں۔
حضرت خلیل اللہ اور حضرت ذبیح اللہ ؑ کی پاک زندگیاں سامنے آکر معرفت حق کی نئی نئی راہیں دماغوں کے سامنے کھول دیتی ہیں۔
روحانیت وجد میں آجاتی ہے۔
توحید پرستی کا جذبہ جوش مارنے لگتا ہے۔
حجر اسود بنائے توحید کا ایک بنیادی پتھر ہے ”دعائے خلیل ونوید مسیحا“ حضرت سیدالانبیاء ﷺ کی صداقت کے اظہار کے لیے ایک غیر فانی یادگار ہے۔
اس مختصر سے تبصرہ کے بعد کتاب اللہ وسنت رسول اللہ ﷺ کی روشنی میں اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ مصنوعات الٰہیہ میں جو چیز بھی محترم ہے وہ بالذات محترم نہیں ہے بلکہ پیغمبر اسلام کی تعلیم وارشاد کی وجہ سے محترم ہے۔
اسی کلیہ کے تحت خانہ کعبہ، حجر اسود، صفا مروہ وغیرہ وغیرہ محترم قرار پائے۔
اسی لیے اسلام کا کوئی فعل بھی جس کو وہ عبادت یا لائق عظمت قرار دیتا ہو، ایسا نہیں ہے جس کی سند سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے واسطے سے حق تعالیٰ تک نہ پہنچتی ہو۔
اگر کوئی مسلمان ایسا فعل ایجاد کرے جس کی سند پیغمبر ؑ تک نہ پہنچتی ہوتو وہ فعل نظروں میں کیسا بھی پیارا اور عقل کے نزدیک کتنا ہی مستحسن کیوں نہ ہو، اسلام فوراً اس پر بدعت ہونے کا حکم لگا دیتا ہے اور صرف اس لیے اس کو نظروں سے گرادیتا ہے کہ اس کی سند حضرت رسول خدا تک نہیں پہنچتی بلکہ وہ ایک غیر ملہم انسان کا ایجاد کیا ہوا فعل ہے۔
اسی پاک تعلیم کا اثر ہے کہ سارا کعبہ باوجود یکہ ایک گھر ہے حجر اسود اور رکن یمانی وملتزم پر پیغمبراسلام ؑ نے جو طریق استلام یا چمٹنے کا بتلایا ہے مسلمان اس سے انچ بھر آگے نہیں بڑھتے۔
نہ دوسری دیواروں کے پتھروں کو چومتے ہیں۔
کیونکہ مسلمان مخلوقات الٰہیہ کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں پیغمبر ﷺ کے ارشاد وعمل کے تابع ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1597
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1597
1597. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ وہ حجراسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا: میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے۔ کسی کو نفع یا نقصان پہنچانا تیرے بس میں نہیں۔ اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتاتو میں بھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1597]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت عمر ؓ صرف اتباع کی نیت سے حجراسود کو بوسہ دیتے تھے۔
اس سے معلوم ہوا کہ قبروں کی چوکھٹ یا ان کی زمین کو چومنا بدعت اور جہالت کے کام ہیں۔
اسلامی روایات کے مطابق حجراسود کی حیثیت ایک تاریخی پتھر کی ہے۔
اہل اسلام اس کی جو تعظیم استلام کی صورت میں بجا لاتے ہیں وہ صرف اس بنا پر ہے کہ مذہب اسلام کی حقانیت پر یہ پتھر ایک تاریخی شاہد عادل کی حیثیت رکھتا ہے جسے ہزاروں سال کے انقلابات ختم نہ کر سکے۔
رسول اللہ ﷺ کی پاکیزہ تعلیمات کا اثر ہے کہ مسلمان ان سے سرمو انحراف نہیں کرتے اور نہ دوسری دیواروں کے پتھروں ہی کو چومتے ہیں کیونکہ مسلمان مخلوق کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے تابع ہوتا ہے۔
مخلوق میں سے جو چیز محترم ہوتی ہے وہ بالذات نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کی وجہ سے اسے قابل احترام سمجھا جاتا ہے۔
اسی وجہ سے بیت اللہ، حجراسود اور صفا مروہ وغیرہ محترم قرار پاتے ہیں۔
اگر کوئی کام ایسا ہو جس کی سند رسول اللہ ﷺ تک نہ پہنچتی ہو تو اسلام اسے بدعت کہتا ہے۔
حضرت عمر ؓ نے حجراسود کو چومتے وقت اسی حقیقت کو اجاگر فرمایا ہے کہ ذاتی طور پر یہ ایک پتھر ہے جو کسی کے نفع یا نقصان کا مالک نہیں۔
ہم اس کی جو تعظیم چومنے کی صورت میں بجا لاتے ہیں وہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور آپ کی سنت کے اتباع کا نتیجہ ہے اور کچھ نہیں۔
(2)
امام بخاری ؒ کو حجراسود کے متعلق صرف یہی روایت ان کی قائم کردہ شرائط کے مطابق دستیاب ہوئی ورنہ اس کے متعلق کتب حدیث میں متعدد روایات موجود ہیں، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ مرفوعا بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن حجراسود کی زبان اور دو ہونٹ ہوں گے اور جس نے اخلاص نیت سے اسے بوسہ دیا ہو گا، اس کے متعلق یہ پتھر حق پر ہونے کی گواہی دے گا۔
(صحیح ابن خزیمة: 220/4)
حدیث میں ہے کہ حجراسود جنت کا پتھر ہے۔
یہ برف سے زیادہ سفید تھا لیکن ابن آدم کی خطاؤوں نے اسے سیاہ کر دیا ہے۔
(صحیح ابن خزیمة: 220/4، والصحیحة للألباني، حدیث: 2618)
محب طبری نے کہا ہے کہ اس سے لوگوں کو عبرت لینی چاہیے کہ اگر انسانوں کے گناہ ایک پتھر کو سیاہ کر سکتے ہیں تو اس کے دل کو سیاہ کیوں نہیں کر سکتے، لہذا لوگوں کو اللہ کی نافرمانی سے بچنا چاہیے۔
(فتح الباري: 584/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1597