سنن ترمذي
كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
66. باب مَا جَاءَ فِي تَأْخِيرِ قَضَاءِ رَمَضَانَ
باب: صیام رمضان کی قضاء دیر سے کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 783
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيل السُّدِّيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الْبَهِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " مَا كُنْتُ أَقْضِي مَا يَكُونُ عَلَيَّ مِنْ رَمَضَانَ إِلَّا فِي شَعْبَانَ حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وَقَدْ رَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ نَحْوَ هَذَا.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رمضان کے جو روزے مجھ پر رہ جاتے انہیں میں شعبان ہی میں قضاء کر پاتی تھی۔ جب تک کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات نہیں ہو گئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 16293)، وانظر مسند احمد (6/124، 131، 170)، وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/ /الصوم 40 (1950)، صحیح مسلم/الصوم 26 (1146)، سنن ابی داود/ الصیام 40 (2399)، سنن النسائی/الصیام 64 (2331)، سنن ابن ماجہ/الصیام 13 (1669) من غیر ھذا الطریق و بسیاق آخر (صحیح) (سند میں اسماعیل سدی کے بارے میں قدرے کلام ہے، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»
قال الشيخ الألباني: **
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 783 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 783
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں اسماعیل سدی کے بارے میں قدرے کلام ہے،
لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 783
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2691
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم میں سے ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں روزہ (حیض وغیرہ) کی بنا پر افطار کرتی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں شعبان کی آمد تک قضائی نہیں دے سکتی تھی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2691]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کے رمضان کے روزے کسی سبب،
مرض،
سفر یا مجبوری اور عذر حیض ونفاس،
حمل وغیرہ کے سبب رہ جائیں تو ان کا رمضان کے فوراً بعد رکھنا ضروری نہیں ہے۔
اگلے رمضان کی آمد سے پہلے پہلے،
جب چاہے وہ روزے رکھ سکتا ہے۔
ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے شرف کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتی تھیں،
اس لیے وہ شعبان ہی میں روزوں کی قضائی دیتی تھیں،
کیونکہ اس ماہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت روزے رکھتے تھے ائمہ اربعہ کا مؤقف یہی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2691