Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْوَصَايَا
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
2. بَابُ أَنْ يَتْرُكَ وَرَثَتَهُ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَتَكَفَّفُوا النَّاسَ:
باب: اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔
حدیث نمبر: 2742
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، وَهُوَ يَكْرَهُ أَنْ يَمُوتَ بِالْأَرْضِ الَّتِي هَاجَرَ مِنْهَا، قَالَ: يَرْحَمُ اللَّهُ ابْنَ عَفْرَاءَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ، قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَالشَّطْرُ، قَالَ: لَا، قُلْتُ: الثُّلُثُ، قَالَ: فَالثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ فِي أَيْدِيهِمْ، وَإِنَّكَ مَهْمَا أَنْفَقْتَ مِنْ نَفَقَةٍ فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ حَتَّى اللُّقْمَةُ الَّتِي تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ، وَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَكَ فَيَنْتَفِعَ بِكَ نَاسٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ يَوْمَئِذٍ إِلَّا ابْنَةٌ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا سعد بن ابراہیم سے ‘ ان سے عامر بن سعد نے اور ان سے سعد بن ابی وقاص نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (حجۃ الوداع میں) میری عیادت کو تشریف لائے ‘ میں اس وقت مکہ میں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سر زمین پر موت کو پسند نہیں فرماتے تھے جہاں سے کوئی ہجرت کر چکا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ ابن عفراء (سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ) پر رحم فرمائے۔ میں عرض کیا یا رسول اللہ! میں اپنے سارے مال و دولت کی وصیت کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں میں نے پوچھا پھر آدھے کی کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بھی یہی فرمایا نہیں میں نے پوچھا پھر تہائی کی کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تہائی کی کر سکتے ہو اور یہ بھی بہت ہے ‘ اگر تم اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ‘ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب تم اپنی کوئی چیز (اللہ کے لیے خرچ کرو گے) تو وہ خیرات ہے ‘ یہاں تک کہ وہ لقمہ بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے (وہ بھی خیرات ہے) اور (ابھی وصیت کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں) ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں شفاء دے اور اس کے بعد تم سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہو اور دوسرے بہت سے لوگ (اسلام کے مخالف) نقصان اٹھائیں۔ اس وقت سعد رضی اللہ عنہ کی صرف ایک بیٹی تھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2742 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2742  
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد ؓ اس بیماری میں نا امید ی کی حالت کو پہنچ چکے تھے۔
آپ نے آنحضرت ﷺ کے سامنے سارے مال کے وقف کردینے کا خیال ظاہرکیا مگر آنحضرت ﷺ نے آپ کی ڈھارس بند ھائی اور آپ ﷺ کی صحت کی بشارت دی چنانچہ آپ بعد میں تقریباً پچاس سال زندہ دہے اور تاریخ اسلام میں آپ نے بڑے عظیم کارنامے انجام دیئے (رضي اللہ عنه)
مورخین نے ان کے دس بیٹے اور بارہ بیٹیاں بتلائی ہیں۔
واﷲ أعلم با لصواب
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2742   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2742  
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے حدیث کے الفاظ ہی کو عنوان قرار دیا ہے، شاید ان کا مقصد یہ ہو کہ جس کے پاس مال تھوڑا ہو یا بالکل نہ ہو اس شخص کا وصیت کرنا اچھا نہیں۔
(فتح الباري: 445/5)
بعض لوگ دینی طور پر بڑے انتہا پسند ہوتے ہیں۔
انہیں اپنے شرعی ورثاء کو محروم کر کے اپنی آخرت بنانے کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس فکر کو پسند نہیں فرمایا۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وصیت ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
اگر کوئی اس حد سے بڑھ جائے تو اسے نافذ نہیں کیا جائے گا جبکہ اس کے وارث موجود ہوں، ہاں اگر وارث اجازت دے دیں تو ایک تہائی سے زیادہ وصیت نافذ کی جا سکتی ہے، نیز اگر اس کے وارث نہ ہوں تو بھی تہائی سے زائد وصیت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(3)
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کا مذکورہ واقعہ فتح مکہ کا ہے یا حجۃ الوداع کا، اس سلسلے میں مختلف روایات ہیں۔
ممکن ہے دونوں مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا ہو۔
پہلی مرتبہ فتح مکہ کے موقع پر ایسا ہوا جبکہ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی اور دوسری دفعہ حجۃ الوداع میں بیمار ہوئے جبکہ ان کے ہاں صرف ایک بیٹی تھی۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں چالیس سال تک زندہ رکھا۔
ان کے چار بیٹے اور بارہ بیٹیاں تھیں۔
انہوں نے ایران فتح کیا۔
کوفہ کے گورنر بنے۔
غنیمتوں سے مسلمانوں کو مالامال کیا اور کفار و مشرکین کو ان کے جنگ و قتال سے زبردست نقصان اٹھانا پڑا۔
آپ مستجاب الدعوات تھے، یعنی اللہ تعالیٰ آپ کی دعا قبول فرماتا تھا چنانچہ کوفہ کے ایک شکایت کرنے والے کو آپ کی بددعا سے بہت نقصان ہوا۔
(فتح الباري: 446/5 447)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2742