Note: Copy Text and to word file

سنن ترمذي
كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
12. باب مَا جَاءَ إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ وَأَدْبَرَ النَّهَارُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ
باب: جب رات آ جائے اور دن چلا جائے یعنی سورج ڈوب جائے تو صائم افطار کرے۔
حدیث نمبر: 698
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ وَأَدْبَرَ النَّهَارُ وَغَابَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرْتَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى، وَأَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب رات آ جائے، اور دن چلا جائے اور سورج ڈوب جائے تو تم نے افطار کر لیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عمر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن ابی اوفی اور ابو سعید خدری سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 43 (1954)، صحیح مسلم/الصیام 10 (1100)، سنن ابی داود/ الصیام 19 (2351)، 28، 35، (تحفة الأشراف: 10474)، مسند احمد (1/48)، سنن الدارمی/الصوم 11 (1742) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: تم نے افطار کر لیا کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ تمہارے روزہ کھولنے کا وقت ہو گیا، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم شرعاً روزہ کھولنے والے ہو گئے خواہ تم نے کچھ کھایا پیا نہ ہو کیونکہ سورج ڈوبتے ہی روزہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا اس میں روزہ کے وقت کا تعین کر دیا گیا ہے کہ وہ صبح صادق سے سورج ڈوبنے تک ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2036) ، الإرواء (916)

وضاحت: ۱؎: تم نے افطار کر لیا کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ تمہارے روزہ کھولنے کا وقت ہو گیا، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم شرعاً روزہ کھولنے والے ہو گئے خواہ تم نے کچھ کھایا پیا نہ ہو کیونکہ سورج ڈوبتے ہی روزہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا اس میں روزہ کے وقت کا تعین کر دیا گیا ہے کہ وہ صبح صادق سے سورج ڈوبنے تک ہے۔
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 698 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 698  
اردو حاشہ:
1؎:
تم نے افطار کر لیا کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ تمہارے روزہ کھولنے کا وقت ہو گیا،
اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم شرعاً روزہ کھولنے والے ہو گئے خواہ تم نے کچھ کھایا پیا نہ ہو کیونکہ سورج ڈوبتے ہی روزہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا اس میں روزہ کے وقت کا تعین کر دیا گیا ہے کہ وہ صبح صاد ق سے سورج ڈوبنے تک ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 698   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2558  
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب رات آ جائے اور دن چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزے دار کے افطار کا وقت ہو گیا ابن نمیر نے فقد کا لفظ بیان نہیں کیا یعنی صرف افطر کہا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2558]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جب مشرق میں اندھیرا ہو جائے اور مغرب میں روشنی ختم ہو جائے اور سورج غروب ہو جائے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ روزہ کا وقت پورا ہو گیا اور اب شرعی طور پر روزہ کا اختتام ہوگیا۔
کیونکہ دن جس میں روزہ رکھنا ہوتا ہے اختتام کو پہنچ گیا ہے اس لیے اب روزہ جاری رکھنے کا وقت نہیں رہا۔
اس لیے روزہ دار کو روزہ کھول دینا چاہیے اپنی طرف سے غلو اور افراط کا شکار ہو کر بلاضرورت اور بلاوجہ روزہ برقرار نہیں رکھنا چاہیے جبکہ اس کا وقت ہی باقی نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2558   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1954  
1954. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب ادھر سے رات آجائے اور ادھر سے دن چلا جائے، نیز سورج غروب ہوجائے تو روزہ دار اپنا روزہ افطار کردے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1954]
حدیث حاشیہ:
حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے، حضرت سفیان بن عیینہ جو یہاں بھی سند میں آئے ہیں 107ھ میں ماہ شعبان میں کوفہ میں ان کی ولادت ہوئی۔
امام، عالم، زاہد، پرہیزگار تھے، ان پر جملہ محدثین کا اعتماد تھا۔
جن کا متفقہ قول ہے کہ اگر امام مالک اور سفیان بن عیینہ نہ ہوتے تو حجاز کا علم نابود ہو جاتا۔
198ھ میں یکم رجب کو مکہ مکرمہ میں ان کا انتقال ہوا اور حجون میں دفن کئے گئے انہوں نے ستر حج کئے تھے۔
رحمھم اللہ أجمعین (آمین)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1954