سنن ترمذي
كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
25. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الصَّدَقَةِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلِ بَيْتِهِ وَمَوَالِيهِ
باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم، اہل بیت اور آپ کے موالی سب کے لیے زکاۃ لینے کی حرمت۔
حدیث نمبر: 657
حَدَّثَنَا مُحَمّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ ابْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ رَجُلًا مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَقَالَ لِأَبِي رَافِعٍ: اصْحَبْنِي كَيْمَا تُصِيبَ مِنْهَا، فَقَالَ: لَا حَتَّى آتِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْأَلَهُ، فَانْطَلَقَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: " إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَحِلُّ لَنَا وَإِنَّ مَوَالِيَ الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْمُهُ: أَسْلَمُ، وَابْنُ أَبِي رَافِعٍ هُوَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ، كَاتِبُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
ابورافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی مخزوم کے ایک شخص کو صدقہ کی وصولی پر بھیجا تو اس نے ابورافع سے کہا: تم میرے ساتھ چلو تاکہ تم بھی اس میں سے حصہ پاس کو، مگر انہوں نے کہا: نہیں، یہاں تک کہ میں جا کر رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لوں، چنانچہ انہوں نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر پوچھا تو آپ نے فرمایا:
”ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں، اور قوم کے موالی بھی قوم ہی میں سے ہیں
“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابورافع نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے مولیٰ ہیں، ان کا نام اسلم ہے اور ابن ابی رافع کا نام عبیداللہ بن ابی رافع ہے، وہ علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کے منشی تھے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الزکاة 29 (1650)، سنن النسائی/الزکاة 97 (2613)، (تحفة الأشراف: 12018)، مسند احمد (6/10) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس اصول کے تحت ابورافع کے لیے صدقہ لینا جائز نہیں ہوا کیونکہ ابورافع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مولیٰ تھے، لہٰذا وہ بھی بنی ہاشم میں سے ہوئے اور بنی ہاشم کے لیے صدقہ لینا جائز نہیں ہے۔ بنی ہاشم، بنی فاطمہ اور آل نبی کی طرف منسوب کرنے والے آج کتنے ہزار لوگ ہیں جو لوگوں سے زکاۃ وصدقات کا مال مانگ مانگ کر کھاتے ہیں، اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ”شاہ جی“ ہوتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (1829) ، الإرواء (3 / 365 و 880) ، الصحيحة (1612)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 657 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 657
اردو حاشہ:
1؎:
اس اصول کے تحت ابو رافع کے لیے صدقہ لینا جائز نہیں ہوا کیونکہ ابو رافع رسول اللہ ﷺ کے مولیٰ تھے،
لہذا وہ بھی بنی ہاشم میں سے ہوئے اور بنی ہاشم کے لیے صدقہ لینا جائز نہیں ہے۔
بنی ہاشم،
بنی فاطمہ اور آل نبی کی طرف منسوب کرنے والے آج کتنے ہزار لوگ ہیں جو لوگوں سے زکاۃ و صدقات کا مال مانگ مانگ کر کھاتے ہیں،
اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ”شاہ جی“ ہوتے ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 657
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2613
´لوگوں کا غلام بھی انہیں میں شمار ہو گا۔`
ابورافع رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی مخزوم کے ایک شخص کو صدقہ پر عامل مقرر فرمایا، تو ابورافع نے بھی اس کے ساتھ جانا چاہا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ ہمارے لیے حلال نہیں ہے، لوگوں کا غلام بھی انہیں میں سے شمار ہوتا ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2613]
اردو حاشہ:
یہ ابو رافع رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے، بلکہ انھیں اس نسبت سے ہاشمی بھی کہہ دیا جاتا تھا۔ مذکورہ حدیث سے بھی تائید ہوتی ہے کہ کسی قوم کے آزاد کردہ غلام یا بھانجے کو ان کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے، اگرچہ وہ نسباً ان سے نہیں کیونکہ محض نسبت کے لیے اتنا تعلق بھی کافی ہے۔ ابو رافع کا زکاۃ کا اہل قرار نہ دینے سے بھانجے کے بارے میں امام نسائی رحمہ اللہ کے استنباط کو قوت پہنچتی ہے کیونکہ جب آزاد کردہ غلام بنو ہاشم کا حکم رکھتا ہے تو بھانجا کیوں نہ رکھے گا؟
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2613