سنن ترمذي
أبواب السفر
کتاب: سفر کے احکام و مسائل
54. باب مَا جَاءَ فِي السَّجْدَةِ فِي الْحَجِّ
باب: سورۃ الحج کے سجدے کا بیان۔
حدیث نمبر: 578
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ مِشْرَحِ بْنِ هَاعَانَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فُضِّلَتْ سُورَةُ الْحَجِّ بِأَنَّ فِيهَا سَجْدَتَيْنِ، قَالَ: " نَعَمْ، وَمَنْ لَمْ يَسْجُدْهُمَا فَلَا يَقْرَأْهُمَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِذَاكَ الْقَوِيِّ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا، فَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُمَا قَالَا: فُضِّلَتْ سُورَةُ الْحَجِّ بِأَنَّ فِيهَا سَجْدَتَيْنِ، وَبِهِ يَقُولُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وَرَأَى بَعْضُهُمْ فِيهَا سَجْدَةً، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكٍ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سورۃ الحج کو یہ شرف بخشا گیا ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں۔ آپ نے فرمایا:
”ہاں، جو یہ دونوں سجدے نہ کرے وہ اسے نہ پڑھے
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کی سند کوئی خاص قوی نہیں ہے،
۲- اس سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، عمر بن خطاب اور ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ سورۃ الحج کو یہ شرف بخشا گیا ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں۔ ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں،
۳- اور بعض کی رائے ہے کہ اس میں ایک سجدہ ہے۔ یہ سفیان ثوری، مالک اور اہل کوفہ کا قول ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 328 (1402)، (تحفة الأشراف: 9965) (حسن) (”مشرح بن ہاعان“ میں قدرے کلام ہے، مگر خالد بن حمد ان کی روایت سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے /دیکھئے ابی داود رقم: 1265/م)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (250) // هو في ضعيف سنن أبي داود برقم (303 / 1402) ، المشكاة (1030) //
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 578 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 578
اردو حاشہ:
نوٹ:
(”مشرح بن ہاعان“ میں قدرے کلام ہے،
مگر خالد بن حمدان کی روایت سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے /دیکھئے ابی داؤد رقم: 1265/م)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 578
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1402
´سجدہ تلاوت کا بیان اور یہ کہ قرآن کریم میں کتنے سجدے ہیں؟`
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا سورۃ الحج میں دو سجدے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں اور جو یہ دونوں سجدے نہ کرے وہ انہیں نہ پڑھے۔“ [سنن ابي داود/كتاب سجود القرآن /حدیث: 1402]
1402. اردو حاشیہ: اس حدیث سے سورۃ الحج میں دو سجدوں کا اثبات ہوتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1402
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 274
´سجود سہو وغیرہ کا بیان`
سیدنا خالد بن معدان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سورۃ «الحج» کو دو سجدہ تلاوت کی وجہ سے فضیلت دی گئی ہے۔
اس کو ابوداؤد نے مراسیل میں ذکر کیا ہے۔ اور احمد اور ترمذی نے عتبہ بن عامر کی حدیث سے اسے موصول قرار دیا ہے اور اس میں اتنا اضافہ ہے جس نے اس سورۃ کے دونوں سجدے نہ کیے وہ اسے نہ پڑھے۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 274»
تخریج: «أخرجه أبوداود في المراسيل، حديث:70 وسنده ضعيف لإرساله، وأحمد: 4 /151، والترمذي، الجمعة، حديث:578 من حديث عقبة بن عامر، وسنده حسن لذاته.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سورۂ حج کے دونوں سجدے کرنے چاہییں۔
نہ کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ وہ اسے نہ پڑھے۔
اس کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت مستحب ہے اور سجدۂ تلاوت کرنا مسنون ہے۔
ترک سنت سے بہتر ہے کہ مستحب عمل ہی نہ کرے‘ یعنی اس کی تلاوت ہی نہ کرے تاکہ ترک سنت کا مرتکب نہ ہو۔
2. حضرت عمر‘ حضرت عبداللہ بن عمر‘ حضرت عبداللہ بن مسعود‘ حضرت عبداللہ بن عباس‘ حضرت ابوموسیٰ‘ حضرت ابودرداء ‘ حضرت عمار بن یاسر اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سورۂ حج میں دونوں سجدے کرتے تھے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے:
(نیل الأوطار:۳ /۱۱۰) اس لیے اس روایت کو ناقابل عمل کہنا غلط ہے۔
راویٔ حدیث: «خالدبن معدان رحمہ اللہ» ان کی کنیت ابوعبداللہ کَلاعی
(کاف پر فتحہ) ہے۔
حمص کے رہنے والے تھے۔
فقہاء تابعین میں شمار ہوتے ہیں۔
ان کا قول ہے کہ میں نے ستر صحابہ رضی اللہ عنہم سے ملاقات کی ہے۔
ان کی وفات ۱۰۳ یا ۱۰۴ یا ۱۰۸ ہجری میں ہوئی۔
معدان کے میم پر فتحہ اور عین ساکن ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 274