Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الشُّرُوطِ
کتاب: شرائط کے مسائل کا بیان
13. بَابُ الشُّرُوطِ فِي الْوَلاَءِ:
باب: ولاء میں شرط لگانا۔
حدیث نمبر: 2729
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْنِي بَرِيرَةُ، فَقَالَتْ: كَاتَبْتُ أَهْلِي عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُوقِيَّةٌ، فَأَعِينِينِي، فَقَالَتْ: إِنْ أَحَبُّوا أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ وَيَكُونَ وَلَاؤُكِ لِي، فَعَلْتُ، فَذَهَبَتْ بَرِيرَةُ إِلَى أَهْلِهَا، فَقَالَتْ لَهُمْ، فَأَبَوْا عَلَيْهَا، فَجَاءَتْ مِنْ عِنْدِهِمْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ، فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ عَرَضْتُ ذَلِكِ عَلَيْهِمْ، فَأَبَوْا إِلَّا أَنْ يَكُونَ الْوَلَاءُ لَهُمْ، فَسَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَتْ عَائِشَةُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: خُذِيهَا وَاشْتَرِطِي لَهُمُ الْوَلَاءَ، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ، فَفَعَلَتْ عَائِشَةُ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" مَا بَالُ رِجَالٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، مَا كَانَ مِنْ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ قَضَاءُ اللَّهِ أَحَقُّ وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ، وَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، انہوں نے ہشام بن عروہ سے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میرے پاس بریرہ رضی اللہ عنہا آئیں اور کہنے لگیں کہ میں نے اپنے مالک سے نو اوقیہ چاندی پر مکاتبت کر لی ہے، ہر سال ایک اوقیہ دینا ہو گا۔ آپ بھی میری مدد کیجئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اگر تمہارے مالک چاہیں تو میں ایک دم انہیں اتنی قیمت ادا کر سکتی ہوں۔ لیکن تمہاری ولاء میری ہو گی۔ بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے مالکوں کے یہاں گئیں اور ان سے اس صورت کا ذکر کیا لیکن انہوں نے ولاء کے لیے انکار کیا۔ جب وہ ان کے یہاں سے واپس ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے مالکوں کے سامنے یہ صورت رکھی تھی، لیکن وہ کہتے تھے کہ ولاء انہیں کی ہو گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ بات سنی اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو انہیں خرید لے اور انہیں ولاء کی شرط لگانے دے۔ ولاء تو اسی کے ساتھ قائم ہو سکتی ہے جو آزاد کرے۔ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ میں گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کا کوئی پتہ (سند، دلیل) کتاب اللہ میں نہیں ہے ایسی کوئی بھی شرط جس کا پتہ (سند، دلیل) کتاب اللہ میں نہ ہو باطل ہے خواہ سو شرطیں کیوں نہ لگالی جائیں۔ اللہ کا فیصلہ ہی حق ہے اور اللہ کی شرطیں ہی پائیدار ہیں اور ولاء تو اسی کو ملے گی جو آزاد کرے گا۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2729 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2729  
حدیث حاشیہ:
مقصد باب یہ کہ ولاء میں ایسی غلط شرط لگانا منع ہے جس کا کوئی ثبوت کتاب اللہ سے نہ ہو۔
ہاں جائز شرطیں جو فریقین طے کرلیں وہ تسلیم ہوں گی۔
اس روایت میں نو اوقیہ کا ذکر ہے۔
دوسری روایت میں پانچ کا جس کی تطبیق یوں دی گئی ہے کہ شاید نواوقیہ پر معاملہ ہو اور پانچ باقی رہ گئے ہوں جن کے لیے بریرہ ؓ کو حضرت عائشہ ؓ کے پاس آنا پڑا ممکن ہے نو کے لئے راوی کا وہم ہو اور پانچ ہی صحیح ہو۔
روایات سے پہلے خیال کو ترجیح معلوم ہوتی ہے جیسا کہ فتح الباری میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2729   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2729  
حدیث حاشیہ:
(1)
ولا ایک حق ہے جو آزاد کرنے والے کو اپنے آزاد کردہ غلام لونڈی پر حاصل ہوتا ہے۔
اگر آزاد کردہ مر جائے تو آزاد کرنے والا بھی اس کا ایک وارث ہوتا ہے۔
عرب لوگ اس حق کو فروخت کر دیتے اور ہبہ میں دے دیتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔
(2)
اس حدیث کے مطابق ولا میں ایسی غلط شرط لگانا منع ہے جس کا ثبوت کتاب اللہ میں نہ ہو، جائز شرطیں جو فریقین طے کر لیں وہ تسلیم ہوں گی، چنانچہ حضرت بریرہ ؓ کے مالکان نے اپنے لیے ولا کی شرط لگائی، رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا:
تم ان سے ولا کی شرط کر لو لیکن وضاحت کر دی کہ ولا تو اسی کے لیے ہے جو آزاد کرے، غلط شرط کا کوئی اعتبار نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2729   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2233  
´آزاد یا غلام کے نکاح میں موجود لونڈی کی آزادی کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بریرہ کے قصہ میں روایت ہے کہ اس کا شوہر غلام تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو (آزاد ہونے کے بعد) اختیار دے دیا تو انہوں نے اپنے آپ کو اختیار کیا، اگر وہ آزاد ہوتا تو آپ اسے (بریرہ کو) اختیار نہ دیتے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2233]
فوائد ومسائل:
شیخ البانی ؒ کہتے ہیں کہ حدیث میں آخری جملہ: اگر شوہر آزاد ہوتا۔
۔
۔
۔
مدرج ہے جو کہ عروہ کا قول ہے۔
(صحیح سنن أبي داود للألباني، حدیث:2233) تاہم مسئلے کی نوعیت یہی ہے کہ اگر شوہر آزاد ہو تو پھر لونڈی کو اختیار حاصل نہیں ہوگا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2233   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2236  
´آزاد ہونے کے بعد لونڈی کو کب تک اختیار ہے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا آزاد کی گئی اس وقت وہ آل ابواحمد کے غلام مغیث رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا اور اس سے کہا: اگر اس نے تجھ سے صحبت کر لی تو پھر تجھے اختیار حاصل نہیں رہے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2236]
فوائد ومسائل:
یہ روایت ضعیف ہے اس سے یہ مسئلہ ثابت نہیں ہوتا کہ آزاد ہونے والی لونڈی نے آزاد ہونے کے بعد اپنے خاوند سے تعلق زوجیت قائم کرلیا تو اس کا اختیار ختم ہوجائے گا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2236   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2074  
´آزاد ہو جانے کے بعد لونڈی کو اختیار ہے کہ وہ اپنے شوہر کے پاس رہے یا نہ رہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کر دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اختیار دے دیا، (کہ وہ اپنے شوہر کے پاس رہیں یا اس سے جدا ہو جائیں) اور ان کے شوہر آزاد تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2074]
اردو حاشہ:
فائدہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ بات درست نہیں کہ اس کا خاوند آزاد تھا۔
غالباً اس لیے ہمارے فاضل محقق نے اسے ضعیف قراردیا ہے جبکہ دوسرے محققین حضرات نے اس ٹکڑے کے علاوہ باقی حصے کو صحیح کہا ہے۔
صحیح یہ ہے کہ وہ غلام تھا جیسے کہ اگلی دو حدیثوں (2075، 2076)
میں آرہا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2074   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2521  
´مکاتب غلام کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے پاس بریرہ رضی اللہ عنہا آئیں جو مکاتب (لونڈی) تھیں، ان کے مالکوں نے نو اوقیہ پر ان سے مکاتبت کی تھی، عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا: اگر تمہارے مالک چاہیں تو تمہارا بدل مکاتبت میں ایک ہی بار ادا کروں، مگر تمہاری ولاء (میراث) میری ہو گی، چنانچہ بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے مالکوں کے پاس آئیں، اور ان سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے یہ (پیش کش) اس شرط پر منظور کر لی کہ ولاء (میراث) کا حق خود ان کو ملے گا، اس کا تذکرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2521]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حضرت بریرہ کی مکاتبت کی رقم نو اوقیے کے بارے میں یہ طے پایا تھا کہ وہ قسطوں میں ادا کی جائےگی اور سال میں ایک اوقیہ ادا کرنا ہوگا۔ (صیحح البخاري، البیوع، باب اشترط فی البیع شروط لاتحل، حددیث: 2167)

(2)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ کو ان کی ناجائز شرائط تسلیم کرنے کا حکم دیا تاکہ کہیں وہ آزاد کرنے سے انکار نہ کردیں۔

(3)
خلاف شریعت شرط پر فریقین رضا مندی کا اظہار کردیں تب بھی وہ قانونی طور کالعدم ہی ہوتی ہے۔

(4)
کتاب اللہ سے مراد اللہ کا نازل کردہ حکم ہے خواہ وہ قرآن مجید میں مذکور یا رسول للہ ﷺنے قرآن کے علاوہ وحی کی بنیاد پر بیان فرمایا ہو۔

(5)
رسول اللہﷺاس سے پہلےیہ حکم بیان فرم اچکے تھےاس لیے اس حکم کی بنیاد ان کی طے کردہ شرط کالعدم ہونے اعلان فرما دیا۔

(6)
اہم مسئلہ خطبے اور وعظ میں بیان کرنا چاہیے تاکہ سب لوگوں کوعلم ہوجائے۔

(7)
رسول اللہ ﷺنے غلطی پرتنبیہ فرمائی اورغلطی کرنے والے کا نام نہیں لیا تاکہ سب حاضرین کو معلوم ہو جائے یہ عمل غلط ہے اور کرنے واے کی بے عزتی یا رسوائی نہ ہو۔

(8)
ولاءایک تعلق کا نام ہے جو آزاد کرنے اور آزاد ہونے والے کے درمیان قائم ہوتا ہے اس وجہ سے ہونے والا کرنے کے خاندان کا فرد شمار ہوتا ہے۔
اگر آزاد کردہ غلام فوت ہو جائے اور اس کا کوئی نسبی وارث موجود نہ ہو تو اس کا ترکہ آزاد کرنے والے کو ملتا ہے۔

(9)
اگر آزاد کرنے والا فوت ہوجائے تو آزاد کردہ غلام اس کا وارث نہیں ہوتا کیونکہ زیر مطالعہ حدیث میں ارشاد ہے ولاء اس کی ہے جو آزاد کرے۔
واللہ أعلم
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2521   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1154  
´عورت جو آزاد کر دی جائے اور وہ شوہر والی ہو۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ کے شوہر غلام تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو اختیار دیا، تو انہوں نے خود کو اختیار کیا، (عروہ کہتے ہیں) اگر بریرہ کے شوہر آزاد ہوتے تو آپ بریرہ کو اختیار نہ دیتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1154]
اردو حاشہ:
وضاخت: 1 ؎:
نسائی نے سنن میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ آخری فقرہ حدیث میں مدرج ہے،
یہ عروہ کا قول ہے،
اور ابو داؤد نے بھی اس کی وضاحت کر دی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1154   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1155  
´عورت جو آزاد کر دی جائے اور وہ شوہر والی ہو۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ کے شوہر آزاد تھے، پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اختیار دیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1155]
اردو حاشہ:
وضاخت: 1 ؎:
راجح روایت یہی ہے کہ بریرہ کے شوہرغلام تھے اور ان کا نام مغیث تھا حراً کا لفظ وہم ہے کما تقدم۔

نوٹ:

«المحفوظ:
کان زوجھا عبداً حراً کا لفظ بقول بخاری وہم ہے)
حدیث میں بریرہ کے شوہر کو حرا کہاگیا ہے،
یعنی وہ غلام نہیں بلکہ آزاد تھے،
اس لیے یہ ایک کلمہ شاذ ہے،
اور محفوظ اور ثابت روایت عبداً کی ہے یعنی بریرہ کے شوہر مغیث غلام تھے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1155   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:243  
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ باطل شرط نہیں مانی جائے گی، اور باطل شرط پر کی گئی بیع درست نہیں ہوگی۔ ولاء سے مراد وہ تعلق اور نسبت ہے جو مالک اور غلام کے درمیان ہوتی ہے اور اس تعلق کا حق دار آزاد کر نے والا ہی ہوتا ہے، یہ حدیث بہت زیادہ فوائد پر مشتمل ہے، بعض محدثین نے اس کی شرح میں مستقل کتابیں لکھی ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 243   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2563  
2563. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت بریرہ ؓ آئیں اور کہنے لگیں: میں نے اپنے آقاؤں سے نو اوقیے چاندی پر مکاتبت کامعاملہ کیاہے۔ مجھے ہرسال ایک اوقیہ ادا کرناہوگا، لہذا آپ میری مدد کریں۔ حضرت عائشہ نے فرمایا: اگر تیرے مالک پسند کریں تو میں انھیں یہ رقم یکمشت اداکرکے تجھے آزاد کردوں (تو) میں ایسا کرسکتی ہوں لیکن تیری ولا میرے لیے ہوگی، چنانچہ حضرت بریرہ اپنے آقاؤں کے پاس گئیں تو انھوں نے اس صورت سے صاف انکارکردیا مگر یہ کہ ولا ان کے لیے ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ واقعہ سنا تو مجھ سے دریافت کیا، چنانچہ میں نے آپ کو مطلع کیا تو آپ نے فرمایا: تم اسے لے کر آزاد کردو اور ان کے لیے ولا کی شرط کرلو۔ ولاتو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا، اللہ کی حمدوثنا کی، پھر فرمایا: أما بعد!تم میں سے کچھ لوگوں کا عجیب حال ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2563]
حدیث حاشیہ:
نو اوقیہ کا ذکر راوی کا وہم ہے۔
صحیح یہی ہے کہ پانچ اوقیہ پر معاملہ ہوا تھا۔
ممکن ہے شروع میں نو کا ذکر ہوا اور راوی نے اسی کو نقل کردیا ہو۔
یہ مضمون پیچھے مفصل ذکر ہوچکا ہے۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں۔
ویمکن الجمع بأن التسع اصل والخمس کانت بقیت علیها و بهذا أجزم القرطبي والمحب الطبري الخ یعنی اس طرح جمع ممکن ہے کہ اصل میں معاملہ نو پر ہوا ہو اور پانچ باقی رہ گئے ہوں۔
قرطبی اور محب طبری نے اسی تطبیق پر جزم کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2563   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:456  
456. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، ان کے پاس حضرت بریرہ ؓ آئیں اور بدلِ کتابت کے سلسلے میں ان سے سوال کیا۔ اس پر حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: تم اگر چاہو تو میں تمہارے آقا کو بدلِ کتابت (یک مشت) ادا کر دوں لیکن تمہاری ولا کا حق میرے لیے ہو گا۔ حضرت بریرہ‬ ؓ ک‬ے آقاؤں نے (حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے) کہا: اگر آپ چاہیں تو بقیہ رقم ادا کر کے اسے آزاد کرالیں لیکن حق ولا ہمارا ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ جب تشریف لائے تو حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے آپ سے اس بات کا تذکرہ کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: تم اسے (بریرہ‬ ؓ ک‬و) خرید کر آزاد کر دو، بلاشبہ ولا کا وہی حق دار ہے جو آزاد کرتا ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ معاملات میں ایسی شرطیں رکھتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں، جو شخص بھی کوئی شرط لگائے جو کتاب اللہ میں ذکر شدہ شرائط کے مناسب نہیں ہے تو اس کی کوئی حیثیت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:456]
حدیث حاشیہ:

بریرہ ؓ انصار کے کسی قبیلے کی لونڈی تھی اور حضرت عائشہ ؓ کے ہاں اس کا آنا جانا تھا بلکہ فارغ اوقات میں آپ کی خدمت کای کرتی تھی۔
جیسا کہ واقعہ افک سے معلوم ہوتا ہے۔
حضرت بریرہ ؓ کا 9 اوقیہ چاندی کی ادائیگی پر اپنے مالکوں سے آزادی کا تحریری معاہدہ ہوگیا۔
(صحیح البخاري، المکاتب، حدیث: 2563)
جن میں چار اوقیہ انھوں نے یک مشت ادا کردیے اور باقی پانچ اوقیہ سال میں ایک اوقیہ کے حساب سے پانچ سال میں ادا کرنے تھے۔
(صحیح البخاري، المکاتب، حدیث: 2560)
امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مسجد میں برسر منبرخرید وفروخت کے مسائل کی تعلیم دی جاسکتی ہے، مسجد میں عقد بیع کا جواز ثابت کرنا قطعاً مقصود نہیں، جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے شرح تراجم بخاری میں بیان کیا ہے لیکن اس روایت میں رسول اللہ ﷺ نے برسرمنبر جن باتوں کا ذکر کیا ہے، ان میں بیع وشراء کا قطعاً کوئی ذکر نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے برسرمنبر جو ارشادات ہیں وہ بیع وشرا اورعتق وولاء کے قضیے کے بعد بیان ہوئے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے منبر پر اسی گزشتہ معاملے کی طرف اشارہ کرکے مسئلے کی وضاحت فرمائی ہے، لہذا منبرپر اس واقعے کی طرف اشارہ کرنا گویا منبر پر اسے بیان کرنے کے مترادف ہے۔

حدیث کے آخر میں امام بخاری ؒ نے اس کے متعدد طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
دراصل امام بخاری ؒ کے شیخ علی بن عبداللہ المدینی ؒ اس روایت کو اپنے چار شیوخ:
حضرت سفیان بن عیینہ، یحییٰ بن سعید قطان، عبدالوہاب بن عبدالمجید اورجعفر بن عون سے بیان کرتے ہیں۔
یہ حضرات اپنے شیخ یحییٰ بن سعید انصاری سے بیان کرتے ہیں، نیز اس ضمن میں امام بخاری ؒ نے حضرت امام مالک ؒ کے طریق کا بھی حوالہ دیا ہے جو مرسل ہے اور اس میں رسول اللہ ﷺ کے منبر پر چڑھنے کا بھی ذکر نہیں ہے۔
اسی طریق کو آگے امام بخاری ؒ نے موصولاً بھی بیان کیا ہے۔
(صحيح البخاري، المکاتب، حدیث: 2564)
یحییٰ بن سعید قطان اورعبدالوہاب بن عبدالمجید کی سند بھی امام مالک ؒ طرح مرسل اور ذکر منبر کے بغیر ہے۔
جعفر بن عون کی سند اس لیے بیان کی ہے کہ اس میں یحییٰ بن سعیدانصاری کے عمرہ سے سماع کی تصریح اور عمرہ کے حضرت عائشہ ؓ سے سماع کی بھی وضاحت موجود ہے۔
چونکہ حضرت سفیان بن عیینہ کی متصل روایت میں منبر کا تذکرہ تھا، اس لیے اسے اصل قرار دے کر متن میں لےلیا اور باقی اسناد کا بطور تائید حوالہ دے دیاگیا۔
(فتح الباري: 713/1)
نوٹ:
اس حدیث سے متعلق دیگر مباحث کتاب المکاتب میں بیاں ہوں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 456   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2563  
2563. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت بریرہ ؓ آئیں اور کہنے لگیں: میں نے اپنے آقاؤں سے نو اوقیے چاندی پر مکاتبت کامعاملہ کیاہے۔ مجھے ہرسال ایک اوقیہ ادا کرناہوگا، لہذا آپ میری مدد کریں۔ حضرت عائشہ نے فرمایا: اگر تیرے مالک پسند کریں تو میں انھیں یہ رقم یکمشت اداکرکے تجھے آزاد کردوں (تو) میں ایسا کرسکتی ہوں لیکن تیری ولا میرے لیے ہوگی، چنانچہ حضرت بریرہ اپنے آقاؤں کے پاس گئیں تو انھوں نے اس صورت سے صاف انکارکردیا مگر یہ کہ ولا ان کے لیے ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ واقعہ سنا تو مجھ سے دریافت کیا، چنانچہ میں نے آپ کو مطلع کیا تو آپ نے فرمایا: تم اسے لے کر آزاد کردو اور ان کے لیے ولا کی شرط کرلو۔ ولاتو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا، اللہ کی حمدوثنا کی، پھر فرمایا: أما بعد!تم میں سے کچھ لوگوں کا عجیب حال ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2563]
حدیث حاشیہ:
(1)
مکاتب چونکہ غلام ہے جس کی انسانیت ناقص ہوتی ہے، اس انسانیت کو حاصل کرنے کے لیے سعی و کوشش کرنا جائز ہے، اس کے لیے وہ لوگوں سے اپیل کر سکتا ہے کہ میرے ساتھ تعاون کیا جائے تاکہ میں غلامی سے اپنی گردن آزاد کروا لوں۔
اس کی محتاجی بھوکے انسان کی ضرورت سے زیادہ ہے۔
بعض اوقات اس کی جمع شدہ پونجی بدل کتابت کے لیے ناکافی ہوتی ہے، اس لیے وہ سوال کر کے بھی مانگ سکتا ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ سوال کا استعانت پر عطف، خاص کا عام پر عطف ہے، حضرت بریرہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کے سوال کرنے کر برقرار رکھا۔
اگر ناجائز ہوتا تو آپ اس کی وضاحت کر دیتے۔
(فتح الباري: 236/5) (2)
اس حدیث میں نو اوقیے چاندی کا ذکر ہے جبکہ قبل ازیں پانچ اوقیے چاندی کا بیان تھا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اصل میں معاملہ نو پر ہوا تھا۔
جب پانچ اوقیے چاندی باقی رہ گئی تو بریرہ ؓ حضرت عائشہ ؓ سے تعاون لینے کے لیے حاضر خدمت ہوئیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2563