Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
أبواب السفر
کتاب: سفر کے احکام و مسائل
40. باب مَا جَاءَ فِي كَمْ تُقْصَرُ الصَّلاَةُ
باب: کتنے دنوں تک قصر کرنا درست ہے؟
حدیث نمبر: 549
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " سَافَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَفَرًا فَصَلَّى تِسْعَةَ عَشَرَ يَوْمًا رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ ". قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَنَحْنُ نُصَلِّي فِيمَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ تِسْعَ عَشْرَةَ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، فَإِذَا أَقَمْنَا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ صَلَّيْنَا أَرْبَعًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کیا، تو آپ نے انیس دن تک دو دو رکعتیں پڑھیں ۱؎، ابن عباس کہتے ہیں: تو ہم لوگ بھی انیس یا اس سے کم دنوں (کے سفر) میں دو دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ اور جب ہم اس سے زیادہ قیام کرتے تو چار رکعت پڑھتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 1 (1080)، والمغازی 52 (4298)، سنن ابی داود/ الصلاة 279 (1230)، (بلفظ ”سبعة عشر“ وشاذ)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 76 (1075)، (تحفة الأشراف: 6134) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ فتح مکہ کا واقعہ ہے، اس موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں کتنے دن قیام کیا اس سلسلہ میں روایتیں مختلف ہیں، بخاری کی روایت میں انیس دن کا ذکر ہے اور ابوداؤد کی ایک روایت میں اٹھارہ اور دوسری میں سترہ دن کا ذکر ہے، تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ جس نے دخول اور خروج کے دنوں کو شمار نہیں کیا اس نے سترہ کی روایت کی ہے، جس نے دخول کا شمار کیا خروج کا نہیں یا خروج کا شمار کیا اور دخول کا نہیں اس نے اٹھارہ کی روایت کی ہے، رہی پندرہ دن والی روایت تو یہ شاذ ہے اور اگر اسے صحیح مان لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ راوی نے سمجھا کہ اصل ۱۷ دن پھر اس میں سے دخول اور خروج کو خارج کر کے ۱۵ دن کی روایت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1075)

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 549 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 549  
اردو حاشہ:
1؎:
یہ فتح مکہ کا واقعہ ہے،
اس موقع پر نبی اکرم ﷺ نے مکہ میں کتنے دن قیام کیا اس سلسلہ میں روایتیں مختلف ہیں،
بخاری کی روایت میں 19دن کا ذکر ہے اور ابو داؤد کی ایک روایت میں اٹھارہ اور دوسری میں سترہ دن کا ذکر ہے،
تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ جس نے دخول اور خروج کے دنوں کو شمار نہیں کیا اس نے سترہ کی روایت کی ہے،
جس نے دخول کا شمار کیا خروج کا نہیں یا خروج کا شمار کیا اور دخول کا نہیں اس نے اٹھارہ کی روایت کی ہے،
رہی پندرہ دن والی روایت تو یہ شاذ ہے اور اگر اسے صحیح مان لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ راوی نے سمجھا کہ اصل 17 دن پھر اس میں سے دخول اور خروج کوخارج کر کے 15 دن کی روایت ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 549   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 457  
´نماز کیسے فرض ہوئی؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نماز بزبان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضر میں چار رکعت، سفر میں دو رکعت، اور خوف میں ایک رکعت فرض کی گئی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 457]
457 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ہر نماز چار رکعت نہیں، مغرب چونکہ وترالنھار ہے، لہٰذا وہ تین رکعت ہے اور تین ہی رہے گی۔ اور فجر میں قرأت لمبی ہوتی ہے حتیٰ کہ دورکعت چار رکعت سے بھی بڑھ جاتی ہیں، لہٰذا یہ نماز بھی حضروسفر میں دورکعت ہی رکھی گئی۔ باقی تین نمازیں گھر میں چار رکعت اور سفر میں دورکعت ہیں، البتہ محقق قول کے مطابق اگر کوئی مسافر چار رکعت پڑھنا چاہے تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ حضرت عائشہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما سے صحیح ثابت ہے۔ [صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: 1083]
ہاں! دو رکعت پڑھنا بہتر ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامعمول یہی رہا ہے۔ اگر کوئی چار پڑھے گا تو اس کا بھی جواز ہے۔ واللہ اعلم۔
خوف کی نماز ایک رکعت۔ نماز خوف کی مخصوص مختلف صورتوں میں سے یہ بھی ایک صورت ہے، یعنی شدید خوف میں ایک رکعت بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ لیکن جمہور علماء اس حدیث کی تاویل کرتے ہیں کہ ایک رکعت سے مراد امام کے ساتھ ایک رکعت ہے اور دوسری رکعت اپنے طور پر پڑھے۔ صرف ایک رکعت نماز درست نہیں۔ لیکن جمہور علماء کا یہ موقف دلائل کی روشنی میں محل نظر معلوم ہوتا ہے، کیونکہ ایک رکعت نماز بھی متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے، لہٰذا موقع محل کی مناسبت سے ایک رکعت بھی بلاتامل پڑھی جا سکتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے حدیث نمبر1442 اور 1530 کے فوائدومسائل دیکھیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 457   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1436  
´باب:`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ کے لیے نکلے، آپ صرف رب العالمین سے ہی ڈر رہے تھے ۱؎ (اس کے باوجود) آپ (راستہ بھر) دو رکعتیں ہی پڑھتے رہے۔ [سنن نسائي/كتاب تقصير الصلاة فى السفر/حدیث: 1436]
1436۔ اردو حاشیہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اشارہ حجۃ الوداع کے سفر کی طرف تھا۔ اس وقت سب دشمن مغلوب ہوچکے تھے بلکہ ختم ہوچکے تھے۔ خوف کا امکان بھی نہیں تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1436   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1442  
´باب:`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ حضر (اقامت) کی نماز تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر چار رکعتیں فرض ہوئیں، اور سفر کی نماز دو رکعت، اور خوف کی نماز ایک رکعت ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب تقصير الصلاة فى السفر/حدیث: 1442]
1442۔ اردو حاشیہ:
➊ بظاہر روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر کی نماز ہے ہی دو رکعت، چار نہیں پڑھی جا سکتیں مگر یہ مفہوم قرآن کی آیت کریمہ اور دیگر احادیث کے صراحتاً خلاف ہے۔ اگر ایسے ہوتا تو اسے قصر نہ کہا جاتا، لہٰذا یہ مفہوم غیر معتبر ہے۔
خوف کی نماز ایک رکعت۔ جمہور اہل علم نے اس بات کو قبول نہیں کیا، وہ اس حدیث کی تاویل کرتے ہیں کہ ایک رکعت سے مراد امام کے ساتھ ایک رکعت ہے نہ کہ فی الواقع ایک رکعت کہ دوسری رکعت پڑھی نہ جائے۔ بلکہ وہ دوسری رکعت اپنے طور پر پڑھے۔ لیکن جمہور اہل علم کا یہ موقف دلائل کی روشنی میں محل نظر ہے۔ ایک رکعت نماز خوف بھی متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے، لہٰذا موقع و محل کی مناسبت سے ایک رکعت بھی بلاتامل پڑھی جا سکتی ہے۔ نماز خوف کی تقریباً چھ سات صورتیں احادیث میں وارد ہیں۔ تو خوف کی صورت حال کو مدنظر رکھ کر کسی بھی صورت پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ ان میں کوئی تعارض نہیں۔ تمام واقعات اور طریقوں کو ایک ثابت کرنے کی کوشش کرنا غیر ضروری تکلیف ہے۔ موقع و محل اور ضرورت کے مطابق کسی بھی طریقے پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی، شرح سنن النسائي، کتاب الخوف)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1442   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1454  
´کتنے دن کی اقامت تک نماز قصر کی جا سکتی ہے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پندرہ دن ٹھہرے رہے ۱؎ اور آپ دو دو رکعتیں پڑھتے رہے۔ [سنن نسائي/كتاب تقصير الصلاة فى السفر/حدیث: 1454]
1454۔ اردو حاشیہ: مکہ کی بات ہے جو سنہ 8 ہجری میں ہوا تھا۔ صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے انیس دن ٹھہرنے کی روایت ہے۔ اور ان کا قول بھی یہی ہے کہ جب ہم انیس دن سے زائد ٹھہریں گے تو نماز پوری پڑھیں گے۔ بعض روایات میں مکہ میں آپ کی اقامت اٹھارہ یا سترہ دن بھی ہے، یعنی آنے جانے کا دن شامل کر کے انیس دن، خالص اقامت سرہ دن۔ کسی ایک دن کو نکال لیں تو اٹھارہ دن۔ گویا کوئی اختلاف نہیں، البتہ پندرہ دن کی روایت صحیح نہیں کیونکہ یہ اصح روایات کے خلاف ہے بلکہ یہ کسی راوی کا تصرف ہے۔ محقق عصر شیخ البانی رحمہ اللہ نے
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1454   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1232  
´مسافر پوری نماز کب پڑھے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں سترہ دن تک مقیم رہے اور دو دو رکعتیں پڑھتے رہے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1232]
1232۔ اردو حاشیہ:
یہ روایت بھی بعض محققین کے نزدیک ضعیف منکر ہے اور صحیح 19 دن ہی ہے۔ جن کے نزدیک یہ روایات صحیح ہیں ان میں سفر مکہ کے سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ میں امامت انیس دن، اٹھارہ دن، سترہ دن اور پندرہ دن مروی ہے۔ تو اس عدد میں اختلاف کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے یوں حل فرمایا ہے کہ جس راوی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور روانگی کے دن شمار کئے اس نے انیس دن بتائے ہیں اور جس نے ان کو خارج کر دیا، اس نے سترہ کہے۔ اور جس نے آمد اور روانگی میں کوئی ایک دن شمار کیا، اس نے اٹھارہ دن کہے اور جس نے پندرہ دن کہے اس کے خیال میں اصل اقامت مع ایام آمد و رفت سترہ دن ہو گی۔ اور پھر اس نے آمد و روانگی کے دو دن چھوڑ دیے تو پندرہ دن ہوئے۔ (انتہیٰ ملخصہ)، خیال رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر سفر جہاد تھا اور مجاہدین کی اقامت کہیں بھی بالجزم نہیں ہوا کرتی۔ اس لئے سفر جہاد میں کسی جگہ اقامت کو، حالت امن کے عام سفر میں اقامت پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ اس بناء پر ہمارے مشائخ کا فتویٰ یہی ہے کہ عام سفر میں تین یا چار دن کی اقامت تک قصر اور اس سے زیادہ میں اتمام ہے، جیسے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کا فتویٰ ہے اور یہی راحج ہے۔ «والله أعلم»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1232   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1247  
´ان لوگوں کی دلیل جو کہتے ہیں کہ امام ہر جماعت کو ایک رکعت پڑھائے گا اور لوگ دوسری رکعت پوری نہیں کریں گے۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے تم پر حضر میں چار رکعتیں فرض کی ہیں اور سفر میں دو رکعتیں، اور خوف میں ایک رکعت۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1247]
1247. اردو حاشیہ:
علامہ سندھی کہتے ہیں کہ اس بات میں کوئی تعارض نہیں کہ خوف میں ایک رکعت واجب ہو اور دو پڑھ لی جائیں۔ مذکورہ روایات میں جو آیا ہے، وہ احب اور اولیٰ کا مسئلہ ہے یا حدیث کا یہ مقصود ہو کہ سخت خوف کی حالت میں کم از کم ایک رکعت فرض ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1247   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 346  
´مسافر اور مریض کی نماز کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس روز قیام فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم قصر ہی فرماتے رہے اور ایک روایت میں ہے کہ مکہ میں انیس روز قیام فرمایا۔ (بخاری) اور ابوداؤد کی روایت میں سترہ روز ہے اور ایک دوسری روایت میں پندرہ روز ہے۔ اور ابوداؤد میں ہی عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدت قیام اٹھارہ دن تھی اور انہیں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک میں بیس دن قیام فرمایا اور نماز قصر ادا کرتے رہے، اس روایت کے راوی ثقہ ہیں، مگر اس کے موصول ہونے میں اختلاف ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 346»
تخریج:
«أخرجه البخاري، تقصير الصلاة، باب ما جاء في التقصير، حديث:1080، وأبوداود، صلاة السفر، حديث:1230-1232، وحديث عمران أخرجه أبوداود، صلاة السفر، حديث:1229 وهو حديث حسن، وحديث جابر أخرجه أبوداود، صلاة السفر، حديث:1235 وهو حديث صحيح.»
تشریح:
1.مکہ میں مدت قیام کے بارے میں مختلف روایات منقول ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں ۱۹ روز یا ۱۸ روز یا ۱۷ روز یا ۱۵ روز قیام پذیر رہے۔
ان میں سے ہر مدت قیام کے حق میں کچھ نہ کچھ لوگوں کی رائے ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی اس سے زیادہ مدت ٹھہرنے کی نیت کرے تو نماز قصر نہیں کرے گا۔
2.یہ ذہن نشین رہے کہ مدت قیام میں اختلاف فتح مکہ کے موقع کا ہے‘ حجۃ الوداع کے موقع کا نہیں‘ کیونکہ تحقیق سے یہ ثابت ہے کہ وہ تو صرف دس روز تھا۔
3. ان روایات میں جمع و تطبیق کی صحیح صورت یہ معلوم ہوتی ہے کہ ۱۹ روز والی روایت دوسری روایات کے مقابلے میں صحیح ترین اور قوی ترین ہے۔
اس کی تائید اہل مغازی کا وہ بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں بروز منگل صبح کو داخل ہوئے‘ وہ رمضان کی سترہ تاریخ تھی اور حنین کی جانب بروز ہفتہ چھ شوال کو روانہ ہوئے۔
پس ان ایام کی تعداد‘ دخول اور خروج کے ایام سمیت ۱۹ روز بنتی ہے اور ۱۸ روز والی روایت تو اپنے ضعف کی وجہ سے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
اس کے باوجود یہ احتمال ہے کہ راوی کے ذہن میں راتوں کی تعداد ہو‘ دنوں کی تعداد نہ ہو کیونکہ آپ مکہ میں داخل بھی دن کو ہوئے تھے اور یہاں سے نکلے بھی دن کو تھے۔
یوں ۱۹ دن کی تعداد پوری ہوگئی اور راتوں کی تعداد ۱۸ ہوئی۔
اس طرح ان دونوں روایتوں میں کوئی فرق اور تعارض باقی نہ رہا۔
اور اس تاویل کی تائید اس طرح بھی ہوتی ہے کہ ۱۸ کی تعداد والی روایت میں لفظ لیل (شب) موجود ہے۔
اور سترہ یوم والی روایت کی صورت میں تطبیق اس طرح ہوگی کہ غالباً راوی نے مکہ میں دخول اور خروج کے دونوں دن شمار نہیں کیے‘ لہٰذا انیس میں سے دو نکال دیں تو باقی سترہ ہی رہ جاتے ہیں۔
اور رہی پندرہ یوم والی روایت تو وہ روایت شاذ ہے اور ثقہ راویوں کی روایت کردہ روایات کے مخالف ہے‘ لہٰذا اس کا کوئی اعتبار نہیں۔
اور اس کا بھی احتمال ہے کہ راوی نے سترہ یوم والی روایت کو اصل قرار دے کر مکہ میں آپ کے داخل اور خارج ہونے کا دن نکال دیا ہو‘ اس طرح سترہ میں سے دو نکال دیے جائیں تو باقی پندرہ دن رہ جاتے ہیں۔
4. ان روایات سے مدت قصر کے تعین پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ ان روایات میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ اگر آپ اس مدت سے زیادہ قیام کرتے تو قصر چھوڑدیتے اور پوری نماز پڑھتے بلکہ آپ سے تو تبوک کے مقام پر بیس دن کے قیام میں بھی قصر ثابت ہے۔
آپ نے قصر کو نہیں چھوڑا تھا۔
اور اس لیے کہ یہ سفر تو غزوہ اور لڑائی کا سفر تھا۔
محارب کو ہر لمحہ ایسے مواقع پیش آسکتے ہیں کہ اسے آگے بھی بڑھنا پڑے اور پیچھے بھی ہٹنا اور واپس ہونا پڑے۔
یہ صورت حال بذات خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پیش آئی کہ فتح مکہ کے فوراً بعد آپ کو مجاہدین کا ایک چھوٹا سا دستہ عزٰی کے انہدام کے لیے روانہ کرنا پڑا اور اس دستے کی قیادت اور امارت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دی‘ پھر معاً بعد دوسرا دستہ سواع بت کے انہدام کے لیے روانہ فرمایا‘ اس لشکر کی قیادت و امارت حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے سپرد فرمائی‘ پھر تیسرا دستہ مناۃ بت کے انہدام کے لیے روانہ فرمایا‘ اس کی امارت پر حضرت سعد بن زید رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا اور پھر چوتھا دستہ جذیمہ کی طرف روانہ فرمایا‘ اس کی قیادت بھی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو تفویض فرمائی۔
اس کے بعد تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ قبائل ثقیف و ہوازن کے اجتماع کی اطلاع ملی تو آپ نے خود آگے بڑھ کر ان کا سامنا کیا حتی کہ وادی ٔحنین میں ان سے مڈبھیڑ ہوگئی۔
پھر یہاں پر وہ معرکہ آرائی ہوئی اور گھمسان کا رن پڑا جو مشہور و معروف ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مجاہد و سپاہی اگر قیام کا ارادہ کرے‘ خواہ فتح یابی و کامرانی کے بعد ہی ہو اس کی نیت معتبر تسلیم نہیں کی جائے گی بلکہ اس کی کیفیت تو اس مسافر کی سی ہوگی جو تذبذب و تردد میں مبتلا ہو کہ آج واپسی ہوتی ہے یا کل‘ پس ایسا متردد ا ور متذبذب مسافر ہمیشہ قصر نماز ہی ادا کرتا رہے گا‘ خواہ یہ کیفیت سالوں اور مہینوں پر محیط ہو‘ اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فتح مکہ اور غزوۂ تبوک کے مواقع پر قصر نماز ادا فرمانا‘ قصر نماز کی مدت متعین پر دلالت ہی نہیں کرتا۔
5. اس بارے میں راجح مسلک وہی ہے جسے ائمۂ ثلاثہ: امام مالک‘ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ نے اختیار کیا ہے کہ جو آدمی داخل اور خارج ہونے کے دونوں ایام کو چھوڑ کر صرف چار روز قیام کا ارادہ رکھتا ہو اسے پوری نماز پڑھنی چاہیے۔
یہ اس بنیاد پر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ اور گرد و نواح میں دس دن گزارے تھے تو آپ ان ایام میں قصر نماز ادا فرماتے رہے۔
آپ مکہ میں ذی الحجہ کی چار تاریخ کو صبح داخل ہوئے اور مکہ سے آٹھ ذی الحجہ کے دن کے آغاز میں نکلے تھے۔
اس دوران میں آپ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے حتی کہ مناسک کی تکمیل فرما لی۔
اس اعتبار سے آپ کے قیام کی مدت صرف تین دن بنتی ہے‘ داخل ہونے اور وہاں سے نکلنے کے دو دن اس سے خارج ہیں۔
آپ کے عمل سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ نے حالت امن میں اس مدت سے زیادہ قیام فرمایا ہو اور آپ نے قصر نماز ادا کی ہو‘ یا اس سے کم مدت کا قیام فرمایا ہو اور قصر نماز ادا نہ فرمائی ہو‘ لہٰذا نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس قدر ثابت ہوگیا اس پر اکتفا کیا جائے گا‘ اس پر اضافہ درست نہیں ہے۔
6. مناسک حج کی تکمیل کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مہاجرین کو مکہ میں تین دن سے زائد قیام کرنے سے منع فرمانا بھی اس کی دلیل ہے کہ مسافر اگر چار دن کا ارادہ کرے گا تو مقیم سمجھا جائے گا‘ نیز ان کا استدلال اس سے بھی ہے جو امام مالک رحمہ اللہ نے حضرت نافع رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہود کو حجاز سے جلا وطن کیا تو پھر ان میں جو تاجر کی حیثیت سے حجاز میں آنا چاہتا اسے بھی تین دن قیام کی اجازت دیتے۔
مصنف نے اسے اپنی کتاب التلخیص الحبیر میں نقل کرکے کہا ہے کہ اسے امام ابوزرعہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
اس حدیث میں ۱۵‘ ۱۷‘ ۱۸ اور ۱۹ روز قصر نماز پڑھنے کا جو ذکر ہے‘ اس کی تطبیق اور روایات کے مابین جمع کی صورت اوپر مذکور ہے۔
مختلف مکاتب فکر کے ہاں مدت قیام بھی مختلف ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں تین دن اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ۱۵ دن۔
جب مسافر حالت تردد میں مبتلا ہو جائے اور واپسی کا حتمی فیصلہ نہ کر پائے تو ایسی صورت میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اپنے اصحاب سمیت اور ایک قول کی رو سے امام شافعی رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں کہ ایسا متردد و متذبذب مسافر تادم زیست یا واپسی تک قصر کر سکتا ہے‘ چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے آذر بائیجان میں چھ ماہ تک قصر نماز پڑھی اور اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ کو نیشا پور کے مقام پر سال یا دو سال حالت تردد میں رہنا پڑا تو قصر ہی کرتے رہے۔
اور کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رامہرمز میں نو ماہ تک رکنا پڑا تو وہ قصر ہی کرتے رہے۔
ان واقعات سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ تردد اور تذبذب کی حالت میں قصر کی مدت مقرر نہیں ہے بلکہ جب تک ضرورت کا تقاضا ہو اتنی مدت تک قصر جائز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 346   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1072  
´سفر میں نوافل پڑھنے کا بیان۔`
اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ میں نے طاؤس سے سفر میں نفل پڑھنے کے بارے سوال کیا، اور اس وقت ان کے پاس حسن بن مسلم بھی بیٹھے ہوئے تھے، تو حسن نے کہا: طاؤس نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر اور سفر دونوں کی نماز فرض کی، تو ہم حضر میں فرض سے پہلے اور اس کے بعد سنتیں پڑھتے، اور سفر میں بھی پہلے اور بعد نماز پڑھتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1072]
اردو حاشہ:
فائده:
اس سے معلوم ہوا کہ سفر میں بھی سنتیں پڑھی جاسکتی ہیں۔
اگر کوئی پڑھنا چاہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1072   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1075  
´جب مسافر کسی مقام پر ٹھہرے تو کتنے دنوں تک قصر کر سکتا ہے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر مکہ میں انیس (۱۹) دن رہے، اور دو دو رکعت پڑھتے رہے، لہٰذا ہم بھی جب انیس (۱۹) دن قیام کرتے ہیں تو دو دو رکعت پڑھتے ہیں، اور جب اس سے زیادہ قیام کرتے ہیں تو چار رکعت پڑھتے ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1075]
اردو حاشہ:
فائده:
یہ فتح مکہ كا واقعہ ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں انیس دن ٹھرنے کا ارادہ کرکے نہیں رہے تھے بلکہ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسافر متردد کی حیثیت سے قیام پزیر تھے۔
اور متردد مسافر جو روانہ ہونے کی نیت رکھتا ہو لیکن کسی وجہ سے روانہ نہ ہوسکے۔
وہ اگرچہ طویل عرصے تک رکا رہے۔
مقیم کے حکم میں نہیں ہوتا اور نماز قصر ادا کرسکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1075   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 547  
´سفر میں قصر نماز پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے، آپ کو سوائے اللہ رب العالمین کے کسی کا خوف نہ تھا۔ (اس کے باوجود) آپ نے دو ہی رکعتیں پڑھیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 547]
اردو حاشہ:
1؎:
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سفر میں قصر خوف کی وجہ سے نہیں ہے،
جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں،
سفر خواہ کیسا بھی پر امن ہو اس میں قصر رخصت ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 547   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1575  
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی اکرم ﷺ کے واسطہ سے اس کی زبان سے حضر میں چار، سفر میں دو اور خوف (جنگ) میں ایک رکعت نماز فرض کی ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1575]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
سفر میں ظہر،
عصر اور عشاء میں قصر ہے یعنی صرف دو رکعت نماز فرض ہے۔
مغرب اور فجر کی نماز میں سفر اور حضر میں کوئی فرق نہیں ہے۔
جنگ میں،
اگر جنگ سفر میں ہو تو ائمہ اربعہ اور جمہور امت کے نزدیک نماز قصر ہے۔
جنگی حالات کی بنا پر کیفیت میں فرق ہو سکتا ہے۔
تفصیل نمازِ خوف میں آئے گی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1575   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1576  
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی اکرم ﷺ کی زبان پر مسافر پر دو رکعتیں، مقیم پر چار اور جنگ میں ایک رکعت فرص کی ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1576]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جمہور امت کے نزدیک مجاہد،
ایک رکعت امام کے ساتھ پڑھے گا اور ایک رکعت اکیلا پڑھے گا اور یہاں مراد امام کے ساتھ والی رکعت ہے لیکن حسن بصری،
ضحاک اور امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک خوف میں ایک ہی رکعت فرض ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1576   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1080  
1080. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے انیس دن پڑاؤ کیا، اس دوران آپ قصر کرتے رہے، لہٰذا ہم بھی دورانِ سفر انیس روز پڑاؤ کریں تو قصر کریں گے اور اگر زیادہ عرصہ اقامت کریں تو پوری پڑھیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1080]
حدیث حاشیہ:
اس ترجمہ میں دو باتیں بیان ہوئی ہیں ایک یہ کہ سفر میں چار رکعت نماز کوقصر کرے یعنی دورکعتیں پڑھے، دوسرے مسافر اگر کہیں ٹھہرنے کی نیت کر لے تو جتنے دن تک ٹھہرنے کی نیت کرے وہ قصر کر سکتا ہے۔
امام شافعی اور امام مالک ؒ کا مذہب یہ ہے کہ جب کہیں چار دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو پوری نماز پڑھے۔
حنفیہ کے نزدیک پندرہ سے کم میں قصر کرے۔
زیادہ کی نیت ہو تو پوری نمازپڑھے امام احمد اور داؤد کا مذہب یہ کہ چار دن سے زیادہ دن ٹھہرنے کا ارادہ ہوتو پوری نماز پڑھے۔
اسحاق بن راہویہ انیس دن سے کم قصر بتلاتے ہیں اور زیادہ کی صورت میں نماز پوری پڑھنے کا فتوی دیتے ہیں۔
حضرت امام بخاری ؒ کا بھی مذہب یہی معلوم ہوتا ہے حضرت مولانا عبید اللہ صاحب مبارک پورى ؒ نے امام احمد کے مسلک کو ترجیح دی ہے۔
(مرعاة، ج2ص: 256)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1080   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4298  
4298. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے مکہ مکرمہ میں انیس روز قیام فرمایا۔ آپ دو، دو رکعت نماز (قصر) پڑھتے رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4298]
حدیث حاشیہ:
روایت میں صاف مذکور ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بحالت سفر انیس دن کے قیام میں نماز قصر ادا کی تھی اہلحدیث کا یہی مسلک ہے۔
فتح مکہ کی تفصیلات لکھتے ہوئے علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد رسول کریم ﷺ نے امن عام کا اعلان فرمادیا مگر نو آدمی ایسے تھے جن کے قتل کا حکم صادر فرمایا۔
اگرچہ وہ کعبہ کے پردوں میں چھپے ہوئے پائے جائیں۔
وہ یہ تھے عبداللہ بن سعد بن ابی سرح عکرمہ بن ابی جہل عبد العزی بن خطل حارث بن نفیل مقیس بن صابہ ہبار بن اسود اور ابن خطل کی دو لونڈیاں جو رسول کریم ﷺ کی ہجو کے گیت گایا کرتی تھیں اور سارہ نامی ایک (بعض کے نزدیک)
بنی عبد المطلب کی لونڈی۔
قیام امن کے لیے ان فسادیوں کا خاتمہ ضروری تھا۔
جب ان لوگوں نے یہ خبر سنی تو عکرمہ بن ابی جہل سنتے ہی فرار ہو گیا مگر اس کی عورت نے اس کے لیے امن طلب کیا اور آپ نے امن دے دیا وہ مسلمان ہو گیا بعد میں ان کا اسلام بہت بہتر ثابت ہوا۔
جنگ یرموک میں سنہ 13ھ میں بعمر62 سال شہید ہوئے۔
باقی ان میں صرف ابن خطل حارث مقیس اور حارث کی دو لونڈیاں قتل کی گئیں باقی اسلام قبول کر کے بچ گئے۔
ان ہی ایام فتح میں حضرت خالد بن ولید ؓ نے عزی بت کا خاتمہ کیا تھا جس میں ایک عورت (چڑیل قسم کی)
نکلی اور اسے بھی قتل کیا۔
عزی قریش اور بنو کنانہ کا سب سے بڑا بت تھا۔
حضرت عمرو بن عاص ؓ نے سواع نامی بت کو ختم کیا اور سعد بن زید اشہلی ؓ کے ہاتھوں منات بت کو ختم کرایا گیا۔
اس میں بھی ایک چڑیل نکلی تھی جو قتل کردی گئی۔
(مختصترزاد المعاد)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4298   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4299  
4299. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں انیس دن قیام کیا اور نماز قصر کرتے رہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: اگر ہم انیس دن تک قیام کریں تو قصر کرتے ہیں اور اگر اس سے زیادہ قیام ہو تو نماز پوری پڑھتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4299]
حدیث حاشیہ:
اسی حدیث کی بنا پر سفر میں نماز انیس دن تک قصر کی جاسکتی ہے یہ آخری مدت ہے۔
اس سے زیادہ قیام کا ارادہ ہو تو پوری نماز پڑھنی چاہیے۔
جماعت اہلحدیث کا عمل یہی هے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4299   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1080  
1080. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے انیس دن پڑاؤ کیا، اس دوران آپ قصر کرتے رہے، لہٰذا ہم بھی دورانِ سفر انیس روز پڑاؤ کریں تو قصر کریں گے اور اگر زیادہ عرصہ اقامت کریں تو پوری پڑھیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1080]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے ایک روایت میں صراحت کی ہے کہ یہ مکہ مکرمہ کا سفر تھا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4298)
ابوداود میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سترہ دن پڑاؤ کیا تھا۔
ایک روایت میں اٹھارہ راتوں کا ذکر ہے، جبکہ ایک دوسری میں پندرہ دن بیان ہوئے ہیں۔
ان مختلف روایات کے درمیان امام بیہقی ؒ نے بایں الفاظ تطبیق دی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہونے اور یہاں سے نکلنے کے دن کو شامل کر کے انیس دن کہا گیا ہے اور آنے جانے کے دن نکال کر سترہ دن رہ جاتے ہیں۔
اٹھارہ دنوں کے مطابق صرف آنے یا صرف جانے کے دن کو اس مدت میں شامل کیا گیا ہے، البتہ پندرہ دن کی اقامت کو امام نووی ؒ نے ضعیف قرار دیا ہے، لیکن اس کے راوی ثقہ ہیں، لہذا اسے ضعیف قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں۔
ممکن ہے راوی نے سترہ دنوں والی روایت کو اصل قرار دے کر اس سے آمد اور روانگی کے دن کو خارج کر دیا ہو۔
بہرحال انیس دن کی روایت راجح ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 725/2) (2)
رسول اللہ ﷺ کے سفر چار نوعیت کے ہیں:
٭ سفر ہجرت۔
٭ سفر جہاد۔
٭ سفر عمرہ۔
٭ سفر حج۔
آپ کے اکثر و بیشتر سفر جہاد کے متعلق ہیں۔
اس قسم کے سفر میں جنگی حالات کی بنا پر کسی جگہ بھی عزم کے ساتھ پڑاؤ نہیں ہوتا تھا۔
اس صورت حال کے پیش نظر اگر چھ ماہ یا سال بھی کسی جگہ پڑاؤ کرنا پڑے تو بھی قصر کی اجازت ہے، جیسا کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر آپ نے مقام تبوک پر بیس دن پڑاؤ کیا تھا اور وہاں قصر ہی کرتے رہے تھے۔
(مسند أحمد: 295/3)
لیکن حضرت ابن عباس ؓ نے فتح مکہ کے دوران ہنگامی طور پر انیس دن کے پڑاؤ سے یہ استنباط کیا ہے کہ ہم اگر کسی مقام پر دوران سفر انیس روز ٹھہریں تو قصر کریں گے بصورت دیگر پوری نماز پڑھیں گے۔
ہمارے نزدیک ایسے ہنگامی حالات میں نماز قصر کے لیے اقامت کی کوئی حد نہیں۔
ایسے حالات میں جتنے دن بھی قیام ہو نماز قصر ہی پڑھنی ہو گی، جیسا کہ درج ذیل واقعات سے معلوم ہوتا ہے۔
(3)
حضرت انس ؓ نے شام کے علاقے میں دو سال تک پڑاؤ کیا، اس دوران آپ نماز قصر پڑھتے رہے۔
(المصنف لعبد الرزاق، حدیث: 4354) (4)
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں:
"را مهرمز" میں صحابۂ کرام ؓ نے سات ماہ تک پڑاؤ کیا، اس دوران وہ نماز قصر پڑھتے رہے۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 152/3) (5)
حضرت نافع کہتے ہیں:
برف باری کی بنا پر حضرت ابن عمر ؓ نے آذربائیجان میں چھ ماہ تک پڑاؤ کیا، اس دوران آپ قصر پڑھتے رہے۔
(المصنف لعبدالرزاق، حدیث: 4339) (6)
عبدالرحمٰن بن مسور کہتے ہیں:
ہم نے ملک شام کی کسی بستی میں حضرت سعد ؓ کے ہمراہ چالیس رات تک پڑاؤ کیا۔
اس دوران ہم تو پوری نماز پڑھتے تھے، البتہ حضرت سعد ؓ نماز قصر ادا کرتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ کی فتح مکہ کے وقت مکہ مکرمہ میں انیس دن کی اقامت بھی ایسے ہنگامی حالات کے پیش نظر تھی، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس دوران انیس دن ٹھہرنے کی پہلے ہی دن نیت نہیں کی تھی بلکہ آپ روانگی کے متعلق متردد تھے کہ کب مطلوبہ کام سے فارغ ہوں تو کوچ کریں۔
(فتح الباري: 726/2)
فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں سترہ رمضان بروز منگل علی الصبح داخل ہوئے اور چھ شوال بروز ہفتہ حنین کی طرف کوچ فرمایا۔
اس اقامت سے قصر نماز کی مدت کا تعین کرنا صحیح نہیں، کیونکہ یہ سفر ہنگامی حالات کے پیش نظر تھا۔
محارب کو ہر لمحہ ایسے مواقع پیش آ سکتے ہیں کہ اسے آگے بڑھنا ہے یا پیچھے ہٹنا ہے۔
یہ صورت حال بذات خود رسول اللہ ﷺ کو بھی درپیش تھی۔
فتح مکہ کے فوراً بعد آپ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کی سربراہی میں ایک چھوٹا سا دستہ عزی (بت کا نام)
کے انہدام کے لیے روانہ فرمایا، پھر عمرو بن عاص ؓ کی قیادت میں ایک دوسرا سریہ (چھوٹا لشکر)
سواع بت کو گرانے کے لیے بھیجنا پڑا۔
اسی طرح سعد بن زید ؓ کے زیر امارت تیسرا دستہ مناۃ بت کو ختم کرنے کے لیے بھیجا۔
اس کے بعد آپ کو اطلاع ملی کہ ثقیف اور ہوازن مقابلے کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں تو آپ نے خود آگے بڑھ کر وادئ حنین میں ان کا مقابلہ کیا۔
غزوۂ حنین اسی مقام پر ہوا تھا۔
اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مجاہد اگر فتح کے بعد بھی کسی مقام پر اقامت کا ارادہ کرے تو اس کے ارادے کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اس کی کیفیت اس مسافر کی ہے جو اس تذبذب میں مبتلا ہو کہ آج واپسی ہو گی یا کل چلیں گے، ایسے حالات میں وہ مسافر نماز قصر ہی ادا کرتا رہے گا، خواہ اس کا پڑاؤ سالوں اور مہینوں پر محیط ہو، جیسا کہ درج بالا واقعات سے ظاہر ہے، لہٰذا صحیح بات یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فتح مکہ اور غزوۂ تبوک کے موقع پر نماز قصر پڑھنا اس کی مدت کے تعین کی دلیل نہیں بن سکتا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1080   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4299  
4299. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں انیس دن قیام کیا اور نماز قصر کرتے رہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: اگر ہم انیس دن تک قیام کریں تو قصر کرتے ہیں اور اگر اس سے زیادہ قیام ہو تو نماز پوری پڑھتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4299]
حدیث حاشیہ:

حضرت انس ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی مکہ مکرمہ میں مدتِ اقامت دس دن ہے جبکہ حضرت ابن عباس ؓ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں انیس دن قیام فرمایا، حالانکہ حضرت انس ؓ کی روایت حجۃ الوداع سے متعلق ہے۔
رسول اللہ ﷺ چارذوالحجہ کو مکہ مکرمہ تشریف لائے اور چودہ کوواپس چلے گئے۔
اس طرح مکہ اور اطراف میں دس دن کا قیام ہوا۔
البتہ فتح مکہ کے موقع پر جہادی سفر پرتھے، اس لیے یقینی اقامت نہیں بلکہ ہنگامی اقامت انیس دن ممکن ہے۔

نماز قصر کے لیے مدت اقامت کے متعلق امام شافعی ؒ کا موقف صحیح معلوم ہوتا ہے کہ آنے اور جانے کا دن نکال کرمدت اقامت اگرتین دن اور تین رات ہوتو قصر کی جائے بصورت دیگرنماز پوری ادا کی جائے۔
واللہ اعلم۔

چونکہ امام بخاری ؒ نے ان سب روایات کو فتح مکہ میں جمع کرلیا ہے، اس لیے ان کا میلان مکہ مکرمہ میں انیس دن کے قیام کی جانب ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4299