Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
أبواب الوتر​
کتاب: صلاۃ وترکے ابواب
11. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَنَامُ عَنِ الْوِتْرِ أَوْ يَنْسَاهُ
باب: وتر پڑھے بغیر سو جانے یا وتر کے بھول جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 465
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ نَامَ عَنِ الْوِتْرِ أَوْ نَسِيَهُ فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَ وَإِذَا اسْتَيْقَظَ ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو وتر پڑھے بغیر سو جائے، یا اسے پڑھنا بھول جائے تو جب یاد آئے یا جاگے پڑھ لے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 341 (1431)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 122 (1188)، (تحفة الأشراف: 4198)، مسند احمد (3/31) (صحیح) (سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم متکلم فیہ راوی ہیں لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1188)

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 465 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 465  
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم متکلم فیہ راوی ہیں لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 465   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1431  
´وتر کے بعد کی دعا کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص وتر پڑھے بغیر سو جائے یا اسے پڑھنا بھول جائے تو جب بھی یاد آ جائے اسے پڑھ لے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1431]
1431. اردو حاشیہ: یہ حدیث اس باب سے متعلق نہیں ہے۔ شاید یہاں باب اور اس کا عنوان سہواً رہ گیا ہے (عون المعبود) بہرحال اس حدیث میں وتر کی اہمیت کا اثبات ہے۔ کہ اگر وہ سوتے رہ جانے سے یا بھول جانے کی وجہ سے رہ جائے۔ تو یاد آنے اور جاگنے کے بعد اسے پڑھ لے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وتر کی قضا بھی ضروری ہے۔ اور اس حدیث کی رو سے اسے فجر کی نماز سے پہلے یا نماز فجر کے بعد پڑھ لیا جائے۔ کیونکہ مکروہ اوقات میں قضا شدہ نماز کی قضا جائز ہے۔ ایک دوسری رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ وتر اپنے وقت میں نہ پڑھے جاسکیں۔ تو پھر انہیں پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس موقف کی تایئد میں بھی بعض روایات آتی ہیں۔ لیکن بعض علماء کے نزدیک یہ حکم ان لوگوں کےلئے ہے۔ جو عمداً وتر چھوڑ دیں۔ دیکھئے۔ [حاشیة ترمذی۔ أحمد محمد شاکر: ج2، ص: 333]
اور بعض روایات میں نبی کریمﷺ کا یہ عمل بیان ہوا ہے۔ کہ اگر کبھی نیند یا بیماری کی وجہ سے آپ کا قیام الیل رہ جاتا تو آپ سورج نکلنے کے بعد بارہ رکعت پڑھتے۔ دیکھئے۔ [صحیح مسلم، صلاة المسافرین۔ باب: 18، حدیث: 746]
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے اکثر علماء کی رائے یہ ہے۔ کہ جس کے وتر رہ جایئں۔ تو وہ سورج نکلنے کے بعد اس کی قضاء جفت کی شکل میں دے۔ یعنی ایک وتر کی جگہ د و رکعت تین وتر کی جگہ چار رکعت پڑھے۔ لیکن ہمارے خیال میں ایسا شخص کے لئے ضروری ہوگا۔جو قیام اللیل (نماز تہجد) کا عادی ہوگا۔ عام وتروں کی قضا وتر ہی کی شکل میں مناسب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1431   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 307  
´نفل نماز کا بیان`
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو سو جائے بغیر وتر پڑھے یا اسے یاد نہ رہے ہوں تو اسے چاہیئے کہ صبح کے وقت پڑھ لے یا پھر جب اسے یاد آئے۔
اسے نسائی کے علاوہ پانچوں نے روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 307»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب في الدعاء بعد الوتر، حديث:1431، والترمذي، الوتر، حديث:465، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1188، وأحمد:3 /31.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب وتر کسی طرح پڑھنے سے رہ جائیں تو انھیں بہرصورت پڑھنا چاہیے۔
اس سے نماز وتر کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔
وتروں کی قضا سے متعلق دیکھیے‘ حدیث: ۳۰۰۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 307   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1188  
´سو جانے یا بھولنے کی وجہ سے وتر فوت ہو جائے تو کیا کرے؟`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو نماز وتر سے سو جائے، یا اسے بھول جائے، تو صبح کے وقت یا جب یاد آ جائے پڑھ لے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1188]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
اس حدیث میں نماز وتر کی اہمیت کا اثبات ہے۔
اگر وہ سوئے رہ جانے سے یا بھول جانے کی وجہ سے رہ جائے تو یاد آنے اور جاگنے کے بعد اسے پڑھ لے۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وتر کی قضا بھی ضروری ہے۔
اور اس حدیث کی رو سے اسے فجر کی نماز سے پہلے یا فجر کی نماز کے بعد پڑھ لیا جائے۔
کیونکہ مکروہ اوقات میں قضا شدہ نماز کی قضا جائز ہے۔
ایک دوسری رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ وتر اپنے وقت میں پڑھے نہ جا سکیں تو پھر انھیں پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں اس موقف کی تایئد میں بھی بعض روایات آتی ہیں۔
لیکن بعض علماء کے نزدیک یہ حکم ان لوگوں کے لئے ہے۔
جو عمداً وتر چھوڑ دیں۔
دیکھئے: (حاشہ ترمذی احمد محمد شاکر 333/2)
اور بعض روایات میں نبی کریمﷺ کا یہ عمل بیان ہوا ہے کہ اگر نیند یا بیماری کی وجہ سےآپ کا قیام اللیل رہ جاتا تو آپ سورج نکلنے کے بعد بارہ رکعت پڑھتے۔
دیکھئے: (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب: 18، حدیث: 746)
اس حدیث سے استدلا ل کرتے ہوئے اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ جس کے وتر رہ جایئں تو وہ سورج نکلنے کے بعد اس کی قضا جفت کی شکل میں دے۔
یعنی ایک وتر کی جگہ دو رکعت تین وتر کی جگہ چار رکعت پرھے۔
لیکن ہمارے خیال میں ایسااس شخص کے لئے ضروری ہوگا جو قیام اللیل (نماز تہجد)
کاعادی ہو عام شخص کے لئے وتروں کی قضا وتر ہی شکل میں مناسب معلو م ہوتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1188