Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
أبواب السهو
کتاب: نماز میں سہو و نسیان سے متعلق احکام و مسائل
197. باب مَا جَاءَ فِي الْكَلاَمِ بَعْدَ رَكْعَتَىِ الْفَجْرِ
باب: فجر کی دونوں رکعتوں کے بعد گفتگو کے جائز ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 418
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، قَال: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، فَإِنْ كَانَتْ لَهُ إِلَيَّ حَاجَةٌ كَلَّمَنِي وَإِلَّا خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمُ الْكَلَامَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ حَتَّى يُصَلِّيَ صَلَاةَ الْفَجْرِ، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ أَوْ مِمَّا لَا بُدَّ مِنْهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب فجر کی دو رکعتیں پڑھ چکتے اور اگر آپ کو مجھ سے کوئی کام ہوتا تو (اس بارے میں) مجھ سے گفتگو فرما لیتے، ورنہ نماز کے لیے نکل جاتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے فجر کے طلوع ہونے بعد سے لے کر فجر پڑھنے تک گفتگو کرنا مکروہ قرار دیا ہے، سوائے اس کے کہ وہ گفتگو ذکر الٰہی سے متعلق ہو یا بہت ضروری ہو، اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التہجد 24 (1161)، و25 (1162)، صحیح مسلم/المسافرین 17 (773)، سنن ابی داود/ الصلاة 293 (1262، 1263)، (کلہم بذکر الاضطجاع علی الشق الأیمن)، (تحفة الأشراف: 17711) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فعل کے بعد اب کسی کے قول اور رائے کی کیا ضرورت؟ ہاں ابن مسعود رضی الله عنہ نے جو لوگوں کو بات کرتے دیکھ کر منع کیا تھا؟ تو یہ لایعنی گفتگو کا معاملہ ہو گا، بہرحال اجتماعی طور پر لایعنی بات چیت ایسے وقت خاص طور پر، نیز کسی بھی وقت مناسب نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1147 و 1148)

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 418 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 418  
اردو حاشہ:
1؎:
رسول اکرم ﷺ کے فعل کے بعد اب کسی کے قول اور رائے کی کیا ضرورت؟ ہاں ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جو لوگوں کو بات کرتے دیکھ کر منع کیا تھا؟ تو یہ لا یعنی گفتگو کا معاملہ ہو گا،
بہر حال اجتماعی طور پر لا یعنی بات چیت ایسے وقت خاص طور پر،
نیز کسی بھی وقت مناسب نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 418   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1168  
1168. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ دو رکعتیں پڑھتے، اگر میں بیدار ہوتی تو میرے ساتھ محو گفتگو ہوتے، بصورت دیگر لیٹ جاتے۔ (راوی حدیث علی بن مدینی کہتے ہیں:) میں نے سفیان سے کہا: بعض حضرات فجر کی دو رکعتیں بیان کرتے ہیں، حضرت سفیان نے جواب دیا کہ اسی طرح ہے، یعنی اس سے مراد فجر کی دو سنتیں ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1168]
حدیث حاشیہ:
اصیلی کے نسخہ میں یوں ہے۔
قال أبو النضر حدثني عن أبي سلمة۔
یعنی سفیان نے کہا کہ مجھ کو یہ حدیث ابو النضر نے ابو سلمہ سے بیان کی۔
اس نسخہ میں گویا ابو النضر کے باپ کا ذکر نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1168   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1168  
1168. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ دو رکعتیں پڑھتے، اگر میں بیدار ہوتی تو میرے ساتھ محو گفتگو ہوتے، بصورت دیگر لیٹ جاتے۔ (راوی حدیث علی بن مدینی کہتے ہیں:) میں نے سفیان سے کہا: بعض حضرات فجر کی دو رکعتیں بیان کرتے ہیں، حضرت سفیان نے جواب دیا کہ اسی طرح ہے، یعنی اس سے مراد فجر کی دو سنتیں ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1168]
حدیث حاشیہ:
ابراہیم نخعی اور ابو الشعثاء وغیرہ کا خیال ہے کہ نماز فجر کی دو سنتوں کے بعد گفتگو کرنا صحیح نہیں۔
امام بخاری ؒ نے ان حضرات کی تردید کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ سنتوں کے بعد گفتگو کرنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے اور اس میں کسی قسم کی کراہت نہیں۔
(فتح الباري: 58/3)
ولید بن مسلم کہتے ہیں کہ ہم حضرت انس ؓ کے ساتھ ہوتے اور فجر اور اس کی دو سنت کے بعد ہم ان سے محو گفتگو ہوتے، آپ اسے برا خیال نہیں کرتے تھے اور اس کے متعلق فتویٰ بھی دیتے تھے۔
ابوبکر بن العربی کہتے ہیں کہ اس وقت خاموشی اختیار کرنے کے متعلق کوئی فضیلت احادیث میں مروی نہیں، البتہ دنیوی امور کے بارے میں اس وقت گفتگو کرنا مستحسن نہیں کیونکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے دیکھا کہ فجر کی دو سنتوں کے بعد ایک آدمی دوسرے سے محو گفتگو ہے تو انہوں نے فرمایا:
اللہ کا ذکر کرو یا خاموش رہو۔
بہرحال کسی مقصد کے پیش نظر گفتگو کرنے میں چنداں حرج نہیں۔
(عمدةالقاري: 518/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1168