سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
154. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ أَمَّ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ
باب: جو کسی قوم کی امامت کرے، اور لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں۔
حدیث نمبر: 358
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ وَاصِلِ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ الْأَسَدِيُّ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ دَلْهَمٍ، عَنْ الْحَسَنِ، قَال: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: " لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةً: رَجُلٌ أَمَّ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ، وَامْرَأَةٌ بَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَلَيْهَا سَاخِطٌ، وَرَجُلٌ سَمِعَ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ثُمَّ لَمْ يُجِبْ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , وَطَلْحَةَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍ وَأَبِي أُمَامَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ لَا يَصِحُّ لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ الْحَسَنِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَمُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ تَكَلَّمَ فِيهِ، أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَضَعَّفَهُ وَلَيْسَ بِالْحَافِظِ، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَؤُمَّ الرَّجُلُ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ، فَإِذَا كَانَ الْإِمَامُ غَيْرَ ظَالِمٍ، فَإِنَّمَا الْإِثْمُ عَلَى مَنْ كَرِهَهُ، وقَالَ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق فِي هَذَا: إِذَا كَرِهَ وَاحِدٌ أَوِ اثْنَانِ أَوْ ثَلَاثَةٌ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يُصَلِّيَ بِهِمْ حَتَّى يَكْرَهَهُ أَكْثَرُ الْقَوْمِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے تین لوگوں پر لعنت فرمائی ہے: ایک وہ شخص جو لوگوں کی امامت کرے اور لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں۔ دوسری وہ عورت جو رات گزارے اور اس کا شوہر اس سے ناراض ہو، تیسرا وہ جو
«حي على الفلاح» سنے اور اس کا جواب نہ دے
(یعنی جماعت میں حاضر نہ ہو)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس رضی الله عنہ کی یہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ حقیقت میں یہ حدیث حسن
(بصریٰ) سے بغیر کسی واسطے کے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً مروی ہے،
۲- محمد بن قاسم کے سلسلہ میں احمد بن حنبل نے کلام کیا ہے، انہوں نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔ اور یہ کہ وہ حافظ نہیں ہیں
۱؎،
۳- اس باب میں ابن عباس، طلحہ، عبداللہ بن عمرو اور ابوامامہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- بعض اہل علم کے یہاں یہ مکروہ ہے کہ آدمی لوگوں کی امامت کرے اور وہ اسے ناپسند کرتے ہوں اور جب امام ظالم
(قصوروار) نہ ہو تو گناہ اسی پر ہو گا جو ناپسند کرے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ کا اس سلسلہ میں یہ کہنا ہے کہ جب ایک یا دو یا تین لوگ ناپسند کریں تو اس کے انہیں نماز پڑھانے میں کوئی حرج نہیں، الا یہ کہ لوگوں کی اکثریت اسے ناپسند کرتی ہو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 528) (ضعیف جدا) (سند میں محمد بن القاسم کی علماء نے تکذیب کی ہے، اس لیے اس کی سند سخت ضعیف ہے، لیکن اس کے پہلے ٹکڑے کے صحیح شواہد موجود ہیں، دیکھیے اگلی دونوں حدیثیں)»
وضاحت: ۱؎: اس عبارت کا ماحصل یہ ہے کہ اس کا موصول ہونا صحیح نہیں ہے اس لیے محمد بن قاسم اسے موصول روایت کرنے میں منفرد ہیں اور وہ ضعیف ہیں اس لیے صحیح یہی ہے کہ یہ مرسل ہے، اور مرسل ضعیف ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد جدا
قال الشيخ زبير على زئي: (358) ضعيف
محمد بن القاسم: كذبوه (تق: 6229) وشيخه الفضل بن دلھم: لين ورمي بالإعتزال (د 3097) وللحديث شواھد ضعيفة۔
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 358 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 358
اردو حاشہ:
1؎:
اس عبارت کا ما حصل یہ ہے کہ اس کا موصول ہونا صحیح نہیں ہے اس لیے محمد بن قاسم اسے موصول روایت کرنے میں منفرد ہیں اور وہ ضعیف ہیں اس لیے صحیح یہی ہے کہ یہ مرسل ہے،
اور مرسل ضعیف ہے۔
نوٹ:
(سند میں محمد بن القاسم کی علماء نے تکذیب کی ہے،
اس لیے اس کی سند سخت ضعیف ہے،
لیکن اس کے پہلے ٹکڑے کے صحیح شواہد موجود ہیں،
دیکھیے اگلی دونوں حدیثیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 358