Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الصُّلْحِ
کتاب: صلح کے مسائل کا بیان
12. بَابُ إِذَا أَشَارَ الإِمَامُ بِالصُّلْحِ فَأَبَى حَكَمَ عَلَيْهِ بِالْحُكْمِ الْبَيِّنِ:
باب: اگر حاکم صلح کرنے کے لیے اشارہ کرے اور کوئی فریق نہ مانے تو قاعدے کا حکم دے دے۔
حدیث نمبر: 2708
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ،" أَنَّ الزُّبَيْرَ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّهُ خَاصَمَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شِرَاجٍ مِنَ الْحَرَّةِ، كَانَا يَسْقِيَانِ بِهِ كِلَاهُمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْزُّبَيْرِ: اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ أَرْسِلْ إِلَى جَارِكَ، فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، آنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ؟ فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: اسْقِ، ثُمَّ احْبِسْ حَتَّى يَبْلُغَ الْجَدْرَ، فَاسْتَوْعَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَئِذٍ حَقَّهُ لِلْزُّبَيْرِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ ذَلِكَ أَشَارَ عَلَى الزُّبَيْرِ بِرَأْيٍ سَعَةٍ لَهُ وَلِلْأَنْصَارِيِّ، فَلَمَّا أَحْفَظَ الْأَنْصَارِيُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَوْعَى لِلْزُّبَيْرِ حَقَّهُ فِي صَرِيحِ الْحُكْمِ". قَالَ عُرْوَةُ: قَالَ الزُّبَيْرُ: وَاللَّهِ مَا أَحْسِبُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ إِلَّا فِي ذَلِكَ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ سورة النساء آية 65 الْآيَةَ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ ان میں اور ایک انصاری صحابی میں جو بدر کی لڑائی میں بھی شریک تھے، مدینہ کی پتھریلی زمین کی نالی کے بارے میں جھگڑا ہوا۔ وہ اپنا مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے۔ دونوں حضرات اس نالے سے (اپنے باغ) سیراب کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، زبیر! تم پہلے سیراب کر لو، پھر اپنے پڑوسی کو بھی سیراب کرنے دو، اس پر انصاری کو غصہ آ گیا اور کہا، یا رسول اللہ! اس وجہ سے کہ یہ آپ کی پھوپھی کے لڑکے ہیں۔۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے زبیر! تم سیراب کرو اور پانی کو (اپنے باغ میں) اتنی دیر تک آنے دو کہ دیوار تک چڑھ جائے۔ اس مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کو ان کا پورا حق عطا فرمایا، اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فیصلہ کیا تھا، جس میں زبیر رضی اللہ عنہ اور انصاری صحابی دونوں کی رعایت تھی۔ لیکن جب انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ دلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کو قانون کے مطابق پورا حق عطا فرمایا۔ عروہ نے بیان کیا کہ زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، قسم اللہ کی! میرا خیال ہے کہ یہ آیت «فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم‏» اسی واقعہ پر نازل ہوئی تھی پس ہرگز نہیں! تیرے رب کی قسم، یہ لوگ اس وقت تک مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے اختلافات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو دل و جان سے تسلیم نہ کر لیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2708 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2708  
حدیث حاشیہ:
قاعدے اور ضابطے کا جہاں تک تعلق ہے آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی حضرت زبیر ؓ کے حق میں بالکل انصاف پر مبنی تھا۔
مگر انصاری صحابی کو اس میں رو رعایت کا پہلو نظر آیا جو صحیح نہ تھا، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور بلا چوں و چرا اطاعت رسول ﷺ کو ایمان کی بنیاد قرار دیاگیا۔
آیت کریمہ سے ان مقلدین جامدین کا بھی رد ہوتا ہے جو صحیح احادیث پر اپنے ائمہ کو ترجیح دیتے اور مختلف حیلوں بہانوں سے فیصلہ نبوی کو ٹال دیتے ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ حجۃ اللہ البالغہ جلد اول صفحہ: 365، 366 پر فرماتے ہیں۔
پس اگر ہمیں رسول معصوم کی حدیث بہ سند صحیح پہنچے جس کی اطاعت خدا نے ہم پر فرض کی ہے اور مجتہد کا مذہب اس سے مخالف ہو اور اس کے باوجود ہم حدیث صحیح کو چھوڑ کر مجتہد کی تخمین اور ظنی بات کی پیروی کریں تو ہم سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا اور ہم اس وقت کیا عذر پیش کریں گے جب کہ لوگ اللہ رب العالمین کے سامنے حاضر ہوں گے۔
دوسری جگہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒنے ایسی تقلید کو آیت ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾ (التوبة: 31)
کا مصداق قرار دیا ہے۔
(حجة اللہ البالغة)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2708   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2708  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کو جو پہلے حکم دیا تھا اس میں فریقین کے لیے وسعت اور رعایت تھی، لیکن جب انصاری نے اس رعایت کو غلط رنگ دیا تو قاعدے اور ضابطے کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کو پورا پورا حق دیا۔
اس آیت کریمہ میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو ایمان کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جب حاکم فریقین کو آپس میں صلح کا حکم دے لیکن کوئی فریق اس پر دل و جان سے آمادہ نہ ہو تو پھر حسب قاعدہ کاروائی کرنا ہو گی اور قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا جس میں کسی کے لیے رعایت کا پہلو نہیں ہو گا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2708   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5409  
´امانت دار حاکم غصہ کی حالت میں بھی فیصلہ کر سکتا ہے۔`
زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انصار کا ایک شخص سے جو بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوا تھا حرہ کی نالیوں کے سلسلہ میں ان کا جھگڑا ہو گیا۔ وہ دونوں ہی اس سے اپنے کھجوروں کے باغ کی سنیچائی کرتے تھے۔ انصاری نے کہا: پانی چھوڑ دو وہ اس سے گزر کر چلا جائے، انہوں نے پانی چھوڑنے سے انکار کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زبیر! پہلے سنیچائی کرو، پھر پانی اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو، انصاری کو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5409]
اردو حاشہ:
(1) جو پانی قدرتی طریقے سے بہتا ہو، اس کا اصول اور ضابطہ یہ ہے کہ ایسے پانی کے استعمال پر سب سے پہلا حق اس کا ہے جو اس کی طرف سبقت لے جائے اور اسی کی زمین وغیرہ ابتدا میں ہو۔ ایسے شخص کو اپنی زمین، کھیتی اور باغات وغیرہ مکمل طور پر سیراب کرنے کا حق ہے، تاہم اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ جب اس کی ضرورت پوری ہو جائے تو پھر اس پانی کو آگے والے لوگوں کے لیے چھوڑ دے۔ اس پانی کو روک رکھنے کا حق پہلے شخص کو قطعا نہیں۔
(2) حاکم کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر وہ مناسب سمجھے تو باہم جھگڑنے والے فریقوں میں درمیانی راہ نکال کر صلح کرا دے۔ فریقین اس پر راضی نہ ہوں تو حقیقی فیصلہ کردے اورہر فریق کو اس کا پورا پورا حق دلا دے۔
(3) یہ صحابی انصاری اور بدری تھے اور بدری صحابہ کے بارے میں قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت ہے کہ وہ قطعاً مومن اور جنتی ہیں، لہٰذا انصاری سے الفاظ نفاق کی بنا پر نہیں بلکہ وقتی جذبات کے تحت صادر ہوئے تبھی تو آپ کے حتمی فیصلے پر اس نے سر تسلیم خم کر دیا اور کوئی اعتراض نہیں کیا۔ یہی اس کے ایمان کی دلیل ہے۔ ویسے بھی آپ نے پہلے فیصلہ نہیں فرمایا تھا بلکہ مصالحت کا مشورہ دیا تھا۔ جب مصالحت کار گر نہ ہوئی تو آپ نے حتمی فیصلہ دے دیا۔
(4) باب کا مقصود یہ ہے کہ غصے کی حالت میں بھی غلطی کا امکان نہیں۔ اس بارے میں سابقہ حدیث کا فائدہ بھی ملحوظ رکھا جائے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5409