Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
121. باب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ
باب: امام جہر سے قرأت کرے تو اس کے پیچھے قرأت نہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 312
حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةٍ جَهَرَ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ، فَقَالَ: " هَلْ قَرَأَ مَعِي أَحَدٌ مِنْكُمْ آنِفًا؟ " فَقَالَ رَجُلٌ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " إِنِّي أَقُولُ مَالِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ "، قَالَ: فَانْتَهَى النَّاسُ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الصَّلَوَاتِ بِالْقِرَاءَةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ , وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَابْنُ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيُّ اسْمُهُ: عُمَارَةُ، وَيُقَالُ عَمْرُو بْنُ أُكَيْمَةَ، وَرَوَى بَعْضُ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ وَذَكَرُوا هَذَا الْحَرْفَ، قَالَ: قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَانْتَهَى النَّاسُ عَنِ الْقِرَاءَةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَيْسَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مَا يَدْخُلُ عَلَى مَنْ رَأَى الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ، لِأَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ هُوَ الَّذِي رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ، وَرَوَى أَبُو هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ فَهِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ " فَقَالَ لَهُ حَامِلُ الْحَدِيثِ: إِنِّي أَكُونُ أَحْيَانًا وَرَاءَ الْإِمَامِ، قَالَ: اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ، وَرَوَى أَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " أَمَرَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُنَادِيَ أَنْ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ " وَاخْتَارَ أَكْثَرُ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ أَنْ لَا يَقْرَأَ الرَّجُلُ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ، وَقَالُوا: يَتَتَبَّعُ سَكَتَاتِ الْإِمَامِ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ، فَرَأَى أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمُ الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ، وَبِهِ يَقُولُ: مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وَرُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ: أَنَا أَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ وَالنَّاسُ يَقْرَءُونَ، إِلَّا قَوْمًا مِنَ الْكُوفِيِّينَ، وَأَرَى أَنَّ مَنْ لَمْ يَقْرَأْ، صَلَاتُهُ جَائِزَةٌ، وَشَدَّدَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي تَرْكِ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَإِنْ كَانَ خَلْفَ الْإِمَامِ، فَقَالُوا: لَا تُجْزِئُ صَلَاةٌ إِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَحْدَهُ كَانَ أَوْ خَلْفَ الْإِمَامِ، وَذَهَبُوا إِلَى مَا رَوَى عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَرَأَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَ الْإِمَامِ، وَتَأَوَّلَ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ " وَبِهِ يَقُولُ: الشافعي , وَإِسْحَاق وَغَيْرُهُمَا، وَأَمَّا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، فَقَالَ: مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ إِذَا كَانَ وَحْدَهُ "، وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، حَيْثُ قَالَ: مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: فَهَذَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَأَوَّلَ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ أَنَّ هَذَا إِذَا كَانَ وَحْدَهُ " وَاخْتَارَ أَحْمَدُ مَعَ هَذَا الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ، وَأَنْ لَا يَتْرُكَ الرَّجُلُ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ وَإِنْ كَانَ خَلْفَ الْإِمَامِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس نماز سے فارغ ہونے کے بعد جس میں آپ نے بلند آواز سے قرأت کی تھی تو فرمایا: کیا تم میں سے ابھی کسی نے میرے ساتھ قرأت کی ہے؟ ایک شخص نے عرض کیا: جی ہاں اللہ کے رسول! (میں نے کی ہے) آپ نے فرمایا: تبھی تو میں یہ کہہ رہا تھا: آخر کیا بات ہے کہ قرآن کی قرأت میں میری آواز سے آواز ٹکرائی جا رہی ہے اور مجھ پر غالب ہونے کی کوشش کی جاری ہے، وہ (زہری) کہتے ہیں: تو جب لوگوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے یہ بات سنی تو لوگ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ان نمازوں میں قرأت کرنے سے رک گئے جن میں آپ بلند آواز سے قرأت کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- ابن اکیمہ لیثی کا نام عمارہ ہے انہیں عمرو بن اکیمہ بھی کہا جاتا ہے، زہری کے دیگر تلامذہ نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے لیکن ان لوگوں نے اسے ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے «قال الزهري فانتهى الناس عن القراءة حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم» زہری نے کہا کہ لوگ قرأت سے رک گئے جس وقت ان لوگوں نے اسے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا
۳- اس باب میں ابن مسعود، عمران بن حصین اور جابر بن عبداللہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- اس حدیث میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو ان لوگوں کے لیے رکاوٹ کا سبب بنے جن کی رائے امام کے پیچھے بھی قرأت کی ہے، اس لیے کہ ابوہریرہ رضی الله عنہ ہی ہیں جنہوں نے یہ حدیث روایت کی ہے اور انہوں نے ہی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے یہ حدیث بھی روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تو وہ ناقص ہے، ناقص ہے، ناتمام ہے تو ان سے ایک شخص نے جس نے ان سے یہ حدیث اخذ کی تھی پوچھا کہ میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تو کیا کروں؟) تو انہوں نے کہا: تم اسے اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔ ابوعثمان نہدی سے روایت ہے کہ ابوہریرہ رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ مجھے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یہ حکم دیا کہ میں اعلان کر دوں کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی،
۵- اکثر محدثین نے اس بات کو پسند کیا ہے کہ جب امام بلند آواز سے قرأت کرے تو مقتدی قرأت نہ کرے، اور کہا ہے کہ وہ امام کے سکتوں کا «تتبع» کرتا رہے، یعنی وہ امام کے سکتوں کے درمیان پڑھ لیا کرے،
۶- امام کے پیچھے قرأت کے سلسلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحابہ و تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم امام کے پیچھے قرأت کے قائل ہیں، مالک بن انس، عبداللہ بن مبارک شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ امام کے پیچھے قرأت کرتا ہوں اور لوگ بھی کرتے ہیں سوائے کوفیوں میں سے چند لوگوں کے، اور میرا خیال ہے کہ جو نہ پڑھے اس کی بھی نماز درست ہے،
۷- اور اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے اس سلسلہ میں سختی برتی ہے، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ سورۃ فاتحہ کا چھوڑنا جائز نہیں اگرچہ وہ امام کے پیچھے ہو، یہ لوگ کہتے ہیں کہ بغیر سورۃ فاتحہ کے نماز کفایت نہیں کرتی، یہ لوگ اس حدیث کی طرف گئے ہیں جسے عبادہ بن صامت نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ اور خود عبادہ بن صامت رضی الله عنہ نے بھی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بعد امام کے پیچھے قرأت کی ہے، ان کا عمل نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اسی قول پر رہا ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں، یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ کا بھی قول ہے،
۸- رہے احمد بن حنبل تو وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ اکیلے نماز پڑھ رہا ہو تب سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہو گی۔ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کی حدیث سے یہ استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ جس نے کوئی رکعت پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو ۱؎۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ یہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ میں ایک شخص ہیں اور انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی کی تفسیر یہ کی ہے کہ یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو اکیلے پڑھ رہا ہو۔ ان سب کے باوجود احمد بن حنبل نے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے ہی کو پسند کیا ہے اور کہا ہے کہ آدمی سورۃ فاتحہ کو نہ چھوڑے اگرچہ امام کے پیچھے ہو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 137 (826)، سنن النسائی/الافتتاح 28 (90)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 13 (848، 849)، (تحفة الأشراف: 14264)، موطا امام مالک/الصلاة 10 (44)، مسند احمد (2/240، 284، 285، 487) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ جابر رضی الله عنہ کا اپنا خیال ہے، اعتبار مرفوع روایت کا ہے نہ کہ کسی صحابی کی ایسی رائے کا جس کے مقابلے میں دوسرے صحابہ کی آراء موجود ہیں وہ آراء حدیث کے ظاہر معنی کے مطابق بھی ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صفة الصلاة // 79 //، صحيح أبي داود (781)

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 312 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 312  
اردو حاشہ:
1؎:
یہ جابر رضی اللہ عنہ کا اپنا خیال ہے،
اعتبار مرفوع روایت کا ہے نہ کہ کسی صحابی کی ایسی رائے کا جس کے مقابلے میں دوسرے صحابہ کی آراء موجود ہیں وہ آراء حدیث کے ظاہرمعنی کے مطابق بھی ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 312   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 826  
´امام زور سے قرآت نہ کرے تو مقتدی قرآت کرے اس کے قائلین کی دلیل۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نماز سے جس میں آپ نے بلند آواز سے قرآت کی تھی پلٹے تو فرمایا: کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ ابھی ابھی قرآت کی ہے؟، تو ایک آدمی نے عرض کیا: ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: تبھی تو میں (دل میں) کہہ رہا تھا کہ کیا ہو گیا ہے کہ قرآن میں میرے ساتھ کشمکش کی جا رہی ہے۔‏‏‏‏ زہری کہتے ہیں: جس وقت لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا تو جس نماز میں آپ جہری قرآت کرتے تھے، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآت کرنے سے رک گئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن اکیمہ کی اس حدیث کو معمر، یونس اور اسامہ بن زید نے زہری سے مالک کی حدیث کے ہم معنی روایت کیا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 826]
826۔ اردو حاشیہ:
➊ امام جب سری قرأت کر رہا ہو تو مقتدی بھی قرأت کریں۔ سورۃ فاتحہ اور مذید بھی پڑھیں۔
➋ یہ استدلال کہ امام جہری قرأت کرے اور مقتدی فاتحہ بھی نہ پڑھے، ہرگز راحج نہیں ہے۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے ا گلی روایت سے ثابت کیا ہے کہ «فانتهي الناس عن القراة» جناب زہری کا مقولہ ہے نہ کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا۔ لہٰذا مدرج ہونے کی وجہ سے ناقابل حجت ٹھرا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 826   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 920  
´جہری نماز میں امام کے پیچھے قرأت نہ کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے جس میں آپ نے زور سے قرآت فرمائی تھی سلام پھیر کر پلٹے تو پوچھا: کیا تم میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ قرآت کی ہے؟ تو ایک شخص نے کہا: جی ہاں! اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج بھی میں کہہ رہا تھا کہ کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن چھینا جا رہا ہے۔‏‏‏‏ زہری کہتے ہیں: جب لوگوں نے یہ بات سنی تو جن نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زور سے قرآت فرماتے تھے ان میں قرآت سے رک گئے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 920]
920 ۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار مقتدی کے اونچا پڑھنے پر تھا کیونکہ امام کو دقت تبھی پیش آئے گی جب کسی کی گن گن اس تک پہنچتی ہو گی۔ اگر وہ آہستہ پڑھے، اس کی آواز کسی کو نہ سنائی دے تو اس سے کسی کو کیا خلجان یا منازعت ہو سکتی ہے؟ البتہ جہری نماز میں مقتدیوں کو فاتحہ سے زائد پرھنے سے صراحتاً روکا گیا ہے، لہٰذا جہری نمازوں میں مقتدی سورۂ فاتحہ سے زائد نہیں پڑھ سکتا، نہ جہراً نہ سراً۔ آخری قول سے مراد بھی سورۂ فاتحہ سے زائد قرأت ہے جس سے لوگ رک گئے۔ باقی رہی سورۂ فاتحہ تو خود راویٔ حدیث میں اس کے پڑھنے کا فتویٰ دیتے تھے۔ [ديكهيے، حديث: 910]
یاد رہے کہ یہ آخری قول امام زہری کا ہے جو صغار تابعین میں سے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، امام ابن قیم اور علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے امام بخاری رحمہ اللہ، امام مالک، امام ابوداود، امام ترمذی اور امام بیہقی رحمہ اللہ جیسے عظیم محدثین اور ائمہ، جرح و تعدیل کے اقوال نقل کیے ہیں کہ یہ امام زہری کا اپنا کلام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں۔ دیکھیے: [التلخیص الجبیر، رقم: 344، عون المعبود: 3؍50۔ 52]
واللہ أعلم۔ انہوں نے یہ بات: «فانتهي الناس عن القراءة . . . الخ» کس سے سنی؟ یہ صراحت نہیں، لہٰذا یہ مرسل ہے اور «مراسيل الزهري كالريح» زہری کی مرسل روایات ہوا کی طرح ہیں لہٰذا ان کا یہ قول بھی ہوا کی طرح ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 920   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث848  
´جہری نماز میں امام قرات کرے تو اس پر خاموش رہنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو کوئی نماز پڑھائی، (ہمارا خیال ہے کہ وہ صبح کی نماز تھی) نماز سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے کسی نے قراءت کی ہے؟، ایک آدمی نے کہا: جی ہاں، میں نے کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں سوچ رہا تھا کہ کیا بات ہے قرآن پڑھنے میں کوئی مجھ سے منازعت (کھینچا تانی) کر رہا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 848]
اردو حاشہ:
فوائدو مسائل:

(1)
جہری نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد امام کی قراءت خاموشی سے سننی چاہیے۔

(2)
تشہد میں سب سے پہلے التحیات للہ۔
۔
۔
آخر تک پوری دعا۔
اس کے بعد درود شریف۔
اورپھر دوسری دعایئں پڑھنی چاہییں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 848   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:983  
983- سیدنا ابویرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کر لی تو ارشاد فرمایا: کیا میرے ساتھ تم میں سے کسی ایک نے تلاوت کی ہے؟ تو ایک صاحب نے عرض کی: جی ہاں! میں نے کی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: میں بھی سوچ رہا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ قرآن میں میرے ساتھ مقابلہ کیا جارہا ہے۔‏‏‏‏ سفیان کہتے ہیں: پھر زہری نے کوئی بات بیان کی جسے میں سمجھ نہیں سکا۔ بعد میں معمر نے مجھے بتایا کہ انہوں نے یہ کہا تھا: اس کے بعد لوگ ان نمازوں میں قرأت کرنے سے رک گئے جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:983]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جب امام سورہ فاتحہ کے بعد کسی اور سورت کی قرأت کر رہا ہوتو مقتدیوں کو پیچھے قرأت نہیں کرنی چاہیے، بلکہ سننا چاہیے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ سورہ فاتحہ ہر کسی پر پڑھنا فرض ہے تفصیل کے لیے استاذ محترم محدث العصر شیخ ارشاد الحق اثری ﷾ کی کتابتوضیح الکلام کا مطالعہ کریں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 982