Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
108. باب مَا جَاءَ فِي الإِشَارَةِ فِي التَّشَهُّدِ
باب: تشہد میں اشارہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 294
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، وَيَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رُكْبَتِهِ وَرَفَعَ إِصْبَعَهُ الَّتِي تَلِي الْإِبْهَامَ الْيُمْنَى يَدْعُو بِهَا وَيَدُهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ بَاسِطَهَا عَلَيْهِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ , وَنُمَيْرٍ الْخُزَاعِيِّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي حُمَيْدٍ , وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ يَخْتَارُونَ الْإِشَارَةَ فِي التَّشَهُّدِ، وَهُوَ قَوْلُ أَصْحَابِنَا.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب نماز میں بیٹھتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے (دائیں) گھٹنے پر رکھتے اور اپنے داہنے ہاتھ کے انگوٹھے کے قریب والی انگلی اٹھاتے اور اس سے دعا کرتے یعنی اشارہ کرتے، اور اپنا بایاں ہاتھ اپنے (بائیں) گھٹنے پر پھیلائے رکھتے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں عبداللہ بن زبیر، نمیر خزاعی، ابوہریرہ، ابوحمید اور وائل بن حجر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- ابن عمر کی حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے عبیداللہ بن عمر کی حدیث سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۳- صحابہ کرام اور تابعین میں سے اہل علم کا اسی پر عمل تھا، یہ لوگ تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنے کو پسند کرتے اور یہی ہمارے اصحاب کا بھی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «تخريج: صحیح مسلم/المساجد 21 (580)، سنن النسائی/السہو 35 (1270)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 27 (913)، (تحفة الأشراف: 1828)، مسند احمد (2/147) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: احادیث میں تشہد کی حالت میں داہنے ہاتھ کے ران پر رکھنے کی مختلف ہیئتوں کا ذکر ہے، انہیں ہیئتوں میں سے ایک ہیئت یہ بھی ہے اس میں انگلیوں کے بند رکھنے کا ذکر نہیں ہے،
دوسری یہ ہے کہ خنصر بنصر اور وسطیٰ (یعنی سب سے چھوٹی انگلی چھنگلیا، اور اس کے بعد والی اور درمیانی تینوں) کو بند رکھے اور شہادت کی انگلی (انگوٹھے سے ملی ہوئی) کو کھلی چھوڑ دے اور انگوٹھے کو شہادت کی انگلی کی جڑ سے ملا لے، یہی ترپن کی گرہ ہے،
تیسری ہیئت یہ ہے کہ خنصر، بنصر (سب سے چھوٹی یعنی چھنگلیا اور اس کے بعد والی انگلی) کو بند کر لے اور شہادت کی انگلی کو چھوڑ دے اور انگوٹھے اور بیچ والی انگلی سے حلقہ بنا لے،
چوتھی صورت یہ ہے کہ ساری انگلیاں بند رکھے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرے، ان ساری صورتوں سے متعلق احادیث وارد ہیں، جس طرح چاہے کرے، سب جائز ہے، لیکن یہ واضح رہے کہ یہ ساری صورتیں شروع تشہد ہی سے ہیں نہ کہ «أشهد أن لا إله إلا الله» کہنے پر، یا یہ کلمہ کہنے سے لے کر بعد تک، کسی بھی حدیث میں یہ تحدید ثابت نہیں ہے، یہ بعد کے لوگوں کا گھڑا ہوا عمل ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (913)

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 294 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 294  
اردو حاشہ:
1؎:
احادیث میں تشہد کی حالت میں داہنے ہاتھ کے ران پر رکھنے کی مختلف ہیئتوں کا ذکر ہے،
انہیں ہیئتوں میں سے ایک ہیئت یہ بھی ہے اس میں انگلیوں کے بند رکھنے کا ذکر نہیں ہے،
دوسری یہ ہے کہ خنصر بنصر اور وسطیٰ (یعنی سب سے چھوٹی انگلی چھنگلیا،
اور اس کے بعد والی اور درمیانی تینوں)
کو بند رکھے اور شہادت کی انگلی (انگوٹھے سے ملی ہوئی) کو کھلی چھوڑ دے اور انگوٹھے کو شہادت کی انگلی کی جڑسے ملا لے،
یہی ترپن کی گرہ ہے،
تیسری ہیئت یہ ہے کہ خنصر،
بنصر (سب سے چھوٹی یعنی چھنگلیا اور اس کے بعد والی انگلی) کو بند کر لے اور شہادت کی انگلی کو چھوڑ دے اور انگوٹھے اور بیچ والی انگلی سے حلقہ بنا لے۔
چوتھی صورت یہ ہے کہ ساری انگلیاں بند رکھے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرے،
ان ساری صورتوں سے متعلق احادیث وارد ہیں،
جس طرح چاہے کرے،
سب جائز ہے،
لیکن یہ واضح رہے کہ یہ ساری صورتیں شروع تشہد ہی سے ہیں نہ کہ ((أَشْهَدُ أَنَّ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ الله)) کہنے پر،
یا یہ کلمہ کہنے سے لیکر بعد تک،
کسی بھی حدیث میں یہ تحدید ثابت نہیں ہے،
یہ بعد کے لوگوں کا گھڑا ہوا عمل ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 294   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ ابو يحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 1309  
´رفع سبّابہ`
«. . . عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ، وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، وَرَفَعَ إِصْبَعَهُ الْيُمْنَى، الَّتِي تَلِي الإِبْهَامَ، فَدَعَا بِهَا، وَيَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى، بَاسِطُهَا عَلَيْهَا . . . .»
. . . ‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں بیٹھتے تو دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے اور داہنے ہاتھ کے کلمہ کی انگلی کو اٹھاتے اس سے دعا کرتے اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر بچھا دیتے . . . [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/باب صِفَةِ الْجُلُوسِ فِي الصَّلاَةِ وَكَيْفِيَّةِ وَضْعِ الْيَدَيْنِ عَلَى الْفَخِذَيْنِ:: 1309]
تشریح:
رفع سبّابہ کیا ہے؟
انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی (Forefinger/Indexfinger) کو عربی میں «مُسَبِّحة» (تسبیح کرنے والی) اور اردو میں انگشتِ شہادت (شہادت والی انگلی) بھی کہتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنے اور اس کی وحدانیت کی گواہی دینے کے وقت عام طور پر اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور اس کی وحدانیت کی گواہی نیک لوگوں کا کام ہے۔ بدکردار لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہ انگلی عنایت کی ہے، لیکن وہ اسے تسبیح و شہادت کی بجائے ناحق گالی گلوچ کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس لیے اسے عربی میں «سَبَّابَة» (گالی والی انگلی) بھی کہتے ہیں۔
«رَفْع» بھی عربی زبان ہی کا لفظ ہے۔ یہ مصدر ہے اور اس کا معنیٰ بلند کرنا ہوتا ہے۔
یوں «رَفْع سَبَّابَة» کا معنی ہوا شہادت والی انگلی کو اٹھانا۔ یہ تو ہوئی لغوی وضاحت۔
اور اصطلاحاً نماز میں تشہد کے دوران شہادت والی انگلی سے اشارہ کرنا «رَفْع سَبَّابَة» کہلاتا ہے۔
نماز کے دیگر بہت سے مسائل کی طرح اس مسئلہ میں بھی مختلف مکاتبِ فکر مختلف خیالات کے حامل ہیں۔ البتہ اہل حدیث کے نزدیک رفع سبابہ مستحب اور سنت ہے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 61-66، حدیث/صفحہ نمبر: 42   

  الشيخ ابو يحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 1310  
´تشہد میں کلمہ کی انگلی سے اشارہ`
«. . . عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ إِذَا قَعَدَ فِي التَّشَهُّدِ، وَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُمْنَى، وَعَقَدَ ثَلَاثَةً وَخَمْسِينَ، وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ . . .»
. . . ‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے تو بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھتے اور داہنا ہاتھ داہنے گھٹنے پر رکھتے اور 53 کی شکل بناتے اور کلمہ کی انگلی سے اشارہ کرتے . . . [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/باب صِفَةِ الْجُلُوسِ فِي الصَّلاَةِ وَكَيْفِيَّةِ وَضْعِ الْيَدَيْنِ عَلَى الْفَخِذَيْنِ:: 1310]
تشریح:
↰ عرب لوگ انگلیوں کے ساتھ ایک خاص طریقے سے گنتی کرتے تھے۔ اس طریقے میں 53 کے ہندسے پر ہاتھ کی ایک خاص شکل بنتی تھی، جس میں انگوٹھے اور شہادت والی انگلی کے علاوہ باقی تینوں انگلیوں کو بند کرتے ہیں اور شہادت کی انگلی کو کھول کر انگوٹھے کے سِرے کو اس کی جڑ میں لگاتے ہیں۔
مکمل مضمون رفع سبابہ، مقام کیفیت پڑھئیے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 61-66، حدیث/صفحہ نمبر: 45   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 124  
´نماز کے ہر تشہد میں شہادت کی انگلی کے ساتھ اشارہ کرنا مسنون ہے`
«. . . كان إذا جلس فى الصلاة وضع كفه اليمنى على فخذه اليمنى، وقبض اصابعه كلها واشار بإصبعه التى تلي الإبهام، ووضع كفه اليسرى على فخذه اليسرى . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں بیٹھتے تو دائیں ہتھیلی کو دائیں ران پر رکھتے اور اپنی ساری انگلیاں بند کر کے انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی (سبابہ) سے اشارہ کرتے اور بائیں ہتھیلی کو بائیں ران پر رکھتے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 124]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 580/116، من حديث ما لك به .]
تفقه:
➊ نماز میں فضول حرکتیں کرنا منع ہے۔ اگر کنکریاں ہٹانا ہی ضروری ہے تو صرف ایک دفعہ انھیں ہٹالے۔
➋ نماز کے ہر تشہد میں شہادت کی انگلی کے ساتھ اشارہ کرنا مسنون ہے اور یہ اشاره شروع تشہد سے لے کر سلام تک جاری رہتا ہے۔ آخر میں دعا کے وقت اسے مسلسل حرکت دینا صحیح محفوظ حدیث سے ثابت ہے۔دیکھئے [سنن النسائي:1269، وسنده ميں محفوظ مختصرصحيح نماز نبوي ص 22 حاشيه فقره:39]
➌ اشارے کے وقت شہادت کی انگلی کو تھوڑا سا جھکا در بنایا ہے۔ دیکھئے [سنن ابي داود 991، وسنده حسن روحه ابن خزيمه 716، وابن حبان (الاحسان:1943)]
➍ جس روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے۔ [سنن ابي داود: 989 وسنن النسائي: 1271] یہ روایت محمد بن عجلان مدلس کی تدلیس (یعنی عن) کی وجہ سے ضعیف ہے۔
➎ و ہروقت حتی الوسع امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں مصروف رہنا چاہئے۔
➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث حجت ہے بشرطیکہ وہ حسن سند کے ساتھ ثابت ہو۔
➐ نماز میں فضول کام ممنوع ہیں۔ صرف وہی امور جائزہ ہیں جن کی شریعت میں دلیل ہے یا عذر شرعی ہو۔
➑ قاسم بن محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ نے لوگوں کو تشہد میں بیٹھنے کا طریقہ بتایا تو دایاں پاؤں کھڑا کیا اور بایاں پاؤں بچھایا اور بائیں ران پر بیٹھ گئے، پاوں پر نہ بیٹھے پھر انھوں نے بتایا کہ مجھے یہ طریقہ عبداللہ بن عبداللہ بن عمر نے (عملاً) دکھایا تھا اور انہوں نے اپنے والد (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما) کو ایسا کرتے دیکھا تھا۔ [الموطأ 90/1 ح 199 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 194   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 987  
´تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنے کا بیان۔`
علی بن عبدالرحمٰن معاوی کہتے ہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے نماز میں کنکریوں سے کھیلتے ہوئے دیکھا، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے اس سے منع کیا اور کہا: تم نماز میں اسی طرح کرو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے، میں نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بیٹھتے تو اپنی داہنی ہتھیلی اپنی داہنی ران پر رکھتے اور اپنی تمام انگلیاں سمیٹ لیتے اور شہادت کی انگلی جو انگوٹھے سے متصل ہوتی ہے، اشارہ کرتے ۱؎ اور اپنی بائیں ہتھیلی بائیں ران پر رکھتے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 987]
987۔ اردو حاشیہ:
معلوم ہوا کہ تشہد میں بیٹھتے ہی یہ کیفیت ہوتی کہ دایئں ہاتھ کی مٹھی سی بنا لیتے تھے اور اشارہ کرتے تھے۔ یعنی انگشت شہادت کو اٹھائے رکھتے تھے، تاہم بار بار حرکت دینے کی ضرورت نہیں ہے، جیسے کہ آگے آ رہا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 987   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1158  
´پہلے تشہد میں بیٹھنے کی کیفیت کا بیان؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نماز کی سنت میں سے یہ بات ہے کہ تم اپنے بائیں پیر کو بچھاؤ اور دائیں کو کھڑا رکھو۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1158]
1158۔ اردو حاشیہ:
➊ حدیث میں پہلے یا دوسرے تشہد کی تخصیص نہیں، اسی لیے احناف ہر تشہد میں اسی طرح بیٹھنے کے قائل ہیں مگر دیگر صحیح روایات میں آخری تشہد کی الگ کیفیت ہے جسے تورک کہتے ہیں۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 828] تورک کی تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 1263 اور اس کا فائدہ۔ بنابریں اس طریقے کو پہلے تشہد پر محمول کیا جائے گا۔ یہی مصنف رحمہ اللہ کا مقصود ہے
➋ عبادات وغیرہ میں صحابی کا کسی فعل کو سنت کہنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول و فعل ہی کا بیان ہوتا ہے، لہٰذا حجت ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1158   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1161  
´تشہد میں نگاہ رکھنے کی جگہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کی حالت میں اپنے ہاتھ سے کنکریاں ہٹا رہا ہے، تو جب وہ سلام پھیر چکا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم نے اس سے کہا: جب تم نماز میں رہو تو کنکریوں کو ادھر ادھر مت کرو کیونکہ یہ شیطان کی طرف سے ہے، البتہ اس طرح کرو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے، اس نے پوچھا: آپ کیسے کرتے تھے؟ تو انہوں نے اپنا داہنا ہاتھ اپنی دائیں ران پر رکھا، اور اپنی اس انگلی سے جو انگوٹھے سے متصل ہے قبلہ کی طرف اشارہ کیا، اور اپنی نگاہ اسی انگلی پر رکھی، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1161]
1161۔ اردو حاشیہ:
➊ تشہد میں دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت کھلی رکھی جاتی ہے اور باقی ہاتھ بند رکھا جاتا ہے۔ اور انگشت شہادت سے اشارے کی صورت بنائی جاتی ہے۔ گویا کسی چیز کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔ نظر اشارے پر ٹکی رہے۔ (نیز دیکھیے، حدیث: 890)
➋ کوئی شخص خلاف سنت کام کر رہا ہو تو اس کی اصلاح کرنی چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1161   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1268  
´نماز شہادت کی انگلی کے علاوہ دائیں ہاتھ کی تمام انگلیوں کو سمیٹ کر رکھنے کا بیان۔`
علی بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم نے مجھے نماز میں کنکریوں سے کھیلتے دیکھا تو نماز سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے مجھے منع کیا، اور کہا: اس طرح کیا کرو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے، میں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح کرتے تھے؟ کہا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بیٹھتے تو اپنی دائیں ہتھیلی اپنی دائیں ران پر رکھتے ۱؎، اور اپنی سبھی انگلیاں سمیٹے رکھتے، اور اپنی اس انگلی سے جو انگوٹھے کے قریب ہے اشارہ کرتے، اور اپنی بائیں ہتھیلی اپنی بائیں ران پر رکھتے ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1268]
1268۔ اردو حاشیہ: دائیں ہاتھ کو رکھنے کا ایک یہ بھی انداز ہے کہ سب انگلیاں بند کرلی جائیں اور انگوٹھے کا سرا شہادت والی انگلی کی جڑ میں رکھا جائے، صرف شہادت والی انگلی کھلی رکھی جائے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1268   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1270  
´بائیں (ہاتھ) کو گھٹنے پر رکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں بیٹھتے تو آپ اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھ لیتے، اور جو انگلی انگوٹھے سے لگی ہوتی اسے اٹھاتے، اور اس سے دعا مانگتے، اور آپ کا بایاں ہاتھ آپ کے بائیں گھٹنے پر پھیلا ہوتا تھا، (یعنی: بائیں ہتھیلی کو حلقہ بنانے کے بجائے اس کی ساری انگلیاں بائیں گھٹنے پر پھیلائے رکھتے تھے)۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1270]
1270۔ اردو حاشیہ: بعض روایات میں ران پر ہاتھ رکھنے کا ذکر ہے اور بعض میں گھٹنے پر۔ تطبیق یوں ممکن ہے کہ ہتھیلی ران پر ہو اور انگلیاں گھٹنے پر۔ بعض روایات میں یہ طریقہ صراحتاً بھی منقول ہے۔ جیسا کہ حدیث: 1269 میں ہے۔ اگرچہ ران والی روایات کا لحاظ رکھتے ہوئے بعض حضرات نے پورا ہاتھ ران پر رکھنا بھی جائز قرار دیا ہے مگر اولیٰ یہی ہے کہ سب روایات پر عمل کیا جائے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1270   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 246  
´نماز کی صفت کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد کیلئے بیٹھتے تو اپنا بایاں ہاتھ اپنے بائیں گھٹنے پر دایاں ہاتھ اپنے دائیں گھٹنے پر رکھتے اور ترپن کی گرہ دیتے (یعنی تریپن کا عدد بناتے) اور اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کرتے۔ (مسلم) اور ایک روایت میں ہے جسے مسلم، ہی نے روایت کیا ہے کہ اپنی تمام انگلیاں بند کر لیتے اور انگوٹھے کے ساتھ ملی ہوئی انگلی سے اشارہ کرتے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 246»
تخریج:
«أخرجه مسلم، المساجد، باب صفة الجلوس في الصلاة، حديث:580.»
تشریح:
1. اس حدیث میں ہے: «عَقَدَ ثلَاَثًا وَّخَمْسِینَ» تشہد میں بیٹھے ہوئے جب اشارہ فرماتے تو اپنے انگوٹھے کو پاس والی انگلی کی جڑ میں رکھتے اور باقی انگلیوں کو بند رکھتے۔
اسی طرح ہمیں کرنا چاہیے‘ تاکہ سنت پر عمل ہو جائے۔
2. تشہد میں انگشت شہادت سے اشارے پر سب ائمہ متفق ہیں۔
ملا علی قاری مشہور حنفی عالم نے رفع سبابہ پر دو مستقل رسالے لکھے ہیں جن میں صحیح احادیث لا کر ثابت کیا ہے کہ رفع سبابہ مسنون ہے اور خلاصۂ کیدانی وغیرہ میں جو اسے حرام لکھا گیا ہے اس کی بڑی سخت تردید کی ہے جو قابل مطالعہ ہے۔
فقہ حنفی کی مشہور کتب در مختار‘ شامی اور شرح وقایہ وغیرہ میں بھی اسی طرح ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 246   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث913  
´تشہد کے دوران انگلی سے اشارہ کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے، اور دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے متصل انگلی کو اٹھاتے اور اس سے دعا کرتے، اور بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پہ پھیلا کر رکھتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 913]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
انگلی سے اشارہ تشہد میں ہوتا ہے۔
سجدوں کےدرمیان جلسے میں نہیں۔
اس حدیث میں، نماز میں بیٹھنے کا مطلب، تشہد میں، بیٹھنا ہے۔
جیسے کہ حدیث: 912 سے واضح ہے۔
|
(2)
تشہد میں بایاں ہاتھ تو اسی طرح رکھا جائے گا۔
جسطرح سجدوں کے درمیان جلسے میں ہوتا ہے۔
دایئں ہاتھ کا ایک طریقہ اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔
کہ انگوٹھے کو درمیانی انگلی کے ساتھ ملا کر حلقہ بنایا جائے۔
اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا جائے۔
اس صورت میں چھوٹی دونوں انگلیاں بند رکھی جایئں گی۔ (سنن ابی داؤد، الصلاۃ، تفریع أبواب الرکوع والسجود۔
۔
۔
، باب الإشارہ فی التشھد، حدیث: 987)

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انگوٹھا شہادت کی انگلی کی نچلے پور پر رکھا جائے۔
اور باقی تینوں انگلیاں بند ہوں۔
اسے حدیث میں ترپن کےعدد سے تعبیر کیا گیا ہے۔
دیکھئے: (صحیح مسلم، المساجد، باب صفة الجلوس فی الصلاة۔
۔
۔
، حدیث: 580)

اہل عرب میں اعداد کے جوخاص اشارات رائج تھے ان کے مطابق ترپن کا عدد اس طرح بنتا ہے۔
اس لئے اس کیفیت کو اس لفظ سے ظاہر کیا گیا۔

(3)
انگلی کے ساتھ دعا کرنے کامطلب یہ ہے کہ دعا کےدوران میں انگلی اٹھا کر اشارہ کیا جائے۔

(4)
یہ اشارہ ابتداء سے انتہا یعنی سلام پھیرنے تک کیا جائے۔

(5)
اشارے کے ساتھ انگلی کو حرکت دینا یا دیتے رہنا ضروری نہیں ہے بعض لوگ صرف (الااللہ)
پرانگلی کو اٹھاتے اور پھر رکھ دیتے ہیں۔
یہ بالکل بے بنیاد ہے اور بعض لوگ مسلسل حرکت دیتے رہتے ہیں۔
یہ بھی صحیح نہیں۔
بعض روایات میں (یحرکھا)
کے الفاظ تو آتے ہیں لیکن اس کا مطلب بھی (یدعو بھا یا یشیر بھا)
ہی ہے۔
یعنی دعا یا اشارہ کرتے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 913   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:662  
662- علی بن عبدالرحمٰن معاوی بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پہلو میں نماز ادا کی۔ (نماز کے دوران) میں نے کنکریوں کو الٹا پلٹا۔ جب میں نے نماز مکمل کی، تو انہوں نے فرمایا: تم (نماز کے دوران) کنکریاں نہ الٹایا کرو، کیونکہ کنکریاں الٹانا شیطان کا کام ہے۔ تم ویسا کیا کرو جس طرح میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے دیکھا ہے میں نے دریافت کیا: آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ تو انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے دائیں زانو پر رکھا۔ پھر امام حمیدی رحمہ اللہ نے اپنی تین انگلیاں ملا کر اور اپنی شہادت کی انگلی کو کھڑا کیا اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:662]
فائدہ:
سفیان نے کہا: یحییٰ بن سعید بروایت مسلم اس کو بیان کیا کرتے تھے تو میں مسلم سے ملا اور اس نے مجھ سے حدیث بیان کی اور اس میں مزید یہ بیان کیا کہ اشارۂ شہادت انگلی شیطان کو پگھلا کر رکھ دیتا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 665