سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
93. باب مَا جَاءَ فِي الاِعْتِدَالِ فِي السُّجُودِ
باب: سجدے میں اعتدال کا بیان۔
حدیث نمبر: 275
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ فَلْيَعْتَدِلْ وَلَا يَفْتَرِشْ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ الْكَلْبِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ، وَأَنَسٍ، وَالْبَرَاءِ، وَأَبِي حُمَيْدٍ، وَعَائِشَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَخْتَارُونَ الِاعْتِدَالَ فِي السُّجُودِ وَيَكْرَهُونَ الِافْتِرَاشَ كَافْتِرَاشِ السَّبُعِ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اعتدال کرے
۱؎ اور اپنے ہاتھ کو کتے کی طرح نہ بچھائے
“ ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- جابر کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عبدالرحمٰن بن شبل، انس، براء، ابوحمید اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا عمل اسی پر ہے، وہ سجدے میں اعتدال کو پسند کرتے ہیں اور ہاتھ کو درندے کی طرح بچھانے کو مکروہ سمجھتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة 21 (891)، (تحفة الأشراف: 2311)، مسند احمد (3/305، 315، 389) (صحیح)»
وضاحت:
۱؎: یعنی ہیئت درمیانی رکھے اس طرح کہ پیٹ ہموار ہو دونوں کہنیاں زمین سے اٹھی ہوئی اور پہلوؤں سے جدا ہوں اور پیٹ بھی رانوں سے جدا ہو۔ گویا زمین اور بدن کے اوپر والے آدھے حصے کے درمیان فاصلہ نظر آئے۔
۲؎: ”کتے کی طرح“ سے مراد ہے کہ وہ دونوں کہنیاں زمین پر بچھا کر بیٹھتا ہے، اس طرح تم سجدہ میں نہ کرو۔قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (891)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 275 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 275
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی ہیئت درمیانی رکھے اس طرح کہ پیٹ ہموار ہو دونوں کہنیاں زمین سے اٹھی ہوئی اور پہلوؤں سے جُدا ہوں اور پیٹ بھی رانوں سے جُدا ہو۔
گویا زمین اور بدن کے اُوپر والے آدھے حصے کے درمیان فاصلہ نظر آئے۔
2؎:
”کتے کی طرح“ سے مراد ہے کہ وہ دونوں کہنیاں زمین پر بچھا کر بیٹھتا ہے،
اس طرح تم سجدہ میں نہ کرو۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 275
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث891
´سجدے میں اعتدال اور میانہ روی۔`
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں کا کوئی شخص سجدہ کرے تو اعتدال سے کرے ۱؎، اور اپنے دونوں بازوؤں کو کتے کی طرح نہ بچھائے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 891]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سجدے میں اعتدال کا مطلب یہ ہے کہ نہ اتنا اونچا رہے کہ سجدے کے بعض اعضاء زمین پر نہ لگیں۔
نہ اتنا نیچا ہوجائے کہ پورے بازو زمین پر لگ جایئں۔
یا پیٹ رانوں سے مل جائے۔
یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ نہ بہت لمبا سجدہ کرے نہ بہت مختصر لیکن زیادہ طویل سجدہ اس وقت منع ہوگا۔
جب ا س کی اقتداء میں کوئی اور نماز پڑھ رہا ہو۔
خواہ فرض نماز ہو یا نفل۔
(2)
کتا جب زمین پر اطمینان سے بیٹھتا ہے۔
تو پورے ہاتھ زمین پر پھیلا لیتا ہے۔
سجدے میں اس طرح بازو پھیلانا درست نہیں۔
بلکہ ہتھیلیاں زمین پر لگی ہونی چاہیں۔
اور کہنیاں زمین سے بلند رہیں جیسے کہ گذشتہ احادیث میں بیان ہوا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 891