حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا قَالَ الْإِمَامُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُهُ قَوْلَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ أَنْ يَقُولَ الْإِمَامُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَيَقُولَ مَنْ خَلْفَ الْإِمَامِ: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ، وقَالَ ابْنُ سِيرِينَ: وَغَيْرُهُ يَقُولُ مَنْ خَلْفَ الْإِمَامِ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، مِثْلَ مَا يَقُولُ الْإِمَامُ، وَبِهِ يَقُولُ: الشَّافِعِيُّ , وَإِسْحَاقُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام
«سمع الله لمن حمده» ”اللہ نے اس کی بات سن لی جس نے اس کی تعریف کی
“ کہے تو تم
«ربنا ولك الحمد» ”ہمارے رب! تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں
“ کہو کیونکہ جس کا قول فرشتوں کے قول کے موافق ہو گیا تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے بعض اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ امام
«سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد» کہے
۱؎ اور مقتدی
«ربنا ولك الحمد» کہیں، یہی احمد کہتے ہیں،
۳- اور ابن سیرین وغیرہ کا کہنا ہے جو امام کے پیچھے
(یعنی مقتدی) ہو وہ بھی
«سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد» اسی طرح کہے گا
۲؎ جس طرح امام کہے گا اور یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔
حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 780
´امام کا بلند آواز سے آمین کہنا`
«. . . إِذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا، فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام «آمين» کہے تو تم بھی «آمين» کہو۔ کیونکہ جس کی «آمين» ملائکہ کے آمین کے ساتھ ہو گئی اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے . . .“ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 780]
فقہ الحدیث
اس حدیث میں مقتدیوں کی آمین کو امام کی آمین کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے، یعنی جب امام آمین کہے گا تب مقتدی آمین کہیں گے۔ اگر امام دل میں آمین کہے تو مقتدیوں کو کس طرح علم ہو گا کہ امام نے آمین کہی ہے، مثلاً: امام نے «ولا الضالين» کہہ کر سانس لینے کے لیے تھوڑی دیر سکتہ کر لیا، اس پر یہ فرض تو نہیں کہ «ولا الضالين» کہتے ہی فوراً آمین کہہ دے اور سکتہ ہرگز نہ کرے۔ سکتے والی حالت میں امام نے ابھی آمین کہی ہی نہیں اور مقتدی حضرات آمین کہہ دیتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟ فرشتے امام کے آمین کے ساتھ ہی آمین کہتے ہیں یا امام کو چھوڑ کر مقتدیوں کی آمین کے ساتھ آمین کہتے ہیں؟
مطلب واضح ہے کہ امام الدنیا فی فقہ الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر «جهر الامام بالتامين» کا باب باندھا ہے۔ مقتدی جب امام کی آمین سنیں گے تب وہ بھی آمین کہہ دیں گے اور فرشتے بھی آمین کہہ دیں گے، پھر موافقت والی بات ہو گی۔
ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 133، حدیث/صفحہ نمبر: 23
حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 782
´مقتدی کا آمین بلند آواز سے کہنا`
«. . . أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا قَالَ: الْإِمَامُ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ فَقُولُوا: آمِينَ، فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُهُ قَوْلَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہے تو تم بھی «آمين» کہو کیونکہ جس نے فرشتوں کے ساتھ «آمين» کہی اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ . . .“ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 782]
فقہ الحدیث
اس حدیث میں امام کے آمین کہنے کا ذکر نہیں، لہٰذا اسے سابقہ حدیث کے ساتھ ملا کر سمجھا جائے گا۔
تنبیہ: بعض علماء نے کہا ہے کہ قول میں خطاب اگر مطلقاً ہو تو جہر پر محمول ہوتا ہے۔
عرض ہے کہ جس اصول کی تخصیص دلیل کے ساتھ ثابت ہو تو خاص کو علیحدہ کر لیا جاتا ہے اور باقی پر وہ اصول جاری رہتا ہے۔ جیسا کہ تشہد کا خفیہ پڑھنا ثابت ہے۔ لیکن آمین کا جہری نمازوں میں خفیہ پڑھنا ہرگز ثابت نہیں ہے، لہٰذا یہاں قول اپنے عمومی اصول پر ہی رہے گا اور اس پر مزید تائید یہ کہ صحیح مرفوع احادیث اور آثار سے آمین بلجہر ثابت ہے۔ «والحمدلله»
ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 133، حدیث/صفحہ نمبر: 24
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 118
´نماز میں آمین کہنے کی فضیلت کہ یہ ذریعہ مغفرت ہے`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا امن الإمام فامنوا، فإنه من وافق تامينه تامين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه“»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔۔۔“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم 118]
تخریج الحدیث: [الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 87/1 ح 191، ك 3 ب 11 ح 44/2، التمهيد 8/7، الاستذكار: 167 ● وأخرجه البخاري 780، ومسلم 410، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ امام ابوالعباس السراج رحمہ اللہ نے صحیح سند کے ساتھ امام زہری سے نقل کیا ہے کہ «كَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلَّى اللهُ عَليهِ وسَلمَ إذَا قَالَ وَلَاالضَّالِّيْنَ، جَهََرَ بِآمِيْنَ» [حديث السراج، قلمي ص 35 ب]
➋ اس حدیث سے محدثین کرام نے آمین بالجہر کا مسئلہ ثابت کیا ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 770 وصحيح ابن خزيمه 286/1 ح 570 وسنن ابن ماجه 852 و سنن النسائي 144/2 ح 929]
➌ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی «فَجَهَرَ بِآمِينَ» تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین بالجہر کہی۔ [سنن ابي داود: 933، الخلافيات للبيهقي، قلمي ص 15/1 وسنده حسن]
◄ اس قسم کی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے امام مسلم فرماتے ہیں: «تواترت الروايات كلها أن النبى صلى الله عليه وسلم جهر بآمين» تمام روایات متواتر ہیں کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین بالجہر کہی۔ [كتاب التميز قلمي ص 9، مطبوع ص 40]
➍ امام شعبہ کی جس روایت میں خفیہ آمین کا ذکر آیا ہے و شاذ ہونے کی وجہ سے محدثینِ کرام کے نزدیک ضعیف ہے۔ اگر یہ روایت صحیح بھی ہوتی تو اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ سری نماز میں خفیہ آمین کہنی چاہئے۔ یاد رہے کہ سری نماز میں خفیہ آمین کہنے پر اجماع ہے۔
➎ صحابہ و تابعین (جہری نمازوں میں) اونچی آواز سے آمین کہتے تھے۔ دیکھئے [صحيح بخاري قبل حديث 780 و مصنف ابن ابي شيبه 425/2 ح 7963 وسنده حسن]
● سلام (السلام علیکم) اور آمین سے حسد کرنا یہودیوں کا کام ہے۔ دیکھئے: [سنن ابن ماجه 856 وسنده صحيح و صححه ابن خزيمة: 1585، والبوصيري فى زوائد ابن ماجه، والمنذري فى الترغيب والترهيب 328/1]
● نیز دیکھئے: میری کتاب [القول المتين فى الجهر بالتامين]
➏ بعض الناس اس حدیث سے یہ مسئلہ کشید کرتے ہیں کہ ”فرشتے آہستہ آواز سے آمین کہتے ہیں کیونکہ ان کی آواز سنائی نہیں دیتی لہٰذا آہستہ آواز سے آمین کہنی چاہئے۔“ یہ تو صرف ”ڈوبتے کو تنکے کا سہارا“ کے مترادف ہے۔
➐ نماز میں آمین کہنے کی فضیلت کہ یہ ذریعہ مغفرت ہے۔
➑ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر مسبوق سورہ فاتحہ کا کچھ حصہ پڑھ چکا ہو یا یہ سورۃ پڑھنے والا ہو، اتنے میں امام آمین کہہ دے تو یہ بھی آمین کہے گا اور بعد میں اپنی سورہ فاتحہ پوری کرے گا۔ اب اگر یہ اپنی «ولا الضالين» پر پہنچے اور امام آمین کہنے کے بعد قرأت کر رہا ہو تو یہ آمین نہیں کہے گا بلکہ خاموش رہے گا جیسا کہ دوسرے عمومی دلائل سے ثابت ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 18
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 119
´نماز میں آمین کہنے کی فضیلت (اور آمین بالجہر)`
«. . . 327- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا قال أحدكم آمين وقالت الملائكة فى السماء آمين فوافقت إحداهما الأخرى غفر له ما تقدم من ذنبه.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص آمین کہتا ہے تو فرشتے آسمان پر آمین کہتے ہیں، پھر اگر دونوں کی آمین ایک دوسرے سے مل جائے تو اس شخص کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 119]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 781، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ آمین کہنا بہت فضیلت والا کام ہے۔
➋ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [الموطأ ح18، 429]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 327
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 120
´نماز میں آمین کہنے کی فضیلت (اور آمین بالجہر)`
«. . . 429- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا قال الإمام: {غير المغضوب عليهم ولا الضالين}، فقولوا آمين؛ فإنه من وافق قوله قول الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام «غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ» کہے تو تم آمین کہو کیونکہ جس کا قول فرشتوں کے قول سے مل جائے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔“ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 120]
تخریج الحدیث:
[وآخرجه البخاري 782، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ ایک حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إذا أمّن الإمام فأمّنوا» جب امام آمین کہے تو تم آمین کہو۔ [صحيح بخاري: 780، صحيح مسلم: 410، دارالسلام: 915] لہٰذا امام سے پہلے آمین نہیں کہنی چاہئے۔
➋ سنت کے مطابق آمین کہنے سے بڑا ثواب ملتا ہے۔ ➌ نیز دیکھئے: حدیث [البخاري 781، 780، ومسلم 410]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 429
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 123
´رکوع کے بعد کی دعائیں`
«. . . 430- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا قال الإمام: سمع الله لمن حمده، فقولوا: اللهم ربنا ولك الحمد فإنه من وافق قوله قول الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہے تو تم سب «اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ» کہو کیونکہ جس کا قول فرشتوں کے قول سے مل جائے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔“ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 123]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 796، ومسلم 409 من حديث مالك به]
تفقه:
➊ امام کے «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہنے کے بعد ہی «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہنا چاہئے۔
➋ قول راجح میں امام اور مقتدی دونوں کو «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» اور «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہنا چاہئے۔
● امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: جب وہ (امام) «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہے تو اس کے مقتدی «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، اَللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہیں۔ [مصنف ابن ابي شيبه 1/253 ح2600 وسنده صحيح]
● امام عامر بن شراحیل الشعبی رحمہ اللہ نے فرمایا: امام کے پیچھے «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» نہیں بلکہ «اَللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہنا چاہئے۔ [ابن ابي شيبه 1/253 ح2598 وسنده صحيح]
ان دونوں اقوال میں سے امام ابن سیرین کے قول کی تائید مرفوع روایت سے ہوتی ہے۔ دیکھئے: [سنن الدارقطني 1/340 ح1270، 1271، وسنده حسن] لہٰذا یہی قول راجح ہے۔
➌ «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» سراً کہنا چاہئے لیکن بعض اوقات جہراً کہنا بھی جائز ہے۔
● عبدالرحمٰن بن ہرمز الاعرج رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) کو اونچی آواز کے ساتھ «اَللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 1/248 ح2556 وسنده صحيح]
➍ رکوع کے بعد «ربنا ولک الحمد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیه» کہنا بھی ثابت ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 799]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 430
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 848
´جب آدمی رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «اللهم ربنا لك الحمد» کہو، کیونکہ جس کا قول فرشتوں کے قول کے موافق ہو جائے گا اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔“ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 848]
848۔ اردو حاشیہ:
➊ معلوم ہوا کہ ملائکہ (فرشتے) بھی نمازیوں کے ساتھ یہ کلمات کہتے ہیں اور ان کی دعا کا وقت وہی ہوتا ہے، جب امام رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے تسمیع سے فارغ ہوتا ہے، تو وہ اپنے کلمات کہتے ہیں۔
➋ مقتدی کو بھی امام کی اقتداء کرنی چاہیے اور اس میں ملائکہ کی موافقت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 848
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 936
´امام کے پیچھے آمین کہنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گی اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔“ ابن شہاب زہری کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آمین کہتے تھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 936]
936۔ اردو حاشیہ:
➊ یعنی امام «غَيْرِ الْمَغْضُو بِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ» کے بعد آمین کہے، تو تم بھی آمین کہو اسی وقت فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، اس اجتماع و توافق کی فضیلت یہی ہے کہ نمازیوں کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ «والله ذوالفضل العظيم»
➋ حدیث کے الفاظ ”جب امام آمین کہے تو تم آمین کہو۔“ کا تقاضا یہ ہے کہ مقتدی امام کی آمین کے بعد آمین کہیں، نہ کہ امام کے ساتھ ہی، نہ امام سے پہلے ہی۔ اس میں بھی یہ کوتاہی عام ہے کہ اکثر لوگ امام کے «ولا الضالين» پڑھتے ہی آمین کہہ دیتے ہیں۔ حالانکہ مقتدیوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے امام کو آمین کہنے کا موقع دیں اور اس کے بعد خود آمین کہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 936
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 926
´امام کے زور سے آمین کہنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب قاری (امام) آمین کہے، تو تم بھی آمین کہو کیونکہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہو جائے ۱؎ گا تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ بخش دے گا۔“ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 926]
926 ۔ اردو حاشیہ:
➊ معلوم ہوا امام صاحب آمین اونچی آواز سے کہیں تاکہ دوسرے لوگ بھی کہہ سکیں۔ ابوداود میں صریح اور صحیح روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب «وَلا الضّالِّينَ» کہتے تو آمین کہتے اور اس کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے۔ [سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 932]
امام شافعی، احمد اور اسحاق رحم اللہ علیہم کا یہی مسلک ہے۔
➋ فرشتوں کی آمین سے ملنے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ایک وقت میں ہوں، لہٰذا تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ امام اور مقتدیوں کی آمین متصل ہونی چاہیے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ”جب امام «غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ولا الْضّالِّينَ» کہے تو تم آمین کہو۔“ [صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 782، وصحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 410]
، البتہ مقتدیوں کو امام کی آواز سن کر آمین شروع کرنی چاہیے، امام سے پہل کرنا درست نہیں۔
➌ بعض حضرات نے «إذا قال الإمامُ: (وَلا الضّالِّينَ)، فقولُوا: آمينَ» سے استدلال کیا ہے کہ سورۂ فاتحہ امام ہی پڑھے گا اور مقتدی صرف آمین کہے گا۔ لیکن یہ استدلال احادیث صحیحہ متواترہ کے خلاف ہے۔ سورۂ فاتحہ کے وجوب کے دلائل بے شمار ہیں جن میں سے بعض کا احاطہ سابقہ احادیث میں بھی ہو چکا ہے، لہٰذا سورۂ فاتحہ نماز کا رکن ہے جس کے بغیر کسی کی کوئی نماز نہیں ہوتی۔ واللہ أعلم۔
➍ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سورۂ فاتحہ کے اختتام پر صرف آمین کہنی چاہیے، اس سے زائد الفاظ کہنا درست نہیں کیونکہ جن روایاتِ آمین میں زائد الفاظ ہیں، وہ روایات ضعیف ہیں: مثلاً: امام بیہقی رحمہ اللہ نے وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، جب آپ نے «غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضّالِّينَ» پڑھا تو «ربِّ اغفرْ لي، آمين» کہا۔ [السنن الکبریٰ بیهقي: 2؍58]
یہ روایت ابوبکر نبشلی کی وجہ سے ضعیف ہے۔
➎ اس حدیث میں امامیہ فرقے کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ نماز میں آمین کہنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 926
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 929
´امام کے زور سے آمین کہنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہو جائے گا، اس کے تمام سابقہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔“ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 929]
929 ۔ اردو حاشیہ: ”سابقہ سب گناہ“ جمہور اہل علم کے نزدیک، اس سے اور دیگر اعمال جن کے متعلق یہ بشارت دی گئی ہے کہ ان کے بجا لانے پر سابقہ سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، ان سے صغیرہ گناہ مراد ہیں جو توبہ کیے بغیر مختلف اعمال سے معاف ہو جاتے ہیں۔ جہاں تک کبیرہ گناہوں کی معافی کا معاملہ ہے تو وہ خالص توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔ لیکن یہ اور اس قسم کی دیگر احادیث کے ظاہر کا تقاضا یہی ہے کہ ان اعمال کی تاثیر و برکت سے سبھی گناہ معاف ہو جاتے ہیں، وہاں توبہ کی شرط نہیں، الفاظ کا عموم بھی اسی بات کا متقاضی ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 929
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 930
´امام کے پیچھے آمین کہنے کے حکم۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہے تو تم لوگ آمین کہو، کیونکہ جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہو جائے گا اس کے تمام سابقہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔“ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 930]
930 ۔ اردو حاشیہ: امام کے پیچھے مقتدیوں کا آمین کہنا اتفاقی مسئلہ ہے۔ اختلاف آہستہ اور اونچی کہنے میں ہے۔ بیہقی میں حضرت عطاء سے روایت ہے کہ میں نے دو سو اصحاب رسول کو مسجد حرام میں دیکھا کہ جب امام «وَلَا الضَّالِّينَ» کہتا تو ان کی آمین کی آواز سے گونج پیدا ہو جاتی تھی۔ [السنن الکبری للبیھقي، الصلاة: 59/2]
حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے خصوصاً منقول ہے کہ ان کے مقتدیوں کی آواز سے شور برپا ہو جاتا تھا۔ [السنن الکبریٰ للبيھقي، الصلاة: 59/2]
اس مسئلے کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباري: 345-339/2، تحت حدیث: 782-780]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 930
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1064
´ «ربنا ولک الحمد» کہنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام «سمع اللہ لمن حمده» کہے، تو تم «ربنا ولك الحمد» کہو کیونکہ جس کا کہنا فرشتوں کے کہنے کے موافق ہو گا، اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے۔“ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1064]
1064۔ اردو حاشیہ: معلوم ہوتا ہے کہ انسان پر مقرر فرشتے بھی نماز میں اس کے ساتھ شریک ہوتے ہیں، خصوصاً امام کو جواب دیتے ہیں، مثلاً: امام کی فاتحہ پر آمین کہنا اور «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کے جواب میں «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہنا وغیرہ، لہٰذا مقتدی بھی امام کو جواب دے اور فوراًً دے (جیسا کہ جواب کا دستور ہے)۔ اس طرح وہ فرشتوں کی موافقت کی فضیلت حاصل کرے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی معیت کوئی معمولی بات نہیں اور پھر معصوم فرشتوں کی معیت۔ اللہ! اللہ!
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1064
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث851
´آمین زور سے کہنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، اس لیے کہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، اور جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے، تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 851]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ مقتدی کو اس وقت آمین کہنی چاہیے۔
جب امام آمین کہے اگرچہ مقتدی کی قراءت امام سے آگے پیچھے ہی ہو۔
(2)
اس سے امام کا بلند آواز سے آمین کہنا ظاہر ہوتا ہے۔
کیونکہ مقتدی اس کی آواز سن کر آمین کہیں گے۔
(3)
نمازی کی آمین کا فرشتوں کی آمین سے مل جانے کا کیا مطلب ہے۔
؟ اس کی تشریح مختلف انداز سے کی گئی ہے۔
(الف)
وقت میں موافقت یعنی جس وقت فرشتے آمین کہیں اس وقت نمازی آمین کہیں۔
(ب)
خلوص میں موافقت۔
فرشتوں کا ہر عمل اخلاص کے ساتھ محض اللہ کی رضا کےلئے ہوتا ہے۔
اگر نمازی بھی اسی طرح اخلاص کےساتھ آمین کہے تو اس کے گناہ معاف ہوجایئں گے۔
(ج)
خشوع میں موافقت- آمین دعا ہے اور دعا میں خشوع قبولیت کا باعث ہے۔
فرشتوں کے اعمال میں خشوع پایا جاتا ہے۔
اسی طرح مومن کی دعا اور خصوصاً آمین میں خشوع اور ادب واحترام ہونا چاہیے۔
(4)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث اس عنوان کے تحت ذکر کی ہے (باب جھر المأموم بالتأمین۔)
”مقتدی کا بلند آواز سے آمین کہنا“ (صحیح البخاري، الأذان، باب جھر المأموم بالتأمین، حدیث: 782)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 851
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 913
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب امام سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہے تو تم، اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، اے اللہ! ہمارے آقا تو ہی حمد و توصیف کا حقدار ہے۔ کہو کیونکہ جس کا بقول فرشتوں کے قول کے موافق ہو گیا، اس کے گزشتہ گناہ معاف کر ديئے جائیں گے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:913]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
نماز با جماعت کی صورت میں رکوع سے اٹھتے وقت،
جب امام سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہ (اللہ نے سنی اس بندہ کی جس نے اس کی حمد کی)
کہتا ہے تو اللہ کے فرشتے بھی یہ (اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ)
کلمات کہتے ہیں اس لیے مقتدیوں کو بھی آپﷺ نے اس موقع پر یہی کلمہ کہنے کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ جن لوگوں کا یہ کلمہ فرشتوں کے کلمہ کے مطابق ہو گا،
اس کلمہ کی برکت سے اس کے پچھلے جھوٹے گناہ معاف ہو جائیں گے،
موافق اور مطابق ہونے کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے رکوع سے اٹھنے کے فوراً بعد یہ کلمات کہے جائیں گے،
تاکہ فرشتوں کے بالکل ساتھ ہوں،
آگے پیچھے نہ ہوں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 913
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 915
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس وقت امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گی اس کےگزشتہ قصور معاف کردئے جائیں گے“، ابن شہاب نے کہا، رسول اللہ ﷺ بھی آمین کہتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:915]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جب امام سورہ فاتحہ ختم کرکے آمین کہے تو مقتدیوں کو بھی اس وقت آمین کہنی چاہیے،
کیونکہ اللہ کے فرشتے بھی اس وقت آمین کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے کہ جو بندے آمین میں فرشتوں کی موافقت کریں گے ان کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 915
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 781
781. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی آمین کہتا ہے تو آسمان پر فرشتے بھی آمین کہتے ہیں۔ اگر دونوں کی آمین ایک دوسرے سے مل جائے تو اس (نمازی) کے تمام گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:781]
حدیث حاشیہ:
الحمد شریف کے خاتمہ پر فرشتے بھی آمین کہتے ہیں۔
سری میں پست آواز سے اورجہری میں بلند آواز سے، پس جس نماز کی آمین فرشتوں کی آمین کے ساتھ مل گئی اس کا بیڑا پار ہو گیا۔
اللہ پاک ہر مسلمان کا بیڑا پار لگائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 781
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 782
782. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب امام ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾ ) کہے تو تم آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے ہم آہنگ ہوئی اس کے تمام گزشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔“ اس (سمی) کی متابعت محمد بن عمرو نے کی ہے اور نعیم مجمر نے براہ راست حضرت ابوہریرہ ؓ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:782]
حدیث حاشیہ:
مقتدی امام کی آمین سن کر آمین کہیں گے، اسی سے مقتدیوں کے لیے آمین بالجہر کا اثبات ہوا۔
بنظر انصاف مطالعہ کرنے والوں کے لیے یہی کافی ہے۔
تعصب مسلکی کا دنیا میں کوئی علاج نہیں ہے۔
تشریح:
جہری نمازو ںمیں سورۃ فاتحہ کے اختتام پر امام اور مقتدیوں کے لیے بلند آواز سے آمین کہنا یہ بھی ایک ایسی بحث ہے جس پر فریقین نے کتنے ہی صفحات سیاہ کر ڈالے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ اس پر بڑے بڑے فسادات بھی ہو چکے ہیں۔
محترم برادران احناف نے کتنی مساجد سے آمین بالجہر کے عاملین کو نکال دیا۔
مارا پیٹا اور معاملہ سرکاری عدالتوں تک پہنچا ہے۔
یہی وجہ ہوئی کہ اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے اہل حدیث حضرات نے اپنی مساجد الگ تعمیر کیں اور اس طرح یہ فساد کم ہوا۔
اگر غور کیا جائے تو عقلاً و نقلاً یہ جھگڑا ہرگز نہ ہونا چاہئے۔
لفظ آمین کے معنی یہ ہیں کہ اے خدا میں نے جو دعائیں تجھ سے کی ہیں ان کو قبول فرمالے۔
یہ لفظ یہود و نصاری میں بھی مستعمل رہا اور اسلام میں بھی اسے استعمال کیا گیا۔
جہری نمازوں میں اس کا زور سے کہنا کوئی امر قبیح نہیں تھا۔
مگر صد افسوس کہ بعض علماء سو نے رائی کا پہاڑ بنا دیا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں سرپھٹول ہوئی اور عرصہ کے لیے دلوں میں کاوش پیدا ہو گئی۔
سیدنا حضرت امام بخاری ؒ نے یہاں باب منعقد کرکے اوراس کے تحت احادیث لاکر اس بحث کا خاتمہ فرما دیا ہے۔
پھر بھی بہت سے لوگ تفصیلات کے شائق ہیں۔
لہٰذا ہم اس بارے میں ایک تفصیلی مقالہ پیش کر رہے ہیں جو متحدہ بھارت کے ایک زبردست فاضل استاذ الفضلاء راس الاتقیاء حضرت علامہ عبداللہ صاحب روپڑی ؒ کے زور قلم کا نتیجہ ہے۔
اس میں دلائل کے ساتھ ساتھ ان پر اعتراضات واردہ کے کافی شافی جوابات دیئے گئے ہیں۔
چنانچہ حضرت مولانا صاحب قدس سرہ فرماتے ہیں:
بلند آواز سے آمین کہنے کے متعلق احادیث و آثار اور علماءاحناف کے فتاوے احادیث:
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں:
کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم إذا تلا غیر المغضوب علیهم ولا الضالین قال آمین حتی یسمع من یلیه من الصف الأول۔
(أبوداود، ص: 134 طبع دہلي) (ترجمہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پڑھتے تو آمین کہتے۔
یہاں تک کہ جو پہلی صف میں آپ کے نزدیک تھے وہ سن لیتے۔
اس حدیث پر حنفیہ کی طرف سے دو اعتراض ہوتے ہیں۔
ایک یہ کہ اس حدیث کی اسناد میں بشر بن رافع الحارثی ابوالاسباط ایک راوی ہے۔
اس کے متعلق نصب الرایہ، جلد:
اول ص: 371 میں علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں:
''ضعفه البخاري و الترمذي والنسائي و أحمد و ابن معین وابن حبان'' اس کو امام بخاری، ترمذی، نسائی، احمد، ابن معین اور ابن حبان رحمہم اللہ نے ضعیف کہا ہے۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ایک راوی ابوعبداللہ بن عم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہے، جو بشر بن رافع کا استاد ہے، اس کے متعلق علامہ زیلعی رحمۃ للہ علیہ لکھتے ہیں:
“ کہ اس کا حال معلوم نہیں اور بشر بن رافع کے سوا اس سے کسی نے روایت نہیں کی۔
یعنی یہ مجہول العین ہے، اس کی شخصیت کا پتہ نہیں۔
”جواب اعتراض اول:
خلاصہ تہذیب الکمال کے صفحہ41 میں بشر بن رافع کے متعلق لکھا ہے۔
و ثقه ابن معین و ابن عدي وقال البخاري لا یتابع علیه۔
یعنی ابن معین اور ابن عدی نے اس کو ثقہ کہا ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے۔
اس کی موافقت نہیں کی جاتی۔
اس سے معلوم ہوا کہ کوئی ضعیف کہتا ہے اور کوئی ثقہ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ضعیف کہنے والوں نے ضعف کی وجہ بیان نہیں کی اور ایسی جرح کو جرح مبہم کہتے ہیں۔
اور اصول کا قاعدہ ہے:
”ثقہ کہنے والوں کے مقابلے میں ایسی جرح کا اعتبار نہیں۔
ہاں اگر وجہ ضعف بیان کر دی جاتی تو ایسی جرح بے شک تعدیل پر مقدم ہوتی اور ایسی جرح کو جرح مفسر کہتے ہیں۔
“ پھر امام بخاری ؒ کا کہنا کہ اس کی موافقت نہیں کی جاتی۔
یہ بہت ہلکی جرح ہے۔
ایسے راوی کی حدیث حسن درجہ سے نہیں گرتی۔
غالباً اسی لیے ابوداؤد ؒ اور منذری نے اس پر سکوت کیا ہے اور اس سے دوسرے اعتراض کا جواب بھی نکل آیا ہے۔
کیوں کہ ابوداؤد جس حدیث پر سکوت کرتے ہیں، وہ ان کے نزدیک اچھی ہوتی ہے اور مجہول العین کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔
پس ابوعبداللہ مجہو ل العین نہ ہوا، ورنہ وہ سکوت نہ کرتے۔
علاوہ اس کے علامہ زیلعی ؒ کو غلطی لگی ہے۔
یہ مجہول نہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ تقریب میں لکھتے ہیں۔
مقبول یعنی اس کی حدیث معتبر ہے۔
امام دار قطنی ؒ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی اسناد حسن ہیں، مستدرک حاکم میں ہے کہ یہ حدیث بخاری مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
امام بیہقی کہتے ہیں۔
حسن صحیح ہے۔
(نیل الأوطار، جلد: 2ص: 117، طبع مصر)
تنبیہ:
نصب الرایہ جلد اول/ ص: 371 کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ اس کی اسناد میں اسحاق بن ابراہیم بن العلاءزبیدی ضعیف ہے۔
مگر جو جرح مفسر ثابت نہیں ہوئی ا س لیے دار قطنی نے اس کو ''حسن'' کہا ہے اور حاکم نے صحیح اور بیہقی نے حسن صحیح اور میزان الاعتدال میں جو عوف طائی سے اس کا جھوٹا ہونا ذکر ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے تقریب میں اس کی تردید کی ہے اور خلاصہ تہذیب الکمال میں عوف طائی کے ان الفاظ کو نقل ہی نہیں کیا۔
حالانکہ وہ خلاصہ والے میزان الاعتدال سے لیتے ہیں۔
(2)
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں:
عن أبي هریرة قال ترك الناس التامین کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم إذا قال غیر المغضوب علیهم ولا الضالین قال آمین حتی یسمعها أهل الصف الأول فیرتج بها المسجد۔
ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں، لوگوں نے آمین چھوڑ دی، رسول اللہ ﷺ جب غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہتے تو آمین کہتے۔
یہاں کہ پہلی صف سن لیتی۔
پس (بہت آوازوں کے ملنے سے)
مسجد گونج جاتی۔
(ابن ماجة، ص: 62، طبع دہل)
اس حدیث کی صحت بھی ویسی ہی ہے، جیسی پہلی حدیث کی۔
ملاحظہ ہو نیل الاوطار، جلد2، ص: 117، طبع مصر) (3)
عن أم الحصین أنها کانت تصلي خلف النبي صلی اللہ علیه وسلم في صف النساء فسمعته یقول الحمد للہ رب العلمین الرحمن الرحیم مالك یوم الدین حتی إذا بلغ غیر المغضوب علیهم ولاالضالین قال آمین۔
(مجمع الزوائد هیثمي، جلد: 2ص: 114، تخریج هدایة حافظ ابن حجر، ص: 78) (ترجمہ)
ام الحصین رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پیچھے عورتوں کی صف میں نماز پڑھا کرتی تھیں (وہ کہتی ہیں)
میں نے آپ کو یہ پڑھتے ہوئے سنا۔
الحمد للہ رب العلمین الرحمن الرحیم مالك یوم الدین یہاں تک کہ غیر المغضوب علیهم ولاالضالین پر پہنچتے تو آمین کہتے۔
یہاں تک کہ میں سنتی اور میں عورتوںکی صف میں ہوتی۔
مذکورہ بالا حدیث میں ایک راوی اسماعیل بن مسلم مکی ہے۔
اس پر زیلعی ؒ نے اور حافظ ابن حجر ؒ نے تو سکوت کیا۔
مگر ہیثمی نے اس کو ضعیف کہا ہے۔
خیر اگر ضعیف ہو تو دوسری روایتیں مذکورہ بالا اور زیریں اس کو تقویت دیتی ہیں۔
تنبیہ:
کبھی پہلی صف کا سننا اور کبھی پچھلی صفوں تک آپ کی آواز کا پہنچ جانا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی آپ آمین فاتحہ کی آواز کے برابر کہتے اور کبھی معمولی آواز سے۔
(4)
أخرجه أبوداود و الترمذي عن سفیان عن سلمة بن کهیل عن حجر بن عنبس عن وائل بن حجر واللفظ لأبي داود قال کان رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم إذا قرأ ولا الضالین قال آمین و رفع بها صوته انتهی و لفظ الترمذي و مدبها صوته و قال حدیث حسن۔
(تخریج هدایة زیلعي، جلد:
اول / ص: 370) (ترجمہ)
ابوداؤد اور ترمذی میں ہے، وائل بن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ولاالضالین پڑھتے تو بلند آواز سے آمین کہتے۔
یہ ابوداؤد کے لفظ ہیں۔
اور ترمذی کے یہ لفظ ہیں و مد بها صوته یعنی آمین کے ساتھ آواز کو کھینچتے اور ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔
تنبیہ:
بعض لوگ مدبها صوته کے معنے کرتے ہیں کہ آمین کے وقت الف کو کھینچ کر پڑھتے لیکن ابوداؤد کے لفظ رفع بها صوته اور نمبر 5کی روایت جہر بآمین نے وضاحت کردی کہ مدبہا سے مراد آواز کی بلندی ہے اور عرب کاعام محاورہ ہے اور احادیث میں بھی بہت آیا ہے۔
چنانچہ ترمذی میں ابوبکر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
غفار، اسلم اور مزینہ تینوں قبیلے تمیم، اسد، غطفان اور بنی عامر صعصعہ سے بہترہیں۔
یمدبها صوته۔
یعنی بلند آواز سے کہتے اور بخاری میں براءسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ احزاب کے دن خندق کھودتے اور یہ کلمات کہتے:
اللَّهُمَّ لَوْلَا أنْتَ ما اهْتَدَيْنَا... ولَا تَصَدَّقْنَا ولَا صَلَّيْنَا، فَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا... وثَبِّتِ الأقْدَامَ إنْ لَاقَيْنَا، إنَّ الأُلَى قدْ بَغَوْا عَلَيْنَا... وإنْ أرَادُوا فِتْنَةً أبيْنَا قَالَ:
ثُمَّ يَمُدُّ صَوْتَهُ بآخِرِهَا۔
”یا اللہ! اگر تیرا احسان نہ ہوتا تو نہ ہم ہدایت پاتے۔
نہ صدقہ خیرات کرتے نہ نماز پڑھتے پس اگر ہم دشمنوں سے ملیں تو ہمارے دلوں کو ڈھارس دے اور ہمارے قدموں کو مضبوط رکھ۔
یہ لوگ ہم پر دشمنوں کو چڑھا کر لے آئے۔
جب انہوں نے ہم سے مشرکانہ عقیدہ منوانا چاہا۔
ہم نے انکار کر دیا۔
براءکہتے ہیں اخیر کلمہ (ابینا یعنی ہم نے انکار کر دیا)
کے ساتھ دوسرے کلمات کی نسبت آواز بلند کرتے۔
“ اور ابوداؤد وغیرہ میں ترجیع اذان کے متعلق ابومحذورہ کی حدیث ہے اس میں یہ الفاظ فمد من صوتك۔
یعنی اپنی آواز کو (پہلے کی نسبت)
بلند کر۔
(5)
أخرج أبوداود و الترمذي عن علي بن صالح و یقال العلاء بن صالح الأسدي عن سلمة بن کهیل عن حجر بن عنبس عن وائل بن حجر عن النبي صلی اللہ علیه وسلم أنه صلی فجهر بآمین۔
(ترجمہ)
وائل بن حجر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں بلند آواز سے آمین کہی۔
تنبیہ:
وائل بن حجر کی اس حدیث کے راوی شعبہ بھی ہیں، جو سلمہ بن کہیل کے شاگر د ہیں، انہوں نے اپنی روایت میں و خفض بها صوته۔
یعنی رسول اللہ ﷺ نے آہستہ آمین کہی۔
حنفیہ اسی کو لیتے ہیں اور سفیان ثوری ؒ نے جو اپنی روایت میں سلمہ بن کہیل سے و مدبها صوته یا رفع بها صوته۔
کہا ہے۔
اس کو ترک کر دیا ہے حالانکہ فتح القدیر شرح ہدایہ اور عنایۃ شرح ہدایہ، جلد:
اول /ص: 219 پر رفع یدین کی بحث میں لکھا ہے کہ زیادہ فقیہ کی روایت کو ترجیح ہوتی ہے۔
اور سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ بالاتفاق شعبہ رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ فقیہ ہیں۔
اس بنا پر سفیان کی روایت کو ترجیح ہونا چاہئے۔
اور محدثین کا اصول ہے کہ زیادہ حافظہ والے کو ترجیح ہوتی ہے اور سفیان رحمۃ اللہ علیہ حافظہ میں بھی شعبہ رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ ہیں۔
اسی بنا پر حنفیہ نے کئی مقامات پر سفیان ؒ کو شعبہ ؒ کی روایت پر ترجیح دی ہے۔
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی، جلد: 1 ص: 210 و ص: 211)
پھر لطف کی بات یہ ہے کہ سلمہ بن کہیل کے دو شاگر د اور ہیں۔
ایک علاء بن صالح یہ ثقہ ہیں اور ان کو علی بن صالح بھی کہتے ہیں۔
دوسرے محمد بن سلمہ، یہ ضعیف ہیں۔
ان دونوں سے علاء کی روایت میں جہر بآمین ہے اور محمد بن سلمہ کی روایت میں رفع بها صوته ہے بلکہ خود شعبہ نے بھی ایک روایت میں سلمہ بن کہیل سے رفع بہا صوتہ روایت کیا ہے اور سند بھی اس کی صحیح ہے۔
ملاحظہ ہو نصب الرایہ، جلد: 1 ص: 369 اور تلخیص الحبیر، ص: 89 اور تحفۃ الاحوذی، جلد: 1ص: 211۔
مگر باوجود اس کے حنفیہ نے شعبہ ؒ کی روایت خفض بها صوته ہی کو لیا ہے، لیکن سارے حنفیہ ایک سے نہیں۔
کئی اس کمزوری کو محسوس کرکے آمین بالجہر کے قائل ہیں، چنانچہ اس کا ذکر آگے آتا ہے۔
إن شاءاللہ۔
(6)
عن عبدالجبار بن وائل عن أبیه قال صلیت خلف رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فلما افتتح الصلوة کبر و رفع یدیه حتی حاذتا أذنیه ثم قرأ فاتحة الکتاب فلما فرغ منها قال آمین یرفع صوته۔
رواہ النسائي (تخریج زیلعی، ج: 1 ص: 271) (ترجمہ)
عبدالجبار بن وائل ؒ اپنے باپ وائل بن حجر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔
جب نماز شروع کی تو تکبیر کہی اور ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ کانوں کے برابر ہوگئے۔
پھر فاتحہ پڑھی، پھر جب فاتحہ سے فارغ ہوئے تو بلند آواز سے آمین کہی۔
اس حدیث کو نسائی نے روایت کیا۔
نصب الرایہ، جلد:
اول / ص: 371 کے حاشیہ میں امام نووی ؒ سے بحوالہ شرح المہذب للنووی لکھا ہے کہ ائمہ اس بات پر متفق ہیں کہ عبدالجبار نے اپنے والد سے نہیں سنا اور ایک جماعت نے کہا ہے کہ وہ اپنے باپ کی وفات کے چھ ماہ بعد پیدا ہوا ہے۔
پس یہ حدیث منقطع ہوئی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حجر بن عنبس نے بھی وائل بن حجر سے یہ حدیث روایت کی ہے اور اس نے وائل سے سنی ہے۔
اس لیے منقطع ہونے کا شبہ رفع ہو گیا۔
نیز کتب اسماءالرجال میں عبدالجبار کا استاذ زیادہ تر اس کا بھائی علقمہ لکھا ہے اس لیے غالب ظن ہے کہ اس نے یہ حدیث اپنے بھائی علقمہ سے سنی ہو۔
نصب الرایہ جلد:
اول/ ص: 370 پر جو لکھا ہے کہ عقلمہ نے اپنے باپ سے نہیں سنا، وہ اپنے باپ کے وفات کے چھ ماہ بعد پیدا ہوا ہے۔
یہ نقل کرنے والوں کی غلطی ہے اور یہیں سے حافظ ابن حجر ؒ کو بھی غلطی لگی ہے۔
وہ بھی تقریب میں لکھتے ہیں کہ علقمہ بن وائل نے اپنے باپ سے نہیں سنا۔
حالانکہ وہ عبدالجبار ہے اور وہی اپنے باپ کی وفات کے چھ ماہ بعد پیدا ہوا ہے۔
چنانچہ ابھی گزرا ہے:
ترمذي، باب المرأة استکرهت علی الزنا۔
میں تصریح کی ہے کہ علقمہ نے اپنے باپ سے سنا ہے، اور وہ عبدالجبار سے بڑا ہے اور عبدالجبار نے اپنے باپ سے نہیں سنا۔
اور مسلم، باب منع سب الدهر میں علقمہ کی حدیث جو اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے، لائے ہیں اور مسلم منقطع حدیث نہیں لاسکتے کیوں کہ وہ ضعیف ہوتی ہے۔
اور ابوداؤد، باب من حلف لیقتطع بها مالا۔
میں اس کی حدیث اس کے باپ سے لائے ہیں اور اس پر سکوت کیا ہے حالانکہ ان کی عادت ہے کہ وہ انقطاع وغیرہ بیان کرتے ہیں۔
بہر صورت علقمہ کے سماع میں شبہ نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ خلاصہ تہذیب الکمال میں تقریب کی یہ عبارت کہ ” اس نے اپنے باپ سے نہیں سنا۔
“ ذکر نہیں کی۔
خلاصہ والے تقریب سے لیتے ہیں۔
پس جب علقمہ کا سماع ثابت ہو گیا اور ظن غالب ہے کہ عبدالجبار نے یہ حدیث علقمہ سے لی ہے۔
پس حدیث متصل ہو گئی اور حنفیہ کے نزدیک تو تابعی کی حدیث ویسے ہی متصل کے حکم میں ہوتی ہے۔
خواہ اپنے استاد کا نام لے یا نہ لے تو ان کو تو اس پر ضرور عمل کرنا چاہئے۔
(7)
عن علي رضي اللہ عنه قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم إذا قال ولاالضالین قال آمین۔
(ابن ماجة، باب الجهر بآمین، ص: 62) (ترجمہ)
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سناکہ جب آپ ولا الضالین کہتے تو آمین کہتے۔
اس حدیث میں محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلی ایک راوی ہے اس کے متعلق مجمع الزوائد میں لکھا ہے ”جمہور اس کو ضعیف کہتے ہیں اور ابوحاتم کہتے ہیں مقام اس کا صدق ہے۔
“ مجمع الزوائد میں جمہور کے ضعیف کہنے کی وجہ نہیں بتائی۔
تقریب التہذیب میں اس کی وضاحت کی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں۔
صدوق سيئ الحفظ جدا۔
یعنی سچا ہے حافظہ بہت خراب ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ضعف کی وجہ حافظہ کی کمزوری ہے۔
ویسے سچاہے، جھوٹ نہیں بولتا۔
پس یہ حدیث بھی کسی قدر اچھی ہوئی اور دوسری حدیثوں کے ساتھ مل کر نہایت قوی ہوگئی۔
تحفۃ الاحوذی، جلداول / ص: 608 میں ہے:
و أما حدیث علي ؓ فأخرجه الحاکم بلفظ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یقول آمین إذا قرأ غیر المغضوب علیهم ولا الضالین و أخرج أیضا عنأ أن النبي صلی اللہ علیه وسلم إذا قرأ ولا الضالین رفع صوته بآمین کذا في الإعلام الموقعین۔
(ترجمہ)
مستدرک حاکم میں ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آمین کہتے سنا جب کہ آپ نے (غیر المغضوب علیہم ولا الضالین)
پڑھا۔
نیز مستدرک حاکم میں حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب والا الضالین پڑھتے تو بلند آواز سے آمین کہتے۔
اعلام الموقعین میں اسی طرح ہے۔
(8)
تحفۃ الاحوذی کے اسی صفحہ میں ہے:
وَلِأَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ آخَرُ فِي الْجَهْرِ بِالتَّأْمِينِ رَوَاهُ النَّسَائِيُّ عَنْ نُعَيْمٍ الْمُجْمَرِ قَالَ صَلَّيْتُ وَرَاءَ أَبِي هُرَيْرَةَ فَقَرَأَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ثُمَّ قَرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ حَتَّى إِذَا بَلَغَ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضالين فَقَالَ آمِينَ فَقَالَ النَّاسُ آمِينَ الْحَدِيثَ وَفِي آخِرِهِ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لَأَشْبَهُكُمْ صَلَاةً بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِسْنَادُهُ صَحِيحٌ۔
(ترجمہ)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے آمین بالجہر کے بارے میں ایک اورحدیث ہے جو نسائی میں ہے۔
نعیم بن مجمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی۔
انہوں نے پہلے بسم اللہ پڑھی، پھر فاتحہ پڑھی جب غیر المغضوب علیهم ولاالضالین۔
پر پہنچے، تو آمین کہی۔
پس لوگوں نے بھی آمین کہی۔
اس حدیث کے آخر میں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔
مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے۔
بے شک میں نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تم سے زیادہ مشابہت رکھتا ہوں اور اس کی إسناد صحیح ہیں۔
(9)
نصب الرایہ زیلعی جلد:
اول/ ص: 371 میں ہے:
و رواہ ابن حبان في صحیحه في النوع الرابع من القسم الخامس و لفظه کان رسول للہ صلی اللہ علیه وسلم إذا فرغ من قراءة أم القرآن رفع بها صوته و قال آمین۔
(ترجمہ)
ابن حبان نے اپنی صحیح میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فاتحہ سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے آمین کہتے۔
(زیلعی نے اس حدیث پر کوئی جرح نہیںکی) (10)
ابن ماجة باب الجهر بآمین ص63 میں ہے:
عن عائشة عن النبي صلی اللہ علیه وسلم ما حسدتکم الیهود ما حسدتکم علی السلام و التأمین۔
(ترجمہ)
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہود جتنا سلام اور آمین سے حسد کرتے ہیں، اتنا کسی اور شے پر حسد نہیں کرتے۔
بلند آواز سے آمین کہنے میں جب بہت سی آوازیں مل جائیں تو اس میں اسلامی نمائش پائی جاتی۔
اس لیے یہود کو حسد آتا، ورنہ آہستہ میں حسد کے کچھ معنی ہی نہیں۔
کیوں کہ جب سنا ہی کچھ نہیں تو حسد کس بات پر۔
اس حدیث کی إسناد صحیح ہے جیسے منذری ؒ نے تصریح کی ہے اور ابن خزیمہ ؒ اس کو اپنی صحیح میں لائے ہیں اور امام احمد ؒ نے اپنی مسند میں اور بیہقی ؒ نے بھی اپنی سنن میں اس کو سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے۔
تلك عشرة کاملة:
یہ دس احادیث ہیں۔
ان کے علاوہ اور روایتیں بھی ہیں۔
مسک الختام شرح بلوغ المرام میں 17 ذکر کی ہیں اور آثار تو بے شمار ہیں۔
دو سو صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذکر تو عطاءتابعی ؒ کے قول ہی میں گذرچکا ہے اور ابوہریرہ ؓ کے پیچھے بھی لوگ آمین کہتے تھے۔
چنانچہ نمبر 8 کی حدیث گزر چکی ہے بلکہ حنفیہ کے طریق پر اجماع ثابت ہے۔
حنفیہ کا مذہب ہے کہ کنویں میں گر کر کوئی مرجائے، تو سارا کنواں صاف کر دینا چاہئے۔
دلیل اس کی کنویں زمزم میں ایک حبشی گر کر مر گیا تو عبداللہ بن زبیر ؓ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں کنویں کا سارا پانی نکلوادیا اور کسی نے انکار نہیں کیا۔
پس یہ اجماع ہو گیا۔
ٹھیک اسی طرح آمین کا مسئلہ ہے عبداللہ بن زبیر ؓ نے مسجد مکہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں آمین کہی اوران کے ساتھ لوگوں نے بھی کہی۔
یہاں تک کہ مسجد گونج اٹھی اور کسی نے اس پر انکار نہیں کیا۔
پس یہ بھی اجماع ہو گیا پھر حنفیہ کے پاس آہستہ آمین کے بارے میں ایک حدیث بھی نہیں۔
صرف شعبہ کی روایت ہے جس کا ضغف اوپر بیان ہو چکا ہے اور ہدایہ میں عبداللہ بن مسعود ؓ کے قول سے استدلال کیا ہے کہ امام چار چیزیں آہستہ کہے۔
سبحانك اللهم أعوذ بسم اللہ آمین۔
مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں۔
ملاحظہ ہو درایہ تخریج ہدایہ حافظ ابن حجر ؒ، ص: 71، اور نصب الرایہ تخریج ہدایہ زیلعی ؒ، جلد: 1 ص: 325، اور فتح القدیر شرح ہدایہ، جلد: 1ص: 204، ص: 207 وغیرہ ہاں ابراہیم نخعی تابعی کا یہ قول ہے کہ امام چار چیزیں آہستہ کہے۔
مگر مرفوع احادیث اور آثار صحابہ کے مقابل میں ایک تابعی کے قول کی کیا وقعت ہے۔
خاص کر جب خود اس سے اس کے خلاف روایت موجو دہے۔
چنانچہ اوپر گزر چکا ہے کہ وہ آیت کریمہ ولاتجهر بصلوة میں صلوة کے معنی دعا کرتے ہیں۔
اس بنا پر آمین ان کے نزدیک درمیانی آواز سے کہنی چاہئے نہ بہت چلا کر نہ بالکل آہستہ اور یہی اہلحدیث کا مذہب ہے۔
حنفیہ کے بقیہ دلائل:
بعض حنفیہ نے اس مسئلہ میں کچھ اور آثار بھی پیش کئے ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ وہ بھی ذکر کر دیں۔
شاہ عبدالحق محدث دہلوی ؒ سفر السعادات میں لکھتے ہیں:
از امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ روایت کردہ اند کہ اخفاءکند امام چہار چیز را، تعوذ، بسم اللہ، آمین، سبحانك اللهم و بحمدك، و از ابن مسعود ؓ نیز مثل ایں آمدہ۔
وسیوطی ؒ در جمع الجوامع از ابی وائل روایت آوردہ کہ گفت بودند عمر و علی کہ جہر نمی کردند بسم اللہ الخ و نہ تعوذ و نہ آمین۔
(ابن جریر طحاوي) (ترجمہ)
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ امام چار چیز آہستہ کہے۔
أعوذ باللہ، بسم اللہ، آمین، سبحانك اللهم اور اسی کے مثل عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی آیا ہے اور سیوطی رحمۃ اللہ علیہ جمع الجوامع میں ابی وائل رحمۃ اللہ علیہ سے روایت لائے ہیں وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بسم اللہ، أعوذ اور آمین بلند آواز سے نہیں کہتے تھے۔
ابن جریر اور طحاوی نے اس کو روایت کیا ہے۔
اور ابن ماجہ طبع ہند کے ص 62 کے حاشیہ میں لکھا ہے:
و روي عن عمر بن الخطاب قال یخفي الإمام أربعة أشیاء التعوذ و البسملة و آمین و سبحانك اللهم۔
و عن ابن مسعود مثله، و روی السیوطي في جمیع الجوامع عن أبي وائل قال کان عمر و علي رضی اللہ عنهم لا یجهران بالبسلملة ولا بالتعوذ ولا بآمین رواہ ابن جریر و الطحاوي و ابن شاہین۔
اس عربی عبارت کا ترجمہ بعینہ شرح سفر السعادۃ کی فارسی عبار ت کا ترجمہ ہے۔
حنفیہ کی ساری پونچی یہی ہے جو ان دونوں عبارتوں میں ہے ان دونوں عبارتوں (عربی، فارسی)
میں حضرت عمر ؓ اورحضرت ابن مسعود ؓ کے قول کا تو کوئی حوالہ نہیں دیا کہ کس نے اس کو روایت کیا ہے اورحضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ کا فعل کہ وہ أعوذ، بسم اللہ، آمین بلند آواز سے نہیں کہتے تھے۔
اس کے متعلق کہاہے کہ ابن جریر، طحاوی اورابن شاہین نے اس کو روایت کیا ہے، لیکن اس کی اسناد میں سعید بن مرزبان بقال ہے جس کے متعلق میزان الاعتدال میں لکھاہے کہ امام فلاس نے اسے ترک کر دیا ہے اور ابن معین کہتے ہیں کہ اس کی حدیث لکھنے کے قابل نہیں اور بخاری کہتے ہیں منکر الحدیث ہے اور ابان بن حیلہ کوفی کے ترجمہ میں میزان الاعتدال میں ابن القطان نے نقل کیا ہے بخاری کہتے ہیں جس کے حق میں میں منکر الحدیث کہہ دوں اس کی روایت لینی حلال نہیں۔
پس یہ روایت بالکل ردی ہو گئی۔
علاوہ اس کے ان کتابوں کے متعلق جن کی یہ روایت ہے شاہ ولی اللہ صاحب ؒ حجۃ اللہ البالغہ اور شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ عجالۃ نافعہ میں لکھتے ہیں:
”کہ ان کی روایتیں بغیر جانچ پڑتال کے نہیں لینی چاہئے۔
کیوں کہ یہ احتیاط نہیں کرتے، جھوٹی سچی، صحیح ضعیف سب انہوں نے خلط ملط کر دی ہیں۔
“ پس حنفیہ کا بغیر تصحیح کے ان کی روایتیں پیش کرنا دوہری غلطی ہے۔
خاص کر جب خود حضرت علی ؓ سے آمین بالجہر کی روایت آ گئی ہے جو نمبر 27پر گزر چکی ہے اور بسم اللہ بھی جہراً ان سے ثابت ہے چنانچہ سبل السلام اور دار قطنی میں مذکور ہے۔
(ملاحظہ ہو مسک الختام شرح بلوغ المرام ص: 230)
علاوہ اس کے مرفوع احادیث کے مقابلہ میں کسی کا قول و فعل کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
خواہ کوئی بڑا ہو یا چھوٹا۔
مسلمان کی شان یہ ہونی چاہئے۔
مصور کھینچ وہ نقشہ جس میں یہ صفائی ہو ادھر حکم پیغمبر ہو ادھر گردن جھکائی ہو مزید ثبوت اور علماءاحناف کی شہادت:
بعض اختلافی مسائل میں جانبین کے پاس دلائل کا کچھ نہ کچھ سہارا ہوتاہے مگر یہاں تو دوسرے پلڑے میں کچھ بھی نہیں اور جو کچھ ہے اس کا اندازہ قارئین کرام کو ہو چکا ہوگا۔
اب اس کی مزید وضاحت علماءاحناف کے فیصلوں سے ملاحظہ فرمائیں:
امام ابن الہمام ؒ:
احناف کے جد امجد ہیں۔
حنفی مذہب کی مشہور کتاب شامی (رد المختار)
کی جلد: 4، /ص: 388 میں لکھا ہے۔
کمال ابن الهمام بلغ رتبة الاجتهاد یعنی امام ابن الہمام مرتبہ اجتہاد کو پہنچ گئے وہ اپنی کتاب فتح القدیر میں لکھتے ہیں:
و لو کان إلي في هذا شيئ لوفقت بأن روایة الخفض یراد بها عدم القرع العنیف و روایة الجهر بمعنی قولها في زیر الصوت و ذیله۔
(فتح القدیر، ج: 117/1) (ترجمہ)
اگر فیصلہ میرے سپرد ہوتا تو میں یوں موافقت کرتا کہ آہستہ کہنے کی حدیث سے یہ مراد ہے کہ چلا کر نہ کہے اور جہر کی حدیث سے درمیانی آواز ہے۔
امام ابن امیر الحاج ؒ:
یہ امام ابن الہمام ؒ کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں۔
یہ اپنے استاد کے فیصلہ پر صاد فرماتے ہیں چنانچہ اپنی کتاب حلیہ میں لکھتے ہیں:
و رجع مشایخنا بما لا یعری عن شيئ لمتأمله فلا جرم إن قال شیخنا ابن الهمام و لو کان إلي شيئ الخ۔
(تعلیق الممجد علی موطأ الإمام المحمد، ص: 9-10) (ترجمہ)
ہمارے مشائخ نے جن دلائل سے اپنے مذہب کو ترجیح دی ہے وہ تامل سے خالی نہیں اس لیے ہمارے شیخ ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اگر فیصلہ میرے سپرد ہوتا الخ۔
شاہ عبدالحق محدث دہلوی ؒ:
جن کی فارسی عبارت شرح سفر السعادت کے حوالہ سے ابھی گزری ہے۔
یہ شاہ ولی اللہ صاحب ؒ سے بہت پہلے ہوئے ہیں۔
انہوں نے حنفی مذہب کے ترک کا ارادہ کیا لیکن علماء مکہ نے مشورہ دیا کہ جلدی نہ کرو۔
حنفی مذہب کے دلائل پر غور کرو۔
چنانچہ اس کے بعد انہوں نے ''فتح سر المنان'' لکھی۔
اس میں حنفی مذہب کے دلائل جمع کئے۔
مسئلہ آمین کے متعلق یہی عبارت لکھی جو امام ابن الہمام ؒ نے لکھی اور امام ابن الہمام والا ہی فیصلہ کیا۔
مولانا عبدالحئی صاحب لکھنؤی ؒ:
حنفی مذہب کے مشہور بزرگ گزرے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں:
والإنصاف أن الجهر قوي من حیث الدلیل۔
(تعلیق الممجد علی موطأ الإمام المحمد، ص: 105) (ترجمہ)
یعنی انصاف یہ ہے کہ دلیل کی رو سے آمین بالجہر قوی ہے۔
مولانا سراج احمد صاحب ؒ:
یہ بھی حنفی مذہب کے مشور بزرگ ہیں۔
شرح ترمذی میں لکھتے ہیں:
أحادیث الجهر بالتامین أکثر وأصح۔
(ترجمہ)
یعنی بلند آواز سے آمین کہنے کی احادیث کثیر ہیں اور زیادہ صحیح ہیں۔
ان کے علاوہ مولانا عبدالعلی بحر العلوم لکھنؤی حنفی رحمۃ اللہ علیہ بھی ''أرکان الإسلام '' میں یہی لکھتے ہیں کہ ”آمین آہستہ کہنے کی بابت کچھ ثابت نہیں ہوا۔
“ اور دیگر علماءبھی اسی طرح لکھتے ہیں مگر ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
کیوں کہ جب آہستہ کہنے کا کوئی ثبوت ہی نہیں تو بہت بھر مار سے فائدہ ہی کیا۔
تسلی و اطمینان کے لیے جو کچھ لکھا گیا۔
خدا اس پر عمل کرنے کی توفیق بخشے اور ضد و تعصب سے محفوظ رکھے۔
آمین (مقالہ آمین و رفع یدین حضرت حافظ عبداللہ صاحب روپڑی نور اللہ قبرہ و برد مضجعہ، آمین)
آج کل کے شارحین بخاری جن کا تعلق دیوبند سے ہے۔
ایسے اختلافی امور پر جو بے تکی رائے زنی فرما رہے ہیں وہ سخت حیرت انگیز ہیں مثلاً امام بخاری ؒ نے پچھلے باب میں حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ اور ان کے ساتھیوں کا فعل نقل فرمایا کہ وہ اس قدر بلند آواز سے آمین کہا کرتے تھے کہ مسجد گونج اٹھتی تھی۔
اس سے شارحین فرما رہے ہیں:
” غالباً یہ اس زمانہ کا واقعہ ہے کہ جب آپ فجر میں عبدالملک پر قنوت پڑھتے تھے۔
عبدالملک بھی ابن زبیر رضی اللہ عنہ پر قنوت پڑھتا تھا اور جس طرح کے حالات اس زمانہ میں تھے اس میں مبالغہ اور بے احتیاطی عموماً ہو جایا کرتی ہے۔
“ (تفہیم البخاری، پ: 3، ص: 135)
اس بے تکی رائے زنی پر اہل انصاف خود نظر ڈال سکیں گے کہ یہ کہاں تک درست ہے۔
اول تو عبداللہ بن زبیر کا آمین بالجہر کہنا خاص نماز فجر میں کسی روایت میں مذکور نہیں ہے۔
ہو سکتا ہے کہ اس واقعہ کا تعلق مغرب یا عشاءسے بھی ہو۔
پھر الحمدشریف کے خاتمہ پر آمین بالجہر کا عبدالملک پر قنوت پڑھنے سے کیا تعلق، قنوت کا محل دوسرا ہے، پھر مبالغہ اور بے احتیاطی کو حضرت عبداللہ بن زبیر جیسے جلیل القدر صحابی کی طرف منسوب کرنا ایک بڑی جرات ہے اور اسی قسم کی بے تکی باتیں کی جاتی ہیں۔
اللہ پاک ایسے علماءکرام کو نیک ہدایت دے کہ وہ امر حق کو تسلیم کرنے کے لیے دل کھول کر تیار ہوں اور بے جا تاویلات سے کام لے کر آج کے تعلیم یافتہ روشن خیال لوگوں کو ہنسنے کا موقع نہ دیں۔
اللھم وقفنا لما تحب و ترضی آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 782
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4475
4475. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب امام ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾ کہے تو تم آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوئی اس کے سابقہ سب گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4475]
حدیث حاشیہ:
ظاہر ہے کہ مقتدی کو جب ہی علم ہو سکے گا جب امام لفظ ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ پھر لفظ آمین کو بآواز بلند ادا کرے گا اور مقتدی بھی بالجہر اس کی آمین کی آواز کے ساتھ آمین کی آواز ملائیں گے۔
تب ہی وہ آمین کہنا ملائکہ کے ساتھ ہوگا۔
اس سے آمین بالجہر کا اثبات ہوتا ہے۔
جو لوگ آمین بالجہر کے انکا ری ہیں وہ سراسر غلطی پر ہیں۔
آمین بالجہر بلاشک وشبہ سنت نبوی ہے۔
محبت رسولﷺ کے دعویداروں کا فرض ہے کہ وہ اس حقیقت پرٹھنڈے دل سے غور کریں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4475
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6402
6402. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب پڑھنے والا آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، بلاشبہ اس وقت فرشتے بھی آمین کہتے ہیں۔ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے ساتھ موافق ہو جائے اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6402]
حدیث حاشیہ:
جہری نمازوں میں آیت ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ پر بلند آواز سے آمین کہنا امت کے سواد اعظم کاعمل ہے مگر برادران احناف کو اس سے اختلاف ہے اس سلسلے میں مقتدائے اہلحدیث حضرت مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مقالہ پیش خدمت ہے امید ہے کہ قارئین کرام اس مقالہ کو بغور مطالعہ فرماتے ہوئے حضرت مولانا مرحوم کے لئے اور مجھ ناچیز خادم کے لئے بھی دعا ئے خیر کریں گے۔
اہل حدیث کا مذہب ہے کہ جب امام اونچی قراءت پڑھے تو بعد ولا الضالین کے (امام)
اور مقتدی بلند آواز سے آمین کہیں جیسا کہ حدیث ذیل سے ظاہر ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
إِذَا تَلَا {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} قَالَ:
«آمِينَ»، حَتَّى يَسْمَعَ مَنْ يَلِيهِ مِنَ الصَّفِّ الْأَوَّلِرواہ أبو داود وابن ماجة وقال حتیٰ یسمعها أھل الصف الأول فیرتج بھا المسجد (المنتقیٰ)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ پڑھتے تو آمین کہتے ایسی کہ پہلی صف والے سن لیتے پھر سب لوگ بیک آواز میں آمین کہتے تو تما م مسجد آواز سے گونج جاتی۔
اس مسئلہ نے اپنی قوی ثبوت کی وجہ سے بعض محققین علمائے حنفیہ کو بھی اپنا قائل بنا لیا۔
چنانچہ مولانا عبد الحی صاحب لکھنؤی مرحوم شرح وقایہ کے حاشیہ پر لکھتے ہیں۔
قد ثبت الجهر من رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم بأسانید متعددة یقوي بعضها بعضاً في سنن ابن ماجة والنسائي وأبي داود وجامع الترمذي وصحیح ابن حبان وکتاب الأم للشافعي وغیرها وعن جماعة من أصحابه براویة ابن حبان في کتاب الثقات وغیرہ ولھذا أشار بعض أصحابنا کابن الھمام في فتح القدیر وتلمیذہ ابن امیر الحاج في حلیة المصلي شرح منیة المصلی إلی قوة روایة۔
(حاشیہ شرح وقایۃ)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد سندوں کے ساتھ آمین بالجہر کہنا ثابت ہے وہ ایسی سندیں ہیں کہ ایک دوسری کو قوت دیتی ہیں جو ابن ماجہ، نسائی، ابوداؤد، ترمذی، صحیح ابن حبان، امام شافعی کی کتاب الام وغیرہ میں موجود ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے بھی ابن حبان کی روایت سے ثابت ہے اسی واسطے ہمارے بعض علماء مثلاً ابن ہمام نے فتح القدیر میں اور ان کے شاگرد ابن امیر الحاج نے حلیۃ المصلی شرح منیہ المصلی میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آمین بالجہر کا ثبوت باعتبار روایات کے قوی ہے۔
(آخر میں یہی)
شیخ ابن ہمام شارح ہدیہ فتح القدیرمسئلہ ھذا آمین بالجہر میں بالکل اہلحدیث کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں۔
چنانچہ ان کے الفاظ یہ ہیں وَلَوْ كَانَ إلَيَّ فِي هَذَا شَيْءٌ لَوَفَّقْت بِأَنَّ رِوَايَةَ الْخَفْضِ يُرَادُ بِهَا عَدَمُ الْقَرْعِ الْعَنِيفِ، وَرِوَايَةَ الْجَهْرِ بِمَعْنَى قَوْلِهَا فِي زِبْرِ الصَّوْتِ وَذَيْلِهِ يَدُلُّ عَلَى هَذَا مَا فِي ابْنِ مَاجَهْ «كَانَ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إذَا تَلَا {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ} قَالَ آمِينَ حَتَّى يُسْمِعَ مَنْ فِي الصَّفِّ الْأَوَّلِ فَيَرْتَجُّ بِهَا الْمَسْجِدُ» (فتح القدیر نولکشورص: 117)
”اگر مجھے اس امر میں اختیار ہو یعنی میری رائے کوئی شے ہوتو میں اس میں موافقت کروں کہ جو روایت آہستہ والی ہے اس سے تو یہ مراد ہے کہ بہت زور سے نہ چلاتے تھے اور جہر کی آواز سے مراد گونجتی ہوئی آواز ہے۔
میری اس توجیہ پر ابن ماجہ کی روایت دلالت کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ولاالضالین پڑھتے تو آمین کہتے ایسی کہ پہلی صف والے سن لیتے تھے پھر دوسرے لوگوں کی آواز سے مسجد گونج جاتی تھی۔
“ اظہار شکر:
اہل حدیث کو فخر ہے کہ ان کے مسائل قرآن وحدیث سے ثابت ہوکر ائمہ سلف کے معمول بہ ہونے کے علاوہ صوفیائے کرام میں سے مولانا مخدوم جہانی محبوب سبحانی حضرت شیخ عبد القادر جیلانی قدس اللہ سرہ العزیز بھی ان کی تائید میں ہیں۔
چنانچہ ان کی کتاب غنیۃ الطالبین کے دیکھنے والوں پر مخفی نہیں کہ حضرت ممدوح نے آمین رفع الیدین کو کس وضاحت سے لکھا ہے۔
گدایاں رازیں معنی خبر نیست کہ سلطان جہاں بامااست امروز پس صوفیائے کرام کی خدمت میں عموماً اور خاندان قادریہ کی جناب میں خصوصا بڑے ادب سے عرض ہے کہ وہ ان دونوں سنتوں کو رواج دینے میں دل وجان سے سعی کریں اور اگر خود نہ کریں تو ان کے رواج دینے والے اہل حدیث سے دلی محبت اور اخلاص رکھیں۔
کیونکہ۔
پائے سگ بوسیدہ مجنوں خلق گفت ایں چہ بود گفت مجنوں ایں سگے درکوئے لیلیٰ رفتہ بود حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم یہاں لکھتے ہیںکہ ہر دعا کے بعد دعا کرنے والے اور سننے والوں سب کوآمین کہنا مستحب ہے۔
ابن ماجہ کی روایت میں یوں ہے کہ یہودی جتنا سلام اور آمین پر تم سے جلتے ہیں اتنا کسی بات پر نہیں جلتے۔
دوسرے روایت میں ہے کہ ثم آمین کہتے ہیں تو وہ برامانتے ہیں۔
لڑنے پر مستعد ہوتے ہیں، گویا یہودیوں کی پیروی کرتے ہیں۔
(وحیدی)
اللہ پاک علماء کرام کو سمجھ دے کہ آج کے نازک دور میں وہ امت کو ایسے اختلاف پر لڑنے جھگڑنے سے باز رہنے کی تلقین کریں آمین۔
اوپر والا مقالہ حضرت الاستاذ مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مسلک اہل حدیث کا اقتباس ہے۔
(راز)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6402
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3228
3228. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو تم اللهم رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ. کہو کیونکہ جس کا کلام فرشتوں کے کلام سے ہم آہنگ ہوجائے، اس کے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3228]
حدیث حاشیہ:
امام کے ساتھ مقتدی کا سمع اللہ لمن حمدہ کہنا پھر اللهم ربنا لك الحمد پڑھنا یا امام کے سمع اللہ لمن حمدہ کے بعد مقتدی کا خالی ربنا لك الحمد کہنا ہر دو امور جائز ہیں۔
تفصیل پیچھے مذکور ہوچکی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3228
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:780
780. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گئی، اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔“ ابن شہاب کا کہنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ خود بھی آمین کہا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:780]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام ابن خزیمہ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے ”جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو“ فرماتے ہیں اس فرمان نبوی سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ امام کو بآواز بلند آمین کہنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ امام کی آمین کے وقت آمین کہنے کا حکم اسی سورت میں دے سکتے ہیں۔
جب مقتدی کو امام کی آمین کا پتہ چل ہو۔
اگر امام بآواز بلند آمین کہنے کے بجائے آہستہ کہے تو مقتدی کو معلوم نہیں ہوسکے گا کہ امام نے آمین کہی ہے یا نہیں اور یہ محال ہے کہ کسی سے کہا جائے کہ جب فلاں آدمی یہ کہے تو تم بھی اسی طرح کہو جبکہ وہ اس کی بات نہ سن رہا ہو۔
کوئی عالم بھی اس محال کا تصور نہیں کرسکتا کہ رسول اللہ ﷺ مقتدی کو آمین اس وقت کہنے کا حکم دیں۔
جب امام آمین کہے اور مقتدی امام کی آمین نہ سن رہا ہو۔
(صحیح ابن خزیمة: 286/1)
کئی قرائن امام ابن خزیمہ کے مذکورہ بیان کی تائید کرتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭حضرت نعیم مجمر سے روایت ہے، وہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کے پیچھے نماز پڑھنے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب وہ ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾ )
پر پہنچے تو انھوں نے آمین کہی اور لوگوں نے بھی آمین کہی، پھر انھوں نے فرمایا:
اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے!میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی نماز میں مشابہ ہوں۔
(سنن النسائي، الصلاة، حدیث: 906)
٭حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:
جب رسول اللہ ﷺ سورۂ فاتحہ کی قراءت سے فارغ ہوتے تو اپنی آواز بلند کرتے ہوئے آمین کہتے۔
(صحیح ابن حبان: 147/3)
(2)
دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی مرویات سے بھی بآواز بلند آمین کہنے کا پتہ چلتا ہے، مثلا:
٭حضرت وائل بن حجر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا:
آپ نے ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾ )
پڑھا تو آمین کہی اور اپنی آواز کو خوب کھینچا۔
(جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 248)
٭حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:
میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا:
آپ نے جب ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کہا تو آمین کہی۔
(سنن ابن ماجة، الصلاة، حدیث: 854)
(3)
متعدد محدثین نے اس حدیث پر بآواز بلند آمین کہنے پر عنوان قائم کیے ہیں، مثلا:
٭امام بخاری ؒ جیسا کہ یہاں موجود ہے۔
٭ امام نسائی ؒ نے (باب جهر الإمام بآمين)
٭امام ابن خزیمہ ؒ نے(باب الجهر بآمين)
٭امام ابن ماجہ ؒ نے (باب الجهر بآمين)
کے عنوان قائم کیے ہیں۔
(4)
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جب امام ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾ )
کہے تو تم آمین کہو۔
(حدیث: 782)
یہ حدیث بظاہر مذکورہ حدیث کے متعارض ہے کیونکہ اس میں امام کے آمین کہنے پر آمین کا حکم ہے، لیکن اس حدیث میں ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کہنے پر ہی یہ حکم دیا گیا ہے۔
جمہور علماء نے ان احادیث میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ امام کے آمین کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ آمین کہنے کا ارداہ کرے اور اس کا آمین کہنے کا ارداہ ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کہنے کے بعد ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک حدیث میں صراحت ہے کہ جب امام ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کہے تم تو آمین کہو۔
بلاشبہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں اور امام بھی آمین کہتا ہے۔
یہ روایت ابو داود اور نسائی میں ہے اور اس میں امام کے آمین کہنے کی صراحت ہے۔
(فتح الباري: 342/2) (5)
بعض حضرات امام کے آمین کہنے کے قائل نہیں وہ مذکورہ حدیث کی تاویلیں کرتے ہیں، مثلا:
أمن کا معنی آمین کہنا نہیں بلکہ مجازی معنی دعا کرنا ہے۔
دعا کرنے والے کو آمین کہنے والا کہا جاتا ہے۔
جیسا کہ قرآن میں حضرت ہارون ؑ کو آمین کہنے والے تھے انھیں داعی، یعنی دعا کرنے والا کہا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا﴾ (یونس89: 10)
” تم دونوں کی دعا قبول ہوئی۔
“ حالانکہ دعا کرنے والے صرف موسیٰ ؑ تھے اور حضرت ہارون تو آمین کہتے تھے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ آمیں کہنے والے کو داعی کہنے سے داعی کو آمین کہنے والا ثابت نہیں ہوتا،پھر یہ بات بھی محل نظرہے کہ صرف موسیٰ علیہ السلام دعا کرنے والے تھے حضرت ہارون علیہ السلام دعا کرنے والوں میں شامل نہیں تھے۔
(فتح الباری: 2/341)
٭(أمن)
سے مراد آمین کہنا نہیں بلکہ آمین کے مقام پ پہنچنا ہے جیسا کہ عرب أنجدکا لفظ بول کر وہ شخص مراد لیتے ہیں جو نجد کے قریب پہنچ چکا ہو لیکن ابھی داخل نہ ہوا ہو۔
ابن دقیق العید اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ معنی مجازی ہے اور مجاز پر اس وقت عمل ہوتا ہے جب حقیقی معنی متعذر یا محال ہو، ورنہ اصل یہی ہے کہ حقیقی معنی پر محمول کیا جائے۔
(فتح الباري: 342/2) (6)
مذکورہ حدیث میں ابن شہاب کے حوالے سے وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ خود بھی آمین کہا کرتے تھے۔
علامہ کرمانى ؒ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ إذا أمن الإمام کی تفسیر ہے اور اس میں ان لوگوں کا رد ہے جو اس سے مراد ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ )
کے الفاظ سے دعا کرنا کہتے ہیں۔
(شرح الکرماني: 145/5)
اس معنی کی تائید سنن نسائی کی روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جب امام ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾ )
کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ فرشتے بھی اس وقت آمین کہتے ہیں اور امام بھی آمین کہتا ہے،جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوگئی اس کے گزشتہ گناہ معاف ہوجائیں گے۔
“ (سنن النسائي، الصلاة، حدیث: 927)
گویا راوئ حدیث حضرت ابن شہاب کو اندیشہ تھا کہ لوگ إذا أمن الإمام کی غلط تاویل کریں گے، اس لیے انھوں نے واضح کردیا کہ اس سے مراد حقیقی معنی، یعنی آمین کہنا ہی ہے۔
(7)
علامہ ابن منیر ؒ فرماتے ہیں:
ایک ساتھ آمین کہنے کی ترغیب میں یہ حکمت ہے کہ اس سے مقتدی چوکس اور بیدار رہیں گے تاکہ بروقت کام ادا کریں اور کسی صورت میں غفلت کا شکار نہ ہوں جس طرح فرشتے غفلت سے کام نہیں لیتے۔
اور جو فرشتوں کی موافقت کرے گا وہ ہوشیار اور بیدار قرار پائے گا۔
(فتح الباري: 343/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 780
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:781
781. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی آمین کہتا ہے تو آسمان پر فرشتے بھی آمین کہتے ہیں۔ اگر دونوں کی آمین ایک دوسرے سے مل جائے تو اس (نمازی) کے تمام گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:781]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ آمین کی فضیلت بیان کرنے کے لیے ایک ایسی حدیث لائے ہیں جس میں مطلق طور پر آمین کہنے کی فضیلت کا بیان ہے اور اسے حالت نماز کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا، تاہم صحیح مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:
”جب تم میں سے کوئی نماز میں آمین کہے۔
“ اس روایت کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ مطلق روایت کو مقید پر محمول کیا جائے گا اور اس سے مراد نماز میں آمین کہنے والا ہی بہتر ہے کہ اسے اطلاق پر ہی رکھا جائے۔
علاوہ ازیں صحیح مسلم ہی کی ایک روایت ہے کہ جب کوئی قرآن پڑھنے والا آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:
(920)
410)
اس روایت کے پیش نظر جب کوئی بھی قاری آمین کہے تو سننے والے کےلیے، خواہ وہ نماز میں ہو یا غیر نماز میں آمین کہنا مستحب ہے۔
ممکن ہے کہ قاری سے مراد امام ہی ہو کیونکہ حدیث ایک ہی ہے جو مختلف الفاظ سے بیان ہوئی ہے۔
(فتح الباری: 2/345)
(2)
علامہ ابن منیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر اور کیا فضیلت ہوسکتی ہے کہ ایک چھوٹا سا کلمہ کہنے سے مغفرت مل رہی ہے جس کے ادا کرنے میں کوئی دشواری نہیں۔
(فتح الباري: 344/2)
آمین کہنے کے متعلق یہ فضیلت ہی کافی ہے کہ مسلمانوں کے اس عمل سے یہودی بہت حسد کرتے ہیں،چنانچہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”یہود نے تمھارے ساتھ کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کیا جتنا سلام اور آمین کہنے پر کیا ہے۔
“ (سنن ابن ماجة، إقامةالصلوات، حدیث: 856)
امام ابن خزیمہ نے اس روایت کو بایں الفاظ بیان کیا ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”بلاشبہ یہود ایک حاسد قوم ہے۔
وہ ہم سے جتنا حسد سلام اور آمین کہنے پر کرتے ہیں اتنا کسی اور چیز سے نہیں کرتے۔
“ (صحیح ابن خزیمة: 288/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 781
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:782
782. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب امام ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾ ) کہے تو تم آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے ہم آہنگ ہوئی اس کے تمام گزشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔“ اس (سمی) کی متابعت محمد بن عمرو نے کی ہے اور نعیم مجمر نے براہ راست حضرت ابوہریرہ ؓ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:782]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں مقتدی کے آمین کہنے کا ذکر تو ہے لیکن بآواز بلند کہنے کا نہیں، اس کے متعلق علامہ ابن منیر ؒ لکھتے ہیں:
حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ اس حدیث میں مقتدی کو آمین کہنے کا حکم ہے اور جب مطلق طور پر قول کے ذریعے سے خطاب ہوتو جہری ہی پر محمول ہوگا اور جب آہستہ کہلانا مقصود ہوتو آہستہ کہنے کی قید اضافی طور پر بڑھائی جاتی ہے۔
(فتح الباري: 345/2) (2)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ باب اور حدیث کی مطابقت اس طرح بھی ثابت ہوتی ہے کہ مقتدی امام کی اقتدا کا پابند ہے اور یہ ثابت ہوگیا کہ امام بآواز آمین کہنے کا پابند ہے، اس لیے مقتدی کے لیے بھی لازمی ٹھہراکہ وہ اپنے امام کی اقتدا میں بآواز بلند آمین کہے۔
اس پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس اعتبار سے تو مقتدی کو سورۂ فاتحہ بھی اونچی آواز میں پڑھنی چاہیے لیکن امام کے پیچھے آواز بلند فاتحہ پڑھنے کی ممانعت ہے، اس لیے یہ اعتراض درست نہیں۔
مزید اس موقف کی تائید حضرت عطاء کے اثر سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیر کے مقتدی بآواز بلند آمین کہا کرتے تھے۔
ایک روایت میں حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ میں نے اس مسجد میں دوسو سے زیادہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ جب امام (وَلَا الضَّالِّينَ)
کہتا تو ان کے آمین کہنے کی گونج مجھے سنائی دیتی۔
(فتح الباري: 345/2)
علامہ سندھی ؒ فرماتے ہیں کہ فقولوا آمين کا حکم امام اور مقتدی دونوں کے لیے ہے۔
دراصل اس طرح کہنا چاہیے تھا کہ امام بھی آمین کہے اور تم بھی آمین کہو، لیکن چونکہ رسول اللہ ﷺ خود امام تھے، اس لیے عبارت کو مختصر طور پر اس طرح کہہ دیا کہ تم آمین کہو۔
(حاشیةالسندي: 142/1) (3)
کتب حدیث میں متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار مروی ہیں جو مقتدی کے لیے آمین بالجہر پر دلالت کرتے ہیں۔
چند ایک حوالہ حسب ذیل ہے:
حضرت نافع روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ امام کے ساتھ نماز پڑھتے تو جب فاتحہ پڑھنے کے بعد لوگ آمین کہتے تو آپ بھی آمین کہتے اور اسے سنت قرار دیتے۔
(صحیح ابن خزیمة: 287/2حدیث: 572)
نیز امام بیہقی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ امام ہوتے یا مقتدی دونوں صورتوں میں بلند آواز سے آمین کہتے تھے۔
(السنن الکبرٰی للبیھقي: 59/2)
اس سلسلے میں امام بخاری ؒ کی بیان کردہ تعلیق پہلے گزر چکی ہے۔
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے متعلق بھی پہلے بیان ہوچکا ہے۔
ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء بن ابی رباح سے سوال کیا:
آیا حضرت ابن زبیر سورۂ فاتحہ کے اختتام پر آمین کہتے تھے؟تو انھوں نے کہا:
ہاں، اور جو ان کے پیچھے نماز پڑھتے تھے وہ بھی آمین کہتے تھے یہاں تک کہ مسجد گونج اٹھتی تھی۔
(المصنف لعبدالرزاق: 2/97،96)
اس کے علاوہ حضرت عکرمہ مولیٰ ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو اس حال میں پایا کہ جب امام ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾ )
کہتا تو ان کے آمین کہنے سے مساجد گونج اٹھتی تھیں۔
(المصنف لابن أبي شیبة: 189/2)
ان آثار کے مقابلے میں کسی صحابی سے صحیح اور حسن سند کے ساتھ آہستہ آواز میں آمین کہنا ثابت نہیں۔
(4)
امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں دومتابعات بھی ذکر کی ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
محمد بن عمرو کی متابعت کو امام احمد،دارمی، ابن خزیمہ اور امام بیہقی ؒ نے اپنی اپنی متصل اسناد سے بیان کیا ہے جبکہ دوسری نعیم مجمر کی متابعت کو امام نسائی اور ابن خزیمہ ؒ نے موصولاًروایت کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
نعیم مجمر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اور سورۂ فاتحہ پڑھی۔
جب آپ (وَلَا الضَّالِّينَ)
پر پہنچے تو آمین کہی اور آپ کے پیچھے لوگوں نے بھی آمین کہی۔
آخر میں آپ نے فرمایا:
مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی نماز سے مشابہ ہوں۔
(فتح الباري: 346/2) (5)
جس روایت میں آہستہ آمین کہنے کا ذکر آیا ہے وہ محدثین کے قائم کردہ معیار صحت پر پوری نہیں اترتی، اس لیے وہ قابل حجت نہیں۔
اگر اسے صحیح تسلیم کرلیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سری نمازوں میں آمین آہستہ کہی جائے تاکہ دیگر روایات کے ساتھ اس کا ٹکراؤنہ ہو۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ ابتدائی طور پر بغرض تعلیم بآواز بلند آمین کہا کرتے تھے اس کے بعد یہ حکم منسوخ ہوگیا۔
یہ موقف عقل ونقل کے اعتبار سے درست نہیں کیونکہ اونچی آواز سے آمین کہنا حضرت وائل بن حجر ؓ سے بھی مروی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی آخری عمر میں اسلام لائے تھے،اس لیے ان سے مروی حدیث کو ابتدائی زمانے پر محمول کرنا ممکن نہیں۔
والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 782
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:796
796. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو تم اللهم ربنا لك الحمد کہو کیونکہ جس کا یہ کہنا فرشتوں کے کہنے کے مطابق ہوا اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:796]
حدیث حاشیہ:
اس باب کو شارحین بخاری کی اصطلاح میں باب في الباب کہا جاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ حدیث میں کوئی نئی بات ہوتی ہے اس پر متنبہ کرنے کے لیے امام بخاری ؒ ایک عنوان قائم کر دیتے ہیں۔
گزشتہ حدیث کے بعض طرق میں اللهم ربنا لك الحمد کہنے کی فضیلت وارد ہوئی تھی، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کرنے کے لیے مستقل عنوان قائم کیا ہے۔
امام بخاری ؒ کا یہ انداز متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔
اس سے بڑھ کر اور کیا فضیلت ہو سکتی ہے کہ چند کلمات ادا کرنے سے گناہوں کی بخشش کا پروانہ مل جائے، البتہ اس حدیث سے بعض اہل علم نے ثابت کیا ہے کہ امام ربنا لك الحمد اور مقتدی سمع الله لمن حمده نہیں کہے گا کیونکہ روایت میں اس کی وضاحت نہیں ہے لیکن یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ حدیث میں کوئی ایسی دلالت نہیں جو مقتدی اور امام کے لیے یہ کلمات کہنے کی نفی کرتی ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ امام بوقت انتقال سمع الله لمن حمده اور مقتدی بوقت اعتدال ربنا لك الحمد کہے گا۔
یہ مسئلہ بعینہٖ آمین کہنے کی طرح ہے کیونکہ آمین کے متعلق حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
جب امام (وَلَا الضَّالِّينَ)
کہے تو تم آمین کہو۔
اس حدیث سے یہ لازم نہیں آتا کہ امام آمین نہیں کہے گا اگرچہ اس حدیث میں امام کے آمین کہنے کا ذکر نہیں۔
اسی طرح مذکورہ بالا حدیث میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ امام ربنا لك الحمد نہ کہے۔
صرف عدم ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ امام کو یہ الفاظ نہیں کہنے چاہئیں۔
دوسری احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ وسلم تسمیع اور تحمید کو جمع کرتے تھے۔
(فتح الباري: 2/ 366، 367)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 796
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3228
3228. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو تم اللهم رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ. کہو کیونکہ جس کا کلام فرشتوں کے کلام سے ہم آہنگ ہوجائے، اس کے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3228]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ مقتدی کو سمع اللہ لمن حمدہ نہیں کہنا چاہیے بلکہ امام کی اتباع کا تقاضا ہے کہ مذکورہ ذکر امام کے ساتھ ہونا چاہیے جیسا کہ آمین امام کے ساتھ کہی جاتی ہے۔
نماز میں امام کی متابعت کی جاتی ہے، مخالفت اور مسابقت سخت منع ہے۔
امام سے موافقت صرف دو امور میں ہے:
ایک آمین کہنے میں اور دوسرے سمع اللہ لمن حمدہ کہنے میں۔
اس موافقت کی فضیلت یہ ہے کہ اس سے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
2۔
امام بخاری ؒ کا مقصد فرشتوں کا وجود اور ان کی کارکردگی ثابت کرنا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3228
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4475
4475. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب امام ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾ کہے تو تم آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوئی اس کے سابقہ سب گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4475]
حدیث حاشیہ:
1۔
فرشتوں کے آمین کہنے کی علامت امام کا آمین کہنا ہے، لہذا ہمیں حکم ہے کہ ہم امام کی آمین کے ساتھ ہی آمین کہیں جبکہ نماز کے دیگر ارکان میں امام کی متابعت کا حکم دیا گیا ہے۔
آمین کہتے وقت ہم متابعت کے بجائے موافقت کے پابند ہیں، البتہ امام کی مخالفت اور اس سے مسابقت کسی صورت میں جائز نہیں۔
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہواکہ نماز میں آمین بآواز بلند کہنی چاہیے۔
بعض روایات میں آمین بآواز بلند کہنے کے الفاظ بھی مروی ہیں۔
بعض دوسری روایات میں (وَرَفَعَ بِهَا صَوْتَهُ)
کے الفاظ ہیں۔
(فتح الباری: 342/2)
حضرت وائل بن حجر ؒ سے بھی بلند آواز آمین کہنے کی روایت مروی ہے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 932، و صحیح ابن حبان، الأذان والإقامة، حدیث: 570۔
571)
امام بخاری ؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اور ان کی اقتدا میں نماز ادا کرنے والے اونچی آواز سے آمین کہتے تھے یہاں تک کہ مسجد ان کی آواز سے گونج اٹھتی۔
(صحیح البخاري، الصلاة، باب: 11معلقاً) (مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ)
سے مراد یہود ہیں جیسا کہ ان کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"وہ اللہ کی طرف سے غصے پر غصہ لے کر واپس ہوئے۔
'' (البقرة: 90/2) (الضَّالِّينَ)
سے مراد عیسائی ہیں جیسا کہ ان کےمتعلق قرآن میں ہے:
"وہ خود پہلے سے گمراہ تھے اور بہت لوگوں کو انھوں نے گمراہ کیا۔
'' (المائدة: 77/5)
رسول اللہ ﷺ سے بھی یہی تفسیر مروی ہے جیساکہ حضرت عدی بن حاتم نے بیا ن کیاہے۔
(مسند أحمد: 378/4۔
وفتح الباري: 200/8)
2۔
اس مقام پر علامہ عینیؒ نے امام بخاری ؒ پر اعتراض کیا ہے کہ اس عنوان کا یہاں کوئی محل نہیں اور نہ ذکر کردہ حدیث کاتفسیر سے کوئی تعلق ہی ہے۔
(عمدة القاري: 413/12)
لیکن ان کا یہ اعتراض بے محل ہے کیونکہ امام بخاریؒ تفسیر قرآن کے متعلق متاخرین کے برعکس ایک جداگانہ انداز ہے۔
متاخرین کی تفسیر میں مشکلات کا حل اور مسائل کی تحقیق ہوتی جبکہ امام بخاریؒ کے یہاں تفسیر عام ہے۔
خواہ کسی کلمے کی شرح کرنا ہو یا کلام سے جو قصہ منسلک ہو اس کی تفصیل بیان کی جاتی ہے، جو چیزیں سورت مکمل ہونے کے بعد پڑی جاتی ہیں، انھیں بیان کرنا بھی تفسیر میں شامل ہے۔
ان کے انداز تفسیر میں یہ بھی شامل ہے کہ قرآن مجید کا کوئی لفظ حدیث میں آجائے تو اس حدیث کو بھی تفسیر کے تحت بیان کردیا جاتا ہے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ دونوں جگہ ایک ہی معنی مراد ہیں۔
اس حدیث میں بھی اختتام فاتحہ کے بعد آمین کہنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
اس وضاحت سے علامہ عینیؒ کے اعتراض کی حقیقت کھل جاتی ہے کہ ان کا اعتراض کرنا بے فائدہ ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4475
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6402
6402. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب پڑھنے والا آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، بلاشبہ اس وقت فرشتے بھی آمین کہتے ہیں۔ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے ساتھ موافق ہو جائے اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6402]
حدیث حاشیہ:
(1)
دعا کے بعد آمین کہنے کی وہی حیثیت ہے جو خط پر مہر لگانے کی ہوتی ہے۔
حدیث میں ہے:
”یہود جتنا سلام اور آمین کہنے پر تم سے جلتے ہیں اتنا کسی بات پر نہیں جلتے۔
“ (صحیح ابن خزیمة: 288/1)
ایک روایت میں ہے:
”یہودی تمہاری آمین پر بہت جلتے ہیں، اس لیے تم بکثرت آمین کہا کرو۔
“ (سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 857) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
حدیث میں قاری سے مراد امام ہے کیونکہ وہ نماز میں قراءت کرتا ہے۔
یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد مطلق طور پر پڑھنے والا ہو۔
(فتح الباري: 240/11)
بہرحال ''آمین'' کے معنی ہیں:
قبول فرما۔
یہ لفظ گویا مفصل دعا کے بعد مختصر طور پر انہیں دعاؤں کی تکرار ہے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ آمین جیسے پاکیزہ ادب سے کنارہ کش نہ ہوں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6402