Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
79. باب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْفَعْ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ
باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم صرف پہلی مرتبہ ہاتھ اٹھاتے تھے۔
حدیث نمبر: 257
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: " أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَبِهِ يَقُولُ: غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
علقمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز نہ پڑھاؤں؟ تو انہوں نے نماز پڑھائی اور صرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں براء بن عازب رضی الله عنہما سے بھی حدیث آئی ہے،
۳- صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم یہی کہتے ہیں اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 119 (748)، سنن النسائی/الافتتاح 87 (1027)، والتطبیق 20 (1059)، (تحفة الأشراف: 9468)، مسند احمد (1/388، 442) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: جو لوگ رفع یدین کی مشروعیت کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں انہوں نے اسی روایت سے استدلال کیا ہے، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، امام احمد اور امام بخاری نے عاصم بن کلیب کی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے، اور اگر اسے صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ ان روایتوں کے معارض نہیں جن سے رکوع جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کا اثبات ہوتا ہے، اس لیے کہ رفع یدین مستحب ہے فرض یا واجب نہیں، دوسرے یہ کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے اسے نہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اوروں کی روایت غلط ہو، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے بہت سے مسائل مخفی رہ گئے تھے، ہو سکتا ہے یہ بھی انہیں میں سے ہو جیسے جنبی کے تیمم کا مسئلہ ہے یا (رکوع کے درمیان دونوں ہاتھوں کی) تطبیق کی منسوخی کا معاملہ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح صفة الصلاة - الأصل، المشكاة (809)

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / د 748، ن 1059،1027

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 257 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 257  
اردو حاشہ:
1؎:
جو لوگ رفع الیدین کی مشروعیت کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں انہوں نے اسی روایت سے استدلال کیا ہے،
لیکن یہ حدیث ضعیف ہے،
امام احمد اور امام بخاری نے عاصم بن کلیب کی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے،
اور اگر اسے صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ ان روایتوں کے معارض نہیں جن سے رکوع جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کا اثبات ہوتا ہے،
اس لیے کہ رفع یدین مستحب ہے فرض یا واجب نہیں،
دوسرے یہ کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اسے نہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اوروں کی روایت غلط ہو،
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بہت سے مسائل مخفی رہ گئے تھے،
ہو سکتا ہے یہ بھی انہیں میں سے ہو جیسے جنبی کے تیمم کا مسئلہ ہے یا (رکوع کے درمیان دونوں ہاتھوں کی) تطبیق کی منسوخی کا معاملہ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 257   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 748  
´جنہوں نے رکوع کے وقت رفع یدین کا ذکر نہیں کیا`
«. . . فَصَلَّى، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً . . .»
. . . تو رفع یدین صرف ایک بار (نماز شروع کرتے وقت) کیا . . . [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة: 748]
فوائد و مسائل:
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
«أنه كان يرفع يديه فى أول تكبيرة، ثم لا يعود.»
آپ پہلی تکبیر میں رفع الیدین فرماتے تھے، پھر دوبارہ نہ کرتے۔ [مسند احمد:441،388/1، سنن ابي داود:748، سنن نسائي:1059، سنن ترمذي:257]
تبصرہ:
➊ یہ روایت ضعیف ہے،
اس میں سفیان ثوری ہیں، جو کہ بالاجماع مدلس ہیں، ساری کی ساری سندوں میں «عن» سے روایت کر رہے ہیں، سماع کی تصریح ثابت نہیں۔
مسلم اصول ہے کہ جب ثقہ مدلس بخاری و مسلم کے علاوہ «عن» یا «قال» کے الفاظ کے ساتھ حدیث بیان کرے تو وہ ضعیف ہوتی ہے۔
اس حدیث کے راوی امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ (م: 181ھ) نے امام ہشیم بن بشیر رحمہ اللہ (م: 183ھ) سے پوچھا، آپ تدلیس کیوں کرتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا:
«ان كبيريك قد دلسا الأعمش وسفيان.»
آپ کے دو بڑوں امام اعمش اور امام سفیان رحمہ اللہ علیہما نے بھی تدلیس کی ہے۔ [الكامل لابن عدي:95/1، 135/7 وسنده صحيح]

◈ امام عینی حنفی لکھتے ہیں:
«سفيان من المدلسين، والمدلس لا يحتج بعنعنته الا أن يثبت سماعه من طريق آخر.»
سفیان مدلس راویوں میں سے ہیں اور مدلس راوی کے عنعنہ سے حجت نہیں لی جاتی، الا یہ کہ دوسری سند میں اس کا سماع ثابت ہو جائے۔ [عمدة القاري:112/3]

➋ یہ ضعیف روایت عام ہے، جبکہ رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کے متعلق احادیث خاص ہیں، خاص کو عام پر مقدم کیا جاتا ہے، لہٰذا یہ حدیث عدم رفع الیدین کے ثبوت پر دلیل نہیں بن سکتی۔

➌ مانعین رفع الیدین یہ بتائیں کہ وہ اس حدیث کو پس پشت ڈالتے ہوئے خود وتروں اور عیدین میں پہلی تکبیر کے علاوہ کیوں رفع الیدین کرتے ہیں؟

حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ محدیثین کرام کی نظر میں:
◈ امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لم يثبت عندي حديث ابن مسعود.»
میرے نزدیک حدیث ابن مسعود ثابت نہیں۔ [سنن الترمذي: تحت حديث256، سنن الدارقطني:393/1، السنن الكبريٰ للبيهي:79/2، وسنده صحيح]

◈ امام ابوداود رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«وليس هو بصحيح على هذا اللفظ.» یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں۔

◈ امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«هذا خطأ.» یہ غلطی ہے۔ [العلل:96/1]

◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وليس قول من قال: ثم لم يعد محفوظا.»
جس راوی نے دوبارہ رفع یدین نہ کرنے کے الفاظ کہے ہیں، اس کی روایت محفوظ نہیں۔ [العلل:173/5]

◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«هو فى الحقيقة أضعف شئ يعول عليه، لأن له عللا تبطله.»
درحقیقت یہ ضعیف ترین چیز ہے جس پر اعتماد کیا جات ہے، کیونکہ اس میں کئی علتیں ہیں جو اسے باطل قرار دیتی ہیں۔ [التلخيص الحبير لابن حجر:222/1]

تنبیہ:
اگر کوئی کہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ حنفی مذہب کی معتبر کتابوں میں لکھا ہے:
ابن دحیہ نے اپنی کتاب العلم المشہور میں کہا ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں کتنی ہی «موضوع» (من گھڑت) اور ضعیف سندوں والی احادیث کو «حسن» کہہ دیا ہے۔ [نصب الراية للزيلعي:217/2، البناية للعيني:869/2، مقالات الكوثري:311، صفائح اللجين از احمد رضا خان بريلوي:29]
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 12، حدیث/صفحہ نمبر: 2   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1027  
´تکبیر تحریمہ کے بعد رفع یدین نہ کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ بتاؤں؟ چنانچہ وہ کھڑے ہوئے اور پہلی بار اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، پھر انہوں نے دوبارہ ایسا نہیں کیا ۱؎۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1027]
1027۔ اردو حاشیہ: یہ روایت رکوع کے رفع الیدین کے نسخ کی دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہے، مگر یہاں چند باتیں قابل غور ہیں:
➊ اس روایت میں رکوع کے رفع الیدین کا ذکر ہی نہیں تو مسنوخ کیسے؟ اگر کہا جائے: پھر نہ کیا سے یہ مفہوم اخذ ہوتا ہے تو عرض ہے کہ قنوت وتر کا رفع الیدین اس سے کیسے بچ گیا؟ تکبیرات عیدین کیوں اس کی زد میں نہ آئیں؟
➋ اس روایت کی اسنادی حیثیت اتنی قوی نہیں جتنی رفع الیدین کے ثبوت کی احادیث کی ہے۔ اس حدیث کو اکثر محدثین نے ضعیف کہا ہے جب کہ رفع الیدین کرنے کی بخاری اور مسلم کی مستند روایات ہیں۔ پھر وہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں۔ کیا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک ضعیف روایت لے کر کثیر صحابہ کی روایات چھوڑنا کسی بھی لحاظ سے مناسب ہے؟ تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائي: 52-50/13]
➌ کثیر صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے رفع الیدین کرنے کا ثبوت ملتا ہے جبکہ ان سے اس کی نفی منقول ہے۔ کس کو ترجیح ہونی چاہیے؟ یقیناًً اصولی طور پر اثبات نفی پر مقدم ہوتا ہے۔ یا ممکن ہے ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھول گئے ہوں جس طرح وہ چند باتیں اور بھول گئے تھے، مثلاً: معوذتین قرآن کا جز ہیں یا نہیں؟ اور امام کے ساتھ دو مقتدی ہوں تو کیسے کھڑے ہوں؟ رکوع کے دوران میں ہاتھ کہاں اور کیسے رکھے جائیں؟ اور مسائل میں احناف بھی ان کی بات نہیں مانتے۔ تو کیا مناسب نہیں کہ رفع الیدین کو بھی ان مسائل میں شامل کر لیا جائے کیونکہ ان کا موقف کثیر صحابہ کے موافق نہیں۔
➍ اس حدیث کی مناسب تاویل بھی ہو سکتی ہے، مثلاً: پہلی رکعت کے شروع میں رفع الیدین کیا۔ دوسری رکعت کے شروع میں نہیں کیا۔ عید کی طرح بار بار نہیں کیا وغیرہ، تاکہ یہ روایت اصح اور کثیر روایات کے مطابق ہو سکے۔
➎ اگر بالفرض اس حدیث کو صحیح بھی مانا جائے، تاویل بھی نہ کی جائے اور عمل بھی کیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ کبھی کبھار رفع الیدین نہ بھی کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ معمول رفع الیدین ہی کا ہوتاکہ سب حدثیوں پر عمل ہو۔ اس روایت سے نسخ تو قطعاً ثابت نہیں ہوتا۔ مندرجہ بالا معقول باتوں کو چھوڑ کر نسخ ہی باور کرانے پر تلے رہنا، جب کہ مولانا انور شاہ کشمیری نے بھی نسخ کی تردید کی ہے، یقیناًً انتہائی نامعقولیت ہے جس کا کوئی جواز نہیں کیا جا سکتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1027   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1059  
´رفع یدین نہ کرنے کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟ چنانچہ انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی، تو انہوں نے صرف ایک بار رفع یدین کیا۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1059]
1059۔ اردو حاشیہ: یہ روایت ضعیف ہے۔ مزید دیکھیے، حدیث: 1027۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1059