Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
72. باب مَا جَاءَ فِي التَّأْمِينِ
باب: آمین کہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 248
حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ حُجْرِ بْنِ عَنْبَسٍ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَرَأَ: غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7 فَقَالَ: آمِينَ وَمَدَّ بِهَا صَوْتَهُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَبِهِ يَقُولُ: غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ يَرَوْنَ أَنَّ الرَّجُلَ يَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّأْمِينِ وَلَا يُخْفِيهَا، وَبِهِ يَقُولُ: الشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ حُجْرٍ أَبِي الْعَنْبَسِ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ: غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7 فَقَالَ: " آمِينَ " وَخَفَضَ بِهَا صَوْتَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وسَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: حَدِيثُ سُفْيَانَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ شُعْبَةَ فِي هَذَا وَأَخْطَأَ شُعْبَةُ فِي مَوَاضِعَ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: عَنْ حُجْرٍ أَبِي الْعَنْبَسِ وَإِنَّمَا هُوَ حُجْرُ بْنُ عَنْبَسٍ وَيُكْنَى أَبَا السَّكَنِ وَزَادَ فِيهِ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ وَلَيْسَ فِيهِ عَنْ عَلْقَمَةَ، وَإِنَّمَا هُوَ عَنْ حُجْرِ بْنِ عَنْبَسٍ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، وَقَالَ: وَخَفَضَ بِهَا صَوْتَهُ، وَإِنَّمَا هُوَ وَمَدَّ بِهَا صَوْتَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسَأَلْتُ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: حَدِيثُ سُفْيَانَ فِي هَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ شُعْبَة، قَالَ: وَرَوَى الْعَلَاءُ بْنُ صَالِحٍ الْأَسَدِيُّ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ نَحْوَ رِوَايَةِ سُفْيَانَ.
وائل بن حجر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» پڑھ کر، آمین کہتے سنا، اور اس کے ساتھ آپ نے اپنی آواز کھینچی (یعنی بلند کی)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- وائل بن حجر رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں علی اور ابوہریرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے کئی اہل علم کا یہی قول ہے کہ آدمی آمین کہنے میں اپنی آواز بلند کرے اسے پست نہ رکھے۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔
(شاذ) ۴- شعبہ نے یہ حدیث بطریق «سلمة بن كهيل، عن حُجر أبي العنبس، عن علقمة بن وائل، عن أبيه وائل» روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» پڑھا تو آپ نے آمین کہی اور اپنی آواز پست کی،
۵- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ شعبہ نے اس حدیث میں کئی مقامات پر غلطیاں کی ہیں ۱؎ انہوں نے حجر ابی عنبس کہا ہے، جب کہ وہ حجر بن عنبس ہیں اور ان کی کنیت ابوالسکن ہے اور اس میں انہوں نے «عن علقمة بن وائل» کا واسطہ بڑھا دیا ہے جب کہ اس میں علقمہ کا واسطہ نہیں ہے، حجر بن عنبس براہ راست حجر سے روایت کر رہے ہیں، اور «وخفض بها صوته» (آواز پست کی) کہا ہے، جب کہ یہ «ومدّ بها صوته» (اپنی آواز کھینچی) ہے،
۶- میں نے ابوزرعہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ اور علاء بن صالح اسدی نے بھی سلمہ بن کہیل سے سفیان ہی کی حدیث کی طرح روایت کی ہے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 172 (932)، سنن النسائی/الافتتاح 4 (880)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 14 (855)، (تحفة الأشراف: 11758)، مسند احمد (4/315)، سنن الدارمی/الصلاة 39 (1283) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: شعبہ نے اس حدیث میں تین غلطیاں کی ہیں ایک تو انہوں نے حجر ابی عنبس کہا ہے جب کہ یہ حجر بن عنبس ہے دوسری یہ کہ انہوں نے حجر بن عنبس اور وائل بن حجر کے درمیان علقمہ بن وائل کے واسطے کا اضافہ کر دیا ہے جب کہ اس میں علقمہ کا واسطہ نہیں ہے اور تیسری یہ کہ انہوں نے «و خفض بها صوته» کہا ہے جب کہ «مدّ بها صوته» ہے۔
۲؎: گویا سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس حدیث کی روایت میں علاء بن صالح اسدی نے سفیان کی متابعت کی ہے۔ (جو آگے آ رہی ہے)

قال الشيخ الألباني: (حديث سفيان عن سلمة بن كهيل إلى وائل بن حجر) صحيح. (حديث شعبة عن سلمة بن كهيل إلى وائل بن حجر) شاذ (حديث سفيان عن سلمة بن كهيل إلى وائل بن حجر) ، ابن ماجة (855) . (حديث شعبة عن سلمة بن كهيل إلى وائل بن حجر) ، صحيح أبي داود (863)

قال الشيخ زبير على زئي: شاذ
رواية شعبه: وخفض بها صوته، شاذة، ضعفها البخاري وغيره وحديث سفيان الثوري عن سلمه: صحیح .

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 248 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 248  
اردو حاشہ:
1؎:
شعبہ نے اس حدیث میں تین غلطیاں کی ہیں ایک تو انہوں نے حجر ابی عنبس کہا ہے جب کہ یہ حجر بن عنبس ہے دوسری یہ کہ انہوں نے حجر بن عنبس اور وائل بن حجر کے درمیان علقمہ بن وائل کے واسطے کا اضافہ کر دیا ہے جب کہ اس میں علقمہ کا واسطہ نہیں ہے اور تیسری یہ کہ انہوں نے ((وَخَفَضَ بِهَا صَوْتَهُ)) کہا ہے جب کہ ((وَمَدَّ بِهَا صَوْتَهُ)) ہے۔

2؎:
گویا سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس حدیث کی روایت میں علاء بن صالح اسدی نے سفیان کی متابعت کی ہے۔
(جو آگے آ رہی ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 248   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه سيد بديع الدين شاه راشدي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 932  
´بلند آواز سے آمین`
«. . . كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قرا: ولا الضالين سورة الفاتحة آية 7، قال: آمين ورفع بها صوته .»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب «ولا الضالين» پڑھتے تو آمین کہتے، اور اس کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة: 932]
تفقہ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ:
«اذا فرغ من قراة ام القرآن رفع صوته وقال آمين» [سنن دارقطني: 450/1۔ 1259، مستدرك حاكم: 345/1، 812]
آپ جب نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے سے فارغ ہوتے تھے تو بلند آواز سے آمین کہتے تھے اور اس حدیث کو دارقطنی نے حسن اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔

اسی معنیٰ میں ابوداؤد وغیرہ میں بھی ایک حدیث شریف مروی ہے۔ [سنن ابي داود 932] جسے امام ترمذی نے حسن کہا ہے اور ابوداود نے اس پر سکوت کیا ہے۔ امام صاحب سکوت اس حدیث پر کرتے ہیں جو ان کے نزدیک قابل احتجاج ہوتی ہے۔ اب ان دونوں حدیثوں سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کے اسوہ حسنہ میں آمین کا زور سے کہنا حجت ہے نہ کہ آہستہ۔

اور جس حدیث سے احناف آمین کے آہستہ کہنے پر دلیل پکڑتے ہیں وہ بالکل صحیح نہیں۔ کیونکہ شعبہ نے اس میں دوہری غلطی کی ہے اور بجائے لفظ «رفع بها صوته» کے «خفض بها صوته» کہا ہے۔ [ملاحظه هو مطولات]

سفیان کی جو حدیث ہم نے پیش کی ہے اسے امام بخاری اور امام ابوزرعہ رازی نے شعبہ کی حدیث پر ترجیح دی ہے۔ [سنن ترمذي]
نیز امام دارقطنی نے بھی اپنی سنن میں اس حدیث کو ترجیح دی ہے۔ تو معلوم ہوا کہ حق وہ ہے جو ہمارے احباب اہل حدیث کا مذہب ہے۔

اب ہم ایک اثر نقل کر کے اس مسئلہ کو ختم کرتے ہیں۔
چنانچہ امام ابن حبان نے کتاب الثقات میں صحیح سند سے امام ابوحنیفہ کے استاد عطاء بن ابی رباح سے روایت کی ہے کہ:
«قال أدركت مائتين من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فى هذا المسجد يعني الحرام إذا قال الإمام ولا الضالين رفعوا أصواتهم بآمين» [كتاب الثقات لامام ابن حبان: 265/2، البيهقي: 59/2]
عطاء نے کہا کہ میں نے اس مسجد (یعنی کعبۃ اللہ شریف) میں دو سو صحابہ کو (نماز پڑھتے) پایا۔ جب امام نے «ولا الضالين» کہا تو ان دو سو صحابہ نے بلند آواز سے آمین کہی۔
   اہلحدیث کے امتیازی مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 36   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 222  
´بلند آواز سے آمین`
«. . . كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قرا: ولا الضالين سورة الفاتحة آية 7، قال: آمين ورفع بها صوته .»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب «ولا الضالين» پڑھتے تو آمین کہتے، اور اس کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة: 932]
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث میں ہے کہ سورہ فاتحہ کی قرأت کے اختتام پر آپ بآواز بلند آمین کہتے تھے۔ آمین کہنے میں کسی کا اختلاف نہیں۔ اگر اختلاف ہے تو وہ بلند آواز سے کہنے میں ہے۔ احناف آمین آہستہ کہنے کے قائل ہیں جبکہ ائمہ ثلاثہ، محدثین اور اہلحدیث بلند آواز سے آمین کہنے کے قائل ہیں۔ بہت سی صحیح احادیث سے آمین بالجھر کی تائید و توثیق ہوتی ہے، چنانچہ ترمذی میں سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہی اور اپنی آواز کو دراز کیا۔ ابوداود اور سنن دارمی حديث: 1249 کے الفاظ ہیں کہ آپ نے آمین بلند آواز سے کہی۔ اس حدیث کو ترمذی نے حسن اور دارقطنی نے صحیح قرار دیا ہے، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔
➋ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔ جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گئی تو اس کے پہلے سب گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ [صحيح البخاري، الأذان، باب جهر الإمام بالتأمين، حديث: 780، وصحيح مسلم، الصلاة، باب التسبيح والتحميد والتأمين، حديث: 410]
➌ امام ابن خزیمہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ امام اونچی آواز سے آمین کہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی کو امام کی آمین کے ساتھ آمین کہنے کا حکم اسی صورت میں دے سکتے ہیں جب مقتدی کو معلوم ہو کہ امام آمین کہہ رہا ہے۔ کوئی عالم تصور نہیں کر سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی کو امام کی آمین کے ساتھ آمین کہنے کا حکم دیں جب کہ وہ اپنے امام کی آمین کو سن نہ سکے۔ [صحيح ابن خزيمة: 286/1]
➍ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے مقتدی اتنی بلند آواز سے آمین کہا کرتے تھے کہ مسجد گونج اٹھتی تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے تعلیقاً لیکن صیغۂ جزم کے ساتھ ذکر کیا ہے جو اس کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔ دیکھئے: [صحيح البخاري، الأذان، باب جهر الإمام بالتأمين، قبل حديث: 780]
➎ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس قدر یہود بلند آواز سے آمین کہنے سے چڑتے ہیں اتنا کسی اور چیز سے نہیں، لہٰذا تم کثرت سے آمین کہا کرو۔ [سنن ابن ماجه، إقامة الصلوات، باب الجهر بآمين، حديث: 857]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہودی تم سے کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کرتے جتنا سلام اور آمین پر تم سے حسد کرتے ہیں۔ [سنن ابن ماجه، إقامة الصلوات، باب الجهر بآمين، حديث: 856، والأدب المفرد، حديث: 988، ومجمع الزوائد: 113/2]
➏ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جب آپ نے «وَلَا الضَّآلِّيْن» کہا: تو فرمایا: آمین۔ [سنن ابن ماجه، إقامة الصلوات، باب الجهر بآمين، حديث: 854]
➐ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود مسلمانوں سے تین باتوں کی بنا پر حسد کرتے ہیں: سلام جواب پر، صفوں کی درستی پر، اور امام کے پیچھے آمین کہنے پر۔ امام طبرانی نے اسے الأوسط میں بیان کیا ہے اور علامہ ہیثمی نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ [مجمع الزوائد، الصلاة: 113/2]
➑ سیدنا عکرمہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ امام جب «وَلَا الضَّآلِّيْن» کہتا تو لوگوں کے آمین کہنے کی وجہ سے مسجد گونج جاتی۔ [مصنف ابن أبى شيبة: 2 187]
➒ عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے دو سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ بیت اللہ میں جب امام «وَلَا الضَّآلِّيْن» کہتا تو سب بلند آواز سے آمین کہتے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي: 59/2، وكتاب الثقات لابن حبان: 265/6]
یہ اور اسی نوعیت کی دیگر احادیث کی بنا پر امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ نماز میں جب امام سورہ فاتحہ ختم کرے تو امام و مقتدی کو بلند آواز سے آمین کہنی چاہیے۔ اور علمائے احناف کے مقتدر علماء نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔
➓ امام ابن ہمام حنفی رحمہ اللہ نے فتح القدیر شرح بدایہ میں متوسط درجے کی آواز سے آمین کہنے کو پسند فرمایا ہے۔ مدارج النبوة اور أشعة اللمعات میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہری نمازوں میں بلند آواز سے آمین کہتے اور مقتدی بھی آپ کی موافقت کرتے۔ اور جہراً آمین کہنے کی احادیث تعداد کے لحاظ سے زیادہ ہیں اور سند کے لحاظ سے بہت صحیح ہیں۔
⓫ سیدنا شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے بھی تنویر العینین میں کہا ہے کہ: جہراً آمین کہنے کی احادیث اکثر اور واضح ہیں۔ اور التعلیق الممجد میں مولانا عبدالحی لکھنوی لکھتے ہیں کہ انصاف کی بات تو یہی ہے کہ آمین زور سے کہنا دلیل کی روشنی میں قوی ہے۔ اور یہی بات انہوں نے السعاية میں فرمائی ہے، بلکہ وہاں تو صاف طور پر اس کی بھی وضاحت کر دی ہے کہ آہستہ آمین کہنے والی روایات ضعیف ہیں جو جہراً آمین کہنے والی روایات کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اس اظہار حقیقت کے بعد ہم مزید کسی بات کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 222   

  حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 932  
´بلند آواز سے آمین`
«. . . كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قرا: ولا الضالين سورة الفاتحة آية 7، قال: آمين ورفع بها صوته .»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب «ولا الضالين» پڑھتے تو آمین کہتے، اور اس کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة: 932]
فقہ الحدیث
اس حدیث میں سفیان ثوری کی تدلیس کا کوئی مسئلہ نہیں، کیونکہ یہ حدیث سفیان ثوری سے یحیٰی بن سعید القطان نے بیان کی ہے اور یحیٰی القطان سفیان ثوری سے صرف وہی حدیثیں بیان کرتے تھے جو ثوری نے اپنے استاذوں سے سنی تھیں۔ دیکھیے: [الفتح المبین ص 67]
اس کے باوجود بھی بعض آل تقلید کا یہاں یہ پروپیگنڈا کہ سفیان ثوری اپنی جلالت قدر کے باوصف کبھی کبھی تدلیس بھی کرتے ہیں۔ [توضیح السنن 615/1] باطل ہے، جبکہ سماع ثابت ہے تو تدلیس کا اعتراض کیوں؟
سفیان ثوری رحمہ اللہ کی روایت کی کسی سند میں کوئی اضطراب نہیں، بلکہ علاء بن صالح «ثقه عند الجمهور» نے ان کی متابعت تامہ کر رکھی ہے۔
تنبیہ:
عبدالقیوم حقانی دیوبندی نے لکھا ہے: علاء بن الصالح باتفاق ضعیف ہیں۔ [توضیح السنن 209/1]
علاء بن صالح پر نیموی صاحب نے یہاں جرح کر دی ہے کہ تقریب میں ہے: «صدوق له اوهام»، ذہبی نے ابوحاتم سے نقل کیا: «كان من عنق الشيعة»، ابن المدینی نے کہا: «روي احاديث مناكير۔» [التعلیق الحسن ص 195، تحت ح 384 ملخصا]
اور اسی علاء بن صالح کی بیان کردہ ایک حدیث کے بارے میں خود نیموی صاحب نے کہا: «واسناد حسن» [آثار السنن 627] سبحان اللہ کیا انصاف ہے؟
علاء بن صالح کو درج ذیل اماموں نے «ثقه» اور «لا باس به» قرار دیا ہے۔
یحییٰ بن معین، ابوداود، ابوحاتم الرازی، ابن حبان، یعقوب بن سفیان، ابن نمیر اور عجلی وغیرہ۔ دیکھئیے: [تھذیب التھذیب 183/8]
معلوم ہوا کہ وہ جمہور کے نزدیک ثقہ و صدوق یعنی حسن الحدیث ہیں۔ تحریر تقریب التہذیب میں بھی اسی بات کو ترجیح دی گئی ہے کہ وہ صدوق حسن الحدیث ہیں۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 134، حدیث/صفحہ نمبر: 15   

  حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 933  
´امام کے پیچھے آمین کہنا`
«. . . عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، أَنَّهُ صَلَّى خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" فَجَهَرَ بِآمِينَ . . .»
. . . وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے زور سے آمین کہی . . . [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة: 933]
فقہ الحدیث
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آمین بالجہر ثابت ہے، جیسا کہ علاء بن صالح رحمہ اللہ کی حسن لذاتہ روایت بحوالہ سنن ابی داود [933] آثارالسنن [377] کی تحقیق انوارالسنن حاشیہ نمبر 1 کے تحت گزر چکی ہے۔ باقی روایات کے لئے میری کتاب القول المتین فی الجھر بالتامین پڑھ لیں۔
خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم سے جہری نمازوں میں خفیہ آمین یا آمین بالسر قطعاً ثابت نہیں ہے۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر مسئلہ ضرور خلفائے راشدین سے ثابت ہو کسی ایک صحابی سے ثابت ہو جانا اور خلفائے راشدین یا دیگر صحابہ سے اس کی مخالفت ثابت نہ ہونا، یہی کافی ہے۔
صحیح بخاری [قبل ح 780] میں تعلیقاً اور مصنف عبدالرزاق [2640] وغیرہ میں موصولاً آیا ہے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے مقتدی سورۂ فاتحہ کے بعد آمین کہتے تھے حتیٰ کہ بلند آواز کی وجہ سے مسجد میں گونج پیدا ہو جاتی تھی۔ اس حدیث کے بعد امام عطاء نے فرمایا: آمین دعا ہے۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 134، حدیث/صفحہ نمبر: 21   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 933  
´امام کے پیچھے آمین کہنے کا بیان۔`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے زور سے آمین کہی اور اپنے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرا یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گال کی سفیدی دیکھ لی۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 933]
933۔ اردو حاشیہ:
امام ترمذی کی اس سند میں علی بن صالح کی بجائے علاء بن صالح نقل ہوا ہے۔ دیکھیے: [جامع الترمذي حديث 249]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 933