Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الصُّلْحِ
کتاب: صلح کے مسائل کا بیان
7. بَابُ الصُّلْحِ مَعَ الْمُشْرِكِينَ:
باب: مشرکین کے ساتھ صلح کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2700
وَقَالَ مُوسَى بْنُ مَسْعُودٍ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: صَالَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُشْرِكِينَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ عَلَى ثَلَاثَةِ أَشْيَاءَ: عَلَى أَنَّ مَنْ أَتَاهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ رَدَّهُ إِلَيْهِمْ، وَمَنْ أَتَاهُمْ مِنَ الْمُسْلِمِينَ لَمْ يَرُدُّوهُ، وَعَلَى أَنْ يَدْخُلَهَا مِنْ قَابِلٍ وَيُقِيمَ بِهَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَا يَدْخُلَهَا إِلَّا بِجُلُبَّانِ السِّلَاحِ السَّيْفِ وَالْقَوْسِ وَنَحْوِهِ، فَجَاءَ أَبُو جَنْدَلٍ يَحْجُلُ فِي قُيُودِهِ فَرَدَّهُ إِلَيْهِمْ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: لَمْ يَذْكُرْ مُؤَمَّلٌ، عَنْ سُفْيَانَ، أَبَا جَنْدَلٍ، وَقَالَ: إِلَّا بِجُلُبِّ السِّلَاحِ.
موسیٰ بن مسعود نے بیان کیا کہ ہم سے سفیان بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ مشرکین کے ساتھ تین شرائط پر کی تھی، (1) یہ کہ مشرکین میں سے اگر کوئی آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے واپس کر دیں گے۔ لیکن اگر مسلمانوں میں سے کوئی مشرکین کے یہاں پناہ لے گا تو یہ لوگ ایسے شخص کو واپس نہیں کریں گے۔ (2) یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ سال مکہ آ سکیں گے اور صرف تین دن ٹھہریں گے۔ (3) یہ کہ ہتھیار، تلوار، تیر وغیرہ نیام اور ترکش میں ڈال کر ہی مکہ میں داخل ہوں گے۔ چنانچہ ابوجندل رضی اللہ عنہ (جو مسلمان ہو گئے تھے اور قریش نے ان کو قید کر رکھا تھا) بیڑیوں کو گھسیٹتے ہوئے آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (شرائط معاہدہ کے مطابق) مشرکوں کو واپس کر دیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ مؤمل نے سفیان سے ابوجندل کا ذکر نہیں کیا ہے اور «إلا بجلبان السلاح» کے بجائے «إلا بجلب السلاح‏.» کے الفاظ نقل کیے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2700 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2700  
(1)
یہ کہ مشرکین میں سے اگر کوئی آدمی آنحضرت ﷺ کے پاس آجائے تو آپ اسے واپس کردیں گے۔
لیکن اگر مسلمانوں میں سے کوئی مشرکین کے یہاں پناہ لے گا تو یہ لوگ ایسے شخص کو واپس نہیں کریں گے۔
(2)
یہ کہ آپ آئندہ سال مکہ آسکیں گے اور صرف تین دن ٹھہریں گے۔
(3)
یہ کہ ہتھیار، تلوار، تیر وغیرہ نیام اور ترکش میں ڈال کر ہی مکہ میں داخل ہوں گے۔
چنانچہ ابوجندل ؓ (جو مسلمان ہوگئے تھے اور قریش نے ان کو قید کررکھا تھا)
بیڑیوں کو گھسیٹتے ہوئے آئے، تو آپ ﷺ نے انہیں (شرائط معاہدہ کے مطابق)
مشرکوں کو واپس کردیا۔
امام بخاری نے کہا کہ مؤمل نے سفیان سے ابوجندل کا ذکر نہیں کیا ہے اور إلابجلبان السلاح کے بجائے إلا بجلب السلاح کے الفاظ نقل کیے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2700   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2700  
حدیث حاشیہ:
جب صلح حدیبیہ کا معاہدہ تحریر کیا جا رہا تھا تو اس وقت حضرت ابو جندل ؓ بیڑیوں سمیت بھاگ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو ان کے باپ سہیل نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا۔
رسول اللہ نے اسے واپس کرتے ہوئے فرمایا:
ابو جندل! صبر سے کام لو، اللہ تعالیٰ تجھے نجات دلائے گا۔
چونکہ ہم نے صلح نامہ لکھ لیا ہے، اب ہم عہد شکنی نہیں کرنا چاہتے۔
پھر آپ نے اسے واپس کر دیا۔
اس حدیث میں واضح طور پر مشرکین مکہ کے ساتھ صلح کا ذکر ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2700