Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
35. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الأَذَانِ بِغَيْرِ وُضُوءٍ
باب: بغیر وضو کے اذان دینے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 200
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ يَحْيَى الصَّدَفِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يُؤَذِّنُ إِلَّا مُتَوَضِّئٌ ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذان وہی دے جو باوضو ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد المؤلف (تحفة الأشراف: 14603) (ضعیف) (سند میں معاویہ بن یحیی صدفی ضعیف ہیں، نیز سند میں زہری اور ابوہریرہ کے درمیان انقطاع ہے)»

وضاحت: ۱؎: بہتر یہی ہے کہ اذان باوضو ہی دی جائے اور باب کی حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن وائل اور ابن عباس کی احادیث اس کی شاہد ہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (222) // ضعيف الجامع الصغير (6317) //

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
قال البيهقي في السنن الكبرى (1/397): ”هكذا رواه معاوية بن يحيى الصدفي وهو ضعیف“ وقال الهيثمي: وأحاديثه عن الزهري مستقيمة كما قال البخاري وهذا منها وضعفه الجمهور (مجمع الزوائد:84/2)
قلت: انظر الكامل لابن عدي (2395/6 والنسخة الأخرى 138/8، فيه الجنيدي وهو محمد بن عبدالله بن الجنيد: ذكره ابن حبان في الثقات 155،156/9) يعني فيما روى عنه هقل بن زياد، انظر التاريخ الكبير للبخاري (336/7) والضعفاء الكبير للعقيلي (182،183/4) وفي قول البخاري نظر .

وضاحت: ۱؎: بہتر یہی ہے کہ اذان باوضو ہی دی جائے اور باب کی حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن وائل اور ابن عباس کی احادیث اس کی شاہد ہیں۔
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 200 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 200  
اردو حاشہ:
1؎:
بہتر یہی ہے کہ اذان با وضو ہی دی جائے اور باب کی حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن وائل اور ابن عباس کی احادیث اس کی شاہد ہیں۔

نوٹ:
(سند میں معاویہ بن یحیی صدفی ضعیف ہیں،
نیز سند میں زہری اور ابو ہریرہ کے درمیان انقطاع ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 200