حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ الْوَاحِدِ الْأَحْوَلِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَيْرِيزٍ، عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " عَلَّمَهُ الْأَذَانَ تِسْعَ عَشْرَةَ كَلِمَةً وَالْإِقَامَةَ سَبْعَ عَشْرَةَ كَلِمَةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو مَحْذُورَةَ اسْمُهُ: سَمُرَةُ بْنُ مِعْيَرٍ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا فِي الْأَذَانِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ أَنَّهُ كَانَ يُفْرِدُ الْإِقَامَةَ.
ابو محذورہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اذان کے انیس کلمات
۱؎ اور اقامت کے سترہ کلمات سکھائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- بعض اہل علم اذان کے سلسلے میں اسی طرف گئے ہیں،
۳- ابو محذورہ سے یہ بھی روایت ہے کہ وہ اقامت اکہری کہتے تھے۔
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 145
´اذان میں ترجیع`
«. . . وعن ابي محذورة رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم علمه الاذان فذكر فيه الترجيع . . .»
”. . . سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اذان سکھائی، اس میں انہوں نے ترجیع کا ذکر کیا ہے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 145]
لغوی تشریح:
«عَلَّمَهُ الْأَذَانُ» «عَلَّمَ»، تعلیم سے ماخوذ ہے۔ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس میں ذکر ہے کہ سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اذان کی تعلیم دی جیسا کہ سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کا اپنا بیان ہے کہ فتح مکہ کے بعد حنین کی طرف جانے کے لیے ہم دس ساتھی مکہ سے نکلے۔ جب ان نوجوانوں نے اذان سنی تو مسلمانوں کا مذاق اور استہزا اڑانے کے لیے انہوں نے بھی اذان کی نقل اتارنا شروع کر دی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے ان لوگوں میں سے ایک خوش الحان آدمی کی اذان سنی ہے۔ پھر ہماری طرف کسی کو بھیج کر ہمیں اپنے پاس بلایا اور ہم سے فرداً فرداً اذان کہلوا کر سنی۔ میں سب سے آخری آدمی تھا جس نے اذان کہی۔ میری اذان سن کر آپ نے مجھے اپنے پاس بلایا اور اپنے رو برو بٹھا کر میری پیشانی پر دست مبارک پھیرا اور تین مرتبہ برکت کی دعا فرمائی۔ پھر فرمایا: ”جاؤ اور مسجد حرام کے پاس کھڑے ہو کر اذان کہو۔“ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے پہلے اذان تو سکھائیں، پھر انہوں نے حدیث اذان بیان کی۔
«فَذَكَرَ فِيهِ التَّرْجِيعَ» اس میں ابومحذورہ رضی اللہ عنہ نے ترجیع کا بھی ذکر کیا، یعنی کلمہ شہادتین کو دو، دو مرتبہ دہرایا۔ جمہور علماء نے اس سے ترجیع والی اذان (دوہری اذان) کی مشروعیت پر استدلال کیا ہے اور یہ ایسی ثابت شدہ حقیقت ہے جس سے انکار کی مجال نہیں۔
«فَذَكَرُوهُ» انہوں (پانچوں) نے اذان کے آغاز میں ذکر کیا ہے۔
«مُرَبَّعًا» یعنی تکبیر کو چار مرتبہ کہنے کا ذکر کیا ہے۔ «مُرَبَّعًا» «تربيع» سے ہے جس کے معنی ہیں چار مرتبہ۔ صاحب السبل شارح بلوغ المرام نے کہا ہے کہ یہ جملہ (یعنی چار بار تکبیر) ثقہ راویوں نے بیان کیا ہے، اس لیے یہ محفوظ ہے۔ (دو بار تکبیر والا جملہ شاذ ہے۔)
فوائد و مسائل:
➊ حدیث مذکور اس بات کی دلیل ہے کہ اذان کے آغاز میں اللہ اکبر دو دفعہ نہیں بلکہ چار مرتبہ کہنا ہی صحیح ہے۔
➋ اذان کے لیے ایسا مؤذن منتخب کیا جائے جس کی آواز اچھی اور بلند ہو۔ اس سلسلے میں انتخاب کے لئے مقابلۂ اذان کا ثبوت ملتا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 145
حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن نسائي 633
´اذان پر اجرت کا جواز`
«. . . ثُمَّ دَعَانِي حِينَ قَضَيْتُ التَّأْذِينَ، فَأَعْطَانِي صُرَّةً فِيهَا شَيْءٌ مِنْ فِضَّةٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مُرْنِي بِالتَّأْذِينِ بِمَكَّةَ . . .»
”. . . پھر جس وقت میں نے اذان پوری کر لی تو آپ نے مجھے بلایا، اور ایک تھیلی دی جس میں کچھ چاندی تھی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے مکہ میں اذان دینے پر مامور فرما دیجئیے . . .“ [سنن نسائي/كتاب الأذان: 633]
فقہ الحدیث:
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ [379] اور امام ابن حبان [1680] رحمہما اللہ نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
اس حدیث میں اذان کہنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے چاندی دینے کا ذکر ہے۔
امام، ابوبکر، احمد بن حسین، بیہقی رحمہ اللہ [384۔ 458ھ] نے اس حدیث کو مؤذن کی اجرت کے جواز کی دلیل بنایا ہے۔ [السنن الكبريٰ:631/1، دارالكتب العلمية، بيروت، 2003ء]
شاید کوئی اس استدلال سے اختلاف کرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عنایت کی گئی چاندی کو تالیف قلب قرار دے، لیکن صریح دلائل کی روشنی میں اذان کی اجرت کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔
یار رہے کہ بغیر اجرت موذن مقرر کرنے والی جس حدیث سے بعض لوگوں نے دینی امور پر اجرت کے ناجائز و حرام ہونے کا استدلال کیا ہے، اسلاف امت و فقہائے اسلام نے اسے بھی کراہت پر محمول کیا ہے، حرمت پر نہیں، کیوں کہ اس میں حرمت والا کوئی اشارہ بھی نہیں۔
وہ حدیث اور اس کے حوالے سے اسلاف امت کا فہم ملاحظہ فرمائیں: [سنن ابی داود:531]
ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 79، حدیث/صفحہ نمبر: 32
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 500
´اذان کس طرح دی جائے؟`
ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ مجھے اذان کا طریقہ سکھا دیجئیے، تو آپ نے میرے سر کے اگلے حصہ پر (ہاتھ) پھیرا اور فرمایا: ”کہو: «الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر»، تم انہیں بلند آواز سے کہو، پھر کہو: «أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله» انہیں ہلکی آواز سے کہو، پھر انہیں کلمات شہادت «أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله» کو بلند آواز سے کہو ۱؎، پھر «حى على الصلاة حى على الصلاة حى على الفلاح حى على الفلاح» کہو، اور اگر صبح کی اذان ہو تو «الصلاة خير من النوم الصلاة خير من النوم» کہو، پھر «الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله» کہو۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 500]
500۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے موذن ہیں، جن کی درخواست پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اذان سکھائی اور یہ واقعہ غزوہ حنین سے واپسی کا ہے۔
➋ اس اذان میں کلمہ شہادت کو دہرا کر کہا جاتا ہے تو اسے ترجیح والی اذان کہتے ہیں۔
➌ ترجیح والی اذان مسنون ہے اور حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کو مکہ میں موذن مقرر کیا گیا تھا، ان کے بعد ان کی اولاد بھی اس منصب پر فائز رہی اور وہ اسی طرح اذان کہتے رہے، کچھ لوگوں کا یہ شبہ بےمعنی اور بےدلیل ہے کہ حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ نے نومسلم ہونے کی بنا پر شہادت کے کلمات پر اپنی آواز پست رکھی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے دوبارہ دہرانے کا حکم دیا تھا۔
➍ فجر کی اذان میں «الصلوة خير من النوم» کہنا مسنون ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے۔
➎ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ دونوں کی اذانوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اذان سے پہلے کوئی کلمات نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ «أعوذ بالله من الشيطان الرجيم» یا «بسم الله الرحمٰن الرحيم» بھی نہیں۔ اسی طرح آخر میں «لا إله إلا الله» کے بعد «محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم» بھی نہیں ہے جیسا کہ بعض سادہ لوح موذن کرتے ہیں۔ مبتدعین اور روافض نے کلمات اذان میں بہت کچھ اضافہ کر دیا ہے جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 500
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 502
´اذان کس طرح دی جائے؟`
ابن محیریز کا بیان ہے کہ ابو محذورہ رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اذان کے انیس کلمات اور اقامت کے سترہ کلمات سکھائے، اذان کے کلمات یہ ہیں: «الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة حى على الصلاة حى على الفلاح حى على الفلاح الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله» ۔ اور اقامت کے کلمات یہ ہیں: «الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة حى على الصلاة حى على الفلاح حى على الفلاح قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله» ۔ ہمام بن یحییٰ کی کتاب میں ابومحذورہ کی جو حدیث مذکور ہے، وہ اسی طرح ہے (یعنی اقامت کے سترہ کلمات مذکور ہیں)۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 502]
502۔ اردو حاشیہ:
روایت کا آخری جملہ اس وضاحت کے لئے ہے کہ ہمام بن یحیٰ کے حفظ کے بارے میں قدرے اختلاف ہے۔ مگر یہ حدیث ان کی کتاب جزء حدیث ابی محذورہ میں بھی ایسا ہی ہے۔ لہٰذا معتمد ہے۔ اور یوں کوئی اعتراض باقی نہ رہا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 502
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 630
´اذان میں ترجیع، دھیمی آواز سے کرنے کا بیان۔`
ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بٹھایا، اور حرفاً حرفاً اذان سکھائی (راوی) ابراہیم کہتے ہیں: وہ ہمارے اس اذان کی طرح تھی، بشر بن معاذ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے (ابراہیم سے) کہا کہ میرے اوپر دہراؤ، تو انہوں نے کہا: «اللہ أكبر اللہ أكبر» ۲؎ «أشهد أن لا إله إلا اللہ» دو مرتبہ، «أشهد أن محمدا رسول اللہ» دو مرتبہ، پھر اس آواز سے دھیمی آواز میں کہا: وہ اپنے اردگرد والوں کو سنا رہے تھے، «أشهد أن لا إله إلا اللہ» دو بار، «أشهد أن محمدا رسول اللہ» دو بار، «حى على الصلاة» دو بار، «حى على الفلاح» دو بار، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «لا إله إلا اللہ» ۔“ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 630]
630 ۔ اردو حاشیہ: پچھلے باب میں اذان کے کلمات دو دو کہے گئے ہیں اور اس روایت میں شہادتین، یعنی «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ» چار چار دفعہ ہیں۔ دراصل اذان کے دو طریقے ہیں۔ ایک وہ اور ایک یہ ترجیع والا۔ دونوں جائز ہیں۔ پہلا طریقہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور دوسرا حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 630
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 631
´اذان میں کتنے کلمے ہیں؟`
ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اذان کے انیس کلمے ہیں، اور اقامت کے سترہ کلمے“، پھر ابومحذورۃ رضی اللہ عنہ نے انیس اور سترہ کلموں کو گن کر بتایا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 631]
631 ۔ اردو حاشیہ: اذان کے انیس (19) کلمات اس طرح ہیں: اللہ أکبر چار مرتبہ، شہادتین چار چار مرتبہ، حي على الصلاة دو مرتبہ، حي علی الفلاح دو مرتبہ، اللہ أکبر دو مرتبہ اور لا إله إلا اللہ ایک مرتبہ۔ اور اقامت کے سترہ کلمات اس طرح ہیں کہ شہادتین چار چار کی بجائے دو دو دفعہ اور قد قامت الصلاة دو دفعہ، باقی کلمات اذان کی طرح۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اذان کے شروع میں اللہ أکبر چار مرتبہ ہے نہ کہ دو مرتبہ جیسا کہ پچھلی روایت سے وہم پڑتا تھا۔ ترجیع یہ ہے کہ شہادتین کے کلمات پہلے دو دو دفعہ پست آواز سے کہے جائیں گے اور پھر وہ دو دو دفعہ بلند آواز سے۔ باقی ساری اذان بلند آواز سے ہو گی۔ یاد رہے کہ یہ تفصیل صرف حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ والی اذان و اقامت کی ہے۔ اذان اور اقامت کے الفاظ کے حوالے سے مزید تفصیل کے لیے اسی کتاب کا ابتدائیہ دیکھیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 631
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 632
´اذان کیسے دیں؟`
ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اذان سکھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ» “ پھر آپ لوٹتے اور کہتے: «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، «حى على الصلاة»، «حى على الصلاة»، «حى على الفلاح»، «حى على الفلاح»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «لا إله إلا اللہ» ۔ ”اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز کے لیے آؤ، نماز کے لیے آؤ، کامیابی کی طرف آؤ، کامیابی کی طرف آؤ، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں۔“ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 632]
632 ۔ اردو حاشیہ: یہ وہ اذان ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کو فتح مکہ کے موقع پر سکھای تھی۔ اسے ترجیع والی (دہری) اذان کہا جاتا ہے۔ صحیح روایات کے باوجود احناف ترجیع والی اذان کے قائل و فاعل نہیں بلکہ اس حدیث کی مختلف تاویلیں کرتے ہیں، مثلاً: ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سمجھ نہیں سکے۔ آپ نے انہیں اذان سکھاتے وقت شہادتین کو دہرایا تھا جس طرح استاد ایک مشکل لفظ کو بار بار دہراتا ہے، مقصد تکرار نہیں ہوتا بلکہ سمجھانا مقصود ہوتا ہے، اسی طرح آپ نے تو اس لیے تکرار کیا تھا کہ وہ نو مسلم تھے، توحید و رسالت کو اُن کے ذہن میں پختہ کرنے کے لیے آپ نے تکرار کیا۔ ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سمجھے کہ شاید یہ تکرار اذان کا حصہ ہے۔ یا انہوں نے پہلے شرماتے ہوئے شہادتین کو پست آواز سے ادا کیا، آپ نے فرمایا: اونچی آواز سے دوبارہ پڑھو اور ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سمجھے کہ طریقہ ہی یہ ہے کہ پہلے آہستہ شہادتین کو ادا کیا جائے، پھر بلند آواز سے وغیرہ، مگر ایک خالی ذہن والا شخص ان تاویلات کو مضحکہ خیز قرار دے گا کہ جس صحابی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رضی اللہ عنہ سکھا رہے ہیں وہ تو صحیح نہیں سمجھے اور یہ سمجھ گئے جو کہ کئی سو سال بعد آئے، نیز ابومحذورہ رضی اللہ عنہ یہ اذان فتح مکہ سے لے کر آپ کی زندگی کے آخر تک، پھر خلفائے راشدین کے عہد میں بھی کہتے رہے۔ حجۃ الوداع کے دن بھی اسی میں آتے ہیں جب آپ اور ہزاروں صحابہ مکہ میں موجود تھے۔ تعجب ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام اور بعد میں خلفائے راشدین اس غلطی پر متنبہ نہ ہو سکے، کئی سو سال بعد آنے والے متنبہ ہو گئے۔ فیا للعجب۔ حقیقت یہ ہے کہ دہری اذان (ترجیع والی) اور اکہری اقامت (بلال والی) قطعا صحیح ہیں۔ احناف صرف تقلید کے زیر اثر ان سے منکر ہیں اور یہ تقلید کی قباحتوں میں سے ایک ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 632
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 633
´اذان کیسے دیں؟`
عبداللہ بن محیریز جو ابومحذورہ کے زیر پرورش ایک یتیم کے طور پر رہے تھے یہاں تک کہ انہوں نے ان کے شام کے سفر کے لیے سامان تیار کیا) کہتے ہیں کہ میں نے ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے کہا: میں شام جا رہا ہوں، اور میں ڈرتا ہوں کہ آپ کی اذان کے متعلق مجھ سے کہیں سوال کیا جائے (اور میں جواب نہ دے پاؤں، اس لیے مجھے اذان سکھا دو)، تو آپ نے کہا: میں چند لوگوں کے ساتھ نکلا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حنین سے لوٹتے وقت ہم حنین کے راستہ میں تھے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راستے میں ملے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے نماز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (ہی) اذان دی، ہم نے مؤذن کی آواز سنی، تو ہم اس کی نقل اتارنے، اور اس کا مذاق اڑانے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز سنی تو ہمیں بلوایا تو ہم آ کر آپ کے سامنے کھڑے ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”میں نے (ابھی) تم میں سے کس کی آواز سنی ہے؟“ تو لوگوں نے میری جانب اشارہ کیا، اور انہوں نے سچ کہا تھا، آپ نے ان سب کو چھوڑ دیا، اور مجھے روک لیا اور فرمایا: ”اٹھو اور نماز کے لیے اذان دو، تو میں اٹھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود مجھے اذان سکھائی، آپ نے فرمایا: کہو: «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دوبارہ اپنی آواز کھینچو (بلند کرو)“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہو! «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، «حى على الصلاة»، «حى على الصلاة»، «حى على الفلاح»، «حى على الفلاح»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «لا إله إلا اللہ»، پھر جس وقت میں نے اذان پوری کر لی تو آپ نے مجھے بلایا، اور ایک تھیلی دی جس میں کچھ چاندی تھی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے مکہ میں اذان دینے پر مامور فرما دیجئیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہیں اس کے لیے مامور کر دیا“، چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عامل عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کے پاس مکہ آیا تو میں نے ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نماز کے لیے اذان دی۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 633]
633 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ تفصیلی روایت ہے جو احناف کی بیان کردہ تاویل کے خلاف ہے۔ کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو مؤذن مقرر فرما دیا جسے صحیح طور پر اذان سمجھ ہی میں نہ آئی تھی؟ چوں کفر از کعبہ پر خیز دکجا ماند مسلمانی۔
➋ کتب احادیث اور دیگر کتب فقہ میں جہاں بھی اذان کا بیان ہے، وہ ان کلمات ہی سے شروع ہوتی ہے۔ کہیں بھی آپ کو اذان کی ابتدا «الصلاة و السلام عليك يا سيدي يا رسول الله صلى الله عليه وسلم» سے نہیں ملے گی۔ ان خود ساختہ کلمات سے جو لوگ اذان کی ابتدا کرتے ہیں، وہ فرمان رسول اور صحابہ کے طریقے کی کھلم کھلی مخالفت کر رہے ہیں ایسے لوگوں کے بارے میں فرمان باری تعالیٰ ہے: «فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ» [النور 63: 24]
”جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیے کہ انہیں (دنیا میں) کوئی مصیبت یا (قیامت میں) درد ناک عذاب نہ آپہنچے۔“
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 633
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 634
´سفر میں اذان دینے کا بیان۔`
ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین سے نکلے تو میں (بھی) نکلا، میں اہل مکہ کا دسواں شخص تھا، ہم انہیں تلاش کر رہے تھے تو ہم نے انہیں نماز کے لیے اذان دیتے ہوئے سنا، تو ہم بھی اذان دینے (اور) ان کا مذاق اڑانے لگے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان لوگوں میں سے ایک اچھی آواز والے شخص کی اذان میں نے سنی ہے“ چنانچہ آپ نے ہمیں بلا بھیجا تو یکے بعد دیگرے سبھی لوگوں نے اذان دی، اور میں ان میں سب سے آخری شخص تھا جب میں اذان دے چکا (تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا): ”ادھر آؤ!“ چنانچہ آپ نے مجھے اپنے سامنے بٹھایا، اور میری پیشانی پر (شفقت کا) ہاتھ پھیرا، اور تین بار برکت کی دعائیں دیں، پھر فرمایا: ”جاؤ اور خانہ کعبہ کے پاس اذان دو“ (تو) میں نے کہا: کیسے اللہ کے رسول؟ تو آپ نے مجھے اذان سکھائی جیسے تم اس وقت اذان دے رہے ہو: «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ» (پھر دوبارہ) «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، «حى على الصلاة»، «حى على الصلاة»، «حى على الفلاح»، «حى على الفلاح»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «لا إله إلا اللہ»، اور فجر میں «الصلاة خير من النوم»، «الصلاة خير من النوم» ”نماز نیند سے بہتر ہے، نماز نیند سے بہتر ہے“ کہا، (اور) کہا: مجھے آپ نے اقامت دہری سکھائی: «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن لا إله إلا اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، «أشهد أن محمدا رسول اللہ»، «حى على الصلاة»، «حى على الصلاة»، «حى على الفلاح»، «حى على الفلاح»، «قد قامت الصلاة»، «قد قامت الصلاة»، «اللہ أكبر اللہ أكبر»، «لا إله إلا اللہ» ۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ یہ پوری حدیث مجھے عثمان نے بتائی، وہ اسے اپنے والد اور عبدالملک بن ابی محذورہ رضی اللہ عنہ کی ماں دونوں کے واسطہ سے روایت کر رہے تھے کہ ان دونوں نے اسے ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے سنی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 634]
634 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یہی بات اصل سند میں بھی مذکور ہے، البتہ اس میں سماع اور تحدیث کی صراحت نہیں جب کہ یہاں سماع کی صراحت ہے، اس کے علاوہ کوئی فرق نہیں ہے۔
➋ یہ روایت بھی پہلی روایت ہی ہے۔ تفصیلات میں کچھ فرق ہے جو ایک دوسرے کو ملا کر حل ہو سکتا ہے۔
➌ ”صبح کی پہلی اذان“ اس سے مراد فجر کی اذان ہی ہے۔ اسے پہلی، اقامت کے لحاظ سے کہا گیا ہے۔ گویا اقامت دوسری اذان ہے۔ اس حدیث سے صریح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ صبح کی اذان میں «الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ» کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں نہ کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اضافہ ہے جیسا کہ اہل تشیع کا خیال ہے۔ مزید تفصیل کے لیے اسی کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔
➍ پچھلی روایت میں تھیلی دینے کا بھی ذکر ہے۔ یہ تھیلی اذان کی اجرت نہیں کیونکہ اذان کے لیے تقرر تو اس کے بعد ہوا۔ یہ تو نو مسلمین کے لیے تالیف قلب کے قبیل سے ہے جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غنائم حنین میں سے نو مسلم حضرات کو بڑے عطیے دیے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 634
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث709
´اذان میں ترجیع کا بیان۔`
ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اذان کے لیے انیس کلمات اور اقامت کے لیے سترہ کلمات سکھائے، اذان کے کلمات یہ ہیں: «الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حي على الصلاة حي على الصلاة حي على الفلاح حي على الفلاح الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله» ۔ ”اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، میں گو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 709]
اردو حاشہ:
(1)
بعض حضرات نے کہا ہے کہ اذان میں ترجیع حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی غلط فہمی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے شہادتین کو دوبارہ اس لیے کہا تھا کہ توحید ورسالت اچھی طرح دل میں جا گزیں ہو جائے۔
حضرت ابو محذروہ رضی اللہ عنہ نے غلطی سے سمجھ لیا کہ اذان کا طریقہ ہی یہی ہے۔
لیکن ان حضرات کی یہ بات درست نہیں کیونکہ اگر اس طرح کے فرضی امکانات تصور کرکے ترجیع کا انکار کیا جائے تو کوئی دوسرا شخص یہ بھی کہہ سکتا کہ اصل کلمات ایک بار ہی ہیں (جس طرح اکہری اقامت میں ہوتے ہیں)
توحید کو ذہن نشین کرانےکے لیے باربار الفاظ کہلوائے۔
ظاہر ہے کہ اس کا کوئی قائل نہیں۔
علاوہ ازیں اگر حضرت ابو محذروہ رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول اللہ ﷺکی زندگی میں غلط اذان دیتے تو اللہ تعالی نبی اکرمﷺ کو وحی کے ذریعے اطلاع فرما دیتا اور نبی ﷺ ان تک یہ حکم پہنچا دیتے۔
(2)
احناف حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی اقامت تو لےلیتے ہیں اور اسی پر ان کا عمل ہے جبکہ اسی حدیث میں وارد اذان کو ترک کردیتے ہیں اور ماننے سے انکار کردیتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ احناف کے نزدیک حدیث صرف وہی معتبر ہے یا اس کا اتنا ہی حصہ معتبر ہے جو قول امام کے مطابق ہو۔
أعاذنا الله منه
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 709
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 842
حضرت ابومحذورہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے یہ اذان سکھائی: (اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ پھر لوٹ کر مؤذن دوبارہ کہے: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ دو دفعہ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ دو دفعہ،نماز کی طرف آؤ، کامیابی و کامرانی کی طرف آؤ، اسحاق نے اضافہ کیا۔ اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ۔... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:842]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
حَیَّ:
آؤ،
حاضر ہو۔
(2)
الفلاح:
نجات وکامیابی یا بقاء ودوام۔
فوائد ومسائل:
ابو محذورہ کی روایت میں اذان میں ترجیع ہے،
کہ کلمات شہادت پہلے دو دو دفعہ آہستہ کہیں گے پھر ان کا اعادہ کرتے ہوئے بلند آوازسے کہیں گے،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور محدثین کا یہی موقف ہے اور یہ روایت عبد اللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان کے بہت بعد 3 ہجری میں سکھائی گئی اس لیے حرمین میں اس پر عمل ہے،
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ترجیع کے قائل نہیں۔
مسلم کی اس حدیث میں۔
اللَّهُ أَكْبَرُ،
اللَّهُ أَكْبَرُ دو دفعہ آیا ہے اس لیے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اذان کے شروع میں۔
اللَّهُ أَكْبَرُ،
اللَّهُ أَكْبَرُ دو دفعہ کہنے کے ہی قائل ہیں لیکن بقول قاضی عیاض صحیح مسلم کے بعض نسخوں میں اللَّهُ أَكْبَر چار مرتبہ کہنا لکھا ہوا ہے،
بعض دوسری کتابوں میں بھی ابو محذور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں اللَّهُ أَكْبَرُ چار دفعہ کہا جائے گا،
اگرچہ امام خطابی نے یہ تاویل کی ہے کہ اللَّهُ أَكْبَرُ،
اللَّهُ أَكْبَرُ دونوں کو ملا کر ایک ہی سانس میں کہیں گے،
اس لیے یہ ایک کلمہ ہوا تو اللَّهُ أَكْبَرُ بھی اس طرح دو دفعہ ہوا احناف نے ابو محذورہ کی اذان کی تاویل کی ہے چونکہ وہ کافر تھے اس لیے ان کے دل میں کلمات شہادت راسخ کرنے کے لیے ان سے یہ کلمات تکرار کے ساتھ کہلائے گئے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ مکہ معظمہ میں ہمیشہ ترجیع کے ساتھ اذان دیتے رہے آپﷺ نے ان کو منع کیوں نہیں فرمایا نیز کسی صحابی کو بھی یہ پتہ نہ چل سکا کہ آپﷺ نے یہ کلمات،
کلمات شہادت کے راسخ کرنے کے لیے دوبارہ کہلوائے تھے یہ اذان کا حصہ نہیں ہیں وہ آخر تک اسی طرح اذان کہتے رہے کسی صحابی نے بھی ان کو اس کی طرف توجہ نہیں دلائی باقی رہی یہ بات کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ میں بلا ترجیع اذان دیتے تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح اذان بھی درست ہے اس لیے اس پر اعتراض کیوں کیا جاتا۔
اور ان کی تکبیر بھی اکہری تھی جیسا کہ صحیح روایت سے ثابت ہے ان کی تکبیر کو کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایات میں تو اکہری تکبیر کہنے کا حکم موجود ہے اور یہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے دیا تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 842