سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
28. باب مَا جَاءَ فِي التَّرْجِيعِ فِي الأَذَانِ
باب: اذان میں ترجیع کا بیان۔
حدیث نمبر: 191
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي , وَجَدِّي جَمِيعًا، عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ، أَنَّ َّّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَقْعَدَهُ وَأَلْقَى عَلَيْهِ الْأَذَانَ حَرْفًا ". قَالَ إِبْرَاهِيمُ: مِثْلَ أَذَانِنَا , قَالَ بِشْرٌ: فَقُلْتُ لَهُ: أَعِدْ عَلَيَّ فَوَصَفَ الْأَذَانَ بِالتَّرْجِيعِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي مَحْذُورَةَ فِي الْأَذَانِ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ وَعَلَيْهِ الْعَمَلُ بِمَكَّةَ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
ابو محذورہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بٹھا کر اذان کا ایک ایک لفظ سکھایا۔ ابراہیم بن عبدالعزیز بن عبدالملک بن ابی محذورہ کہتے ہیں: اس طرح جیسے ہماری اذان ہے۔ بشر کہتے ہیں تو میں نے ان سے یعنی ابراہیم سے کہا: اسے مجھ پر دہرائیے تو انہوں نے ترجیع
۱؎ کے ساتھ اذان کا ذکر کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اذان کے سلسلے میں ابو محذورہ والی حدیث صحیح ہے، کئی سندوں سے مروی ہے،
۲- اور اسی پر مکہ میں عمل ہے اور یہی شافعی کا قول ہے
۲؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الأذان 3 (630)، (تحفة الأشراف: 12169) (صحیح) (ابو محذورہ رضی الله عنہ کی اس روایت میں الفاظ اذان کا ذکر نہیں ہے، لیکن مجملاً یہ ذکر ہے کہ اذان کو ترجیع کے ساتھ بیان کیا، جب کہ اسی سند سے نسائی میں وارد حدیث میں اذان کے صرف سترہ کلمات کا ذکر ہے، اور اس میں ترجیع کی صراحت نہیں ہے، اس لیے نسائی والا سیاق منکر ہے، کیونکہ صحیح مسلم، سنن نسائی اور ابن ماجہ (708) میں اذان کے کلمات انیس آئے ہیں، دیکھیں مؤلف کی اگلی روایت (192) اور نسائی کی روایت رقم 30 6، 631، 632، 633)»
وضاحت:
۱؎: اذان میں شہادتین کے کلمات کو پہلے دو مرتبہ دھیمی آواز سے کہنے پھر دوبارہ دو مرتبہ بلند آواز سے کہنے کو ترجیع کہتے ہیں۔
۲؎: اذان میں ترجیع مسنون ہے یا نہیں اس بارے میں ائمہ میں اختلاف ہے، صحیح قول یہ ہے کہ اذان ترجیع کے ساتھ اور بغیر ترجیع کے دونوں طرح سے جائز ہے اور ترجیع والی روایات صحیحین کی ہیں اس لیے راجح ہیں، اور یہ کہنا کہ ”جس صحابی سے ترجیع کی روایات آئی ہیں انہیں تعلیم دینا مقصود تھا اس لیے کہ ابو محذورہ رضی الله عنہ جنہیں آپ نے یہ تعلیم دی“ پہلی مرتبہ اسے دھیمی آواز میں ادا کیا تھا پھر دوبارہ اسے بلند آواز سے ادا کیا تھا، درست نہیں، کیونکہ ابو محذورہ مکہ میں برابر ترجیع کے ساتھ اذان دیتے رہے اور ان کے بعد بھی برابر ترجیع سے اذان ہوتی رہی۔قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (708)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 191 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 191
اردو حاشہ:
1؎:
اذان میں شہادتین کے کلمات کو پہلے دو مرتبہ دھیمی آواز سے کہنے پھر دوبارہ دو مرتبہ بلند آواز سے کہنے کو ترجیع کہتے ہیں۔
2؎:
اذان میں ترجیع مسنون ہے یا نہیں اس بارے میں آئمہ میں اختلاف ہے،
صحیح قول یہ ہے کہ اذان ترجیع کے ساتھ اور بغیر ترجیع کے دونوں طرح سے جائز ہے اور ترجیع والی روایات صحیحین کی ہیں اس لیے راجح ہیں،
اور یہ کہنا کہ ’جس صحابی سے ترجیع کی روایات آئی ہیں انہیں تعلیم دینا مقصود تھا اس لیے کہ ابو محذورہ رضی اللہ عنہ جنہیں آپ ﷺ نے یہ تعلیم دی‘ پہلی مرتبہ اسے دھیمی آوازمیں ادا کیا تھا پھر دوبارہ اسے بلند آواز سے ادا کیا تھا،
درست نہیں،
کیونکہ ابو محذورہ مکہ میں برابر ترجیع کے ساتھ اذان دیتے رہے اور ان کے بعد بھی برابر ترجیع سے اذان ہوتی رہی۔
نوٹ:
(ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں الفاظ اذان کا ذکر نہیں ہے،
لیکن مجملاً یہ ذکر ہے کہ اذان کو ترجیع کے ساتھ بیان کیا،
جب کہ اسی سند سے نسائی میں وارد حدیث میں اذان کے صرف سترہ کلمات کا ذکر ہے،
اور اس میں ترجیع کی صراحت نہیں ہے،
اس لیے نسائی والا سیاق منکر ہے،
کیونکہ صحیح مسلم،
سنن نسائی اور ابن ماجہ (708) میں اذان کے کلمات انیس آئے ہیں،
دیکھیں مؤلف کی اگلی روایت (192) اور نسائی کی روایت رقم 30 6، 631، 632، 633)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 191