سنن ترمذي
كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
65. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ بِالنَّبِيذِ
باب: نبیذ سے وضو کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 88
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي فَزَارَةَ، عَنْ أَبِي زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: سَأَلَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا فِي إِدَاوَتِكَ؟ فَقُلْتُ: نَبِيذٌ , فَقَالَ: تَمْرَةٌ طَيِّبَةٌ وَمَاءٌ طَهُورٌ، قَالَ: فَتَوَضَّأَ مِنْهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ أَبِي زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو زَيْدٍ رَجُلٌ مَجْهُولٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، لَا تُعْرَفُ لَهُ رِوَايَةٌ غَيْرُ هَذَا الْحَدِيثِ، وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْوُضُوءَ بِالنَّبِيذِ، مِنْهُمْ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُهُ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا يُتَوَضَّأُ بِالنَّبِيذِ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق , وقَالَ إِسْحَاق: إِنِ ابْتُلِيَ رَجُلٌ بِهَذَا فَتَوَضَّأَ بِالنَّبِيذِ وَتَيَمَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَوْلُ مَنْ يَقُولُ: لَا يُتَوَضَّأُ بِالنَّبِيذِ أَقْرَبُ إِلَى الْكِتَابِ، وَأَشْبَهُ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ: فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا سورة النساء آية 43.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا:
”تمہارے مشکیزے میں کیا ہے؟
“ تو میں نے عرض کیا: نبیذ ہے
۱؎، آپ نے فرمایا:
”کھجور بھی پاک ہے اور پانی بھی پاک ہے
“ تو آپ نے اسی سے وضو کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوزید محدثین کے نزدیک مجہول آدمی ہیں اس حدیث کے علاوہ کوئی اور روایت ان سے جانی نہیں جاتی،
۲- بعض اہل علم کی رائے ہے نبیذ سے وضو جائز ہے انہیں میں سے سفیان ثوری وغیرہ ہیں، بعض اہل علم نے کہا ہے کہ نبیذ سے وضو جائز نہیں
۲؎ یہ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر کسی آدمی کو یہی کرنا پڑ جائے تو وہ نبیذ سے وضو کر کے تیمم کر لے، یہ میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے،
۳- جو لوگ نبیذ سے وضو کو جائز نہیں مانتے ان کا قول قرآن سے زیادہ قریب اور زیادہ قرین قیاس ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
«فإن لم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا» ”جب تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لو
“ (النساء: 43) پوری آیت یوں ہے:
«يا أيها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى حتى تعلموا ما تقولون ولا جنبا إلا عابري سبيل حتى تغتسلوا وإن كنتم مرضى أو على سفر أو جاء أحد منكم من الغآئط أو لامستم النساء فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا فامسحواء بوجوهكم وأيديكم إن الله كان عفوا غفورا»
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 42 (84)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 37 (384)، (تحفة الأشراف: 9603)، مسند احمد (1/402) (ضعیف) (سند میں ابو زید مجہول راوی ہیں۔)»
وضاحت:
۱؎: نبیذ ایک مشروب ہے جو کھجور، کشمش، شہد گیہوں اور جو وغیرہ سے بنایا جاتا ہے۔
۲؎: یہی جمہور علما کا قول ہے، اور ان کی دلیل یہ ہے کہ نبیذ پانی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: «فإن لم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا» (سورة النساء: 43) تو جب پانی نہ ہو تو نبیذ سے وضو کرنے کے بجائے تیمم کر لینا چاہیئے، اور باب کی اس حدیث کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے جو استدلال کے لیے احتجاج کے لائق نہیں۔قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (384) ، //، ضعيف أبي داود (14 / 84) ، المشكاة (480) ، ضعيف سنن ابن ماجة (84) //
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / د 84، جه 384
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 88 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 88
اردو حاشہ:
1؎:
نبیذ ایک مشروب ہے جو کھجور،
کشمش،
شہد،
گیہوں اورجَو وغیرہ سے بنایا جاتا ہے۔
2؎:
یہی جمہورعلما کا قول ہے،
اور ان کی دلیل یہ ہے کہ نبیذ پانی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
﴿فَلَمْ تَجِدُواْ مَاء فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا﴾ (سورة النساء: 43) ”تو جب پانی نہ ہو تو نبیذ سے وضو کرنے کے بجائے تیمم کرلیناچاہئے“ اور باب کی اس حدیث کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے جو استدلال کے لیے احتجاج کے لائق نہیں۔
نوٹ:
(سند میں ابو زید مجہول راوی ہیں۔
)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 88
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 84
´نبیذ پاک کھجور اور پاک پانی ہے`
«. . . مَا فِي إِدَاوَتِكَ؟ قَالَ: نَبِيذٌ. قَالَ: تَمْرَةٌ طَيِّبَةٌ وَمَاءٌ طَهُورٌ . . .»
”. . . تمہاری چھاگل میں کیا ہے؟، میں نے کہا: نبیذ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ پاک کھجور اور پاک پانی ہے . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 84]
فوائد و مسائل:
یہ حدیث ضعیف ہے۔
اس کا راوی ابوزید مجہول ہے۔ اس لیے یہ قابل عمل نہیں۔ نیز درج ذیل صحیح حدیث اس کی توضیح کر رہی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 84
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابن ماجه 384
´نبیذ سے وضو کرنے کا بیان`
«. . . أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ لَيْلَةَ الْجِنِّ:" عِنْدَكَ طَهُورٌ"؟ قَالَ: لَا، إِلَّا شَيْءٌ مِنْ نَبِيذٍ فِي إِدَاوَةٍ، قَالَ:" تَمْرَةٌ طَيِّبَةٌ، وَمَاءٌ طَهُورٌ .»
”۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے «لیلۃالجن» (جنوں سے ملاقات والی رات) میں فرمایا: کیا تمہارے پاس وضو کا پانی ہے؟، انہوں نے کہا: برتن میں تھوڑے سے نبیذ کے سوا کچھ نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ پاک کھجور اور پاک پانی کا شربت ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها: 384]
فقہ الحدیث
➊ ”نبیذ“ عرب کا خاص مشروب ہے جو وہ خشک کھجور یا منقٰی پانی میں بھگوئے رکھنے سے تیار کرتے تھے جیسے ہمارے ہاں املی اور آلو بخارے سے شربت تیار کرتے ہیں۔
➋ بعض علماء نے اس حدیث کی وجہ سے اس شربت (نبیذ) سے وضو کرنا جائز قرار دیا ہے لیکن یہ روایت چونکہ ضعیف ہے، اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں۔
امام ترمذی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی راجح یہی ہے کہ اگر کسی کے پاس پانی نہ ہو اور شربت (نبیذ) موجود ہو تو وہ شربت سے وضو نہ کرے بلکہ تیمّم کرے۔
امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کی تمام سندوں کو ضعیف قرار دے کر یہ فیصلہ دیا ہے کہ نبیذ سے کسی حال میں وضو جائز نہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [شرح معاني الاثار: 58، 57/1 وجامع الترمذي تحقيق احمد محمد شاكر، حديث: 88]
➌ ”جنوں والی رات“ سے مراد یہ واقعہ ہے کہ ایک رات کچھ مسلمان ”جن“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی آپ ”جنوں“ کے اجتماع میں وعظ و نصیحت ارشاد فرمائیں اور انہیں دینی مسائل سے آگاہ کریں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ تشریف لے گئے اور جنوں کو وعظ و نصحیت فرمائی۔ یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 384
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث384
´نبیذ سے وضو کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے «لیلۃالجن» (جنوں سے ملاقات والی رات) میں فرمایا: ”کیا تمہارے پاس وضو کا پانی ہے؟“، انہوں نے کہا: برتن میں تھوڑے سے نبیذ کے سوا کچھ نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ پاک کھجور اور پاک پانی کا شربت ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا ۱؎۔ یہ وکیع کی حدیث ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 384]
اردو حاشہ:
(1)
نبیذ عرب کا خاص مشروب ہے جو وہ خشک کھجور یا منقی پانی میں بھگوئےرکھنے سے تیار کرتے تھے جیسے ہمارے ہاں املی اور آلو بخارے سے شربت تیار کرتےہیں۔
(2)
بعض علماء نے اس حدیث کی وجہ سے اس شربت (نبیذ)
سے وضو کرنا جائز قرار دیا ہے۔
لیکن یہ روایت چونکہ ضعیف ہے اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں۔
امام ترمذی ؒ کے نزدیک بھی راجح یہی ہے کہ اگر کسی کے پاس پانی نہ ہو اور شربت (نبیذ)
موجود ہوتو وہ شربت سے وضو نہ کرے بلکہ تیمم کرے۔
امام طحاوی حنفی ؒ نے بھی اس حدیث کی تمام سندوں کو ضعیف قرار دیکر یہ فیصلہ دیا ہے کہ نبیذ سے کسی حال میں وضو جائز نہیں۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: (شرح معانی الاثار: 1؍58، 57 وجامع الترمذی، تحقیق احمد محمد شاکر، حدیث: 88)
(3)
جنوں والی رات سے مراد یہ واقعہ ہے کہ ایک رات کچھ مسلمان جن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ آپ جنوں کے اجتماع میں وعظ و نصیحت ارشاد فرمائیں اور انھیں دینی مسائل سے آگاہ کریں، چنانچہ نبیﷺ ان کے ساتھ تشریف لے گئے اور جنوں کو وعظ ونصیحت فرمائی۔
یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 384
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابن ماجه 384
نبیذ کے ساتھ وضو کا حکم
(امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ) نبیذ کے ساتھ وضو کرنا جائز و درست ہے۔ [بداية المجتهد 66/1]
ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”شب جن“ (جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں کے ساتھ ملاقات کی) مجھ سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے پاس پانی ہے، میں نے عرض کیا: میرے پاس پانی نہیں ہے البتہ میرے پاس ایک برتن ہے جس میں نبیذ ہے یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«فَصَبَبْتُ عَلَيْهِ فَتَوَضَّأَ بِهِ»
”اسے انڈیل کر اس کے ساتھ وضو کرو“ اور یہ بھی فرمایا: ”یہ پینے کی چیز اور پاک کرنے والا ہے۔“ [ضعيف: سنن ابن ماجه/ ح: 385] ۱؎
↰ اس کی سند میں ابن لھیعہ راوی ضعیف ہے۔ [الضعفاء والمتروكين 192/1] ۲؎
➋ اس معنی کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
«تَمْرَةٌ طَيِّبَةٌ، وَمَاءٌ طَهُورٌ»
” (یہ تو) عمدہ کھجور اور پاک کرنے والا پانی ہے۔“ [ضعيف: سنن ابن ماجه/ ح: 384] ۳؎
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ علمائے سلف نے اس حدیث کے ضعیف ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ [فتح الباري 471/1]
◈ امام طحاوی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث مختلف اسناد سے مروی ہے لیکن کوئی بھی قابل حجت نہیں۔ [شرح معاني الآثار 94/1]
◈ ملا على قاری رحمہ اللہ نے سید جمال کا قول نقل کیا ہے کہ اس حدیث کے ضعیف ہونے پر محدثین نے اجماع کیا ہے۔ [مرقاة المفاتيح 182/2]
◈ امام ابوزرعہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابوفزار کی نبیذ والی حدیث صحیح نہیں ہے۔ [العلل لابن أبى حاتم 17/1]
◈ نیز اس کی سند میں ابوزید راوی مجہول ہے جیسا کہ امام زیلعی، امام ابن حبان، امام بخاری اور امام ترمذی رحمها اللہ نے اسے مجہول قرار دیا ہے۔ [نصب الراية 147/1، المجروحين لابن حبان 198/3، تحفة الأحوذي 307/1، سنن ترمذي 88]
➌ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
«كان لا يرى باسا بالوضوء من النبيذ»
”وہ نبیذ سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ [ضعيف: دارقطني 78/1]
◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے دو سندوں سے روایت کیا ہے ایک میں حجاج ابن أرطاۃ راوی ضعیف ہے۔ [تقريب التهذيب 1119]
◈ اور دوسری سند میں ابو لیلیٰ خراسانی راوی مجہول ہے۔ [التقريب 8333]
➍ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إذا لم يجد أحدكم ماء ووجد النبيذ فليتوضا به»
” جب تم میں سے کسی کو پانی میسر نہ ہو لیکن اسے نبید مل جائے تو وہ اسی کے ساتھ وضو کرے۔ [ضعيف: دارقطني 76/1]
◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ اس کی سند میں ابان بن ابی عیاش راوی متروک الحدیث ہے اور مجاعہ ضعیف ہے۔
(جمہور، اہلحدیث، امام شافعی رحمہ اللہ، امام احمد رحمہ اللہ) نبیذ کے ساتھ وضو کرنا جائز نہیں۔ [بداية المجتهد 66/1]
ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ نبیذ پانی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے صرف مطلق پانی کے ساتھ طہارت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اور پانی کے دستیاب نہ ہونے کی صورت میں نبیذ نہیں بلکہ مٹی سے تیمم کا حکم دیا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے کہ:
«فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا» [4-النساء:43]، [5-المائدة:6]
اور حدیث میں ہے کہ
”مٹی مومن کا وضو ہے خواہ دس سال تک اسے پانی میسر نہ آئے مگر جب پانی دستیاب ہو جائے تو پھر اللہ سے ڈرنا چاہیے اور اپنے جسم پر پانی پہنچانا چاہیے۔“ [صحيح: ابوداود 332] ۴؎
➋ گذشتہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی روایت جس میں نیبذ سے وضو کا جواز موجود ہے ”شب جن والی“۔ وہ ضعیف ہے۔ [ضعيف: سنن ابن ماجه/ ح: 385] ۱؎
➌ بلکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس کے خلاف حدیث مروی ہے کہ
«لَمْ أَكُنْ لَيْلَةَ الْجِنِّ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ مَعَهُ»
”میں شب جن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود نہیں تھا حالانکہ میری خواہش تھی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتا۔ [صحيح مسلم/ فواد: 450، دارالسلام: 1010] ۵؎
(امام نووی رحمہ اللہ) یہ حدیث سنن ابی داود میں مروی حدیث ”کہ جس میں نبیذ سے وضو اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا شب جن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر ہونا مذکور ہے“ کے بطلان میں واضح (ثبوت) ہے کیونکہ یہ حدیث صحیح ہے اور روایت نبیذ محدثین کے اتفاق کے ساتھ ضعیف ہے۔ [شرح مسلم 307/2]
➍ ابوعبیدہ رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا آپ کے والد شب جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے؟ تو انہوں نے کہا: ”نہیں۔“ [دارقطني 77/1] ۶؎
➎ امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اسی موقف کو ترجیح دی ہے۔ [ترمذي بعد الحديث 77]
(راجح) جمہور اہلحدیث کا موقف راجح ہے جیسا کہ گذشتہ بحث اسی کی متقاضی ہے اور اس لیے بھی کہ پانی میں پاک چیز ملنے کی وجہ سے اگر اس پر مائے مطلق (یعنی سادے پانی) کا نام نہ بولا جا سکتا ہو تو وہ پانی طاہر تو ہوتا ہے لیکن مطہر نہیں ہوتا۔ [بداية المجتهد 54/1] ۷؎
------------------
۱؎ [ضعيف: ضعيف ابن ماجة 85، كتاب الطهارة وسننها: باب الوضوء بالنبيذ ابن ماجة 385، أحمد 398/1، دارقطني 76/11، المعجم الكبير 65/10]
۲؎ اس کی سند میں ابن لھیعہ راوی ضعیف ہے۔
[الضعفاء والمتروكين 192/1، ميزان الاعتدال 65/2، المغني 266/1]
۳؎ [ضعيف: ضعيف ابن ماجه 84، أيضا، ابن ماجة 384، ابوداود 84، ترمذي 88، أحمد 402/1، المعه الكبير 95/10، دارقطني 77/1]
۴؎ [صحيح: إرواء الغليل 153، ابوداود 332، كتاب الطهارة: باب الحنب يتيمم، ترمذي 164، نسائي 171/1، ابن حبان 1311/4، دارقطني 186/1، بيهقي 212/1]
۵؎ [صحيح: بداية المجتهد 66/1، مسلم 450 كتاب الصلاة: باب الجهر بالقراءة من الصبح . . . . فواد: 688، دارالسلام: 1010، ترمذي 3258، ابوداود 85، أحمد 436/1، ابن خزيمة 82]
۶؎ [دارقطني 77/1، كتاب الطهارة: باب الوضوء بالنبيذ، بيهقي 10/1]
۷؎ [المجموع 90/1، بداية المجتهد 54/1، المغني 25/1، السيل الجرار 56/1، المحلى بالآثار 193/1، فقه السنة 141]
* * * * * * * * * * * * * *
فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 138