سنن ترمذي
كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
63. بَابُ مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْوُضُوءِ مِنَ الْقُبْلَةِ
باب: بوسہ لینے سے وضو کے نہ ٹوٹنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 86
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَهَنَّادٌ , وَأَبُو كُرَيْبٍ , وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , وأَبو عَمَّارٍ الْحسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ , قَالُوا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَبَّلَ بَعْضَ نِسَائِهِ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ , قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هِيَ إِلَّا أَنْتِ , قَالَ: فَضَحِكَتْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ هَذَا، عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، قَالُوا: لَيْسَ فِي الْقُبْلَةِ وُضُوءٌ , وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَالْأَوْزَاعِيُّ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: فِي الْقُبْلَةِ وُضُوءٌ , وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، وَإِنَّمَا تَرَكَ أَصْحَابُنَا حَدِيثَ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا، لِأَنَّهُ لَا يَصِحُّ عِنْدَهُمْ لِحَالِ الْإِسْنَادِ , قَالَ: وسَمِعْت أَبَا بَكْرٍ الْعَطَّارَ الْبَصْرِيَّ يَذْكُرُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ، قَالَ: ضَعَّفَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ هَذَا الْحَدِيثَ جِدًّا، وَقَالَ: هُوَ شِبْهُ لَا شَيْءَ , قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل يُضَعِّفُ هَذَا الْحَدِيثَ , وقَالَ: حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَهَا وَلَمْ يَتَوَضَّأْ , وَهَذَا لَا يَصِحُّ أَيْضًا، وَلَا نَعْرِفُ لِإِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ سَمَاعًا مِنْ عَائِشَةَ، وَلَيْسَ يَصِحُّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْبَابِ شَيْءٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بیویوں میں سے کسی ایک کا بوسہ لیا، پھر آپ نماز کے لیے نکلے اور وضو نہیں کیا، عروہ کہتے ہیں کہ میں نے
(اپنی خالہ ام المؤمنین عائشہ سے) کہا: وہ آپ ہی رہی ہوں گی؟ تو وہ ہنس پڑیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم سے اسی طرح مروی ہے اور یہی قول سفیان ثوری، اور اہل کوفہ کا ہے کہ بوسہ لینے سے وضو
(واجب) نہیں ہے، مالک بن انس، اوزاعی، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ بوسہ لینے سے وضو
(واجب) ہے، یہی قول صحابہ اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم کا ہے،
۲- ہمارے اصحاب نے عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث پر جو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے محض اس وجہ سے عمل نہیں کیا کہ یہ سند کے اعتبار سے صحیح نہیں
۲؎،
۳- یحییٰ بن قطان نے اس حدیث کی بہت زیادہ تضعیف کی ہے اور کہا ہے کہ یہ
«لاشیٔ» کے مشابہ ہے
۳؎،
۴- نیز میں نے محمد بن اسماعیل
(بخاری) کو بھی اس حدیث کی تضعیف کرتے سنا، انہوں نے کہا کہ حبیب بن ثابت کا سماع عروۃ سے نہیں ہے،
۵- نیز ابراہیم تیمی نے بھی عائشہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کا بوسہ لیا اور وضو نہیں کیا۔ لیکن یہ روایت بھی صحیح نہیں کیونکہ عائشہ سے ابراہیم تیمی کے سماع کا ہمیں علم نہیں۔ اس باب میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 69 (179، 180)، سنن النسائی/الطہارة 121 (170)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 69 (502)، (تحفة الأشراف: 17371)، مسند احمد (6/207) (صحیح) (سند میں حبیب بن ابی ثابت اور عروہ کے درمیان انقطاع ہے جیسا کہ مؤلف نے صراحت کی ہے، لیکن متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے)»
وضاحت:
۱؎: یعنی آپ نے سابق وضو ہی پر نماز پڑھی، بوسہ لینے سے نیا وضو نہیں کیا، اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ عورت کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا اور یہی قول راجح ہے۔
۲؎: لیکن امام شوکانی نے نیل الأوطار میں اور علامہ البانی نے صحیح أبی داود (رقم ۱۷۱- ۱۷۲) میں متابعات اور شواہد کی بنیاد پر اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، نیز دیگر بہت سے ائمہ نے بھی اس حدیث کی تصحیح کی ہے (تفصیل کے لیے دیکھئیے مذکورہ حوالے)۔
۳؎: ” «لاشئی» کے مشابہ“ ہے یعنی ضعیف ہے۔قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (502)
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / د 179، جه 502
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 86 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 86
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی آپ نے سابق وضو ہی پرنماز پڑھی،
بوسہ لینے سے نیا وضو نہیں کیا،
اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ عورت کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا اور یہی قول راجح ہے۔
2؎:
لیکن امام شوکانی نے نیل الأوطار میں اور علامہ البانی نے صحیح أبی داود (رقم 171- 172) میں متابعات اور شواہد کی بنیاد پر اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے،
نیز دیگر بہت سے ائمہ نے بھی اس حدیث کی تصحیح کی ہے (تفصیل کے لیے دیکھئے مذکورہ حوالے)
3؎:
”لا شئی کے مشابہ“ ہے یعنی ضعیف ہے۔
نوٹ:
(سند میں حبیب بن ابی ثابت اور عروہ کے درمیان انقطاع ہے جیسا کہ مؤلف نے صراحت کی ہے،
لیکن متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 86
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 65
´عورت کو محض چھونے اور بوسہ دینے سے وضو نہیں ٹوٹتا`
«. . . وعن عائشة رضي الله عنها،: ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم قبل بعض نسائه ثم خرج إلى الصلاة ولم يتوضا . . .»
”. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی اہلیہ کا بوسہ لیا اور نماز کے لئے نکل گئے اور وضو نہیں فرمایا . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 65]
� فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کو محض چھونے اور بوسہ دینے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
➋ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ روایت ابراہیم تیمی بیان کرتے ہیں جبکہ ابراہیم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کچھ نہیں سنا، اس لیے یہ مرسل ہے، مگر تعدد طرق سے اس ضعف کا ازالہ ہو جاتا ہے، علاوہ ازیں صحیح بخاری میں ایک حدیث اس کی مؤید ہے۔ اور وہ یہ ہے: ”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کی تاریکی میں نماز تہجد ادا فرمایا کرتے تھے۔ میرے پاؤں آپ کی سجدہ گاہ میں ہوتے تھے۔ سجدے کے لیے جانے سے پہلے میرے پاؤں کو ہاتھ سے چھوتے تو میں پاؤں دور کر لیتی۔“ [صحيح البخاري، باب الصلاة على الفراش، حديث: 382]
➌ اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے اعضائے جسم میں سے کسی کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ اسی طرح بوسہ دینے اور محض چھونے سے بھی وضو نہیں ٹوٹتا، خواہ شہوت سے چھوئے یا شہوت کے بغیر۔
➍ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے سیدنا علی اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اس کے قائل ہیں۔ اور ائمہ میں سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب بھی یہی ہے۔ البتہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 65
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 179
´شوہر اگر اپنی بیوی کا بوسہ لے تو اس سے وضو پر کوئی اثر نہیں پڑتا`
«. . . أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ . . .»
”. . . نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیوی کا بوسہ لیا، پھر نماز کے لیے نکلے اور (پھر سے) وضو نہیں کیا . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 179]
فوائد و مسائل:
شوہر اگر اپنی بیوی کا بوسہ لے تو اس سے وضو پر کوئی اثر نہیں پڑتا، بشرطیکہ اس سے مذی کا اخراج نہ ہو۔ سورہ نساء کی آیت: 43 اور سورہ مائدہ کی آیت نمبر: 6 میں «أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ» ”اگر تم نے عورتوں کو چھوا ہو تو . . .“ سے مراد مباشرت ہے۔
➋ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے مختلف اسانید سے اس اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرنے والے اور صراحت کروانے والے ان کے اپنے بھانجے عروہ بن زبیر ہی ہیں۔ دوسرے راوی عروہ مزنی ان سے یہ صراحت کروائیں ازحد محال ہے۔
➌ اس قسم کے جملے اور باتیں جو جناب عروہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مابین نقل ہوئی ہیں عزیزوں میں حدادب کے اندر مباح اور جائز ہیں اور چونکہ یہ شرعی مسائل ہیں اس لیے ان کا نقل کیا جاناکوئی بری بات نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 179
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 170
´بوسہ سے وضو نہ ٹوٹنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعض ازواج مطہرات کا بوسہ لیتے تھے، پھر نماز پڑھتے اور وضو نہیں کرتے ۱؎۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: اس باب میں اس سے اچھی کوئی حدیث نہیں ہے اگرچہ یہ مرسل ہے، اور اس حدیث کو اعمش نے حبیب بن ابی ثابت سے، انہوں نے عروہ سے، اور عروہ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے، یحییٰ القطان کہتے ہیں: حبیب کی یہ روایت جسے انہوں نے عروہ سے اور عروہ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے اور حبیب کی «تصلى وإن قطر الدم على الحصير» ”مستحاضہ نماز پڑھے گرچہ چٹائی پر خون ٹپکے“ والی روایت جسے انہوں نے عروہ سے اور عروہ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے دونوں کچھ نہیں ہیں ۲؎، (یعنی دونوں ضعیف اور ناقابل اعتماد ہیں)۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 170]
170۔ اردو حاشیہ:
➊ ”مرسل (منقطع) ہے۔“ امام نسائی رحمہ اللہ نے اگرچہ اس حدیث کو منقطع قرار دیا ہے، مگر دارقطنی وغیرہ میں یہ روایت متصل سند سے بھی مروی ہے، لہٰذا یہ حدیث حجت ہے۔
➋ ”دونوں غیر معتبر ہیں۔“ کیونکہ حبیب کا عروہ سے سماع ثابت نہیں۔ امام ترمذی اور امام بخاری رحمہ اللہ رحمۃ اللہ علیہما کا یہی خیال ہے۔ لیکن امام ابوداود رحمہ اللہ نے اس سند کو صحیح قرار دیا ہے، نیز اس حدیث کے شواہد بھی موجود ہیں، اس لیے یہ حدیث قابل استدلال ہے۔
➌ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو شہوت کے ساتھ چھونے سے بھی وضو نہیں ٹوٹتا، بشرطیکہ مذی نہ نکلے۔
➍ بعض بیویوں سے مراد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی ہیں۔ دیکھیے: [سنن الدارقطني: 137/1]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 170
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث502
´بوسہ لے کر وضو کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی کا بوسہ لیا، پھر نماز کے لیے نکلے اور وضو نہیں کیا، (عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ) میں نے (ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے) کہا: وہ آپ ہی رہی ہوں گی! تو وہ ہنس پڑیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 502]
اردو حاشہ:
(1)
عروہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے بھانجے تھے۔
(2)
بیوی کا بوسہ لینے یا پیار کرنے سے وضو نہیں ٹوٹتا بشرطیکہ مذی کا خروج نہ ہو۔
(3)
یہ حدیث وضاحت کرتی ہے کہ قرآن مجید میں عورتوں کو چھونے کے بعد پانی کا استعمال (وضو یا غسل)
کا جوذکر ہےاس سے مراد جماع ہےکہ اس کے بعد غسل فرض ہے۔
اگر پانی نہ ہوتو تیمم کرلیں۔
بعض علماء نے اس آیت سے یہ سمجھا ہے کہ خاص خواہش کے ساتھ بیوی کو چھولینے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
اس لیے اس کے بعد پانی کی عدم موجودگی میں تیمم کا حکم دیا گیا ہے۔
لیکن پہلا موقف راجح ہے۔
(3)
میاں بیوی کے خصوصی تعلقات سے متعلق مسائل بھی بیان کرنا ضروری ہیں کیونکہ ان کا تعلق بھی دین سے ہے تاہم ان کے بیان میں اشارہ کنایہ کا اسلوب زیادہ مناسب ہے۔
اتنی زیادہ صراحت درست نہیں جو حیا کے منافی ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 502