حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيُّ،" أَنَّ أُمَّ الْعَلَاءِ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِمْ قَدْ بَايَعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَخْبَرَتْهُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ طَارَ لَهُ سَهْمُهُ فِي السُّكْنَى حِينَ أَقْرَعَتِ الْأَنْصَارُ سُكْنَى الْمُهَاجِرِينَ، قَالَتْ أُمُّ الْعَلَاءِ: فَسَكَنَ عِنْدَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ، فَاشْتَكَى، فَمَرَّضْنَاهُ حَتَّى إِذَا تُوُفِّيَ وَجَعَلْنَاهُ فِي ثِيَابِهِ، دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ أَبَا السَّائِبِ، فَشَهَادَتِي عَلَيْكَ لَقَدْ أَكْرَمَكَ اللَّهُ، فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَمَا يُدْرِيكِ أَنَّ اللَّهَ أَكْرَمَهُ؟ فَقُلْتُ: لَا أَدْرِي، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا عُثْمَانُ فَقَدْ جَاءَهُ وَاللَّهِ الْيَقِينُ، وَإِنِّي لَأَرْجُو لَهُ الْخَيْرَ، وَاللَّهِ مَا أَدْرِي، وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ مَا يُفْعَلُ بِهِ، قَالَتْ: فَوَاللَّهِ لَا أُزَكِّي أَحَدًا بَعْدَهُ أَبَدًا، وَأَحْزَنَنِي ذَلِكَ، قَالَتْ: فَنِمْتُ فَأُرِيتُ لِعُثْمَانَ عَيْنًا تَجْرِي، فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: ذَاكِ عَمَلُهُ".
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2687
حدیث حاشیہ:
کسی بھی بزرگ کے لیے قطعی جنتی ہونے کا حکم لگانا یہ منصب صرف اللہ اور رسول ہی کو حاصل ہے اور کسی کو بھی حق نہیں کہ کسی کو مطلق جنتی کہہ سکے۔
روایت میں قسم کے لیے لفظ واللہ بار بار آیا ہے اسی غرض سے امام بخاری ؒ اس کو یہاں لائے ہیں۔
دوسری روایت میں یوں ہے۔
میرا حال کیا ہونا ہے اور عثمان کا حال کیا ہونا ہے۔
یہ موافق ہے اس آیت کے جو سورۃ احقاف میں ہے ﴿وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ﴾ (الأحقاف: 9)
یعنی میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا۔
حدیث میں قرعہ اندازی کا ذکر ہے، باب کے مطابق یہ بھی ایک توجیہ ہے۔
پادریوں کا یہ اعتراض کہ تمہارے پیغمبر کو جب اپنی نجات کا علم نہ تھا تو دوسروں کی نجات وہ کیسے کراسکتے ہیں۔
محض لغو اعتراض ہے۔
اس لیے کہ اگر آپ سچے پیغمبر نہ ہوتے تو ضرور اپنی تسلی کے لیے یوں فرماتے کہ میں ایسا کروں گا ویسا کروں گا، مجھے سب اختیار ہے۔
سچے راست باز ہمیشہ انکساری سامنے رکھتے ہیں۔
اسی بنا پر آپ ﷺنے ایسا فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2687
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2687
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کے متعلق یقینی طور پر جنتی ہونے کا دعویٰ نہ کیا جائے، ہاں جن کے متعلق قرآن کریم یا صحیح حدیث میں واضح طور پر آ چکا ہے، مثلاً:
عشرہ مبشرہ وغیرہ انہیں یقینی طور پر جنتی کہا جا سکتا ہے، نیز ہر میت کے اعمال اس کی موت کے ساتھ ہی ختم ہو جاتے ہیں، البتہ صدقۂ جاریہ جیسا عمل قیامت تک جاری رہے گا۔
(2)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو قرعہ اندازی کے جواز کے لیے پیش کیا ہے، ایسے موقع پر قرعہ اندازی جائز ہے اور اس میں شرعی طور پر کوئی خرابی نہیں ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2687
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1243
1243. ایک انصاری خاتون حضرت ام علاء ؓ سے روایت ہے۔ (جو ان عورتوں میں شامل ہیں) جنھوں نے نبی کریم ﷺ کی بیعت کی تھی،انھوں نےفرمایا:جب مہاجرین بذریعہ قرعہ اندازی تقسیم ہوئے تو ہمارے حصے میں حضرت عثمان بن مظعون ؓ آئے جنھیں ہم اپنے گھر لے آئے اور وہ اچانک مرض وفات میں مبتلا ہو گئے۔ جب وہ فوت ہوئے تو انھیں غسل دیاگیا اور انھی کے کپڑوں میں کنفایا گیا۔ دریں اثنا رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے کہا:اے ابو سائب! تم پر اللہ کی رحمت ہو۔ تمہارے لیے میری شہادت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں سرفراز کردیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”تمھیں کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں عزت دی ہے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول (ﷺ)! میرے ماں باپ آپ (ﷺ) پر قربان ہوں! تو پھر اللہ تعالیٰ کسے سرفراز کرے گا؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا:”بلاشبہ انھیں اچھی حالت میں موت آئی ہے۔ واللہ!میں بھی ان کے لیے بھلائی کی اُمید رکھتا ہوں اللہ کی قسم!میں اللہ کا رسول ہوکر بھی اپنے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1243]
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں کئی امور کا بیان ہے۔
ایک تو اس کا کہ جب مہاجرین مدینہ میں آئے آنحضرت ﷺ نے ان کی پریشانی رفع کرنے کے لیے انصار سے ان کا بھائی چارہ قائم کرادیا۔
اس بارے میں قرعہ اندازی کی گئی اور جو مہاجر جس انصاری کے حصہ میں آیا وہ اس کے حوالے کر دیا گیا۔
انہوں نے سگے بھائیوں سے زیادہ ان کی خاطر تواضع کی۔
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ آنحضرت ﷺ نے غسل وکفن کے بعد عثمان بن مظعون ؓ کو دیکھا۔
حدیث سے یہ بھی نکلا کہ کسی بھی بندے کے متعلق حقیقت کاعلم اللہ ہی کو حاصل ہے۔
ہمیں اپنے ظن کے مطابق ان کے حق میں نیک گمان کرنا چاہیے۔
حقیقت حال کو اللہ کے حوالے کرنا چاہیے۔
کئی معاندین اسلام نے یہاں اعتراض کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو خود ہی اپنی بھی نجات کا یقین نہ تھا تو آپ اپنی امت کی کیا سفارش کریں گے۔
اس اعتراض کے جواب میں پہلی بات تو یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ابتدائے اسلام کا ہے، بعد میں اللہ نے آپ کو سورۃ فتح میں یہ بشارت دی کہ آپ کے اگلے اور پچھلے سب گناہ بخش دیئے گئے تو یہ اعتراض خود رفع ہو گیا اور ثابت ہوا کہ اس کے بعد آپ کو اپنی نجات سے متعلق یقین کامل حاصل ہو گیا تھا۔
پھر بھی شان بندگی اس کو مستلزم ہے کہ پروردگار کی شان صمدیت ہمیشہ ملحوظ خاطر رہے۔
آپ ﷺ کا شفاعت کرنا برحق ہے۔
بلکہ شفاعت کبریٰ کا مقام محمود آپ ﷺ کو حاصل ہے۔
اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ قسم اللہ کی میں نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کیاجائے گا۔
حالانکہ اس کے حق میں میرا گمان نیک ہی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1243
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3929
3929. حضرت ام علاء ؓ سے روایت ہے، جو انصاری خاتون ہیں اور انہوں نے نبی ﷺ سے بیعت بھی کی تھی، انہوں نے بیان کیا کہ جب انصار نے مہاجرین کی میزبانی کے لیے قرعہ اندزی کی تو حضرت عثمان بن مظعون ان کے حصے میں آئے۔ وہ ہمارے پاس آ کر بیمار ہو گئے تو میں نے ان کی خوب دیکھ بھال کی لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ جب وہ فوت ہوئے تو ہم نے انہیں ان کے کپڑوں میں رہنے دیا۔ اس دوران میں نبی ﷺ تشریف لائے۔ میں نے کہا: ابو سائب! تم پر اللہ کی رحمت ہو، میری تمہارے لیے گواہی ہے کہ اللہ تعالٰی نے تمہیں اپنے ہاں اکرام سے نوازا ہے۔ (یہ سن کر) نبی ﷺ نے فرمایا: ”تمہیں کیا معلوم کہ اللہ تعالٰی نے انہیں اپنے اکرام سے نوازا ہے؟“ حضرت ام علاء ؓ نے عرض کیا: واقعی مجھے کوئی علم نہیں ہے لیکن اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اللہ اور کسے نوازے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”واقعی عثمان انتقال کر چکے ہیں۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3929]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں یوں ہے کہ میں یہ نہیں جانتا کہ عثمان ؓ کا حال کیا ہونا ہے۔
اس روایت پر تو کوئی اشکال نہیں۔
لیکن محفوظ یہی روایت ہے کہ میں نہیں جانتا کہ میرا حال کیا ہونا ہے۔
جیسے قرآن شریف میں ہے ﴿ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ﴾ (الأحقاف: 9)
کہتے ہیں یہ آیت اور حدیث اس زمانہ کی ہے جب تک یہ آیت نہیں اتری تھی ﴿ لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ﴾ (الفتح: 2)
اور آپ کو قطعاً یہ نہیں بتلایا گیا تھا کہ آپ سب اگلے پچھلے سے افضل ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ یہ توجیہ عمدہ نہیں۔
اصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی بار گاہ عجب مستغنی بارگاہ ہے آدمی کیسے ہی درجہ پر پہنچ جائے مگر اس کے استغنا اور کبریائی سے بے ڈر نہیں ہو سکتا۔
وہ ایک ایسا شہنشاہ ہے جو چاہے وہ کر ڈالے رتی برابر اسکو کسی کا اندیشہ نہیں۔
حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری اپنے مکاتیب میں فرماتے ہیں وہ ایسا مستغنی اور بے پروا ہے کہ اگر چاہے تو سب پیغمبروں اور نیک بندوں کو دم بھرمیں دوزخی بنا دے اور سارے بد کار اور کفار کو بہشت میں لے جاوے کوئی دم نہیں مار سکتا۔
آخر حدیث میں ذکر ہے کہ ان کا نیک عمل چشمہ کی صورت میں ان کے لئے ظاہر ہوا۔
دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال صالحہ خوبصورت آدمی کی شکل میں اور برے عمل بد صورت آدمی کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں ہر دو حدیث برحق ہیں اور ان میں نیکوں اور بدوں کے مراتب اعمال کے مطابق کیفیات بیان کی گئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3929
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7003
7003. حضرت خارجہ بن زید بن ثابت سے روایت ہے کہ ام العلا نامی انصاری عورت جس نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی انہوں نے مجھے بتایا کہ جب انصار نے مہاجرین کو قرعہ اندازی کے ذریعے سے تقسیم کیا تو ہمارے حصے میں حضرت عثمان بن مظعون ؓ آئے۔ ہم نے انہیں اپنے گھر میں ٹھہرایا، پھر وہ بیمار ہوگئے۔ اور ان کی وفات ہو گئی۔ جب وہ فوت ہوئے تو انہیں غسل دے کر ان کے کپڑوں میں کفن دیا گیا۔ اس دوران میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے کہا: اے ابو سائب! تجھ پر اللہ کی رحمت ہو! تیرے لیے میری گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے ضرور عزت دی ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی نے انہیں عزت بخشی ہے؟“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، پھر اللہ کس کو عزت دے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! ان پر موت تو آچکی ہے اور اللہ کی قسم! میں بھی ان کے لیے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7003]
حدیث حاشیہ:
شاید یہ حدیث آپ نے اس وقت فرمائی ہو جب سورہ فتح کی آیت ﴿لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ﴾ (الفتح: 2)
ہوئی یا آپ نے تفصیلی حالات معلوم ہونے کی نفی کی ہو اور اجمالاً اپنی نجات کا یقین ہو جیسے آیت ﴿وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ﴾ (الأحقاف: 9)
میں مذکور ہوا۔
پادریوں کا یہاں اعتراض کرنا لغو ہے۔
بندہ کیسا ہی مقبول اور بڑے درجہ کا ہو لیکن بندہ ہے حق تعالیٰ کی حمدیت کے آگے وہ کانپتا رہتا ہے‘ نزدیکاں رابیش بود حیرانی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7003
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7018
7018. حضرت ام العلاء ؓ سے روایت ہے جو انصار کی عورتوں سے ہیں اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی فرماتی ہیں: جب انصار نے مہاجرین کے قیام کے لیے قرعہ اندازی کی تو حضرت عثمان بن مظعون ؓ کا قرعہ ہمارے نام نکلا۔ وہ ہمارے ہاں آکر بیمار ہوگئے۔ ہم نے ان کی تیمارداری کی لیکن وہ اس بیماری میں وفات پا گئے۔ ہم نے انہیں ان کے کپڑوں میں کفن دیا۔ جب رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے تو میں نے کہا: ابو سائب! تم پر اللہ کی رحمتیں ہوں۔ میری گواہی ہے کہ تمہیں اللہ نے عزت بخشی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا؟“ میں نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے معلوم نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”بلاشبہ اسے موت آ چکی ہے اور میں اس کے لیے خیر وبرکت کی امید رکھتا ہوں لیکن اللہ کی قسم! میں اللہ کا رسول ہونے کے باوجود نہیں جانتا کہ خود میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟“ سیدہ ام العلاء ؓ نے کہا: اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7018]
حدیث حاشیہ:
کہتے ہیں کہ یہ عثمان بہت مالدار آدمی تھے‘ خواب میں جو دیکھا اس سے ان کے صدقہ جاریہ مراد ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں یہ بتلایا کہ چشمہ سے نیک عمل کی تعبیر ہوتی ہے جس طرح لوگ حتیٰ کہ جانور بھی چشمہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں اسی طرح سے ایک مسلمان کا نیک عمل بہت سے مخلوق کو فائدہ پہنچاتا ہے۔
خیر الناس من ینفع الناس کا یہی مطلب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7018
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1243
1243. ایک انصاری خاتون حضرت ام علاء ؓ سے روایت ہے۔ (جو ان عورتوں میں شامل ہیں) جنھوں نے نبی کریم ﷺ کی بیعت کی تھی،انھوں نےفرمایا:جب مہاجرین بذریعہ قرعہ اندازی تقسیم ہوئے تو ہمارے حصے میں حضرت عثمان بن مظعون ؓ آئے جنھیں ہم اپنے گھر لے آئے اور وہ اچانک مرض وفات میں مبتلا ہو گئے۔ جب وہ فوت ہوئے تو انھیں غسل دیاگیا اور انھی کے کپڑوں میں کنفایا گیا۔ دریں اثنا رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے کہا:اے ابو سائب! تم پر اللہ کی رحمت ہو۔ تمہارے لیے میری شہادت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں سرفراز کردیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”تمھیں کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں عزت دی ہے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول (ﷺ)! میرے ماں باپ آپ (ﷺ) پر قربان ہوں! تو پھر اللہ تعالیٰ کسے سرفراز کرے گا؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا:”بلاشبہ انھیں اچھی حالت میں موت آئی ہے۔ واللہ!میں بھی ان کے لیے بھلائی کی اُمید رکھتا ہوں اللہ کی قسم!میں اللہ کا رسول ہوکر بھی اپنے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1243]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام علاء ؓ کی شہادت سن کر فرمایا:
اللہ کی قسم! مجھے اللہ کا رسول ہونے کے باوجود اپنے اور تمہارے بارے میں کوئی معلومات نہیں کہ قیامت کے دن ہم سے کیا برتاؤ کیا جائے گا۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی بعینہ ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ ﴾ (الأحقاف: 9: 46)
”آپ کہہ دیجیے کہ میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں اور میں یہ نہیں جانتا کہ مجھ سے کیا سلوک کیا جائے گا اور تم سے کیا برتاؤ ہو گا۔
“ رسول اللہ ﷺ کا اپنے متعلق لاعلمی کا اظہار اللہ تعالیٰ کے درج ذیل ارشاد سے پہلے کا ہے:
﴿إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا ﴿١﴾ لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّـهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا ﴿٢﴾ (الفتح: 48)
”اے نبی! ہم نے آپ کو واضح فتح عطا کر دی تاکہ اللہ آپ کی اگلی اور پچھلی سب لغزشیں صاف کر دے اور آپ پر اپنی نعمت پوری کر دے اور آپ کو صراط مستقیم پر چلائے۔
“ کیونکہ جن آیات میں لاعلمی کا اظہار ہے وہ مکی سورت میں ہے اور جہاں آپ کا مذکورہ اعزاز بیان ہوا ہے، وہ مدنی سورت میں ہے، (فتح الباري: 149/3)
نیز اپنے متعلق آپ نے واضح طور پر فرمایا:
”جنت میں سب سے پہلے میں داخل ہوں گا۔
“ (مسند أحمد: 144/3، و السلسلة الأحادیث الصحیحة، تحت حدیث: 1571) (2)
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے، ام علاء ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان ؓ کے متعلق تبصرہ فرمایا تو مجھے بہت پریشانی لاحق ہوئی۔
میں نے خواب میں حضرت عثمان ؓ کے لیے ایک بہتا ہوا چشمہ دیکھا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا:
”یہ اس کا عمل ہے (جو اس کے مرنے کے بعد بھی جاری و ساری ہے)
۔
“ (صحیح البخاري، الشھادات، حدیث: 2687) (3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قطعی طور پر کسی کو جنتی نہیں کہنا چاہیے، کیونکہ حصول جنت کے لیے خلوص نیت شرط ہے جس پر اللہ کے سوا اور کوئی مطلع نہیں ہو سکتا، البتہ جن حضرات کے متعلق نص قطعی ہے، مثلا:
عشرہ مبشرہ وغیرہ تو انہیں جنتی کہنے میں کوئی حرج نہیں۔
والله أعلم۔
(4)
نافع بن یزید کی روایت کو اسماعیلی نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔
شعیب کی متابعت کو امام بخارى ؒ نے خود متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
”اللہ کی قسم! مجھے اس کے متعلق کوئی علم نہیں کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔
“ (صحیح البخاري، الشھادات، حدیث: 2687)
عمرو بن دینار کی متابعت کو ابو عمر نے اپنی مسند میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 149/3)
معمر کی متابعت کو بھی امام بخاری نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، التعبیر، حدیث: 7003)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1243
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3929
3929. حضرت ام علاء ؓ سے روایت ہے، جو انصاری خاتون ہیں اور انہوں نے نبی ﷺ سے بیعت بھی کی تھی، انہوں نے بیان کیا کہ جب انصار نے مہاجرین کی میزبانی کے لیے قرعہ اندزی کی تو حضرت عثمان بن مظعون ان کے حصے میں آئے۔ وہ ہمارے پاس آ کر بیمار ہو گئے تو میں نے ان کی خوب دیکھ بھال کی لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ جب وہ فوت ہوئے تو ہم نے انہیں ان کے کپڑوں میں رہنے دیا۔ اس دوران میں نبی ﷺ تشریف لائے۔ میں نے کہا: ابو سائب! تم پر اللہ کی رحمت ہو، میری تمہارے لیے گواہی ہے کہ اللہ تعالٰی نے تمہیں اپنے ہاں اکرام سے نوازا ہے۔ (یہ سن کر) نبی ﷺ نے فرمایا: ”تمہیں کیا معلوم کہ اللہ تعالٰی نے انہیں اپنے اکرام سے نوازا ہے؟“ حضرت ام علاء ؓ نے عرض کیا: واقعی مجھے کوئی علم نہیں ہے لیکن اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اللہ اور کسے نوازے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”واقعی عثمان انتقال کر چکے ہیں۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3929]
حدیث حاشیہ:
1۔
اللہ تعالیٰ کا دربار عجیب استغناء کا شاہکار ہے۔
انسان کتنا ہی بلند مرتبہ ہو لیکن اللہ کی بے پروائی اور کبریائی سے بے خوف نہیں ہو سکتا۔
قرآن کریم میں ہے۔
”آپ کہہ دیجیے!میں کوئی نرالا رسول اللہ ﷺ نہیں ہوں اور میں یہ نہیں جانتا کہ مجھ سے کیا سلوک کیا جائے گا اور تم سے کیا برتاؤ کیا جائے گا۔
“ (الأحقاف: 46۔
9)
حدیث میں اسی امر کو بیان کیا گیا ہے۔
3۔
اس حدیث کے آخر میں ہے کہ عثمان بن مظعون ؓ کا نیک عمل ایک جاری چشمے کی صورت میں ظاہر ہوا۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اعمال صالحہ خوبصورت آدمی کی شکل میں ظاہر ہوتےہیں اور برے اعمال ایک بد صورت آدمی کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔
(مسند أحمد: 288/4)
ہر دو احادیث برحق ہیں اور ان میں نیکو کار اور بدکردار لوگوں کے مراتب اعمال کے مطابق کیفیات بیان کی گئی ہیں۔
اصل حقیقت تو قیامت کے دن کھل کر سامنے آئے گی۔
اللہ نے اور اس کے رسول اللہ ﷺ نے ہمیں جو بتایا ہے اس پر ایمان لانا چاہیے۔
اور بس۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3929
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7018
7018. حضرت ام العلاء ؓ سے روایت ہے جو انصار کی عورتوں سے ہیں اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی فرماتی ہیں: جب انصار نے مہاجرین کے قیام کے لیے قرعہ اندازی کی تو حضرت عثمان بن مظعون ؓ کا قرعہ ہمارے نام نکلا۔ وہ ہمارے ہاں آکر بیمار ہوگئے۔ ہم نے ان کی تیمارداری کی لیکن وہ اس بیماری میں وفات پا گئے۔ ہم نے انہیں ان کے کپڑوں میں کفن دیا۔ جب رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے تو میں نے کہا: ابو سائب! تم پر اللہ کی رحمتیں ہوں۔ میری گواہی ہے کہ تمہیں اللہ نے عزت بخشی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا؟“ میں نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے معلوم نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”بلاشبہ اسے موت آ چکی ہے اور میں اس کے لیے خیر وبرکت کی امید رکھتا ہوں لیکن اللہ کی قسم! میں اللہ کا رسول ہونے کے باوجود نہیں جانتا کہ خود میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟“ سیدہ ام العلاء ؓ نے کہا: اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7018]
حدیث حاشیہ: ممکن ہے کہ حضرت عثمان بن مظمعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زندگی میں صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھنے والے کام کیے ہوں جو خواب میں چشمہ جاری کی صورت میں دکھائے گئے ہوں۔
مثلاً:
ان کا ایک بیٹا حضرت سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا جس نے غزوہ بدر اور اس کے علاوہ غزوات میں شرکت کی اور وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں فوت ہوا۔
وہ اہل قریش میں سے مالدار آدمی تھے بعید نہیں کہ انھوں نے اپنا مال ایسی جگہ خرچ کیا ہو جو صدقہ جاری کی حیثیت رکھتا ہو۔
اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہتھیار بند رہنے والے کا عمل بھی مرنے کے بعد جاری رہتا ہے ممکن ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہر وقت مرابط کی حیثیت سے رہتے ہوں۔
(فتح الباري: 514/12) هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7018