Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
49. بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ الْمَاءَ لاَ يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ
باب: پانی کو کوئی چیز نجس اور ناپاک نہیں کرتی۔
حدیث نمبر: 66
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، والحَسنُ بن علِيّ الْخَلالُ , وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَتَوَضَّأُ مِنْ بِئْرِ بُضَاعَةَ وَهِيَ بِئْرٌ يُلْقَى فِيهَا الْحِيَضُ وَلُحُومُ الْكِلَابِ وَالنَّتْنُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ لَا يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ، وَقَدْ جَوَّدَ أَبُو أُسَامَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، فَلَمْ يَرْوِ أَحَدٌ حَدِيثَ أَبِي سَعِيدٍ فِي بِئْرِ بُضَاعَةَ أَحْسَنَ مِمَّا رَوَى أَبُو أُسَامَةَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , وَعَائِشَةَ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم بضاعہ نامی کنویں ۱؎ سے وضو کریں اور حال یہ ہے وہ ایک ایسا کنواں ہے جس میں حیض کے کپڑے، کتوں کے گوشت اور بدبودار چیزیں آ کر گرتی ہیں؟۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- بئر بضاعہ والی ابو سعید خدری کی یہ حدیث جس عمدگی کے ساتھ ابواسامہ نے روایت کی ہے کسی اور نے روایت نہیں کی ہے ۳؎،
۳- یہ حدیث کئی اور طریق سے ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے مروی ہے،
۴- اس باب میں ابن عباس اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 34 (66) سنن النسائی/المیاہ 2 (327، 328) (تحفة الأشراف: 4144) مسند احمد (3/15، 16، 31، 86) (صحیح) (سند میں عبید اللہ بن عبد اللہ رافع مجہول الحال ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»

وضاحت: ۱؎: بئر بضاعہ مدینہ کے ایک مشہور کنویں کا نام ہے۔
۲؎: «إن الماء طهور» میں «المائ» میں جو لام ہے وہ عہد کا لام ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ سائل کے ذہن میں جس کنویں کا پانی ہے وہ نجاست گرنے سے پاک نہیں ہو گا کیونکہ اس کنویں کی چوڑائی چھ ہاتھ تھی اور اس میں ناف سے اوپر پانی رہتا تھا اور جب کم ہوتا تو ناف سے نیچے ہو جاتا، جیسا کہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں اس کا ذکر کیا ہے، یہ ہے کہ جب پانی کثیر مقدار میں ہو (یعنی دو قلہ سے زیادہ ہو) تو محض نجاست کا گر جانا اسے ناپاک نہیں کرتا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ مطلق پانی میں نجاست گرنے سے وہ ناپاک نہیں ہو گا، چاہے وہ کم ہو، یا چاہے اس کا مزہ اور مہک بدل جائے۔
۳؎: مولف کا مقصد یہ ہے کہ یہ حدیث ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے کئی طرق سے مروی ہے ان میں سب سے بہتر طریق یہی ابواسامہ والا ہے، تمام طرق سے مل کر یہ حدیث صحیح (لغیرہ) کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (478) ، صحيح أبي داود (59)

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 66 کے فوائد و مسائل
  ابوصهيب مولانا محمد داود ارشد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي 66  
فقہ الحدیث
◈ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین اور علامہ ابن حزم رحمها اللہ نے صحیح کہا ہے۔
◈ علاوہ ان کے امام حاکم رحمہ اللہ نے بھی اس کی تصحیح کی ہے۔ [البدر المنير بحواله ابكار المنن: ص 21]
◈ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کو حسن قرار دیا ہے۔ [ترمذي مع تحفه ص 66 ج1]
معترض کا اعتراض:
یہاں پانی کی کوئی قید نہیں کہ کتنا پانی ناپاک نہیں ہوتا تو چاہئے کہ گھڑے لوٹے میں بھی حیض کے کپڑے، کتوں کا گوشت ڈال کر پیا کرو کیونکہ پانی کو کوئی چیز ناپاک ہی نہیں کرتی۔ [جاء الباطل: ج2، ص227]
تبصرہ: اولاً مفتی صاحب! پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی واقعہ ہوا ہے کنویں کے پانی کے سوال کے جواب میں لہٰذا حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کنویں کے پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی چنانچہ:
◈ فریق ثانی کی دیوبندی شاخ کے محدث عظیم مولانا فخر الحسن گنگوہی لکھتے ہیں:
«لا ينجسه شئي لكثرته فان بئر بضاعة كان كثير الماء لا يتغير بوقوع هذه الأشياء، والماء الكثير لا ينجسه شئي .» [ [حاشيه ابوداؤد: ج1، ص9] ]
پانی کو کوئی چیز پلید نہیں کرتی زیادہ ہونے کی وجہ سے اور کنواں بضاعتہ کا کثیر پانی والا تھا اور ان چیزوں کے گرنے سے اس کے اوصاف نہیں بدلتے تھے اور پانی کثیر کو کوئی چیز پلید نہیں کرتی۔ انتھی

◈ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
«فإن بئر بضاعة كثيرة الماء واسعة كان يطرح فيها من الأنجاس مالا يغير لها لونا ولا طعما ولا يظهر له فيها ريح» [معرفة السنن للبيهقي بحواله ابكار المنن: ص 26]
بضاعتہ کا کنواں زیادہ پانی والا تھا اور کشادہ بھی جس میں نجاستیں گرتی تھیں اور ان سے اس کے پانی کا رنگ، مزہ نہیں بدلتا تھا اور نہ ہی اس سے بدبو آتی تھی۔ انتھی
   دین الحق بجواب جاء الحق، حصہ اول، حدیث/صفحہ نمبر: 83   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 66  
اردو حاشہ:
1؎:
بئرِ بضاعہ مدینہ کے ایک مشہور کنویں کا نام ہے۔

2؎: ((إِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ)) میں ((الْمَاءَ)) میں جو لام ہے وہ عہد کا لام ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ سائل کے ذہن میں جس کنویں کا پانی ہے وہ نجاست گرنے سے پاک نہیں ہو گا کیوں کہ اس کنویں کی چوڑائی چھ ہاتھ تھی اور اس میں ناف سے اوپر پانی رہتا تھا اور جب کم ہوتا تو ناف سے نیچے ہو جاتا،
جیسا کہ امام ابو داود نے اپنی سنن میں اس کا ذکر کیا ہے،
یہ ہے کہ جب پانی کثیر مقدارمیں ہو (یعنی دو قلہ سے زیادہ ہو) تو محض نجاست کا گر جانا اسے نا پاک نہیں کرتا،
اس کا یہ مطلب نہیں کہ مطلق پانی میں نجاست گرنے سے وہ نا پاک نہیں ہوگا،
چاہے وہ کم ہو،
یا چاہے اس کا مزہ اور مہک بدل جائے۔

3؎:
مؤلف کا مقصد یہ ہے کہ یہ حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے کئی طرق سے مروی ہے ان میں سب سے بہتر طریق یہی ابو اسامہ والا ہے،
تمام طرق سے مل کریہ حدیث صحیح (لغیرہ) کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔

نوٹ:
(سند میں عبیداللہ بن عبداللہ رافع مجہول الحال ہیں،
لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 66   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 2  
´پانی پاک ہے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إن الماء طهور لا ينجسه شيء . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانی پاک ہے، اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 2]
لغوی تشریح:
«الْخُدْرِيِّ» خا کے ضمہ اور دال کے سکون کے ساتھ ہے۔ «خُدرةٌ» کی طرف منسوب ہے جو انصار کا ایک مشہور قبیلہ ہے۔
«طَهُورٌ» طا کے فتحہ کے ساتھ ہے، یعنی پاک اور پاک کرنے والا۔
«لا يُنَجسُه» یہ «تنجيس» سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں کہ کوئی چیز اسے نجس، یعنی ناپاک نہیں کرتی۔ مطلب یہ ہے کہ پانی میں نجاست کا محض گر جانا اسے ناپاک نہیں کرتا، بشرطیکہ وہ پانی دو مٹکوں کے برابر یا اس سے زیادہ ہو جیسا کہ آگے تفصیل آ رہی ہے۔

فوائد ومسائل:
➊ حدیث کا مقصود یہ ہے کہ پانی پاک ہے محض نجاست کے واقع ہونے سے ناپاک نہیں ہوتا، خواہ اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ۔ امام مالک رحمہ اللہ، اہل ظاہر اور ایک قول کے مطابق امام احمد رحمہ اللہ کی رائے بھی یہی ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے مشروط بات کی ہے کہ جب تک اوصاف ثلاثہ میں سے کوئی وصف تبدیل نہ ہو پانی ناپاک نہیں ہوتا جیسا کہ آگے سیدنا ابوامامہ بابلی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں بیان ہوا ہے۔
➋ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث ایک خاص واقعہ سے متعلق ہے اور وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کیا ہم بئر بُضاعة کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ بئر بُضاعة ایک پرانا کنواں تھا جس میں حیض والے کپڑے، کتوں کے گوشت کے ٹکڑے اور بدبودار چیزیں گر جاتی تھیں۔ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا: پانی پاک ہے۔ [سنن أبي داود، الطهارة، باب ماجاء فى بئر بظاعة، حديث: 66]
بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ «الماء» میں جو الف لام ہے یہ عہد کا ہے جس کے معنی یہ ہوں گے کہ سائل کے ذہن میں جس پانی کے متعلق سوال تھا اس کے بارے میں آپ نے یہ جواب دیا اور وہ «بئر بضاعة» کا پانی تھا۔ اس کنوئیں کی چوڑائی چھ ہاتھ تھی۔ اس میں پانی جب زیادہ ہوتا تو ناف سے اوپر کی حد تک رہتا تھا اور جب کم ہوتا تو ناف سے نیچے کی حد تک ہو جاتا جیسا کہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں اس کا ذکر کیا ہے۔
➌ یہ حدیث صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب پانی اتنی کثیر مقدار میں ہو تو محض نجاست کا اس میں گر جانا اسے ناپاک نہیں کرتا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مطلق پانی میں نجاست گرنے سے وہ ناپاک نہیں ہوتا، یعنی یہ حدیث صرف کثیر پانی کے متعلق ہے، قلیل کے بارے میں نہیں۔

راوی حديث:
SR سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ:ER ابوسعید کنیت ہے اور ان کا اسم گرامی سعد بن مالک بن سنان ہے۔ انصار کے قبیلہ خزرج سے ان کا تعلق تھا۔ کبار صحابہ رضی اللہ عنہم میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ خدرہ ایک انصاری قبیلہ ہے جس کی طرف یہ منسوب ہیں۔ تقریباً چھیاسی (86) برس کی طویل عمر پائی اور 74 ہجری کے آغاز میں وفات پائی۔ ان سے بھی بکثرت احادیث مروی ہیں اور انہوں نے کچھ عرصے تک مفتی کے فرائض بھی سر انجام دیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 2   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 327  
´بئر بضاعہ کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم بضاعہ نامی کنویں سے وضو کریں؟ اور حال یہ ہے کہ یہ ایک ایسا کنواں ہے جس میں کتوں کے گوشت، حیض کے کپڑے، اور بدبودار چیزیں ڈالی جاتی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانی پاک ہوتا ہے، اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المياه/حدیث: 327]
327۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث 53 اور اس کے فوائد و مسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 327   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 67  
´بئر بضاعہ کا کنواں`
«. . . سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُقَالُ لَهُ: إِنَّهُ يُسْتَقَى لَكَ مِنْ بِئْرِ بُضَاعَةَ، وَهِيَ بِئْرٌ يُلْقَى فِيهَا لُحُومُ الْكِلَابِ وَالْمَحَايِضُ وَعَذِرُ النَّاسِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ لَا يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت یہ فرماتے سنا جب کہ آپ سے پوچھا جا رہا تھا کہ بئر بضاعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پانی لایا جاتا ہے، حالانکہ وہ ایسا کنواں ہے کہ اس میں کتوں کے گوشت، حیض کے کپڑے، اور لوگوں کے پاخانے ڈالے جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 67]
فوائد و مسائل:
«بضاعة» با کے ضمہ کے ساتھ، مدینہ منورہ کے شمال میں دار بنی ساعدہ میں ایک مشہور کنواں تھا جو اس جگہ یا اپنے مالک کے نام سے موسوم تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنا لعاب بھی ڈالا تھا۔ مریضوں کو اس کے پانی سے نہانے کا کہا جاتا، وہ اس سے غسل کرتے اور شفایاب ہوتے تھے، گویا کسی بندھن سے کھل گئے ہوں۔ [عون المعبود]
➋ حدیث میں جو گندگی ڈالنے کا ذکر آیا ہے وہ اس میں عمداً نہیں ڈالی جاتی تھی بلکہ یہ کنواں ایسی جگہ پر واقع تھا کہ تیز ہوا یا بارش کے پانی وغیر سے بہہ کر یہ سب کچھ اس میں چلا جاتا تھا۔ ورنہ ایسے کام کا کوئی غیر مسلم بھی روادار نہیں ہوتا۔
➌ کنویں کا پانی جاری پانی تھا اور اس کے اوصاف سہ گانہ رنگ، بو اور ذائقہ تبدیل نہ ہوتے تھے۔ ورنہ اگر نجاست کا اثر نمایاں ہو تو پانی بلاشبہ بالاجماع ناپاک ہو گا۔
➍ محدثین کرام کا ذوق تحقیق اور ان کی فقاہت قابل داد ہے کہ امام ابوداؤد کے دور یعنی تیسری صدی ہجری تک یہ کنواں محفوظ تھا، انہوں نے خود جا کر اسے ملاحظہ کیا اور ضروری معلومات حاصل کیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 67   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن أبوداود 66  
فوائد و مسائل
«لا يخرجه عن الوصفين إلا ما غير ريحه أو لونه او طعمه من النجاسات»
ان دونوں اوصاف سے اسے کوئی چیز خارج نہیں کرتی مگر صرف ایسی نجاست جو اس کی بو یا اس کا رنگ یا اس کا ذائقہ تبد یل کر دے۔
❀ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا، کیا ہم بئر بضاعہ کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ (بئر بضاعہ ایک قدیم کنواں تھا جس میں حیض آلود کپڑے، کتے کے گوشت کے ٹکڑے اور بدبودار اشیاء ڈالی جاتی تھیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا: «الْمَاءُ طَهُورٌ لَا يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ» پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔ [صحيح: أبوداود 66] ۱؎
❀ حضرت ابوامامہ باھلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّ الْمَاءَ لَا يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ، إِلَّا مَا غَلَبَ عَلَى رِيحِهِ، وَطَعْمِهِ، وَلَوْنِهِ»
یقیناًً پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی الا یہ کہ پانی پر اس ناپاک چیز کی بؤ ذائقہ اور رنگ غالب ہو جائے۔ [ضعیف: ابن ماجه 521] ۲؎
حافظ بوصیری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ رشدین کے ضعف کی بنا پر اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ [الزوائد 170/1]
❀ بیھقی کی روایت میں یہ لفظ ہیں:
«الماء طهور إلا إن تغير ريحه أو طعمه أو لونه بنجاسة تحدث فيه»
پانی پاک ہے سوائے اس کے کہ نجاست گرنے کی وجہ سے اس کی بو یا اس کا ذائقہ یا اس کا رنگ بدل جائے۔ [بيهقي 209/1] ۳؎
اس کی سند میں بھی رشدین بن سعد راوی متروک ہے لہٰذا یہ حدیث بھی قابل حجت نہیں۔ [فيض القدير 383/2، نيل الاوطار 67/1]
امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے اس کے مرسل ہونے کو صحیح قرار دیا ہے۔ [علل الحديث 44/1]
امام دارقطنی رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ یہ حدیث ثابت نہیں۔ [دارقطني 29/1]
امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے ضعف پر محدثین کا اتفاق نقل کیا ہے۔ [المجموع 110/1]
امام ابن ملقن رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ مذکورہ استثناء کمزور ہے۔ [البدر المنير 832]
امام ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی رشدین بن سعد کو ضعیف قرار دیا ہے۔ [المجمع 214/1]
(راجح) اگرچہ استثناء والی روایات ضعیف ہیں لیکن ان کے معنی و مفہوم کے صحیح و قابل عمل ہونے پر اجماع ہے جیسا کہ امام بن منذر، امام نووی، امام ابن قدامہ اور امام ابن ملقن رحمہم اللہ اجمعین نے اس مسئلے پر اجماع نقل کیا ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت حسن بصری، حضرت سعید بن مسیب، امام عکرمہ، امام ابن ابی لیلی، امام ثوری، امام داود ظاہری، امام نخعی، امام جابر بن زید، امام مالک، امام غزالی، امام قاسم اور امام یحیی رحمہم اللہ اجمعین بھی یہی موقف رکھتے ہیں۔ [والإجماع لابن المنذر 10 ص 33] ۴؎
------------------
۱؎ [صحيح: صحيح أبوداود 20، كتاب الطهارة: باب ما جاء فى بئر بضاعة ' ابوداود 67، ترمذي 66، نسائي 174/1، أحمد 31/3، مسند شافعي 30، ابن الجارود 47، شرح معاني الآثار 11/1، دار قطني 29/1، بيهقي 207/1]
۲؎ [ضعيف: ضعيف ابن ماجة 117، كتاب الطهارة: باب الحياض، الضعيفة 2644، ابن ماجه 521، دار قطني 208/1، طبراني كبير 123/8]
۳؎ [بيهقي 209/1، دار قطني 28/1]
۴؎ [والإجماع لابن المنذر 10 ص 33، المجموع للنوري 110/1، المغني لابن قدامة 03/1، البدر المنير لابن الملقن 83/2، نيل الأوطار 69/1]
* * * * * * * * * * * * * *
   فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 128