صحيح البخاري
كِتَاب الشَّهَادَاتِ
کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
30. بَابُ الْقُرْعَةِ فِي الْمُشْكِلاَتِ:
باب: مشکلات کے وقت قرعہ اندازی کرنا۔
وَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: إِذْ يُلْقُونَ أَقْلامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ سورة آل عمران آية 44، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ اقْتَرَعُوا فَجَرَتِ الْأَقْلَامُ مَعَ الْجِرْيَةِ، وَعَالَ قَلَمُ زَكَرِيَّاءَ الْجِرْيَةَ، فَكَفَلَهَا زكَرِيَّاءُ، وَقَوْلِهِ فَسَاهَمَ أَقْرَعَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ سورة الصافات آية 141 مِنَ الْمَسْهُومِينَ، وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: عَرَضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَوْمٍ الْيَمِينَ، فَأَسْرَعُوا، فَأَمَرَ أَنْ يُسْهِمَ بَيْنَهُمْ أَيُّهُمْ يَحْلِفُ.
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد «إذ يلقون أقلامهم أيهم يكفل مريم» ”جب وہ اپنی قلمیں ڈالنے لگے (قرعہ اندازی کے لیے تاکہ) فیصلہ کر سکیں کہ مریم کی کفالت کون کرے۔“ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے (آیت مذکورہ کی تفسیر میں فرمایا) کہ جب سب لوگوں نے (نہر اردن میں) اپنے اپنے قلم ڈالے، تو تمام قلم پانی کے بہاؤ کے ساتھ بہہ گئے، لیکن زکریا علیہ السلام کا قلم اس بہاؤ میں اوپر آ گیا۔ اس لیے انہوں نے ہی مریم علیہا السلام کی تربیت اپنے ذمہ لی اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد «فساهم» کے معنی ہیں پس انہوں نے قرعہ ڈالا۔ «فكان من المدحضين» (میں «مدحضين» کے معنی ہیں) «من المسهومين» یعنی قرعہ انہیں کے نام پر نکلا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (کسی مقدمہ میں مدعیٰ علیہ ہونے کی بنا پر) کچھ لوگوں سے قسم کھانے کے لیے فرمایا، تو وہ سب (ایک ساتھ) آگے بڑھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں قرعہ ڈالنے کے لیے حکم فرمایا تاکہ فیصلہ ہو کہ سب سے پہلے قسم کون آدمی کھائے۔