Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْغُسْل
کتاب: غسل کے احکام و مسائل
9. بَابُ هَلْ يُدْخِلُ الْجُنُبُ يَدَهُ فِي الإِنَاءِ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَهَا إِذَا لَمْ يَكُنْ عَلَى يَدِهِ قَذَرٌ غَيْرُ الْجَنَابَةِ:
باب: کیا جنبی اپنے ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈال سکتا ہے؟ جب کہ جنابت کے سوا ہاتھ میں کوئی گندگی نہیں لگی ہوئی ہو۔
وَأَدْخَلَ ابْنُ عُمَرَ، وَالْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ يَدَهُ فِي الطَّهُورِ وَلَمْ يَغْسِلْهَا، ثُمَّ تَوَضَّأَ، وَلَمْ يَرَ ابْنُ عُمَرَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ بَأْسًا بِمَا يَنْتَضِحُ مِنْ غُسْلِ الْجَنَابَةِ.
‏‏‏‏ ابن عمر اور براء بن عازب رضی اللہ عنہم نے ہاتھ دھونے سے پہلے غسل کے پانی میں اپنا ہاتھ ڈالا تھا۔ اور ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم اس پانی سے غسل میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے جس میں غسل جنابت کا پانی ٹپک کر گر گیا ہو۔

صحیح بخاری کی حدیث نمبر Q261 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري Q261  
تشریح:
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہاتھ پر اور کوئی نجاست نہ ہو اور ہاتھ دھونے سے پہلے برتن میں ڈال دے تو پانی نجس نہ ہو گا۔ کیونکہ جنابت نجاست حکمی ہے، حقیقی نہیں ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہا کے اثر کو سعید بن منصور نے اور براء بن عازب کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے نکالا ہے۔ ان میں جنابت کا ذکر نہیں ہے۔ مگر حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے جنابت کو «حدث» پر قیاس کیا ہے۔ کیوں کہ دونوں حکمی نجاست ہیں اور ابن ابی شیبہ نے شعبی سے روایت کیا ہے کہ بعض اصحاب کرام اپنے ہاتھ بغیر دھوئے پانی میں ڈال دیتے حالانکہ وہ جنبی ہوتے، یہ اسی حالت میں کہ ان کے ہاتھوں پر ظاہر میں کوئی نجاست لگی ہوئی نہ ہوتی تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 261