Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
20. بَابُ مَا جَاءَ فِي التَّسْمِيَةِ عِنْدَ الْوُضُوءِ
باب: وضو کے شروع میں بسم اللہ کہنے کا بیان​۔
حدیث نمبر: 25
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ , وَبِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَقَدِيُّ , قَالَا: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ أَبِي ثِفَالٍ الْمُرِّيِّ، عَنْ رَبَاحِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ حُوَيْطِبٍ، عَنْ جَدَّتِهِ، عَنْ أَبِيهَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ يَذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ , وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: لَا أَعْلَمُ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثًا لَهُ إِسْنَادٌ جَيِّدٌ، وقَالَ إِسْحَاقُ: إِنْ تَرَكَ التَّسْمِيَةَ عَامِدًا أَعَادَ الْوُضُوءَ وَإِنْ كَانَ نَاسِيًا أَوْ مُتَأَوِّلًا أَجْزَأَهُ , قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ: أَحْسَنُ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثُ رَبَاحِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَبَاحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَدَّتِهِ، عَنْ أَبِيهَا , وَأَبُوهَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، وَأَبُو ثِفَالٍ الْمُرِّيُّ اسْمُهُ: ثُمَامَةُ بْنُ حُصَيْنٍ، وَرَبَاحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هُوَ أَبُو بَكْرِ بْنُ حُوَيْطِبٍ، مِنْهُمْ مَنْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ: عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حُوَيْطِبٍ، فَنَسَبَهُ إِلَى جَدِّهِ.
سعید بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو «بسم اللہ» کر کے وضو شروع نہ کرے اس کا وضو نہیں ہوتا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں عائشہ، ابوہریرہ، ابو سعید خدری، سہل بن سعد اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- احمد بن حنبل کہتے ہیں: مجھے اس باب میں کوئی ایسی حدیث نہیں معلوم جس کی سند عمدہ ہو،
۳- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: اگر کوئی قصداً «بسم اللہ» کہنا چھوڑ دے تو وہ دوبارہ وضو کرے اور اگر بھول کر چھوڑے یا وہ اس حدیث کی تاویل کر رہا ہو تو یہ اسے کافی ہو جائے گا،
۴- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے اچھی یہی مذکورہ بالا حدیث رباح بن عبدالرحمٰن کی ہے، یعنی سعید بن زید بن عمرو بن نفیل کی حدیث۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطہارة 41 (398) (تحفة الأشراف: 4470) مسند احمد (4/70) و (5/381-382) و6/382) (حسن)»

وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ «بسم اللہ» کا پڑھنا وضو کے لیے رکن ہے یا شرط اس کے بغیر وضو صحیح نہیں ہو گا، کیونکہ «لاوضوئ» سے صحت اور وجود کی نفی ہو رہی ہے نہ کہ کمال کی، بعض لوگوں نے اسے کمال کی نفی پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ بغیر «بسم اللہ» کیے بھی وضو صحیح ہو جائے گا لیکن وضو کامل نہیں ہو گا، لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ «لا» کو اپنے حقیقی معنی نفی صحت میں لینا ہی حقیقت ہے، اور نفی کمال کے معنی میں لینا مجاز ہے اور یہاں مجازی معنی لینے کی کوئی مجبوری نہیں ہے، نفی کمال کے معنی میں آئی احادیث ثابت نہیں ہیں، امام احمد کے نزدیک راجح «بسم اللہ» کا وجوب ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (399)

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 25 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، ترمذی 25  
محدثین کرام اور ضعیف جمع ضعیف کی مروّجہ حسن لغیرہ کا مسئلہ؟
جلیل القدر محدثین کرام نے ایسی کئی احادیث کو ضعیف وغیر ثابت قرار دیا، جن کی بہت سی سندیں ہیں اور ضعیف جمع ضعیف کے اُصول سے بعض علماء انھیں حسن لغیرہ بھی قرار دیتے ہیں، بلکہ بعض ان میں سے ایسی روایات بھی ہیں جو ہماری تحقیق میں حسن لذاتہ ہیں۔
اس مضمون میں ایسی دس روایات پیش خدمت ہیں جن پر اکابر علمائے محدثین نے جرح کی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ضعیف جمع ضعیف والی مروّجہ حسن لغیرہ کو حجت نہیں سمجھتے تھے:
— نمبر 1 —
حدیث:
«لا وضوء لمن لم یذکر اسم اللہ علیہ»
ترجمہ: جو شخص وضو پر بسم اللہ نہ پڑھے اُس کا وضو نہیں ہوتا۔
اس حدیث کی چند اسانید درج ذیل ہیں:
1: عن سعید بن زیدرضي اللہ عنہ۔ (ترمذی: 25، ابن ماجہ: 398)
2: عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ (ابو داود: 101، ابن ماجہ: 399، احمد 2/ 418 ح 9408)
3: عن أبي سعید الخدري رضي اللہ عنہ (ابن ماجہ: 397، دارمی 697، احمد 3/ 41)
اس سلسلے کی مزید روایات کے لئے ابو اسحاق الحوینی کا رسالہ کشف المخبوء بثبوت حدیث التسمیۃ عندالوضوء دیکھیں اور اس رسالہ میں حوینی مذکور نے ضعیف جمع ضعیف والی مروّجہ حسن لغیر ہ روایت کے دفاع کی ناکام کوشش بھی کر رکھی ہے۔!!
امام ابوزرعہ الدمشقی نے فرمایا:
میں نے ابو عبداللہ احمد بن حنبل (رحمہما اللہ) سے پوچھا کہ «لا وضوء لمن لم یذکر اسم اللہ علیہ» کا کیا مطلب ہے؟
انھوں نے فرمایا: اس بارے میں احادیث قوی نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنے چہرے او ر کہنیوں تک ہاتھ دھوو، پس اللہ نے تسمیے کو واجب قرار نہیں دیا اور یہ قرآن ہے اور اس کے بارے میں سنت (حدیث) ثابت نہیں ہے۔
(تاریخ ابی زرعۃ الدمشقی: 8281)
امام ابن ہانی نے کہا:
میں نے اُن (امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ) سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص وضو کے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو؟
انھوں نے فرمایا:
«یجزۂ ذلک، حدیث النبي ﷺ لیس إسنادہ بقوي»
اس کا وضو ہو جائے گا، بسم اللہ کے بارے میں نبی ﷺ کی (طرف منسوب) حدیث کی سند قوی نہیں ہے۔
(مسائل ابن ہانئ: 17)
امام اسحاق بن منصور الکوسج نے امام احمدبن حنبل رحمہما اللہ سے پوچھا:
اگر وضو کرے اور بسم اللہ نہ پڑھے تو؟
انھوں نے فرمایا:
«لا أعلم فیہ حدیثًا لہ إسنادہ جیّد»
مجھے اس بارے میں ایسی کوئی حدیث معلوم نہیں جس کی سند اچھی ہو۔
(مسائل احمد واسحاق روایۃ اسحاق بن منصور الکوسج 1/ 68 فقرہ: 2)
ثابت ہوا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ضعیف جمع ضعیف والی مروّجہ حسن لغیر ہ روایت کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔
تنبیہ: ہماری تحقیق میں سنن ابن ماجہ (397) وغیر ہ والی حدیث حسن لذاتہ ہے، لہٰذا وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے اور جو شخص اقامتِ حجت کے بعد بسم اللہ نہ پڑھے تو اس کا وضو نہیں ہوتا۔
……… اصل مضمون ………
اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ (جلد 5 صفحہ 173 تا 185)
   تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 73   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 25  
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ((بِسْمِ اللَّهِ)) کا پڑھنا وضو کے لیے رکن ہے یا شرط اس کے بغیر وضو صحیح نہیں ہوگا،
کیونکہ ((لاَ وُضُوءَ)) سے صحت اور وجود کی نفی ہو رہی ہے نہ کہ کمال کی،
بعض لوگوں نے اسے کمال کی نفی پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ بغیر ((بِسْمِ اللَّهِ)) کیے بھی وضو صحیح ہو جائے گا لیکن وضو کامل نہیں ہوگا،
لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ ((لَا)) کو اپنے حقیقی معنی نفی صحت میں لینا ہی حقیقت ہے اورنفی کمال کے معنی میں لینا مجاز ہے اور یہاں مجازی معنی لینے کی کوئی مجبوری نہیں ہے،
نفی کمال کے معنی میں آئی احادیث ثابت نہیں ہیں،
امام احمد کے نزدیک راجح ((بِسْمِ اللَّهِ)) کا وجوب ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 25