صحيح البخاري
كِتَاب الشَّهَادَاتِ
کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
28. بَابُ مَنْ أَمَرَ بِإِنْجَازِ الْوَعْدِ:
باب: جس نے وعدہ پورا کرنے کا حکم دیا۔
حدیث نمبر: 2684
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ شُجَاعٍ، عَنْ سَالِمٍ الْأَفْطَسِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ:" سَأَلَنِي يَهُودِيٌّ مِنْ أَهْلِ الْحِيرَةِ، أَيَّ الْأَجَلَيْنِ قَضَى مُوسَى؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِي حَتَّى أَقْدَمَ عَلَى حَبْرِ الْعَرَبِ، فَأَسْأَلَهُ، فَقَدِمْتُ، فَسَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ:قَضَى أَكْثَرَهُمَا، وَأَطْيَبَهُمَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَالَ فَعَلَ".
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم کو سعید بن سلیمان نے خبر دی، ان سے مروان بن شجاع نے بیان کیا، ان سے سالم افطس نے اور ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ حیرہ کے یہودی نے مجھ سے پوچھا، موسیٰ علیہ السلام نے (اپنے مہر کے ادا کرنے میں) کون سی مدت پوری کی تھی؟ (یعنی آٹھ سال کی یا دس سال کی، جن کا قرآن میں ذکر ہے) میں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں، ہاں! عرب کے بڑے عالم کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھ لوں (تو پھر تمہیں بتا دوں گا) چنانچہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آپ نے بڑی مدت پوری کی (دس سال کی) جو دونوں مدتوں میں بہتر تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب کسی سے وعدہ کرتے تو پورا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2684 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2684
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث سے حضرت امام ؒ نے جو وعدہ پوا کرنے کا وجوب ثابت کیا‘ خصوصا جو وعدہ عدالت میں کیا جائے وہ نہ پورا کرے تو اس سے جبرا پورا کرایا جائے گا۔
ورنہ عدالت ایک تماشہ بن حائے گی۔
حصرت موسی ٰ ؑ کے سامنے آٹھ اور دس سال کی مدتین رکھی گئی تھیں۔
حصرت شعیب ؑ نے ان سے فرمایا تھا کہ میں چاہتا ہوں اپنی دو بیٹیوں میں سے ایک کی شادی تمہارے ساتھ کر دوں۔
بشرطیکہ تم آٹھ برس میری نوکری کرو اور اگر دس برس پورا کرو تو یہ تمہارا احسان ہو گا۔
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ کہ اللہ کے رسول وعدہ خلاف ہرگز نہیں ہو سکتے۔
یہیں سے ترجمہ باب نکلتاہے۔
دوسری روایت میں یوں ہے کہ سعید نے کہا ‘پھر وہ یہودی مجھ سے ملا تو میں نے جو ابن عباس ؓ نے فرمایا تھا وہ اسے بتلا دیا۔
وہ کہنے لگا ابن عباس ؓ بیشک عالم ہیں۔
ابن عباس ؓ نے یہ آنحضرت ﷺ سے سنا تھا اور آپ نے جبرائیل ؑ سے پوچھا تھا۔
جبرائیل ؑ نے اللہ پاک سے جس کے جواب میں اللہ پک نے فرمایا تھا کہ موسی ٰ ؑنے وہ میعاد پوری کی جو زیادہ لمبی اور زیادہ بہتر تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2684
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2684
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث سے امام بخاری ؒ نے وعدہ پورا کرنے کے وجوب کو ثابت کیا ہے، خاص طور پر وہ وعدہ جو عدالت کے روبرو کیا جائے۔
اگر وہ پورا نہ کرے تو عدالت اس کا نوٹس لے اور زبردستی اس سے پورا کرائے بصورت دیگر عدالتی فیصلے تماشا بن جائیں گے۔
(2)
حضرت موسیٰ ؑ کے سامنے آٹھ سال اور دس سال کی دو مدتیں رکھی گئی تھیں، حضرت موسیٰ ؑ نے وہ مدت پوری کی جو زیادہ لمبی اور زیادہ عمدہ تھی، حالانکہ موسیٰ ؑ نے دس سال کا وعدہ نہیں کیا تھا لیکن پھر بھی اسے پورا کر دکھایا۔
اس سے وعدہ پورا کرنے کی تاکید مقصود ہے۔
اس حدیث کے آخری جملے کا یہ مطلب ہے کہ جو بھی اللہ کا رسول ہو وہ سچی بات کرتا ہے۔
اس کا وعدہ سچا ہوتا ہے اور وہ اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔
اللہ کے رسول وعدہ خلاف ہرگز نہیں ہوتے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2684
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:545
545- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جبرئیل علیہ السلام سے دریافت کیا: ”سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے دو مدتوں میں سے کون سی مدت مکمل کی تھی؟“ تو جبرئیل علیہ السلام بولے: ”جو تمام اور مکمل تھی۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:545]
فائدہ:
ہر ہر انسان کی عمر مقرر ہے، ایک لمحہ بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا، اس پر ہمارا ایمان ہے، سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو زندگی اور موت کے درمیان اختیار دیا گیا تھا، پھر وہ بحث و مباحثہ کے بعد اس بات پر راضی ہو گئے کہ مجھے مسجد اقصیٰ کے قریب موت آئے، اس چیز کو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے، کہ ان کو موت اس وقت آئی جب ان کی عمر مکمل اور اکمل ہو چکی تھی، اور وہ مقررہ وقت پر ہی آئی، نہ آ گے اور نہ پیچھے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 545