صحيح البخاري
كِتَاب الشَّهَادَاتِ
کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
20. بَابُ الْيَمِينُ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ، فِي الأَمْوَالِ وَالْحُدُودِ:
باب: دیوانی اور فوجداری دونوں مقدموں میں مدعیٰ علیہ سے قسم لینا۔
حدیث نمبر: 2668
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: كَتَبَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالْيَمِينِ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لکھا تھا ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعیٰ علیہ کے لیے قسم کھانے کا فیصلہ کیا تھا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2668 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2668
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں ہے کہ گواہ پیش کرنے کی ذمہ داری مدعی پر ہے، اگر وہ گواہ پیش نہ کر سکے تو انکار کرنے والے سے قسم لے کر فیصلہ ہو گا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدعا علیہ پر ہر حال میں قسم اٹھانا ہی لازم ہے بشرطیکہ مدعی کے پاس گواہ نہ ہو، خواہ مدعی اور مدعا علیہ میں میل جول اور تعلق ہو یا نہ ہو۔
(2)
امام مالک ؒ کہتے ہیں:
مدعا علیہ سے اس وقت قسم لی جائے گی جب دونوں میں معاملات کا تبادلہ اور دیگر لین دین ہو ورنہ ہر شخص کسی شریف آدمی کو قسم اٹھانے پر مجبور کرتا رہے گا، خواہ اس پر جھوٹا دعویٰ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ دیوانی یا فوجداری دونوں قسم کے مقدمات میں مدعا علیہ سے قسم لی جائے گی کیونکہ احادیث میں اس کے متعلق کوئی فرق نہیں ہے، انہیں اپنے عموم پر رکھا جائے گا۔
ہمارا رجحان بھی اسی طرف ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2668
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4472
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اور گواہ کی بنیاد پر فیصلہ فرمایا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4472]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر مدعی اپنے دعویٰ پر ایک گواہ پیش کر دے اور دوسرے گواہ کی جگہ قسم اٹھاوے تو اس کے حق میں فیصلہ کر دیا جائے گا،
ائمہ حجاز (مالک،
شافعی،
احمد)
اس کے قائل ہیں،
خلفائے راشدین اور جمہور کا یہی نظریہ ہے اور حدیث مستقل حجت ہے قرآن مجید،
جس مسئلہ کے بارے میں ساکت (خاموش)
ہے،
وہ اخبار آحاد سے ثابت ہو سکتا ہے،
کیونکہ وہ نسخ نہیں ہے،
بیان ہے،
جیسا کہ خود علامہ تقی نے اس کو قبول کیا ہے اور علامہ عینی سے بھی نقل کیا ہے۔
(تکملہ،
ج 2،
ص 564-565)
اس لیے اس حدیث کو قرآن مجید کے معارض اور مخالف قرار دینا محض تقلید کا شاخسانہ ہے،
کیونکہ قرآن مجید نے نصاب شہادت میں تو دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کے بیان کی گواہی کا تذکرہ کیا ہے اور تیسری صورت ایک گواہ اور قسم سے خاموش ہے،
اس کو حدیث نے بیان کر دیا،
اس طرح شاہد اور یمین پر دلالت کرنے والی پانچ احادیث کو ضعیف قرار دینا سینہ زوری ہے،
اس لیے علامہ تقی نے تسلیم کیا ہے کہ لَا مَجَالا لِإِ نْكْار ثُبُوتِها،
ان کے ثبوت کے انکار کی گنجائش نہیں ہے،
تکملہ،
ج 2،
ص 564۔
اور یہ اخبار آحاد نہیں،
بلکہ بقول علامہ تقی احناف کی اصطلاح کی رو سے مشہور ہیں،
ص 563۔
اور احناف کے اصول کے مطابق خبر مشہور سے قرآنی نص کی تخصیص ہو سکتی ہے،
جبکہ جمہور ائمہ کے نزدیک تخصیص بیان ہے،
نسخ نہیں ہے اور خبر واحد سے تخصیص جائز ہے،
الوجیز،
ص 319 (الوجیز فی اصول الفقه)
الدکتور عبدالکریم زیدان۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4472