صحيح البخاري
كِتَاب الشَّهَادَاتِ
کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
20. بَابُ الْيَمِينُ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ، فِي الأَمْوَالِ وَالْحُدُودِ:
باب: دیوانی اور فوجداری دونوں مقدموں میں مدعیٰ علیہ سے قسم لینا۔
وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: شَاهِدَاكَ أَوْ يَمِينُهُ، وَقَالَ قُتَيْبَةُ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ شُبْرُمَةَ، كَلَّمَنِي أَبُو الزِّنَادِ فِي شَهَادَةِ الشَّاهِدِ وَيَمِينِ الْمُدَّعِي، فَقُلْتُ: قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى سورة البقرة آية 282، قُلْتُ: إِذَا كَانَ يُكْتَفَى بِشَهَادَةِ شَاهِدٍ وَيَمِينِ الْمُدَّعِي، فَمَا تَحْتَاجُ أَنْ تُذْكِرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى مَا كَانَ يَصْنَعُ بِذِكْرِ هَذِهِ الْأُخْرَى.
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مدعی سے) فرمایا کہ تم اپنے دو گواہ پیش کرو ورنہ مدعیٰ علیہ کی قسم پر فیصلہ ہو گا۔ قتیبہ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے (کوفہ کے قاضی) ابن شبرمہ نے بیان کیا کہ (مدینہ کے قاضی) ابوالزناد نے مجھ سے مدعی کی قسم کے ساتھ صرف ایک گواہ کی گواہی کے (نافذ ہو جانے کے) بارے میں گفتگو کی تو میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «واستشهدوا شهيدين من رجالكم فإن لم يكونا رجلين فرجل وامرأتان ممن ترضون من الشهداء أن تضل إحداهما فتذكر إحداهما الأخرى» ”اور تم اپنے مردوں میں سے دو گواہ کر لیا کرو پھر اگر دونوں مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں، جن گواہوں سے کہ تم مطمئن ہو، تاکہ اگر کوئی ایک ان دو میں سے بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔“ میں نے کہا کہ اگر مدعی کی قسم کے ساتھ صرف ایک گواہ کی گواہی کافی ہوتی تو پھر یہ فرمانے کی کیا ضرورت تھی کہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلا دے۔ دوسری عورت کے یاد دلانے سے فائدہ ہی کیا ہے؟