Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الشَّهَادَاتِ
کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
17. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ الإِطْنَابِ فِي الْمَدْحِ وَلْيَقُلْ مَا يَعْلَمُ:
باب: کسی کی تعریف میں مبالغہ کرنا مکروہ ہے جو جانتا ہو بس وہی کہے۔
حدیث نمبر: 2663
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَبَّاحٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يُثْنِي عَلَى رَجُلٍ وَيُطْرِيهِ فِي مَدْحِهِ، فَقَالَ: أَهْلَكْتُمْ أَوْ قَطَعْتُمْ ظَهَرَ الرَّجُلِ".
ہم سے محمد بن صباح نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن زکریا نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے برید بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ ایک شخص دوسرے کی تعریف کر رہا تھا اور مبالغہ سے کام لے رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں نے اس شخص کو ہلاک کر دیا۔ اس کی پشت توڑ دی۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2663 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2663  
حدیث حاشیہ:
چونکہ گواہ کا تعدیل اور تزکیہ کا بیان ہورہا ہے لہٰذا یہ بتلادیاگیا کہ کسی کی تعریف میں حد سے گزرجانا اور کسی کے سامنے اس کی تعریف کرنا شرعاً یہ بھی مذموم ہے کہ اس سے سننے والے کے دل میں عجب و خود پسندی اور کبر پیدا ہونے کا احتمال ہے۔
لہٰذا تعریف میں مبالغہ ہرگز نہ ہو اور تعریف کسی کے منہ پر نہ کی جائے اور اس کی بابت جس قدر معلومات ہوں بس ان پر اضافہ نہ ہو کہ سلامتی اسی میں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2663   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2663  
حدیث حاشیہ:
اگر انسان کی اس کے سامنے حد سے زیادہ تعریف کی جائے تو وہ تکبر اور خودپسندی کا شکار ہو جاتا ہے اور فخر و غرور میں مبتلا ہو کر خود کو مبالغہ آمیز تعریف کا مصداق خیال کرتا ہے، اس طرح شیطان کے دھوکے میں پھنس کر رہ جاتا ہے، اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے حد سے زیادہ تعریف کرنے سے منع کیا ہے، ہاں جس قدر جانتا ہو اس کے مطابق تعریف میں کوئی حرج نہیں۔
اس طرح ابو بکرہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی دونوں احادیث میں تطبیق ممکن ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2663   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7504  
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتےہیں،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کی تعریف کررہاہے اور تعریف میں بھی اس کو حد سے بڑھارہا ہے،تو آپ نے فرمایا:"تم نے ہلاک کرڈالا یا یہ اس آدمی کی پشت کاٹ ڈالی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:7504]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
يطريه:
تعریف میں مبالغہ کرنا۔
(2)
المدحة:
مدح وتعریف۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7504   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6060  
6060. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو سنا کہ وہ دوسرے کی تعریف کر رہا تھا ااور تعریف کرتے وقت خوب مبالغہ آمیزی کر رہا تھا، آپ نے فرمایا: تم نے اسے ہلاک کر دیا۔ یا فرمایا تم نے اس کی کمر توڑ دی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6060]
حدیث حاشیہ:
حافظ نے کہا مجھ کو ان دونوں شخصوں کے نام معلوم نہیں ہوئے لیکن امام احمد اور بخاری کی روایت ادب المفرد سے معلوم ہوتا ہے کہ تعریف کرنے والا محجن بن اورح تھا اور جس کی تعریف کی تھی شاید وہ عبداللہ بن ذوالبجادین ہوگا۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6060   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6060  
6060. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو سنا کہ وہ دوسرے کی تعریف کر رہا تھا ااور تعریف کرتے وقت خوب مبالغہ آمیزی کر رہا تھا، آپ نے فرمایا: تم نے اسے ہلاک کر دیا۔ یا فرمایا تم نے اس کی کمر توڑ دی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6060]
حدیث حاشیہ:
(1)
کسی کی تعریف میں مبالغہ کرنا بے ہودہ شاعروں اور خوشامدی لوگوں کا کام ہے، اس طرح کی تعریف سے دوسرا شخص مغرور ہو جاتا ہے بلکہ وہ جہل مرکب کا شکار ہو کر دنیوی اور دینی کمالات سے محروم رہ جاتا ہے، یہی اس کی ہلاکت اور کمر توڑنا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے منہ پر ان کی تعریف کرنا شروع کر دی تو حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے مٹی اٹھائی اور اس کے منہ پر دے ماری اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
جب تمھارا سامنا ایسے لوگوں سے ہو جو مدح سرائی اور خوشامد کرنے والے ہوں تو ان کے منہ میں مٹی ڈالو۔
(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4804) (2)
اگر کسی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس کے اچھے کام کی مناسب تعریف کر دی جائے تو ان شاء اللہ جائز ہے، اس پر کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ بعض اوقات ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6060