حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ:" تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً، فَجَاءَتِ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُكُمَا، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: وَكَيْفَ وَقَدْ قِيلَ دَعْهَا عَنْكَ أَوْ نَحْوَهُ".
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2660
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے مطابق دودھ کے سلسلے میں ایک ہی دودھ پلانے والی کی گواہی کافی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس گواہی کو کافی سمجھتے ہوئے میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کرا دی، چنانچہ اس گواہی کی بنیاد پر حضرت عقبہ بن حارث ؓ کو رشتۂ ازدواج ختم کرنا پڑا۔
سنن دارقطنی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”اس عورت سے علیحدگی اختیار کر لو کیونکہ اس میں تمہارے لیے کوئی خیر و برکت نہیں ہے۔
“ (سنن الدارقطني: 162/2)
ایک دوسری روایت میں ہے:
حضرت عقبہ بن حارث ؓ نے جب اسے علیحدہ کر دیا تو اس نے کسی اور شخص سے شادی کر لی۔
(صحیح البخاري، الشھادات، حدیث: 2640، وفتح الباري: 332/5)
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2660
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 88
´جب شبہ پیدا ہو گیا تو اب شبہ کی چیز سے بچنا ہی بہتر ہے`
«. . . عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ،" أَنَّهُ تَزَوَّجَ ابْنَةً لِأَبِي إِهَابِ بْنِ عَزِيزٍ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُ عُقْبَةَ وَالَّتِي تَزَوَّجَ، فَقَالَ لَهَا عُقْبَةُ: مَا أَعْلَمُ أَنَّكِ أَرْضَعْتِنِي وَلَا أَخْبَرْتِنِي . . .»
”. . . عقبہ نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا تو ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے عقبہ کو اور جس سے اس کا نکاح ہوا ہے، اس کو دودھ پلایا ہے۔ (یہ سن کر) عقبہ نے کہا، مجھے نہیں معلوم کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے کبھی مجھے بتایا ہے۔ تب عقبہ سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 88]
� تشریح:
عقبہ بن حارث نے احتیاطاً اسے چھوڑ دیا کیونکہ جب شبہ پیدا ہو گیا تو اب شبہ کی چیز سے بچنا ہی بہتر ہے۔ مسئلہ معلوم کرنے کے لیے حضرت عقبہ کا سفر کر کے مدینہ جانا ترجمۃ الباب کا یہی مقصد ہے۔ اسی بنا پر محدثین نے طلب حدیث کے سلسلہ میں جو جو سفر کئے ہیں وہ طلب علم کے لیے بے مثال سفر ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاطاً عقبہ کی جدائی کرا دی۔ اس سے ثابت ہوا کہ احتیاط کا پہلو بہرحال مقدم رکھنا چاہئیے یہ بھی ثابت ہوا کہ رضاع صرف مرضعہ کی شہادت سے ثابت ہو جاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 88
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5104
5104. سیدنا عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے ایک عورت سے نکاح کیا تو ایک سیاپ فام عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ میں اس وقت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: میں نے فلاں عورت سے نکاح کیا تو ایک عورت نے آکر کہا ہے کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، حالانکہ وہ جھوٹ بولتی ہے۔ آپ ﷺ نے میری طرف سے منہ پھیر لیا۔ میں نے آپ کے چہرہ انور کی طرف آکر عرض کی: وہ عورت جھوٹ کہتی ہے نبی ﷺ نے فرمایا: ”اب اس بیوی سے کیے نکاح رہ سکے گا جبکہ اس عورت نے تمہیں دودھ پلانے کی شہادت دی ہے؟ اس عورت کو اپنے سے الگ کردو۔“ (راوی حدیث) اسماعیل بن علیہ نے اپنی شہادت اور درمیان والی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا کہ شیخ محترم نے اس طرح اشارہ کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5104]
حدیث حاشیہ:
اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارہ کو بتایا تھا۔
انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ نقل کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلیوں سے بھی اشارہ کیا اور زبان سے بھی فرمایا کہ اس عورت کو چھوڑ دے جو لوگ کہتے ہیں کہ رضاعت صرف مرضعہ کی شہادت سے ثابت نہیں ہوتی وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ نے احتیاطاً یہ حکم فرمایا تھا۔
مگر ایسا کہنا ٹھیک نہیں، حلال و حرام کا معاملہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شہادت کو تسلیم کر کے عورت کو جدا کرا دیا یہی صحیح ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5104
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2052
2052. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں (میاں بیوی) کو دودھ پلایا ہے۔ اس نے نبی کریم ﷺ سے ذکر کیا تو آپ نے اس سے منہ پھیر لیا اور مسکراتے ہوئے فرمایا: ”تم اس عورت کو (بطور بیوی) کیسے رکھ سکتے ہوجبکہ تمہارے بارے میں ایسا کہا گیا ہے؟“ حضرت عقبہ بن حارث ؓ کی بیوی ابو اہاب تمیمی کی بیٹی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2052]
حدیث حاشیہ:
ترمذی کی روایت میں ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ جھوٹی ہے، آپ نے منہ پھیر لیا، پھر آپ کے منہ کے سامنے آیا اور عرض کی یا رسول اللہ! وہ جھوٹی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا، اب تو اس عورت کو کیسے رکھ سکتا ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ایک عورت نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔
یہ حدیث اوپر کتاب العلم میں گزر چکی ہے۔
یہاں حضرت امام بخاری ؒ اس لیے لائے کہ گو اکثر علماء کے نزدیک رضاع ایک عورت کی شہادت سے ثابت نہیں ہوسکتا مگر شبہ تو ہو جاتا ہے اور آنحضرت ﷺ نے شبہ کی بنا پر عقبہ ؓ کو یہ صلاح دی کہ اس عورت کو چھوڑ دے۔
معلوم ہوا کہ اگر شہادت کامل نہ ہو یا شہاد ت کے شرائط میں نقص ہو تو معاملہ مشتبہ رہتا ہے لیکن مشتبہ سے بچے رہنا تقویٰ اور پرہیزگاری ہے۔
ہمارے امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک تو رضاع صرف مرضعہ کی شہادت سے ثابت ہو جاتا ہے۔
(وحیدی)
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
و وجه الدلالة منه قوله کیف و قد قیل یشعر بأن أمرہ بفراق امرأته إنما کان لأجل قول المرأة إنها رضعتهما فاحتمل أن یکون صحیحاً فیرتکب الحرام فأمرہ بفراقها احتیاطا علی قول الأکثر و قیل بل قبل شهادة المراة وحدها علی ذلك۔
یعنی ارشاد نبوی کیف قیل سے مقصد باب ثابت ہوتاہے جس سے ظاہرہے کہ آپ ﷺ نے عقبہ ؓ کو اس عورت سے جدائی کا حکم صادر فرمایا۔
دودھ پلانے کی دعوے دار عورت کے اس بیان پر کہ میں نے ان دونوں کو دودھ پلایا ہے۔
احتمال ہے کہ اس عورت کا بیان صحیح ہو اور عقبہ حرام کا مرتکب ہو۔
اس لیے احتیاطاً جدائی کا حکم دے دیا۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ نے اس عورت کی شہادت کو قبول فرما لیا، اور اس بارے میں ایک ہی شہادت کو کافی سمجھا۔
حضرت امام ؒنے اس واقعہ سے بھی یہ ثابت فرمایا ہے کہ مشتبہ امور میں ان سے پرہیز ہی کا راستہ سلامتی اور احتیاط کا راستہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2052
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2640
2640. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انھوں نے ابو اہاب بن عزیز کی دختر سے نکاح کیا تو اس کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی۔ میں نے عقبہ اور اس کی منکوحہ (دونوں)کو دودھ پلایا ہے۔ حضرت عقبہ ؓ نے کہا: مجھے معلوم نہیں کہ تونے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تم نے (اس سے پہلے) مجھے خبر دی ہے، پھر انھوں نے ابو اہاب کے خاندان کی طرف صورت حال کی وضاحت کے لیے پیغام بھیجا تو انھوں نے لا علمی کا اظہار کیا کہ اس عورت نے ہماری بیٹی کو دودھ پلایا ہو۔ حضرت عقبہ ؓ سوار ہو کر مدینہ طیبہ میں نبی ﷺ سے مسئلہ دریافت کرنے کے لیے حاضر ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اب تم اسے کیسے رکھ سکتے ہو، جبکہ (رضاعت کی) بات کہی جا چکی ہے۔“ چنانچہ حضرت عقبہ ؓ نے اس خاتون سے علیحدگی اختیار کر لی اور اس نے کسی اور سے نکاح کر لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2640]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس طرح ثابت ہوا کہ عقبہ اور اس کی اہلیہ کے عزیز کا بیان نفی میں تھا اور دودھ پلانے والی عورت کا بیان اثبات میں تھا۔
آنحضرت ﷺ نے اسی عورت کی گواہی قبول فرمائی۔
معلوم ہوا کہ گواہی میں اثبات نفی پر مقدم ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2640
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2659
2659. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے ام یحییٰ بنت ابواہاب سے شادی کرلی تو ایک سیاہ فام لونڈی آئی اور کہنے لگی: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ میں نے جب نبی کریم ﷺ سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ نے اپنا رخ دوسری طرف پھیرلیا، چنانچہ میں بھی اس طرف سے ہٹ گیا۔ پھر میں نے دوبارہ آپ سے اسی بات کاذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”اب یہ کیسے ہوسکتاہے جبکہ اس عورت کا دعویٰ ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایاہے؟“ پھرآپ نے حضرت عقبہ ؓ کو اس رشتے سے روک دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2659]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں ذکر ہے کہ ایک لونڈی کی شہادت آنحضرت ﷺ نے قبول فرمائی اور اس کی بنا پر ایک صحابی عقبہ بن حارث ؓ اور ان کی عورت میں جدائی کرادی، معلوم ہوا کہ لونڈی غلاموں کی شہادت قبول کی جاسکتی ہے، جو لوگ اس کے خلاف کہتے ہیں ان کا قول درست نہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2659
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 973
´دودھ پلانے کا بیان`
سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ام یحییٰ بنت ابی اھاب رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا تو ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ عقبہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اب تم اسے کس طرح اپنے نکاح میں رکھ سکتے ہو جبکہ رضاعت کی اطلاع دے دی گئی ہے۔“ چنانچہ عقبہ نے اس عورت کو جدا کر دیا اور اس خاتون نے دوسرے آدمی سے نکاح کر لیا۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 973»
تخریج: «أخرجه البخاري، النكاح، باب شهادة المرضعة، حديث:5104.»
تشریح:
راویٔ حدیث: «حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ» ابوسروعہ‘
(”سین“ کے نیچے کسرہ‘ ”را“ ساکن اور ”واؤ“ پر فتحہ ہے۔
) عقبہ بن حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف مکی۔
مشہور صحابی ہیں۔
فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہونے والوں میں سے ہیں۔
پچاس ہجری کے بعد تک زندہ رہے۔
وضاحت:
«ام یحییٰ» ان کا نام غَنِیَّہ ہے۔
(”غین“ پر فتحہ ”نون“ کے نیچے کسرہ اور ”یا“ پر تشدیدہے۔
) غنیہ بنت ابی اہاب بن عویر تمیمی۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا نام زینب تھا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 973
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3332
´رضاعت کی گواہی کا بیان۔`
عقبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے نکاح کیا تو ہمارے پاس ایک حبشی عورت آئی اور اس نے کہا کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو بتایا کہ میں نے فلان بنت فلاں سے شادی کی ہے پھر میرے پاس ایک حبشی عورت آئی، اس نے کہا: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، (یہ سن کر) آپ نے اپنا چہرہ مجھ سے پھیر لیا ۱؎ تو میں پھر آپ کے چہرے کی طرف سے سامنے آیا اور میں نے کہا: وہ جھوٹی ہے، آپ نے فرمایا: ”تم اسے کیسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3332]
اردو حاشہ:
(1) روایت کچھ مختصر ہے۔ یہ عقبہ بن عامر مکے میں رہتے تھے۔ یہ واقعہ فتح مکہ کے بعد کا ہے۔ یہ مسئلہ پیش آیا تو وہ اطمینان قلب کے لیے رسول اللہﷺ کے پاس مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور آپ کے فرمان پر عمل کیا۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْه وَأَرْضَاہُ۔
(2) ”اسے چھوڑ دے“ کیونکہ رضاعت ایک پوشیدہ چیز ہے۔ اس کے گواہ ممکن نہیں‘ نہ ایسے مواقع پر گواہ بنائے ہی جاسکتے ہیں‘ لہٰذا رضاعت پر گواہی طلب کرنا فضول ہے بلکہ مُرْضِعَۃ کی بات معتبر ہوگی۔ جس طرح پیدائش کے بارے میں دائی کی بات ہی معتبر ہوتی ہے اور اس سے گواہ طلب نہیں کیے جاتے۔ ان مواقع پر گواہی کو ضروری قراردینا بہت سی یقینی باتوں کو جھٹلانے کے مترادف ہوگا‘ اس لیے رسول اللہﷺ نے وہ نکاح فسخ کرنے کا حکم دیا۔ اگرچہ اس عورت کی تصدیق کسی نے بھی نہیں کی۔
(3) شبہات سے اجتناب کرنا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3332
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3603
´رضاعت (دودھ پلانے) کی گواہی کا بیان۔`
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عقبہ بن حارث نے اور میرے ایک دوست نے انہیں کے واسطہ سے بیان کیا اور مجھے اپنے دوست کی روایت زیادہ یاد ہے وہ (عقبہ) کہتے ہیں: میں نے ام یحییٰ بنت ابی اہاب سے شادی کی، پھر ہمارے پاس ایک کالی عورت آ کر بولی: میں نے تم دونوں (میاں، بیوی) کو دودھ پلایا ہے ۱؎، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے چہرہ پھیر لیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ عورت جھوٹی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کیا معلوم؟ اسے جو کہنا تھا اس نے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3603]
فوائد ومسائل:
فائدہ: رضاعت کے مسئلے میں بالخصوص اکیلی عورت کی گواہی اور خبر معتبر اورکافی ہے۔
جیسے کہ پیدائش کے وقت بچے کے زندہ ہونے کے بارے میں ایک دایہ کی گواہی معتبر اور کافی ہوتی ہے۔
تاہم خبر یا گواہی دینے والی کا معتمد اور موثوق ہونا شرط ہے۔
علمائے کرام نے خبر اور گواہی میں فرق کیا ہے۔
گواہی ہمیشہ حاکم اور قاضی کے روبرو ہوتی ہے۔
اس وجہ سے ان مسائل کی تفصیلات میں مختلف ہائے نظر موجود ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3603
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1151
´رضاعت کے سلسلہ میں ایک عورت کی گواہی کا بیان۔`
عقبہ بن حارث رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی تو ایک کالی کلوٹی عورت نے ہمارے پاس آ کر کہا: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا کہ میں نے فلاں کی بیٹی فلاں سے شادی کی ہے، اب ایک کالی کلوٹی عورت نے آ کر کہا کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، وہ جھوٹ کہہ رہی ہے۔ آپ نے اپنا چہرہ مجھ سے پھیر لیا تو میں آپ کے چہرے کی طرف سے آیا، آپ نے (پھر) اپنا چہرہ پھیر لیا۔ میں نے عرض کیا: وہ جھوٹی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ وہ کہہ چکی ہے کہ اس نے تم دونوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1151]
اردو حاشہ:
وضاخت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رضاعت کے ثبوت کے لیے ایک مرضعہ کی گواہی کافی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1151
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:590
590- سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔میں نے سیدنا ابواہاب رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کے ساتھ شادی کر لی تو ایک سیاہ فام عورت آئی اور بولی۔ میں نے تم دونوں(میاں،بیوی) کو دودھ پلایا ہے۔(سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں)میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دائیں طرف سے حاضر ہوا۔میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اعراض کیا۔ پھر میں بائیں طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر مجھ سے اعراض کیا۔پھر میں سامنے کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آیا۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ دریافت کیا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:590]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رضاعی رشتہ حرام ہے، رضاعی بھائی بہن کی شادی نہیں ہو سکتی، اگر غلطی سے ہو بھی جائے تو ان کو الگ الگ کر دینا چاہیے، یہی حدیث صحیح البخاری (2659) میں ہے اور اس میں وضاحت ہے کہ عقبہ نے اس عورت کو جدا کر دیا اور اس خاتون نے دوسرے مرد سے نکاح کر لیا۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ مسئلہ رضاعت میں دودھ پلانے والی عورت کی بات قبول کی جائے گی۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 590
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:88
88. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی سے نکاح کیا تو ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے عقبہ اور اس کی بیوی کو دودھ پلایا ہے۔ حضرت عقبہ نے کہا: مجھے تو علم نہیں کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ پہلے تو نے اس کی خبر دی۔ پھر حضرت عقبہ سوار ہو کر رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینہ منورہ آ گئے اور آپ سے مسئلہ پوچھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(تو اس عورت سے) کیسے (صحبت کرے گا) جب کہ ایسی بات کہی گئی ہے؟“ آخر عقبہ نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور اس نے کسی دوسرے شخص سے نکاح کر لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:88]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی ایسی صورتحال سامنے آ جائے جس کا حکم معلوم نہ ہو تو اس کے متعلق شرعی حکم معلوم کرنا اور اس کےلیے سفر کرنا ضروری ہے، اپنے نظریے کے مطابق عمل کرلینا درست نہیں۔
2۔
اس حدیث سے ان شبہات کی وضاحت ہوتی ہے جن سے اجتناب کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی چیز کے متعلق شبہ پڑ جائے تو اس سے بچنا ہی بہتر ہے۔
احتیاط کا پہلو بہرحال مقدم رکھنا چاہیے۔
بعض حضرات نے اس مقام پر فتویٰ اور تقویٰ کی بحث کو چھیڑا ہے، یعنی فتویٰ تو یہی ہے کہ ایک عورت کی گواہی سے بیوی خاوند کے درمیان تفریق نہ کرائی جائے، البتہ تقویٰ کا تقاضا ہے کہ اب انھیں اکٹھا نہیں رہنا چاہیے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کی گواہی سے تفریق کا فتویٰ صادر فرمایا۔
اس کی مکمل وضاحت کتاب الرضاعہ میں آئے گی۔
3۔
حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس عورت سے شادی کی تھی اس کا نام ام یحییٰ غنیۃ تھا جو ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی تھی اورتفریق کے بعد اس نے ظریب بن حارث سےشادی کر لی تھی اور جس عورت نے دودھ کے متعلق گواہی دی اس کا نام معلوم نہیں ہوسکا۔
(فتح الباري: 244/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 88
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2052
2052. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں (میاں بیوی) کو دودھ پلایا ہے۔ اس نے نبی کریم ﷺ سے ذکر کیا تو آپ نے اس سے منہ پھیر لیا اور مسکراتے ہوئے فرمایا: ”تم اس عورت کو (بطور بیوی) کیسے رکھ سکتے ہوجبکہ تمہارے بارے میں ایسا کہا گیا ہے؟“ حضرت عقبہ بن حارث ؓ کی بیوی ابو اہاب تمیمی کی بیٹی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2052]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان سے مقصود شبہ اور وسوسے کے درمیان فرق کی وضاحت کرتا ہے کہ شبہ کو چھوڑ دینا مستحب ہے جبکہ وسوسے کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔
(2)
شبہ کسی قوی یا کمزور دلیل سے پیدا ہوتا ہے جیسا کہ حدیث مذکور سے پتہ چلتا ہے کہ دودھ پلانے کے سلسلے میں اگر کسی عورت نے گواہی دی تو اسے تسلیم کیا جائے گا کیونکہ خبر دینے والی مسلمان ہے اور مسلمان ہمیشہ سچ بولتا ہے،چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عقبہ بن حارث ؓ کو شبہ سے بچنے کے لیے فرمایا:
”تم اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرلو۔
“ اگرچہ ایک عورت کے کہنے سے حتمی حکم ثابت نہیں ہوتا، تاہم شبہ کے لیے ایک عورت کی شہادت ہی کافی ہے،اس لیے تقوے کے طور پر اس عورت کو نکاح میں رکھنے سے پرہیز کرنا اچھا ہے۔
وسوسے کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص خراسان کا رہنے والا ہے وہ بغداد جائے جبکہ اس کا والد بغداد میں رہ چکا ہوتو وہ بغداد میں شادی کرنے سے اس لیے پرہیز کرے کہ شاید اس کے باپ نے بغداد میں شادی کی ہو اور جس عورت سے یہ خراسانی شادی کرنا چاہتا ہے وہ اس کے باپ کی بیٹی اور اس کی بہن ہو۔
شریعت میں اس طرح کے وسوسوں کی کوئی حیثیت نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2052
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2640
2640. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انھوں نے ابو اہاب بن عزیز کی دختر سے نکاح کیا تو اس کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی۔ میں نے عقبہ اور اس کی منکوحہ (دونوں)کو دودھ پلایا ہے۔ حضرت عقبہ ؓ نے کہا: مجھے معلوم نہیں کہ تونے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تم نے (اس سے پہلے) مجھے خبر دی ہے، پھر انھوں نے ابو اہاب کے خاندان کی طرف صورت حال کی وضاحت کے لیے پیغام بھیجا تو انھوں نے لا علمی کا اظہار کیا کہ اس عورت نے ہماری بیٹی کو دودھ پلایا ہو۔ حضرت عقبہ ؓ سوار ہو کر مدینہ طیبہ میں نبی ﷺ سے مسئلہ دریافت کرنے کے لیے حاضر ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اب تم اسے کیسے رکھ سکتے ہو، جبکہ (رضاعت کی) بات کہی جا چکی ہے۔“ چنانچہ حضرت عقبہ ؓ نے اس خاتون سے علیحدگی اختیار کر لی اور اس نے کسی اور سے نکاح کر لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2640]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے مطابق دودھ پلانے والی عورت نے رضاعت کو ثابت کیا، لیکن حضرت عقبہ بن حارث ؓ اور ان کی بیوی کے اہل خانہ نے اس کی نفی کی۔
رسول اللہ ﷺ کے پاس جب معاملہ گیا تو آپ نے اس عورت کی بات کا اعتبار کیا اور حضرت عقبہ بن حارث ؓ کو بیوی سے علیحدہ ہو جانے کا حکم دیا۔
(2)
یہ حکم وجوب کے لیے تھا یا احتیاط اور تقویٰ کے اعتبار سے، بہرحال رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کی گواہی قبول فرمائی۔
معلوم ہوا کہ گواہی کے موقع پر اثبات نفی پر مقدم ہے۔
(3)
دودھ کے متعلق دیگر مسائل و احکام ہم آئندہ کتاب النکاح میں بیان کریں گے، نیز معلوم ہوا کہ جہاں حلت و حرمت کا مسئلہ ہو وہاں احتیاط کا تقاضا ہے کہ وہ چیز اختیار کی جائے جو شک و شبہ سے بالا ہو اور جو چیز شک پیدا کرتی ہو اسے ترک کر دیا جائے۔
مذکورہ واقعہ میں احتیاط کا تقاضا یہی تھا کہ حضرت عقبہ بن حارث ؓ اپنی بیوی کو چھوڑ دیتے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2640
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2659
2659. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے ام یحییٰ بنت ابواہاب سے شادی کرلی تو ایک سیاہ فام لونڈی آئی اور کہنے لگی: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ میں نے جب نبی کریم ﷺ سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ نے اپنا رخ دوسری طرف پھیرلیا، چنانچہ میں بھی اس طرف سے ہٹ گیا۔ پھر میں نے دوبارہ آپ سے اسی بات کاذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”اب یہ کیسے ہوسکتاہے جبکہ اس عورت کا دعویٰ ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایاہے؟“ پھرآپ نے حضرت عقبہ ؓ کو اس رشتے سے روک دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2659]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے ایک لونڈی کی گواہی قبول فرمائی، پھر اس گواہی کی بنیاد پر حضرت عقبہ بن حارث ؓ اور اس کی بیوی ام یحییٰ کے درمیان علیحدگی کرا دی۔
معلوم ہوا کہ اگر لونڈی کی گواہی قابل قبول نہ ہوتی تو اس پر عمل نہ کیا جاتا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2659
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5104
5104. سیدنا عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے ایک عورت سے نکاح کیا تو ایک سیاپ فام عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ میں اس وقت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: میں نے فلاں عورت سے نکاح کیا تو ایک عورت نے آکر کہا ہے کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، حالانکہ وہ جھوٹ بولتی ہے۔ آپ ﷺ نے میری طرف سے منہ پھیر لیا۔ میں نے آپ کے چہرہ انور کی طرف آکر عرض کی: وہ عورت جھوٹ کہتی ہے نبی ﷺ نے فرمایا: ”اب اس بیوی سے کیے نکاح رہ سکے گا جبکہ اس عورت نے تمہیں دودھ پلانے کی شہادت دی ہے؟ اس عورت کو اپنے سے الگ کردو۔“ (راوی حدیث) اسماعیل بن علیہ نے اپنی شہادت اور درمیان والی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا کہ شیخ محترم نے اس طرح اشارہ کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5104]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان سے بھی فرمایا:
اس عورت سے علیحدگی اختیار کر لو اور فراق کے متعلق انگلیوں سے اشارہ بھی فرمایا۔
(2)
کچھ حضرات کا خیال ہے کہ رضاعت کے سلسلے میں ایک عورت کی گواہی قبول نہیں ہوگی۔
وہ اس حدیث کا یہ جواب دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاط کے طور پر یہ حکم دیا مگر ایسا کہنا درست نہیں۔
حلال و حرام کے معاملے میں آپ نے ایک عورت کی شہادت کو قبول کر کے یہ حکم دیا تھا۔
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ رضاعت کے متعلق صرف ایک عورت کی گواہی معتبر ہے جیسا کہ اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔
والله اعلم (3)
وہ عورت جس سے حضرت عقبہ بن حارث نے نکاح کیا تھا وہ ابو اہاب بن عزیز تمیمی کی بیٹی تھی۔
جب سیاہ فام عورت نے دودھ پلانے کی خبر دی تو حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
ہمیں تو اس کا علم نہیں ہے اور نہ تونے اس سے پہلے ہمیں بتایا ہے، پھر انھوں نے سسرال والوں سے دریافت کیا تو انھوں نے بھی بتایا کہ ہم قطعی طور پر اس معاملے سے بے خبر ہیں، پھر انھوں نے مدینہ طیبہ کا سفر اختیار کیا تاکہ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کریں۔
آخر کار انھوں نے اسے چھوڑ دیا تو اس نے کسی دوسرے آدمی سے نکاح کرلیا۔
(صحیح البخاري، الشھادات، حدیث: 2640)
واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے انھی الفاظ کے ساتھ ایک عنوان كتاب الشهادات میں بھی قائم کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5104