سنن نسائي
كتاب الاستعاذة
کتاب: استعاذہ (بری چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگنے) کے آداب و احکام
19. بَابُ : الاِسْتِعَاذَةِ مِنَ الْجُوعِ
باب: بھوک سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5470
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُوعِ فَإِنَّهُ بِئْسَ الضَّجِيعُ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخِيَانَةِ فَإِنَّهَا بِئْسَتِ الْبِطَانَةُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے: «اللہم إني أعوذ بك من الجوع فإنه بئس الضجيع وأعوذ بك من الخيانة فإنها بئست البطانة» ”اے اللہ! میں بھوک سے تیری پناہ مانگتا ہوں کیونکہ وہ برا ساتھی ہے، اور خیانت سے پناہ مانگتا ہوں کیونکہ وہ بری خصلت (عادت) ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 367 (1547)، سنن ابن ماجہ/الأطعمة 53 (3354)، (تحفة الأشراف: 13040) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (1547) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 364
سنن نسائی کی حدیث نمبر 5470 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5470
اردو حاشہ:
(1) بھوک لازمۂ انسان ہے اس سے مفرنہیں‘ لہٰذا اس حدیث میں بھوک سے مراد مطلق بھوک نہیں بلکہ مسلسل بھوک ہے جسے حدیث: 5462 میں فقرکے لفظ سے بیان کیا گیا ہے‘ یعنی انسان کھانے پینے کے لیے اتنا کچھ نہ بھی پا سکے جس سے اپنی بھوک مٹاتا رہے۔ استعارۃ بھوک سے ”حرص“ مراد لی جا سکتی ہے۔ پھر دنیا کی بھوک مراد ہوگی کیونکہ نیکی کی حرص تو اچھی چیز ہے۔ دنیا کی حرص اس لیے مذموم ہے کہ یہ‘ کبھی ختم نہیں ہوتی جب کہ دنیا تھوڑی ہی ہے۔ بادشاہوں کی جوع الارض (مملکت وسیع کرنے کی خوہش) بھی دنیا کی حرص کی صورت ہے جو آخر کار ان کی ہلاکت کا باعث بنتی ہے۔
(2) خیانت حقوق اللہ میں ہو یا حقوق العباد میں‘ قابل مذمت ہے کیونکہ یہ ایمان کے منافی ہے۔ نفاق کی دلیل ہے۔ أعاذنا اللہ منھما۔ آمین
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5470
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 9
´علم، دل، نفس، دعا سے پناہ چاہنا`
”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! میں چار چیزوں، ایسے علم سے جو نفع مند نہ ہو، ایسے دل سے جو ڈرتا نہ ہو، ایسے نفس سے جو سیر نہ ہوتا ہو اور ایسی دعا سے جو سنی نہ جاتی ہو، تیری پناہ چاہتا ہوں۔“ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب العلم/حدیث: 9]
فوائد: نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم مختلف موقعوں پر مختلف دعائیں کیا کرتے تھے اور امت کے لیے اس میں تعلیم بھی ہے کہ اس طرح دعا کیا کریں۔
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں بہت سی دعائیں مذکور ہیں، انسان موقع محل کی مناسبت سے ان میں سے کوئی بھی دعا منتخب کر سکتا ہے۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا چار چیزوں سے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ ذوالجلال کی پناہ مانگتے:
➊۔۔۔ علم کی دو اقسام ہیں ایک علم نافع اور دوسرا غیر نافع۔
٭ علم نافع:
علم نافع وہ ہے جس سے انسان اپنے رب کا تقرب حاصل کرے اور اس کے دین کی معرفت اور حق کے راستہ میں بصیرت حاصل کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے:
«اللَّهُمَّ انْفَعْنِي بِمَا عَلَّمْتَنِي، وَعَلِّمْنِي مَا يَنْفَعُنِي، وَزِدْنِي عِلْمًا» [ترمذي، رقم: 3599]
”اے اللہ! تو مجھے جو علم نصیب فرمائے اس سے مجھے فائدہ پہنچا اور مجھے وہ علم دے جو مجھے فائدہ دے اور میرے علم میں اضافہ فرما۔“
٭ غیر نافع:
جیسا کہ اللہ ذوالجلال نے جادوگروں اور ہاروت وماروت کی سکھائی ہوئی باتوں کے پیچھے چلنے والوں کے متعلق فرمایا:
«وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ» [البقره 102]
”وہ ایسی چیز سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان پہنچاتی ہے اور انہیں فائدہ نہیں دیتی۔“
اسی طرح ناول، افسانے اور گندی باتیں ہیں۔ اس لیے آدمی کو صرف وہ علم سیکھنا چاہیے جو دنیا و آخرت کے لیے نفع دینے والا ہو۔ اور ایسے علم کی دعا کرتے رہنا چاہیے جیسا کہ حدیث میں ہے نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز سے جب فارغ ہوتے تو فرماتے:
«اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا» [ابن ماجه 925]
”اے اللہ میں تجھ سے نفع بخش علم، پاک روزی اور مقبول مل کا سوال کرتا ہوں۔“
➋۔۔۔ مذکورہ حدیث سے خشوع کی بھی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، کیونکہ جس دل میں خوف خدا نہیں وہ نیکیوں میں معاون یا گناہوں سے بچانے والا نہیں بن سکتا۔
➌۔۔۔ سیر نہ ہونے والے نفس سے مراد دنیا کی دولت، شہرت اور منصب وغیرہ کا حریص نفس ہے۔
➍۔۔۔ وہ دعا جو سنی نہ جائے یعنی قبول نہ ہو، مطلب یہ کہ میری دعائیں قبول فرمانا۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ دعائیں دو طرح کی ہیں۔
ایک وہ جو اللہ ذوالجلال کے ہاں قبول ہوتی ہے۔ دوسری جو قبول نہیں ہوتی۔
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 9
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1548
´(بری باتوں سے اللہ کی) پناہ مانگنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من الأربع: من علم لا ينفع، ومن قلب لا يخشع، ومن نفس لا تشبع، ومن دعا لا يسمع» ”اے اللہ! میں چار چیزوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں: ایسے علم سے جو نفع بخش نہ ہو، ایسے دل سے جو تجھ سے خوف زدہ نہ ہو، ایسے نفس سے جو سیر نہ ہو اور ایسی دعا سے جو سنی نہ جائے یعنی قبول نہ ہو۔“ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1548]
1548. اردو حاشیہ: اس دعا میں ایسے علوم جو دین و دنیا کے فوائد سے خالی بلکہ وقت اور صلاحیت ضائع کرنے والے ہوں، ان سے اللہ کی پناہ طلب کی گئی ہے۔ گل وبلبل کی داستانیں اور کاکل و کمر کے افسانے اسی کا حصہ ہیں۔ دین کا بنیادی علم فرائض اور واجبات کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے، مزید اللہ کافضل ہے، حسب صلاحیت کوشش کرنی چاہیے۔ دنیاوی علوم جو فرد اور معاشرے کی اہم ضرورت ہیں، ان کا حصول درست ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1548
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث250
´علم سے نفع اٹھانے اور اس پر عمل کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں یہ دعا بھی تھی: «اللهم إني أعوذ بك من علم لا ينفع ومن دعا لا يسمع ومن قلب لا يخشع ومن نفس لا تشبع» ”اے اللہ! میں اس علم سے پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے، اور اس دعا سے جو سنی نہ جائے، اور اس دل سے جو (اللہ سے) نہ ڈرے، اور اس نفس سے جو آسودہ نہ ہوتا ہو“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 250]
اردو حاشہ:
(1)
دعا بھی ا یک عبادت ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف موقعوں پر مختلف دعائیں کرتے تھے۔
اس میں امت کے لیے تعلیم بھی ہے کہ اس طرح دعا کیا کرو۔
(2)
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں بہت سی دعائیں مذکور ہیں، انسان موقع محل کی مناسبت سے ان میں سے کوئی بھی دعا منتخب کر سکتا ہے۔
ویسے تو اپنے الفاظ میں اور اپنی زبان میں بھی دعا کرنا درست ہے، لیکن زبان رسالت سے جو دعائیں ادا ہوئیں ہیں ان کی سی برکت دوسری دعاؤں میں نہیں ہو سکتی۔
اس کے علاوہ ان الفاظ میں دعا مانگنے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا و اتباع کا جو شرف حاصل ہوتا ہے، وہ دوسرے الفاظ سے نہیں ہو سکتا اگرچہ وہ الفاظ بظاہر کتنے ہی خوبصورت اور عمدہ ہوں۔
(3)
علم نافع، جس کی دعا اس حدیث میں کی گئی ہے، اس سے مراد وہ علم ہے جس پر عمل بھی ہو کیونکہ عمل صالح ہی سے دنیا و آخرت میں فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔
(4)
وہ دعا جو سنی نہ جائے، یعنی قبول نہ ہو۔
اس سے پناہ کا مطلب یہ درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ میری تمام دعائیں قبول فرمائے اور مجھے پورے آداب کے ساتھ ایسی دعا کرنے کی توفیق بخشے جو اللہ کے ہاں شرف قبولیت حاصل کر سکے۔
(4)
”سیر نہ ہونے والے نفس“ سے مراد نیا کی دولت، شہرت، منصب وغیرہ کا حریص نفس ہے۔
زیادہ سے زیادہ علم نافع کی طلب اور موجود علم سے سیر نہ ہونا ایک اچھی خصلت ہے، اس لیے حکم دیا گیا ہے:
﴿وَقُل رَّبِّ زِدْنِى عِلْمًا﴾ (طہ: 114)
”(اے نبی!)
آپ کہیے:
اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔“
(5)
اس میں علم نافع کی فضیلت ہے کیونکہ اس کے لیے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دعا کی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 250
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3837
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من الأربع من علم لا ينفع ومن قلب لا يخشع ومن نفس لا تشبع ومن دعا لا يسمع» ”اے اللہ! میں چار باتوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں: اس علم سے جو فائدہ نہ دے، اس دل سے جو اللہ کے سامنے نرم نہ ہو، اس نفس سے جو آسودہ نہ ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ ہو۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3837]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
اس میں علم پر عمل کی توفیق، تقویٰ اور قناعت کی دعا ہے اور دعا کی قبولیت کی درخواست بھی۔
مومن کو اپنے اندریہ صفات پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اللہ سے اچھی امیدیں رکھنی چاہئیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3837