Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب الاستعاذة
کتاب: استعاذہ (بری چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگنے) کے آداب و احکام
5. بَابُ : الاِسْتِعَاذَةِ مِنَ الْجُبْنِ
باب: بزدلی و کم ہمتی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5447
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مُصْعَبَ بْنَ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: كَانَ يُعَلِّمُنَا خَمْسًا كَانَ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو بِهِنَّ وَيَقُولُهُنَّ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ".
مصعب بن سعد سے روایت ہے کہ سعد رضی اللہ عنہ ہمیں پانچ باتیں سکھاتے تھے، کہتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان الفاظ کے ساتھ دعا مانگتے تھے، آپ فرماتے تھے: «اللہم إني أعوذ بك من البخل وأعوذ بك من الجبن وأعوذ بك أن أرد إلى أرذل العمر وأعوذ بك من فتنة الدنيا وأعوذ بك من عذاب القبر» اے اللہ! میں کنجوسی سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بزدلی سے تیری پناہ مانگتا ہوں، مجبوری و لاچاری والی عمر تک پہنچنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں، دنیا کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں، قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 25 (2822)، الدعوات 37 (6365)، 41 (6370)، 44 (6374)، 56 (6390)، سنن الترمذی/الدعوات 114 (3567)، (تحفة الأشراف: 3932)، مسند احمد (1/183، 186)، والمؤلف برقم: 5480، 5498 و في عمل الیوم وللیلة 53 (132) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

سنن نسائی کی حدیث نمبر 5447 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5447  
اردو حاشہ:
(1) پناہ میں آنے کا مقصود بچاؤ ہے‘ یعنی اے اللہ! مجھے ان چیزوں سے بچا کر رکھنا۔
(2) ذلیل ترین عمرجس میں انسان کی قوتیں جواب دے جائیں۔ انسان کلی طور پر محتاج بن جائے۔ نہ اپنے کام کا رہے نہ کسی کے کام کا‘ یعنی شدید تر ین بڑھاپا۔
(3) دنیا کے فتنے سے مراد گمراہی ہے جس پر عذاب قبر مرتب ہوتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5447   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1539  
´(بری باتوں سے اللہ کی) پناہ مانگنے کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پانچ چیزوں بزدلی، بخل، بری عمر (پیرانہ سالی)، سینے کے فتنے اور قبر کے عذاب سے پناہ مانگا کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1539]
1539. اردو حاشیہ:
➊ یعنی ہمہ قسم کی الجھنوں‘ پریشانیوں اور دکھوں وغیرہ سے اللہ کی پناہ‘ حفاظت اور امان طلب کرنا۔ شریعت سے ثابت تعویذ یہی ہیں جن کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ اور جو لوگ کچھ لکھ لکھا کر اپنے گلے میں ڈال لیتے یا بازو پر باندھ لیتے ہیں رسول اللہﷺ کی تعلیم و توجیہ سے ثابت نہیں ہے لہذا اس سے بچنا چاہیے اور کچھ تو ایسے ہیں کہ ان تعویذات میں کفریہ اور شرکیہ الفاظ وکلمات لکھتے ہیں جو سرا سر جہنم خریدنے کا سودا ہے۔ أعاذنا الله منهم
➋ اس موضوع اور مفہوم کی اور بھی احادیث ہیں ان سب کو دیکھ لیا جائے توزیادہ مفید ہو گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1539   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5499  
´بری عمر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا، تو مقام جمع میں انہیں کہتے ہوئے سنا: سنو! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پانچ چیزوں سے پناہ مانگتے تھے، فرماتے تھے: «‏اللہم إني أعوذ بك من البخل والجبن وأعوذ بك من سوء العمر وأعوذ بك من فتنة الصدر وأعوذ بك من عذاب القبر» اے اللہ! میں بخیلی و کنجوسی اور کم ہمتی و بزدلی سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بری (لاچاری کی) عمر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، سینے (دل) کے فتنے سے تیری پناہ م [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5499]
اردو حاشہ:
تفصیل کےلیے دیکھیے احادیث: 5445،5447،5448
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5499   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5500  
´خوشحالی کے بعد بدحالی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے تو کہتے تھے: «اللہم إني أعوذ بك من وعثاء السفر وكآبة المنقلب والحور بعد الكور ودعوة المظلوم وسوء المنظر في الأهل والمال» اے اللہ! میں سفر کی مشقت و دشواری، سفر سے لوٹنے کے وقت کے رنج و غم، خوشحالی کے بعد بدحالی، مظلوم کی بد دعا، گھربار اور مال میں بری صورت حال سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5500]
اردو حاشہ:
(1) ہر انسان کواپنے اہل وعیال اورمال ومتاع کی ہلاکت وبربادی اوراس کی تباہی وآزمائش سے بچنے کے لیے اللہ عزوجل کے حضور ہر وقت دست بدعا رہنا چاہیے۔
(2) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مظلوم کی دعا اوربددعا قبول ہوتی ہے اس لیے ہر عقیل وفہیم اورباشعور مسلمان مرد وعورت کومظلوم کی دعا حاصل کرنے اوراس کی بددعا سے بچنے کی پوری پوری کوشش کرنی چاہیے نیزظالم اورمظلوم بن جانے سے بچنے کی دعا کرنی چاہیے۔
(3) اس حدیث مبارکہ سےمعلوم ہواکہ مذکورہ ذکرو دعا کا کرنا اورآغاز سفرمیں التزام کرنا مستحب ہے۔ اس کےمتعلق بہت سی احادیث وارد ہیں۔ بعض اہل علم نےان اذکار کوکتابی صورت میں جمع کیا ہےجیسا کہ امام نوری رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب الأذکار۔
(4) واپسی کی غمگین یعنی میں اپںے مقصد میں ناکام ہوکر مغموم واپس لوٹوں۔
(5) نفع کے بعد نقصان یہ جامع الفاظ ہیں جن میں ہر نفع نقصان اورخیروشرآ جاتا ہے، مثلاً: ایمان کے بعد کفر، صحت کےبعد بیماری اورغنی کےبعد فقر وغیرہ۔
(6) مظلوم کی بددعا مقصود یہ ہے کہ میں کسی پرظلم نہ کروں تاکہ مجھے بددعا نہ دے۔
(7) اہل ومال میں برا منظر یعنی میری عدم موجودگی میں ان کا نقصان نہ ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5500   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3844  
´جن چیزوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ چاہی ہے ان کا بیان۔`
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بزدلی، بخیلی، ارذل عمر (انتہائی بڑھاپا)، قبر کے عذاب اور دل کے فتنہ سے پناہ مانگتے تھے۔ وکیع نے کہا: دل کا فتنہ یہ ہے کہ آدمی برے اعتقاد پر مر جائے، اور اللہ تعالیٰ سے اس کے بارے میں توبہ و استغفار نہ کرے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3844]
اردو حاشہ:
فوائد  ومسائل:
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اس کا ایک شاہد الفاظ کے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ صحیح ابن خزیمہ میں صحیح سند سے مروی ہے۔
دیکھئے تحقیق و تخریج حدیث ہذا۔
علاوہ ازیں دیگر محققین نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل حجت ہے۔
مزید تفصیل کےلیے دیکھئے: (المسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: 1/ 290، 291 وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عواد حديث: 3844)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3844