سنن نسائي
كتاب الاستعاذة
کتاب: استعاذہ (بری چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگنے) کے آداب و احکام
2. بَابُ : الاِسْتِعَاذَةِ مِنْ قَلْبٍ لاَ يَخْشَعُ
باب: اللہ کے ڈر سے خالی دل سے اللہ کی پناہ مانگنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5444
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْهُذَيْلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو:" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَعَوَّذُ مِنْ أَرْبَعٍ: مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ، وَدُعَاءٍ لَا يُسْمَعُ، وَنَفْسٍ لَا تَشْبَعُ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چار باتوں سے پناہ مانگتے تھے: ایسے علم سے جو نفع بخش نہ ہو، ایسے دل سے جس میں اللہ کا ڈر نہ ہو، ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو اور ایسے نفس سے جو آسودہ نہ ہو ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 8846)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الدعوات 68 (3482)، مسند احمد (2/16767، 198) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ایک امتی ان چاروں چیزوں سے اس طرح پناہ مانگے «اللٰھم إنی أعوذبک من علم لاینفع ومن قلب لایخشع ومن دعا لایسمع ومن نفس لاتشبع» اسی طرح آگے جہاں بھی یہ آیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں سے پناہ مانگا کرتے تھے وہاں واحد متکلم کا صیغہ بنا لے، جیسے اگلی حدیث میں «أعوذ من الجبن» ۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
سنن نسائی کی حدیث نمبر 5444 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5444
اردو حاشہ:
(1) حدیث میں مذکورہ ان چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے۔
(2) ظاہری معنیٰ مراد نہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ یا اللہ! میرے علم کو مفید بنا۔ دل کو عاجزی اور خشوع والا بنا۔ میری دعائیں قبول فرما اور نفس کو قناعت پسند بنا۔
(3) آپ کا استعاذہ امت کی تعلیم اور اظہار عبودیت کے لیے تھا ورنہ آپ کو یہ پناہ پہلے سے حاصل تھی۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ بندے کو ہر حال میں اللہ تعا لیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے محتاج بن کر رہنا چاہیے۔
(4) علم نافع سے مراد علم کے مطابق عمل ہے کیونکہ علم کا سب سے پہلا فائدہ عالم کو ہونا چاہیے‘ پھر دوسرں کو‘ مثلا: تبلیغ و تعلیم وغیرہ۔
(5) دعا کی قبولیت سے مراد اس پر ثواب حاصل کرنا ہے نہ کہ بعینہٖ بات کا پورا ہو جانا کیوں کہ یہ بہت سے امور میں ممکن نہیں۔
(6) ”نفس کے سیر نہ ہونے“ سے مراد نفس کا حریص اور لالچی ہونا ہے‘ البتہ علم اور ثواب کی حرص اچھی چیز ہے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5444