صحيح البخاري
كِتَاب الشَّهَادَاتِ
کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
11. بَابُ شَهَادَةِ الأَعْمَى، وَأَمْرِهِ وَنِكَاحِهِ وَإِنْكَاحِهِ وَمُبَايَعَتِهِ وَقَبُولِهِ فِي التَّأْذِينِ وَغَيْرِهِ، وَمَا يُعْرَفُ بِالأَصْوَاتِ:
باب: اندھے آدمی کی گواہی اور اس کے معاملہ کا بیان اور اس کا اپنا نکاح کرنا یا کسی اور کا نکاح کروانا یا اس کی خرید و فروخت۔
حدیث نمبر: 2655
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ مَيْمُونٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَقْرَأُ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: رَحِمَهُ اللَّهُ، لَقَدْ أَذْكَرَنِي كَذَا وَكَذَا آيَةً أَسْقَطْتُهُنَّ مِنْ سُورَةِ كَذَا وَكَذَا. وَزَادَ عَبَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَائِشَةَ، تَهَجَّدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي فَسَمِعَ صَوْتَ عَبَّادٍ يُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، أَصَوْتُ عَبَّادٍ هَذَا؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" اللَّهُمَّ ارْحَمْ عَبَّادًا".
ہم سے محمد بن عبید بن میمون نے بیان کیا، کہا ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبر دی، انہیں ہشام نے، انہیں ان کے باپ نے، اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو مسجد میں قرآن پڑھتے سنا تو فرمایا کہ ان پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے مجھے انہوں نے اس وقت فلاں اور فلاں آیتیں یاد دلا دیں جنہیں میں فلاں فلاں سورتوں میں سے بھول گیا تھا۔ عباد بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے اپنی روایت میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ الفاظ زیادہ بیان کیے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں تہجد کی نماز پڑھی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباد رضی اللہ عنہ کی آواز سنی کہ وہ مسجد میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ آپ نے پوچھا عائشہ! کیا یہ عباد کی آواز ہے؟ میں نے کہا جی ہاں! آپ نے فرمایا، اے اللہ! عباد پر رحم فرما۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2655 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2655
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عبداللہ بن یزید یا عباد کی صورت نہیں دیکھی۔
صرف آواز سنی اور اس پر اعتماد کیا، تو معلوم ہوا کہ اندھا آدمی بھی آواز سن کر شہادت دے سکتا ہے۔
اگر اس کی آواز پہچانتا ہو۔
امام زہری یہی بتلارہے ہیں کہ نابینا کی گواہی قبول ہوسکتی ہے جیسے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ہیں۔
بھلا یہ ممکن ہے کہ نابینا ہونے کی وجہ سے کوئی ان کی گواہی قبول نہ کرے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2655
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2655
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کے نزدیک پہلی روایت میں مبہم شخص کی تعیین دوسری روایت سے ہے کہ وہ عباد بن بشر ؓ تھے جبکہ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی روایت کے مبہم شخص حضرت عبداللہ بن یزید ؓ تھے جیسا کہ عبدالغنی بن سعید نے اپنی تالیفات "مبہمات" میں اس کی وضاحت کی ہے، جبکہ آپ کسی سورت سے کچھ آیات بھول گئے تھے تو ان کے پڑھنے سے وہ آیات یاد آ گئیں۔
عباد بن بشر کے پڑھنے سے آیات کا یاد آنا مذکور نہیں ہوا۔
(2)
الغرض رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن یزید یا عباد بن بشر کی صورت نہیں دیکھی محض آواز سنی اور اس پر اعتماد کیا تو ان کے لیے دعا کر دی۔
امام بخاری ؒ نے اس سے استدلال کیا ہے کہ نابینا آدمی بھی آواز سن کر گواہی دے سکتا ہے بشرطیکہ اس کی آواز پہچانتا ہو۔
(فتح الباري: 327/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2655
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1331
´تہجد میں بلند آواز سے قرآت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص رات کی نماز (تہجد) کے لیے اٹھا، اس نے قرآت کی، قرآت میں اپنی آواز بلند کی تو جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ فلاں شخص پر رحم فرمائے، کتنی ایسی آیتیں تھیں جنہیں میں بھول چلا تھا، اس نے انہیں آج رات مجھے یاد دلا دیا۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث ہارون نحوی نے حماد بن سلمہ سے سورۃ آل عمران کے سلسلہ میں روایت کی ہے کہ اللہ فلاں پر رحم کرے کہ اس نے مجھے اس سورۃ کے بعض ایسے الفاظ یاد دلا دیے جنہیں میں بھول چکا تھا اور وہ «وكأين من نبي» (آل عمران: ۱۴۶) والی آیت ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1331]
1331. اردو حاشیہ: توضیح:امام بخاری فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا قرآن کو بھولنا دو طرح سےہوسکتا ہے۔ ایک عارضی، دوسرا دائمی۔ عارضی نسیان بنی آدم کی طبائع میں فطرتاً رکھا گیا ہے، اس میں رسول اللہﷺ بھی شامل ہیں۔ نماز کی رکعات بھول جانے پر آپ فرماتے ہیں:(انما انا بشر انسیٰ کما تنسون) صحیح بخاری، الصلاۃ، حدیث:401 وصحیح مسلم، المساجد، حدیث:572) ” میں بشر ہوں، جیسے تم بھولتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔“ اور اس قسم کے نسیان کاازالہ ہوجاتا ہے، کبھی از خود اور کبھی دوسرے کےیاد دلانے سے اور اللہ عزوجل نے حفاظت قرآن کا ذمہ لیا ہوا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ﴾ سورۃ الحجر:9،” ہم نے اس ذکر کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔“نسیان کی دوسری قسم یہ ہے کہ آپ کے سینے سے ان آیات کا حفظ بالکلیہ ختم کردیا جائے۔ یہ نسخ کی ایک قسم اور صورت ہے۔ارشاد باری تعالی ہے: ﴿سَنُقرِئُكَ فَلا تَنسىٰ ٭إِلّا ما شاءَ اللَّهُ﴾ سورۃ الاعلی 6، 7، ” ہم آپ کو پڑھائیں گے، پھر آپ بھولیں گے نہیں، مگر جو اللہ چاہے۔“ دوسری جگہ فرمایا: ﴿ ما نَنسَخ مِن ءايَةٍ أَو نُنسِها نَأتِ بِخَيرٍ مِنها أَو مِثلِها﴾ سورۃ البقرۃ:106) ” جب کوئی آیت ہم منسوخ کریں یا بھلوا دیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی لے آئیں گے۔“ حدیث میں جس نسیان کا ذکر ہے وہ پہلی صورت ہے جو کوئی عیب نہیں۔(بذل المجہود)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1331
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3970
´باب:۔۔۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رات میں قیام کیا اور (نماز میں) بلند آواز سے قرآت کی، جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ فلاں پر رحم کرے کتنی آیتیں جنہیں میں بھول چلا تھا ۱؎ اس نے آج رات مجھے یاد دلا دیں۔“ [سنن ابي داود/كتاب الحروف والقراءات /حدیث: 3970]
فوائد ومسائل:
1) یہ حدیث پیچھےمیں گزر چکی ہے۔
اس کے فوائد ومسائل بھی ملاخط ہوں۔
اور رسول اللہﷺ کو عارضی طور پر بھول کا لاحق ہو جانا ان کے مقام نبوت کےمنافی نہیں ہے۔
آپ نے فرمایا جیسے تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول جاتاہوں۔
2) کسی پردہ نشین کی شکل دیکھے بغیر اس کی آواز پہچان کر گواہی قبول کرنا جائز ہے، اور اسی طرح قاضی نابینا ہو تواس کا آواز پہچان کر مدعی اور مدعا علیہ کے بیانات سن کر فیصلے کرنا جائز اور درست ہے۔
مگر کلی نسیان کہ حافظہ ہی خراب ہوجائے نبی کے لئے یہ ناممکن ہے۔
3) حدیث میں وارد لفظ (كائن) کئی نسخوں میں کائن بروزن قائم نقل ہوا ہے اور استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید میں وارد میں ایک قراءت کائن بروزن قائم بھی ہے۔
(ترجمہ آیت) بہت سے نبیوں سے ہمرکاب ہو کر بہت سے اللہ والے جہاد کرچکے ہیں، انہیں بھی اللہ کی راہ میں تکلیفیں پہنچیں، لیکن نہ تو انہوں نے ہمت ہاری، نہ سست رہے اور نہ دبے رہے اور اللہ تعالی صبر کرنے والوںہی کو چاہتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3970
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1837
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو ایک آدمی کی قراءت سنی تو فرمایا: ”اللہ اس انسان پر رحم فرمائے! اس نے مجھے فلاں فلاں آیت یاد دلا دی، جسے میں فلاں فلاں سورت سے چھوڑ چکا تھا۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1837]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآنی آیات کی تبلیغ وکتابت کے بعد کسی آیت کو بھول بھی جاتے تھے لیکن یہ بھولنا عارضی ہوتا تھا بعض دفعہ وہ آیت خود ہی دوبارہ ذہن میں آ جاتی تھی اور بعض دفعہ دوسرے سے سن کر اس لیے آپﷺ نے فرمایا تھا:
(أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ)
بشری حیثیت سے میں بھی تمہاری طرح بھول جاتا ہوں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1837
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1838
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ایک آدمی کی قراءت پر کان دھرے ہوئے تھے تو آپﷺ نے فرمایا: ”اللہ اس پر رحم فرمائے، اس نے مجھے فلاں آیت یاد دلا دی ہے جو مجھے بھلا دی گئی تھی۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1838]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں رات کو تہجد پڑھنے والے دو آدمیوں کی آواز مسجد سے سنی،
ایک آواز پہچان لی کہ یہ عباد بن بشر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ان کو بھی دعا دی اور دوسرے صحابی عبداللہ بن یزید انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز بھی سنی،
لیکن ان کو پہچان نہ سکے آیت یاد دلانے والے یہی تھے ان کے حق میں بھی دعا فرمائی اور اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رات کو مسجد میں بلند آواز سے قراءت کرنا جائز ہے۔
بشرط یہ کہ یہ ریاءوسمع یا خود پسندی کے لیے نہ ہو،
اور دوسروں کے لیے تکلیف یا ان کی عبادت میں خلل اندوزی کا باعث نہ بنے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1838
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5038
5038. سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو سنا وہ رات کے وقت ایک سورت پڑھ رہاتھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی اس پر رحم کرے! اس نے مجھے فلاں فلاں آیت یاد دلا دی جو مجھے فلاں فلاں سورت سے بھلا دی گئی تھی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5038]
حدیث حاشیہ:
1۔
قرآن مجید کا یاد ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اسے بھول جانا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، البتہ اسے یاد رکھنے کی کوشش کرنا اور پڑھتے رہنا انسان کے اختیار میں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت قرآن مجید کی تلاوت فرمایا کرتے کہ کہیں یہ بھول نہ جائے۔
کوشش کے باوجود اگر کوئی بھول جائے تو قابل ملامت نہیں ہے۔
2۔
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی نسیان طاری ہو جاتا تھا، شرعی قوانین جاری کرنے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا، ہاں تبلیغی اور تعلیمی امور میں نسیان نہیں ہوتا تھا، البتہ آپ نسیان پر برقرار رہنے نہ رہتے بلکہ دوسرے اوقات میں نسیان ختم ہو جاتا تھا۔
قرآن مجید کے متعلق جان بوجھ کر غفلت اختیار کرنا اور اس کی تلاوت میں سستی کرنا، جو نسیان کا باعث ہے، جائز نہیں۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5038
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5042
5042. سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک قاری سے سنا جبکہ وہ رات کے وقت مسجد میں قرآن پڑھ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی اس پر رحم کرے! اس نے مجھے فلاں فلاں آیت یاد دلا دی جو میں فلاں فلاں سورت سے چھوڑ گیا تھا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5042]
حدیث حاشیہ:
متقدمین کی ایک جماعت نے اسی احتیاط پر عمل کیا ہے کہ سورہ بقرہ وغیرہ نہ کہا جائے لیکن اس کے جواز کے لیے مذکورہ حدیث کافی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5042
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6335
6335. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک صحابی کو مسجد میں قرآن کریم پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا: ”اللہ اس پر رحم کرے! اس نے مجھے فلاں فلاں آیت یاد دلا دی ہے جو میں فلاں فلاں سورت سے بھول گیا تھا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6335]
حدیث حاشیہ:
1)
قرآن کریم میں ہے:
''ہم آپ کو پڑھائیں گے جسے آپ نہیں بھولیں گے مگر جو اللہ چاہے گا۔
'' (الأعلیٰ: 87)
اس آیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نسیان طاری ہو سکتا ہے لیکن وہ نسیان جاری نہیں رہتا تھا بلکہ جلدی ختم ہو جاتا تھا۔
وہ صحابی حضرت عباد بن بشر ہیں جن کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔
(فتح الباري: 166/11) (2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود اس حدیث سے صرف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف صحابی کے لیے دعا فرمائی، خود کو اس میں شریک نہیں کیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6335