Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الشَّهَادَاتِ
کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
10. بَابُ مَا قِيلَ فِي شَهَادَةِ الزُّورِ:
باب: جھوٹی گواہی کے متعلق کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 2654
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ ثَلَاثًا؟ قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَجَلَسَ وَكَانَ مُتَّكِئًا، فَقَالَ: أَلَا وَقَوْلُ الزُّورِ"، قَالَ: فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ سَكَتَ. وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے اور ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کو سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں؟ تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا۔ صحابہ نے عرض کیا، ہاں یا رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ کا کسی کو شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا، ہاں اور جھوٹی گواہی بھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملے کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ ہم کہنے لگے کاش! آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو جاتے۔ اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے جریری نے بیان کیا، اور ان سے عبدالرحمٰن نے بیان کیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2654 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2654  
حدیث حاشیہ:
آپ کو بار بار یہ فرمانے میں تکلیف ہورہی تھی، صحابہ نے شفقت کی راہ سے یہ چاہا کہ آپ بار بار فرمانے کی تکلیف نہ اٹھائیں۔
خاموش ہورہیں جبکہ آپ کئی بار فرماچکے ہیں۔
علماءنے گناہوں کو صغیرہ اور کبیرہ دو قسموں میں تقسیم کیا ہے، جس کے لیے دلائل بہت ہیں۔
کچھ کا ایسا خیال ہے کہ صغیرہ گناہ کوئی نہیں، گناہ سب ہی کبیرہ ہیں۔
امام غزالی فرماتے ہیں:
إنکارالفرق بین الکبیرة والصغیرة لا یلیق بالفقیه۔
یعنی دین کی سمجھ رکھنے والوں کے لیے مناسب نہیں کہ وہ کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کے فرق کا انکار کریں۔
آپ ﷺ نے جھوٹی گواہی کو بار بار اس لیے ذکر فرمایا کہ یہ بہت ہی بڑا گناہ ہے۔
اور بہت سے مفاسد کا پیش خیمہ، آپ کا مقصد تھا کہ مسلمان ہرگز اس کا ارتکاب نہ کریں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2654   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2654  
حدیث حاشیہ:
(1)
کبائر سے مراد بہت بڑے گناہ ہیں جن سے شریعت نے منع کیا ہے اور انہیں عمل میں لانے پر بہت سخت وعید سنائی ہے۔
ان احادیث میں چار بڑے بڑے گناہوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
ان میں سے چوتھا گناہ جسے بیان کرنے سے پہلے آپ نیم دراز تھے، پھر اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا:
وہ جھوٹی گواہی کا گناہ ہے۔
(2)
عدالتوں میں فیصلے کا دارومدار گواہوں کے بیانات پر ہوتا ہے۔
ایسے حالات میں جھوٹی گواہی دے کر غلط فیصلے کا باعث بننا نامعلوم کتنے خاندانوں کا خون کرنا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے جھوٹی گواہی کی سنگینی اس بنا پر اہتمام سے بیان کی کہ لوگ اس جرم میں بہت بے باک ہوتے ہیں، نیز اس کے نقصان کی لپیٹ میں بے شمار لوگ آ جاتے ہیں، اس لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ اس سے بچے۔
حدیث میں صرف جھوٹی گواہی کا ذکر ہے کیونکہ اس کے ذریعے سے غیر مستحق کے لیے حق ثابت کیا جاتا ہے اور حق دار کا حق تباہ کیا جاتا ہے اور حق کی گواہی چھپانے سے بھی مستحق کا حق تباہ ہوتا ہے، اس لیے ایک کے ذکر کو دوسرے کے لیے کافی خیال کیا گیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2654   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1206  
´شہادتوں (گواہیوں) کا بیان`
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹی گواہی کو بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے۔ بخاری و مسلم کی لمبی حدیث میں ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1206»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الشهادات، باب ما قيل في شهادة الزور، حديث:2654، ومسلم، الإيمان، باب الكبائر وأكبرها، حديث:87.»
تشریح:
1. اس حدیث کی رو سے معلوم ہوا کہ کبیرہ گناہ بہت سے ہیں‘ مثلاً: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا‘ والدین کی نافرمانی کرنا‘ میدان کارزار سے فرار ہونا‘ پاک دامن خاتون کی عصمت پر تہمت لگانا اور جھوٹی گواہی دینا وغیرہ۔
2. صحیحین کی ایک روایت کے مطابق‘ جھوٹی گواہی دینا صرف کبیرہ گناہوں میں نہیں بلکہ اکبرالکبائر میں شامل ہے۔
3.کبیرہ گناہ وہ ہے جس کی شریعت نے سزا مقرر کی ہو یا عذاب آخرت کی وعید دی گئی ہو۔
4.عدالتوں میں جھوٹی گواہی کا سلسلہ اگر بند ہو جائے تو انصاف نہایت ارزاں اور جلد مل جائے۔
عدالتی نظام کے فساد کی جڑ جھوٹی گواہی اور رشوت ہے۔
اس نظام کو ان دو بڑی خرابیوں سے پاک کر دیا جائے تو معاشرے میں امن و سلامتی کی بہاریں آجائیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1206   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 259  
عبدالرحمٰن بن ابی بکرہؒ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے تو آپؐ نے تین دفعہ فرمایا: کیا میں تمھیں کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ کی خبر نہ دوں؟ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، جھوٹی شہادت دینا یا جھوٹی بات کرنا۔ اور رسول اللہ ﷺ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے تو آپؐ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور آخری بات کو مسلسل دہراتے رہے حتّٰی کہ ہم نے (جی میں) کہا اے کاش! آپؐ خاموش ہو جائیں۔ (آپؐ کا جوش ٹھنڈا ہو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:259]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اللہ تعالیٰ کی مخالفت معصیت کے اعتبار سے ہر گناہ بڑا ہے،
لیکن گناہوں کی باہمی نسبت کے اعتبار تمام گناہ یکساں نہیں ہیں،
ظاہر ہے جن گناہوں کی سزا ہے یا ان کا گناہ وجرم سنگین ہے یا ان کا نقصان اور اثر بد زیادہ ہے وہ بڑے ہوں گے،
جن کی سزا سنگینی یا نقصان اور بد اثرات یا دائرہ اثر محدود ہے وہ چھوٹے ہوں گے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 259   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6919  
6919. حضرت ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: سب سے بڑا گناہ اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک کرنا ہے پھر والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا ہے اور جھوٹی گواہی دینا ہے۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ دہرائی۔ یا فرمایا: جھوٹی بات کرنا ہے۔ پھر بار بار یہی فرماتے رہے حتیٰ کہ ہم نے آرزو کی: کاش! آپ خاموش ہو جائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6919]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں شرک کو اکبر الکبائر کہا گیا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرک پر جنت کو حرام قرار دیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کررکھی ہے۔
اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔
(المائدة: 5: 72)
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل کو اکبر الکبائر اور زنا کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے، دراصل ہر مقام میں حدیث اپنے مقتضیٰ کے مطابق اور حاضرین کے حال کے مناسب ذکر کی جاتی ہے بہرحال شرک کے اکبر الکبائر ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔
(عمدةالقاري: 195/16)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6919