Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب الزاينة (من المجتبى)
کتاب: زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
113. بَابُ : ذِكْرِ مَا يُكَلَّفُ أَصْحَابُ الصُّوَرِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
باب: قیامت کے دن تصویریں اور مجسمے بنانے والے اس میں روح پھونکنے کے مکلف کیے جائیں گے۔
حدیث نمبر: 5364
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ أَصْحَابَ هَذِهِ الصُّوَرِ يُعَذَّبُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَيُقَالُ لَهُمْ: أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ یہ تصویریں بنانے والے قیامت کے دن عذاب پائیں گے اور ان سے کہا جائے گا: زندگی عطا کرو اسے جسے تم نے بنایا تھا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 40 (2105)، بدء الخلق 7 (3224)، النکاح 76 (5181)، اللباس 92 (5957)، والتوحید 56 (7557)، سنن ابن ماجہ/التجارات 5 (2151)، (تحفة الأشراف: 17557)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/اللباس26 (2107)، مسند احمد (6/70، 80، 223، 246) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

سنن نسائی کی حدیث نمبر 5364 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5364  
اردو حاشہ:
اور کہا جائے گا گویا عذاب اس کے علاوہ بھی ہوگا۔ اور یہ کہنا الگ عذاب ہوگا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5364   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5535  
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو تصویریں بناتے ہیں، انہیں قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا، ان سے کہا جائے گا، جن کی تم نے تخلیق کی تھی، ان کو زندہ کرو۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5535]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بے جان تصویر یا مجسم میں زندگی پیدا کرنا یا اس کو زندگی بخشنا انسان کے لیے ممکن نہیں ہے،
اس لئے اس سے مقصود سرزنش و توبیخ اور عذاب کی طوالت ہے،
اس لیے بعض روایات میں تصریح موجود ہے،
وہ ان میں زندگی پیدا نہیں کر سکے گا،
یا روح نہیں پھونک سکے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5535   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5951  
5951. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو لوگ یہ تصاویر بناتے ہیں انہیں قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا۔ ان سے کہا جائے گا جو تم نے بنایا ہے اس میں روح بھی ڈالو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5951]
حدیث حاشیہ:
مراد وہ مورتیں ہیں جو پوجنے کے لیے بنائی جائیں ایسی مورتیں بنانے والے کافر ہیں وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اگر پوجنے کے لیے نہ بنائیں تب بھی جاندار کی مورت بنانا کبیرہ گناہ ہے، اس کو سخت عذاب ہو گا بے جان اشیاء کی تصویر بنانا حرام نہیں ہے مگر جاندار کا فوٹو کھینچنا بھی نا جائز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5951   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5951  
5951. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو لوگ یہ تصاویر بناتے ہیں انہیں قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا۔ ان سے کہا جائے گا جو تم نے بنایا ہے اس میں روح بھی ڈالو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5951]
حدیث حاشیہ:
(1)
جاندار کی تصویر بنانا حرام اور کبیرہ گناہ ہے لیکن جو ایسی تصاویر بناتے ہیں جن کی عبادت کی جاتی ہے وہ تو سرے سے کافر ہیں اور ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بنیں گے۔
اگر عبادت کے لیے نہ ہو تو بھی سخت ترین سزا سے دوچار ہوں گے جیسا کہ حدیث میں ہے، پھر اس میں بھی کوئی امتیاز نہیں کہ تصویر کپڑے پر ہو یا کاغذ پر یا کسی سکے پر نقش ہو یا کسی دیوار پر کندہ ہو، سب کے لیے مذکورہ وعید ہے۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تین قسم کی تصاویر تھیں:
٭لکڑی اور پتھروں کے بت بنائے جاتے، جنہیں تمثال کہا جاتا تھا۔
ان کا باقاعدہ جسم ہوتا تھا اور انہیں عبادت کے لیے تراشا جاتا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق حکم دیا کہ اس قسم کی مورتیوں کو توڑ دیا جائے۔
ان کا تراشنا اور ان کا رکھنا حرام ہے۔
٭کپڑوں پر تصاویر کے نقش ہوتے تھے، ان کا الگ کوئی وجود نہ تھا۔
ان کے متعلق حکم دیا کہ ایسے کپڑوں کو پھاڑ دیا جائے یا انہیں نیچے بچھا کر ان کی توہین کی جائے یا ان کے سر کاٹ کر درختوں کی طرح بنا دیا جائے۔
اس قسم کی تصاویر کے متعلق بھی سخت ممانعت ہے۔
٭ شیشے پر کسی چیز کا عکس ابھر آتا ہے اسے بھی تصویر کا نام دیا جاتا ہے، جب انسان شیشے کے سامنے ہوتا ہے تو تصویر برقرار رہتی ہے جب بندہ اس کے سامنے سے ہٹ جاتا ہے تو تصویر بھی غائب ہو جاتی ہے، اس کے متعلق کوئی وعید نہیں بلکہ اسے دیکھ کر ایک دعا پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے۔
(3)
دور حاضر میں دو قسم کی مزید تصاویر بھی ہمارے سامنے آئی ہیں، ان کا حکم بھی درج بالا تصاویر سے ملتا جلتا ہے۔
وہ تصاویر حسب ذیل ہے:
٭کاغذ پر چھپی ہوئی تصویر جیسا کہ اخبارات و جرائد میں مختلف قسم کے فوٹو شائع ہوتے ہیں۔
اس تصویر کا وہی حکم ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کپڑے پر نقش تصویر کا ہے۔
٭ویڈیو کی تصویر جسے لہروں کے ذریعے سے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔
اس کے متعلق مختلف آراء ہیں کچھ اہل علم اسے شیشے کی تصویر پر قیاس کر کے اس کا جواز ثابت کرتے ہیں اور کچھ اسے دوسری تصاویر کے ساتھ ملا کر اس کے متعلق حرمت کا فتویٰ دیتے ہیں۔
ہمارے رجحان کے مطابق ویڈیو کی تصویر بھی کپڑے پر بنی ہوئی تصویر کے حکم میں ہے کیونکہ اسے محفوظ کر لیا جاتا ہے اور جب بھی ضرورت پڑے اسے دیکھا جا سکتا ہے فتنے کا دروازہ بند کرنے کے لیے اسے ناجائز قرار دینا ہی مناسب ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5951   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7558  
7558. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ان تصویریں بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا: جو تم نے پیدا کیا تھا انہیں زندہ کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7558]
حدیث حاشیہ:
ان احادیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ جن لوگوں کا دعوی ہے کہ بندے اپنے افعال کے خود خالق ہیں اگر ان کا دعوی صحیح ہوتا تو تصاویر بنانے والوں کو اس قدر شرمسار اور ذلیل نہ کیا جاتا۔
ان کی طرف پیدا کرنے کی نسبت بطور استہزا ہے دراصل ان کا کسب اور فعل تھا یا ان کے زعم فاسد کی بنیاد پر خلق کا اطلاق کیا گیا ہے۔
بہرحال تصویر بنانا ان کا فعل اور عمل ہے جس کی بنیاد پر انھیں عذاب کا حق اور ٹھہرایا گیا ہے کیونکہ انھوں نے اسے اپنے ارادے اور اختیار سے بنایا تھا اور یہ ان کا حقیقی فعل تھا جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تھا کیونکہ اس نے ہی اس عمل کا راستہ ان کے لیے آسان کیا تھا۔
چونکہ انھوں نے اپنے ارادے کو استعمال کرتے ہوئے اسے اختیار کیا۔
اس لیے عذاب کے مستحق ہوئے۔
انتہائی ضروری نوٹ:
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تین قسم کی تصاویر تھیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہیں۔
لکڑی اور پتھروں کے بت تھے جنھیں تمثال کہا جاتا تھا۔
ان کا جسم ہوتا تھا ان کی عبادت کے لیے انھیں تراشا جاتا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس قسم کی مورتیوں کو توڑ دیا جائے۔
کپڑوں پر تصاویر کے نقش ہوتے تھے۔
ان کا الگ کوئی وجود نہ تھا۔
ان کے متعلق حکم دیا کہ ایسے کپڑوں کو پھاڑ دیا جائے یا انھیں نیچے بچھا کر ان کی توہین کی جائے یا ان کے سر کاٹ کر درختوں کی طرح بنا لیا جائے۔
بہر حال اس قسم کی تصاویر کے متعلق بھی سخت ممانعت ہے۔
شیشے پر کسی چیز کا عکس آتا، اسے بھی تصویر کا نام دیا جاتا۔
جب انسان شیشے کے سامنے ہوتا وہ تصویر برقرار رہتی۔
جب اس کے سامنے سے ہٹ جاتا تو تصویر بھی غائب ہو جاتی۔
اس کے متعلق کوئی وعید نہیں ہے بلکہ اسے دیکھ کر ایک دعا پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے۔
دور حاضر میں دو تصاویر مزید ہمارے سامنے آئی ہیں ان کا حکم بھی درج بالا تصاویر کے حکم سے ملتا جلتا ہے۔
وہ تصاویر یہ ہیں۔
کاغذ پر چھپی ہوئی تصویر جیسا کہ اخبارات میں فوٹو شائع ہوتے ہیں۔
اس کا وہی حکم ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کپڑے پر نقش تصویر کا ہے۔
ویڈیوں کی تصویر جسے لہروں کے ذریعے سے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔
اس کے متعلق علماء کی مختلف آراء ہیں۔
بعض اسے شیشے کی تصویر سے ملحق کر کے اس کے جواز کو ثابت کرتے ہیں اور بعض اسے دوسری تصاویر کے ساتھ ملا کر اس کے متعلق حرمت کا فتوی دیتے ہیں۔
ہمارے رجحان کے مطابق اسے کپڑے پر نقش تصویر کی طرح قراردینا مناسب ہے کیونکہ اسے محفوظ کر لیا جاتا ہے جب بھی ضرورت پڑے اسے دیکھا جا سکتا ہے۔
فتنے کے سد باب کے لیے اسے ناجائز قرار دینا ہی مناسب ہے ہاں اگر کوئی ضرورت ہو تو اس کے متعلق نرم گوشہ رکھا جا سکتا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7558